اپریل 1961 میں سوویت فضائیہ کے میجر یوری گیگارین کرہ ارض کے مشہور ترین انسان بن چکے تھے۔ ’دا بیٹلز‘ بینڈ نے بعد ازاں شاید اسی پر طنز کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ حضرت عیسیٰ سے بھی زیادہ شہرت یافتہ ہیں۔
بہرحال رائے شماری کے معاصر جائزوں نے ثابت کیا کہ واقعی گیگارین اس دور کے مشہور ترین انسان تھے۔
60 برس قبل خلا میں اڑنے والے پہلے انسان بنتے ہی وہ لافانی کردار کے بلند منصب پر فائز ہو گئے۔ اسی دوران خلا میں پہلا شخص بھیجنے پر فخر کا اظہار کرتے ہوئے روس نے دعویٰ کیا کہ ٹیکنالوجی کے اعتبار سے کمیونزم برتر نظام زندگی ہے۔
لیکن خلا تک ان کی رسائی ممکن بنانے والا شخص کون تھا؟ محض گنتی کے چند لوگ ہی ان کے وجود سے باخبر تھے۔ وہ یوری گیگارین کے سرپرست سرگے پاولووچ کورولیف تھے جو گیگارین کی شہرت کے برعکس گمنامی کی دھندلکے میں دفن تھے۔
لڑاکا پائلٹ اور پھر خلا باز بننے والے معمولی لیکن مثالی پس منظر کے حامل، ایک کسان کے خوش شکل بیٹے گیگارین نے دنیا بھر کا دورہ کیا جہاں وہ ملکہ برطانیہ اور فیڈل کاسترو سمیت 30 سربراہان مملکت کے علاوہ بہت سے فنکاروں، مصنفین، سائنس دانوں اور ہزاروں پرستاروں سے ملے۔
وہ کمیونسٹ نظریے کی چلتی پھرتی انسانی شکل تھے اسی لیے شاید صدر جان ایف کینیڈی نے ان کے امریکہ میں داخلے پر پابندی عائد کر دی۔ وہ دنیا بھر میں بیک وقت خلائی منصوبہ سازی اور اپنی قوم کی بڑھتی ہوئی طاقت و عظمت کے سفیر بن گئے۔
ہماری زمین کے گرد ان کا چکر محض 108 منٹوں کے بعد 12 اپریل کو اس وقت اختتام پذیر ہوا جب فضا میں کھڑکی کھلنے کے بعد انہیں ووسٹوک ون سے اچانک باہر نکالا گیا۔ انہوں نے زمین تک آخری سات کلومیٹر پیراشوٹ کے ذریعے طے کیے جسے سوویت یونین نے ہمیشہ چھپائے رکھا۔
انہوں نے اس منصوبے کے ڈیزائنر، انجینیئر، منصوبہ ساز اور پس پردہ دماغ کو بھی دنیا سے چھپائے رکھا۔ ان کی زندگی پر کوئی بھی تحریر یا سوویت یونین کا خلائی مشن ہمیشہ ان کا تذکرہ ’نام کے بغیر‘ کرتا۔
روس کی کمیونسٹ پارٹی کے احکامات کے مطابق ان کا نام عوام کے سامنے کبھی نہیں لیا گیا تھا۔ ان کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے کیا جا سکتا ہے کہ اپنے حریف امریکہ کے ہاتھوں اقدام قتل کے ممکنہ خطرے کے پیش نظر انتہائی مرکزی حکومتی عہدے داروں کے علاوہ ان کے وجود سے کسی کو آگاہ ہی نہیں ہونے دیا گیا تھا۔
ان کے تیار کردہ خلائی جہاز میں سفر کرنے والے خلا بازوں کو بھی اس وقت تک ان کے بارے میں کچھ پتہ نہ تھا جب تک وہ ان سے اور انہیں جاننے والے قریبی افراد سے نہ ملے۔
خلا میں چلنے والے پہلے انسان الیکسے لیونوف کہتے ہیں کہ ’ہم ان کا ذکر ایس پی کہتے ہوئے کرتے تھے۔ ہمیں ان کا پورا نام معلوم نہیں تھا۔ لیکن ان سے اوپر کوئی نہیں تھا۔ ان کے آس پاس کے لوگ انہیں خدا کا درجہ دیتے تھے۔‘
ان کا ایک دوسرا فرضی نام بہت زیادہ مشہور ہوا۔ قوم کو اپنے کامیاب خلائی مشن کی اطلاع دیتے ہوئے روس کی سرکاری نشریات میں انہیں ’چیف ڈیزائنر‘ کہا گیا۔ ان کی تعریفوں کے انبار لگا دیے گئے لیکن اس کی قیمت انہیں اپنے ہی ملک میں بے نام تشخص کی صورت میں ادا کرنا پڑی۔
جب نوبل پرائز کمیٹی نے پوچھا کہ کیا وہ خلا میں پہلے انسان کی رسائی ممکن بنانے والے شخص کو انعام دے سکتے ہیں تو روس کورولیف کا نام پوشیدہ رکھنے میں اتنا محتاط تھا کہ انہیں جواب تک نہ دیا۔
روس میں انقلاب برپا ہونے سے 10 سال قبل اور یوکرین کے سوویت یونین کا حصہ بننے سے 15سال پہلے 1907 میں کورولیف کا جنم یوکرین میں ہوا۔ مذکورہ بالا دونوں واقعات نے ہی ان کے زندگی کا رخ متعین کرنے میں سب سے اہم کردار ادا کیا۔
وہ ہوا بازی کی تربیت حاصل کرنے کے لیے ماسکو آ گئے جہاں ان کے سرپرست آندرے توپولیف تھے جن کے نام بعد ازاں جہاز سازی کی صنعت کو منسوب کیا گیا۔
لیکن 1930 کی دہائی کے اوائل میں کورولیف نے روس کے راکٹ سازی کے ادارے GIRD کو جوائن کرتے ہوئے توجہ کا مرکز بنا لیا اور بعد ازاں ترقی کرتے ہوئے اس کے سربراہ بن گئے۔
انہیں مارشل میخائیل تخاچیوسکی کے زیر قیادت کام کے لیے منتخب کیا گیا جو اس وقت لینن گراڈ (موجودہ سینٹ پیٹرزبرگ) میں فوجیوں کی راکٹ اور میزائل سے متعلق صلاحیتوں کا جائزہ لے رہے تھے۔
لیکن تخاچیوسکی بہت جلد سوویت یونین کے آمریت پسند سربراہ سٹالن کے غضب کا شکار ہو گئے جو ان دنوں شک و شبہات کی بنا پر روسی معاشرے سے تمام دانشوروں کا صفایا کر رہے تھے۔
1936 اور 1938 کے دوران سٹالن پر اپنے خلاف ممکنہ طور پر مستقبل میں سازش کر سکنے والے با اثر افراد سے نجات کا بھوت سوار تھا بالخصوص جو مسلح افواج میں تھے اور بغاوت کو عملی شکل دینے کی صلاحیت رکھتے تھے۔
تخاچیوسکی کو 12 جون، 1937 کو گولی سے اڑا دیا گیا اور کورولیف سمیت ان کی ٹیم کو، جنہیں بغاوت کے ناکردہ گناہ کو تسلیم کرنے کے لیے تشدد کا سامنا کرنا پڑا، سائبیریا میں کولیما کے مقام پر قائم کردہ کیمپوں میں بھیج دیا گیا جہاں بعد ازاں ایک منٹ سے بھی کم برائے نام مقدمہ چلایا گیا۔ قابل عمل موت کی سزا سنائی گئی۔
وہاں نہایت بے رحمی سے کام لیا جاتا۔ خوراک، پانی اور صحت و صفائی کی صورت حال بدترین تھی اور ہر ماہ ہزاروں افراد مر جاتے۔ سکروی، پیچش اور تپ دق کے بیماریاں بکثرت تھیں۔
محض پانچ سالوں کے دوران کورولیف کے دانت گر گئے اور ماضی میں ان کا تندرست دل اب مسلسل تباہی کی جانب گامزن تھا۔ لیکن قسمت کی دیوی ان پر مہربان رہی۔
اس وقت ایسا ممکن تو نہ تھا لیکن قسمت بھی گرگٹ کی طرح رنگ بدلتی اَن دیکھے راستوں سے نازل ہوتی ہے۔ وہ اور ان کی بیوی حکام بالا اور سٹالن کو مسلسل اپنی بے گناہی اور معافی ناموں پر مبنی تحریریں لکھ رہے تھے کہ خلاف توقع انہیں دوبارہ عدالتی شنوائی کا موقع فراہم کر دیا گیا۔
تاہم انہیں ماسکو تک تنہا سفر کے لیے مجبور کیا گیا جسے یاد کرتے ہوئے انہوں نے لیونوف سے کہا، ’میں جیل سے نکلا تو برف باری میں جا پھنسا۔ میں اتنی دور ماگڈان تک پیدل چلتا آیا جہاں مجھے کشتی کے ذریعے بحیرۂ اوخوتسک پار کرنا اور پھر ماسکو کے لیے ٹرین پکڑنا تھی۔ لیکن میرے پہنچنے سے پہلے سیزن کی آخری کشتی روانہ ہو چکی تھی۔‘
تاہم یہ ان کی خوش قسمتی تھی کیونکہ وہ کشتی تیز سمندری طوفان میں ڈوب گئی تھی۔
کورولیف کے پاس کچھ بھی نہیں تھا۔ ’یہ منفی 40 ڈگری درجہ حرارت تھا اور میرے ہاتھ خالی کہ اچانک راستے میں روٹی کا ایک ٹکڑا نظر آیا۔ یہ بہت غیر معمولی اہمیت رکھتا تھا۔ یہ آج تک پراسرار معاملہ ہے کہ یہ وہاں کدھر سے آیا۔‘
دوبارہ سفر سے پہلے سردیوں کا باقی موسم انہوں نے بطور بڑھئی کام کرتے ہوئے گزارا۔ راستے میں ان کی سکروی شدت اختیار کر گئی اور وہ گر پڑے۔
خابارووسک کے مقام پر ایک بوڑھے شخص نے انہیں چبانے کے لیے ایک جڑی بوٹی دی۔ وہ لیونوف سے کہتے ہیں، ’مجھے یقین ہے کہ اس سے میری جان میں جان آئی۔ اس پودے میں اچھا خاصا وٹامن سی تھا۔‘
یہ قسمت کی کچھ خصوصی مہربانی تھی۔ ڈوبنے والی کشتی سے رہ جانا، راستے میں روٹی کا ٹکڑا ملنا اور سکروی سے بچ نکلنے جیسی چیزوں سے مذہبی انسان نہ ہونے کے باوجود کورولیف کو یقین ہو چلا کہ زندگی نے اس سے کوئی کام لینا ہے۔
اگرچہ ماسکو میں دوبارہ مقدمے کے دوران ان کی بے گناہی تسلیم نہ کی گئی لیکن سزا کم کر دی گئی اور انہیں دانشوروں، سائنس دانوں اور انجینیئروں کے ساتھ شراشکا نامی قید خانے میں کام کرنے کی ہدایات دی گئیں جو دراصل مزدوروں کا ایک کیمپ تھا جہاں قیدیوں کے ذمے مختلف منصوبے لگائے جاتے۔
اب توپولیف بھی شراشکا میں کام کر رہے تھے اور عام طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ انہوں نے درخواست کی تھی کہ کورولیف کو ان کے ساتھ کام پر لگایا جائے جس کی نتیجے میں انہیں ماسکو طلب کیا گیا تھا۔
یقیناً کورولیف اپنی زندگی بچانے کا سہرا ان کے سر باندھتے ہوں گے۔ یہ بھی قید خانہ تھا لیکن پہلے والے کیمپ سے بہت الگ طرح کا۔
جون 1944 میں اپنی گرفتاری کے چھ سال بعد اور دوسری جنگ عظیم میں روس اور اتحادیوں کی فتح کے واضح آثار کے ساتھ ہی کورولیف کو آزاد کر دیا گیا۔
بہت عرصے بعد لیونوف پہلے شخص تھے جنہوں نے ان کے تجربات ریکارڈ کر لیے ورنہ وہ اس موضوع پر بات سے ہمیشہ گریز کرتے اور مسلسل اس خوف کا شکار رہے کہ انہیں دوبارہ گرفتار نہ کر لیا جائے۔
ان کی کام کاج والی پرمشقت لیکن سادہ سی جگہ پر ایک ہی کرسی دھری رہتی اس لیے مہمانوں کو کھڑا رہنا پڑتا اور اوپر ایک پینٹنگ آویزاں ہوتی جس کا عنوان تھا: ’برف سے ڈھکی سخت تہہ پر چلنا، لینن فن لینڈ کی یخ خلیج پیدل پار کرتے ہوئے۔‘
اس پینٹنگ کا عنوان مسلسل یاددہانی کرواتا کہ وہ زندگی میں کیسے کیسےنازک ادوار سے گزرے۔ اپنی کتاب ’دا ریس‘ میں جیمز شیفٹر نے لکھا ہے کہ ’اب ایک نئے سرگے کورولیف کا جنم ہوا۔ ممکن ہے قید کے تجربے کو بروئے کار لاتے ہوئے انہوں نے افسرانہ داؤ پیچ میں مسلسل مہارت حاصل کر لی ہو۔ وہ بہت سخت افسر تھے۔ وہ مختلف آزمائشوں کا جوانمردی سے مقابلہ کر کے بچ نکلنے میں کامیاب ہوئے تھے۔ اب اپنے اردگرد افراد کو آخری دنوں تک وہ بھی آزمائشوں میں ڈالتے رہے۔‘
کورولیف نے اس یقین کے ساتھ خود کو سرکاری امور کے سپرد کر دیا تھا کہ جب تک وہ ناگزیر ہیں، وہ بچے رہیں گے۔ وہ ساری زندگی ریاست کی پوری فرمانبرداری سے خدمت ہی تو کرتے رہے۔
جب جنگ عظیم دوئم سرد جنگ میں تبدیل ہو گئی تو سٹالن کو محسوس ہوا وہ سوویت یونین کا دفاع اور سرکش اتحادیوں اور مخالفین کو دبانے کے دونوں کام بیک وقت میزائل ٹیکنالوجی سے لے سکتے ہیں۔
مشرقی اور مغربی طاقتوں کے درمیان ہتھیاروں کی دوڑ جاری تھی۔ اچانک کورولیف کی پیشہ ورانہ مہارت ان کے حق میں رحمت ثابت ہوئی۔ ان کی سابقہ ’نامناسب حرکات‘ کو نظر انداز کرتے ہوئے انہیں سٹیٹ یونین سائنٹفک ریسرچ انسٹیٹیوٹ میں میزائل اور راکٹ کے شعبے کا سربراہ بنا دیا گیا۔
انہوں نے بیلسٹک میزائل کی آر سیریز تیار کرنا شروع کی جس کی ابتدائی شکل جنگ کے بعد ہاتھ لگنے والے جرمن V-2 راکٹس پر منحصر تھی۔ بالکل اسی وقت سابقہ جرمن ماہر راکٹ ساز ورنر فان بران کی سربراہی میں امریکہ بھی ایسے ہی منصوبے پر کام کر رہا تھا۔
براؤن کا سیاسی پس منظر مشکوک لیکن ان کی انجینیئرنگ اور طبعی ذہانت میں کوئی شک نہ تھا۔ اب نہ صرف دونوں قومیں اسلحہ اور راکٹ سازی کی دوڑ میں مدمقابل تھیں بلکہ خلائی مشن پر بھی تیزی سے کام جاری تھا۔ کورولیف کے لیے اسلحہ سازی کے مقابلے میں یہ زیادہ باعث تحریک تھا۔
امریکہ سے پندرہ ماہ قبل 21 اگست 1957 کو سوویت یونین نے دنیا کاپہلا بین براعظمی بیلسٹک میزائل R-7 کامیابی سے لانچ کر دیا جو کورولیف کی لگن اور تن دہی کا نتیجہ تھا۔ اسے سب نے محسوس کیا۔
اب سٹالن کی جگہ نکولائی خروشیف لے چکے تھے جو اپنے مطلق العنان پیش رو کے لگائے گئے زخموں پر مرہم رکھنے کی کوشش کر رہے تھے۔
کورولیف کو ریاستی سطح پر باقاعدہ ’بحال‘ کرتے ہوئے سابقہ دستاویزات سے ان کے جرائم کو ’غیر منصفانہ‘ ٹھہراتے ہوئے صاف کر دیا گیا۔ یہ وہ مقام تھا جب حکام بالا نے ان کی شناخت چھپانے کا فیصلہ کیا کیونکہ انہیں اپنے انمول اثاثے کے قتل یا اس سے بھی بڑھ کر دشمنوں کے ہاتھوں اغوا ہونے کا دھڑکا لگا تھا۔
R-7 دو مراحل پر مشتمل خلائی مشین تھی۔ کورولیف کو بہت پہلے سے اندازہ ہو گیا تھا کہ اگر مصنوعی سیارہ یا انسان خلا میں بھیجنا ہے تو اس کے لیے کئی مراحل میں چلنے والی مشینیں درکار ہوں گی۔ اکتوبر میں انہوں نے یہ نیا ڈیزائن تیار کیا اور سپوٹنک ون کے نام سے خلا میں پہلا مصنوعی سیارہ بھیج کر پوری دنیا کو مبہوت کر کے رکھ دیا۔
امریکہ کے لیے یہ گہرے صدمے سے کم نہ تھا اور ریڈیو کی نشریات خوف اور دکھ کی فضا میں مسلسل اضافہ کر رہی تھیں۔ باقی قومیں سوویت یونین کے گن گا رہی تھیں۔
اس وقت تک خلا کے موضوع سے اکتاہٹ کا شکار گورباچوف اب گہری دلچسپی کا مظاہرہ کر رہے تھے۔ اب بیلسٹک میزائل کی حیثیت ثانوی ہو گئی تھی: کورولیف کو اختیار مل چکا تھا کہ کسی بھی انسان کو پہلی فرصت میں خلا کی طرف بھیج سکتے ہیں۔
لیکن وہ انسان کون ہو گا؟ کورولیف نے پہلے خلاباز کی تلاش شروع کر دی۔ یوری گیگارین کی پرورش سمولینسک کے ایک زراعت پیشہ گھرانے میں ہوئی تھی۔
اکتوبر 1942 میں جرمن فوجی دستوں سے بچنے کے لیے وہ روپوش ہو گئے، گیگارین نے حملہ آوروں کے لیے کام کرنے سے انکار پر مار کھائی اور بعد میں ان کے ٹینکوں کی بیٹریاں تباہ کر ڈالیں، اور سردیاں اپنی تعمیر کردہ ایک عارضی قیام گاہ میں گزار دیں۔
پھر ماسکو کے ایک کارخانے میں کام کرنے کے بعد گیگارین نے ہوا بازی کے ایک سکول میں داخلہ لے کر بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور فوج میں بھرتی ہو کر سوویت یونین کے لیے MIG-15 لڑاکا طیارے اڑانے لگے۔
سوویت یونین کے ایک محب وطن نچلے طبقے کے شہری ہونے کے ناطے ان کی زندگی بہت مثالی اور فوج میں شمولیت کا وقت بہت مناسب تھا۔
1960 میں کورولیف سے پہلی ملاقات کے وقت وہ 26 برس کے تھے اور اس گروہ کا حصہ تھے جو چیف ڈیزائنر نے خلا میں بھیجنے کے لیے ابتدائی طور پر منتخب کیا تھا۔ کورولیف نے انہیں ’ننھے فرشتوں‘ کا نام دیا۔
امریکی خلائی مشن اپالو 15 کے خلاباز ڈیوڈ سکاٹ کے اشتراک سے لکھی اپنی آپ بیتی ’ٹو سائیڈز آف مون‘ میں لیونوف، جو خود بھی ابتدائی خلائی مشن کا حصہ تھے، ہوابازوں کی کورولیف سے پہلی ملاقات کا ذکر یوں کرتے ہیں: ’وہ لمبے لمبے ڈگ بھرتے کمرے میں داخل ہوئے اور ہمیں اپنے تعارف اور ہوا بازی کے تجربے کے متعلق بتانے کی دعوت دی۔
جب یوری گیگارین کی باری آئی تو انہوں نے گرم جوشی کا مظاہرہ کیا۔ یوری کا چہرہ سرخ اور دل کی دھڑکن تیز ہو گئی۔ کورولیف اس کیفیت کا لطف لینے لگے۔ انہوں نے فہرست ایک طرف رکھتے ہوئے جیسے ہم سب کو بھول گئے ہوں، یوری سے ان کے بچپن اور تجربے کے متعلق پوچھنے لگے۔ جب وہ چلے گئے تو ہم نے یوری کا گھیراؤ کر لیا۔ میں نے کہا، ’تمہیں چن لیا گیا ہے۔‘
لیونوف کی بات درست ثابت ہوئی۔ کورولیف نے فوراً مرکزی عہدے داروں اور حکومتی ممبران سے رابطہ کیا۔ اس نے انہیں بتایا کہ ’آج صبح میری ملاقات خوبصورت نیلی آنکھوں والے ایک روسی نوجوان سے ہوئی جو نہایت مضبوط جسم کا مالک اور بہترین ہوا باز ہے۔ ہمیں اسی کو خلا میں بھیجنا چاہیے۔‘
پانچ فٹ پونے دو انچ کی نسبتاً کم قامتی بھی گیگارین کے حق میں سود مند ثابت ہوئی۔ کورولیف کی ووسٹوک 1 خلائی مشین تنگ سی تھی۔
آخر میں گیگارین کا مقابلہ برابر کے کوتاہ قد گیرمان تیتوف سے تھا جو بہت غیر معمولی امیدوار تھے۔ تعلیم یافتہ اور استاد کے بیٹے ٹیٹو کا تعلق اشرافیہ سے تھا۔ اس لیے مجوزہ پرواز سے محض چار روز قبل گیگارین کو پروانہ مل گیا۔
گیگارین نے اعتراف کیا کہ حتمی پرواز سے ایک رات قبل وہ ایک لمحہ بھی نہ سو سکے اگرچہ انہوں نے نیند کی اداکاری ضرور کی کہ ایسا نہ ہو مشاہدہ کرنے والے ڈاکٹر آخری لمحے ان کی جگہ تازہ دم تیتوف کو بھیج دیں۔
پھر بھی اڑان بھرنے والی مخصوص جگہ پر دونوں پہنچے۔ تیتوف کے لیے یقیناً یہ ایک مشکل مرحلہ تھا لیکن انہوں نے اپنے حریف کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کرتے ہوئے تین بار آپس میں خلائی ہیلمٹ ایک دوسرے سے ٹکرائے جو الوداعی لمحے رخصت ہونے والے دوست کے لیے تین بوسوں کی روسی روایت کی ایک شکل تھی۔
کورولیف منتظر تھے۔ ان کے پاس ایسے تکلفات یا نیک خواہشات کا وقت نہ تھا۔ شو مین سے زیادہ ایک سائنس دان کی طرح وہ اپنی گھڑی پر نظریں جمائے رہے۔
کافی مقدار میں پانی پینے والے گیگارین نے ان کا انتظار مزید طویل کر دیا جب بس کے اکلوتے ٹائر پر پیشاب کرنے کے لیے اپنی ٹرانسپورٹ بس رکوا دی اور یہ خلا بازوں کے لیے ایک روایت بن گئی جو 2019 میں نئے خلائی لباس کی آمد کے ساتھ ختم ہوئی۔
گیگارین کو سینئر لیفٹینٹ سے میجر کے عہدے پر ترقی دے دی گئی اور ووسٹوک 1میں بیلٹ باندھے انتظار کرنے کی ہدایات دی گئیں۔ کورولیف کے نزدیک اڑان بھرنے سے پہلے بلند آواز میں پرواز کے وقت کا مسلسل اعلان بھونڈی امریکی رسم تھی۔
اپنی ٹیم کے ہمراہ تہہ خانے میں آرام سے سکونت پذیر کورولیف نے نو بج کر چھ منٹ پر سادگی سے مشین اڑنے والا بٹن دبا دیا۔ گیگارین نے اپنی مشین کے اندر سے آواز لگائی “Poyekhali” (روسی زبان میں اس کا مطلب ہے ’آؤ چلیں‘) جو ان سب نے سنی اور 108 منٹ بعد گیگارین کرۂ ارض کے مشہور ترین انسان بن چکے تھے۔ اس کے باوجود کوئی شخص کورولیف کے نام سے واقف نہیں تھا۔
جب طویل مغز ماری کے بعد امریکیوں نے پیچھے رہ جانے کی وجوہات دریافت کر لیں تو پھر کئی مشن بھیجے گئے۔ 16 جون 1963 کو ویلنٹینا تیریشکووا خلا میں پہنچے والی پہلی عورت بن گئیں اور مارچ 1965 میں لیونوف پہلے شخص بن گئے جو مشین سے باہر خلا میں اترے یا ’سپیس واک‘ کی۔
اگلا قدم چاند تک پہلے شخص کی رسائی تھی اور چیف ڈیزائنر 105 میٹر لمبی این ون مشین پر کام شروع کر چکے تھے جس نے وہاں تک رسائی ممکن بنانی تھی۔
محض ایک مہینے بعد اور گیگارین کی اڑان کے براہ راست جواب میں کینیڈی نے دہائی مکمل ہونے سے قبل چاند پر امریکی شخص کو اتار کھڑا کیا۔ ایسا لگتا تھا ابھی مقابلہ جاری ہے۔
لیکن جنوری 1966 میں آنتوں کی پولپ کی بظاہر انتہائی معمولی سرجری پیچیدہ شکل اختیار کر گئی، اگرچہ کچھ رپورٹیں مختلف وجوہات ظاہر کرتی ہیں، اور کورولیف کو موت نے آ لیا۔
مصنوعی تنفس کے ذریعے ان کا سانس بحال کرنے کے دوران ڈاکٹروں کو پتہ چلا کہ سٹالن کے تفتیشی عملے کے ہاتھوں ان کے جبڑے اس قدر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو چکے ہیں کہ سانس کی نالی اندر داخل کرنا ممکن ہی نہیں اور مزید ظلم یہ کہ قیدی کیمپ میں ناقص علاج نے ان کا دل بھی کمزور کر دیا ہے۔
جلانے سے قبل ان کا مردہ جسم پہلے ماسکو کے ہال آف کالمز میں لایا گیا اور پھر کریملن وال میں رکھا گیا۔ گیگارین نے آخری خطبہ پڑھا۔
گورباچوف کی جگہ کرسی صدارت پر فائز ہونے والے روس کے سربراہ لیونڈ بریزنیف نے کہا کہ قوم نے اپنا ’سب سے ذہین بیٹا‘ کھو دیا ہے۔
کورولیف کے مرنے کی خبر سرکاری اخبار پراودا میں چھپی جہاں سے پہلی بار لوگوں کو تین مرتبہ لینن ایوارڈ جیتنے والے سرگے پاولووچ کورولیف کے بارے میں پتہ چلنا شروع ہوا۔
بلکہ یہاں تک کہ ڈیوڈ سکاٹ کہتے ہیں کہ عوام کے سامنے چیف ڈیزائنر کا پورا نام انہوں نے پہلی بار 1975 میں دورہ روس کے دوران سنا۔ سکاٹ کہتے ہیں، ’کیا کوئی فرد خوف کی ایسی فضا میں بھی زندہ رہ سکتا ہے؟ میرے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں۔ اور جس طرح انہوں نے اپنی صلاحیتوں کا استعمال کیا اس کی کوئی مثال ہے۔ میری جتنے بھی پرانے خلا بازوں سے ملاقات ہوئی سب نے کہا کہ یہ انہی کی ذہانت، تن دہی اور پختہ عزم تھا جس نے انہیں کامیابی سے ہم کنار کیا۔‘
ان خلا بازوں میں سب سے زیادہ مشہور کورولیف کے بعد محض دو برس تک زندہ رہے۔ وہ فضا میں ایک حادثے کے دوران مارچ 1968 میں ہلاک ہو گئے۔
سوویت خلائی منصوبے کا مقبول ترین چہرہ گیگارین اور پس پردہ حقیقی دماغ اور دانشور گرو کورولیف اب اس دنیا سے کوچ کر چکے تھے۔
سوویت خلائی منصوبے کے لیے یہ ناقابل تلافی نقصان تھا۔ چاند پر خلائی مشن بھیجنے کا منصوبہ کورولیف کے نائب واسیلی میشین نے سنبھال لیا جو خود نہایت تجربہ کار انجنیئیر تھے لیکن صلاحیت بلکہ بنیادی طور پر وسائل کے فقدان کے سبب وہ این ون کو صنعتی یا سیاسی طور پر آگے نہ بڑھا سکے۔
سوویت یونین کے چاند تک رسائی کی عزم کو عملی شکل دینے کے لیے اور امریکہ کے نیل آرمسٹرانگ کے چاند پر پہنچنے سے محض 17 روز قبل تین جولائی 1969 کو این ون اڑانے کی ایک ناکام کوشش کی گئی۔
اڑان بھرنے کے چند لمحوں بعد ہی ملبہ زمین پر واپس آ گرا۔ اس کے نتیجے میں نیوکلیئر دھماکے کو چھوڑ کر تاریخ کی بلند ترین آواز سنی گئی اگرچہ سوویت یونین نے دنیا کو اس کی خبر تک نہ ہونے دی۔
لیکن اس سے کیا فرق پڑنا تھا۔ کورولیف کی موت کے تین سال بعد امریکی چاند پر پہنچ چکے تھے جبکہ روسی لانچ پیڈ پر ہی دھماکے کیے جا رہے تھے جو عظمت سے ذلت کی طرف سفر تھا۔
میشین کی خوش بختی ہے کہ کورولیف یہ دیکھنے کے لیے موجود نہیں تھے۔ لیونوف کہتے ہیں، ’اگر کورولیف زندہ ہوتے تو مجھے یقین ہے کہ وہ این ون کی خامیاں دور کر کے یہ مشن کامیابی سے ہمکنار کرتے۔
مجھے پختہ یقین ہے کہ ہم (چاند تک پہلے پہنچنے کے معاملے میں) امریکہ کو پیچھے چھوڑ جاتے ۔‘ تقریباً یہ بات بھی یقینی تھی کہ چاند پر قدم رکھنے کے لیے قرعۂ فال لیونوف کے نام ہی نکلتا۔
کچھ لوگوں کی رائے مختلف ہے کیونکہ ان کے خیال میں این ون میں بڑے پیمانے پر ترمیم یا اسے مکمل تبدیل کرنے کی ضرورت پڑتی۔ لندن سائنس میوزیم کے نگران ڈگ میلارڈ کہتے ہیں، ’امریکہ جیسی مستحکم مالی حالت نہ ہونے کے باوجود کورولیف کم وقت میں مقابلہ کرنے کے لیے سخت محنت کر رہے تھے۔ تجربات کی سہولیات کافی نہ تھیں۔ ابتدائی اڑان کی ناکام کوشش ہی وہ پہلا موقع تھا جب پہلی بار این ون کے سارے انجنوں کو ایک ساتھ آگ لگائی گئی۔ ممکن ہے وہ تمام خامیاں دور کر لیتے لیکن اس کے لیے وقت درکار ہوتا۔‘
لیونوف کہتے ہیں چاہے وہ ناکام ہی ہو جاتے لیکن یہ ہنر اور اعتماد کورولیف میں ہی تھا کہ حکومت سے بات کرتے اور ممکنہ طور پر اجازت بھی حاصل کر لیتے کہ وہ اس پر نئے سرے سے دوبارہ کام کریں گے۔
کورولیف کی شخصیت انجینیئر، منتظم اور منصوبہ ساز کی غیر معمولی صلاحیتوں کا مجموعہ تھی۔ امریکہ کے پاس فان بران کی مشین سازی اور ناسا کے چوٹی کے مہتم جیمز ویب (جن کی سوانح حیات The Man Who Ran the Moon کے نام سے چھپی) کی انتظامی صلاحیتیں تھیں لیکن کورولیف تن تنہا ان دونوں خوبیوں کے مالک تھے۔ میلارڈ کہتے ہیں، ’کورولیف اور براؤن تیکنیکی اعتبار سے تقریباً ہم پلّہ تھے۔
لیکن کورولیف کو سوویت یونین کی سیاست اور بیوروکریسی سے کام نکلوانے کا گہرا ملکہ حاصل تھا۔‘
میلارڈ کے بقول، ’کورولیف کو مسلسل یہ فکر لاحق رہتی کہ امریکی آگے ہیں اور خروشیف زیادہ نمایاں خبر کے خواہشمند۔ یہ چیز انہیں متحرک رکھتی۔‘
وہ تن دہی سے کام کرنے والے انسان تھے جو رات کو محض چھ گھنٹے سوتے اور ان کا درجہ حرارت مسلسل زیادہ رہتا لیکن کام کی لگن کبھی کم نہ ہوتی کیونکہ کورولیف کے پاس مکمل اختیارات اور پشت پر سوویت یونین کے احکام بالا کا تعاون موجود تھا اس لیے وہ کوئی بھی فیصلہ کرنے میں آزاد تھے۔
میلارڈ کہتے ہیں، ’اس سے سوویت یونین کو خلائی منصوبہ بندی کے ابتدائی مراحل میں بہت فائدہ ہوا۔ لیکن چاند تک پہنچنے کے لیے وسائل نا کافی تھے۔
جبکہ اس کے برعکس آغاز میں امریکہ کہیں پیچھے تھا لیکن ناسا کے قیام سے اس نے خود مختار معاشی وسائل تخلیق کر لیے۔ انتظامی اور معاشی اعتبار سے جو سوویت یونین کے مقابلے میں بہت بہتر رہا۔ بالآخر یہ فیصلہ کن فرق ثابت ہوا۔‘
لیکن ابتدائی برسوں میں کورولیف اپنی ہمہ جہت سیاسی سوجھ بوجھ اور گروپ کی صورت میں اجتماعی حکمت عملی کے ذریعے سادہ لیکن کارگر منصوبہ سازی کرتے رہے جیسا کہ بہت سے پرزوں اور آلات کی جگہ ایک ایسا پرذہ اور آلہ نصب کرنا جو سب کا کام کرے اور ایسی دھاتی اشیا کی تیاری جو ایک سے زائد شکلوں کی مشینوں میں کام آ سکے۔
1960 کی دہائی کے اوائل میں سوویت یونین کی مسلسل کامیابی کے پیچھے یہی بنیادی وجوہات تھیں اگرچہ جو ٹیکنالوجی، الیکٹرونکس اور کمپیوٹر کورولیف استعمال کر رہے تھے وہ کئی طرح سے مدمقابل امریکیوں سے کم تر تھے۔ میلارڈ ان کی صلاحیتوں کا اعتراف کرتے ہوئے کہتے ہیں، ’میسر وسائل میں جو کامیابی کورولیف نے سمیٹی وہ کسی اور کے بس کا روگ نہ تھا۔‘
وہ کمال کے جدت پسند بھی تھے اور یہ ان کا سادہ لیکن غیر معمولی خیال تھا کہ خلائی جہاز کو پرواز کے دوران آہستہ آہستہ گھومنا چاہیے تاکہ سورج کی تیز روشنی ایک ہی حصے پر مسلسل یلغار کرتے ہوئے اسے نقصان نہ پہنچا سکے۔
کورولیف کا فیضان آج بھی جاری ہے۔ 1966 میں پہلی بار اڑان بھرنے والے ان کے تیار کردہ کثیر المقاصد خلائی جہاز سویوز کا ڈھانچہ اس قدر کامیاب ہوا کہ اس کی ترمیم شدہ شکل آج بھی روس کے خلائی منصوبوں میں استعمال کی جاتی ہے جن کی تعداد اب 50 کے قریب ہو چکی ہے۔
کچھ تاریخ دانوں کا خیال ہے کہ روسی احکام نے کورولیف کی داستان کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا ہے۔ ان کے دنیا سے رخصت ہونے کے بعد وہ کچھ بھی گھڑ کے سنا سکتے ہیں جبکہ ان کے ساتھ کام کرنے والے ابھی تک زندہ افراد کو خاموش رکھا جاتا ہے۔
کورولیف اور ان کے معاصرین کے درمیان اندرونی اختلافات بھی بہت عرصے بعد سامنے آئے بالخصوص اپنے ہم پیشہ ڈیزائنر ولادی میر چیلومے سے ان کی مخاصمت کے سبب منصوبہ کئی سال کی تاخیر کا شکار ہوا۔ کورولیف کی اختلاف کرنے والے افراد سے مل کر کام نہ کر سکنے کی عادت ترقی کی راہ میں مستقل رکاوٹ رہی۔
لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ان کے بعد سوویت یونین کا خلائی مشن سر نہ اٹھا سکا۔ ان کے سابق معلم توپولیف کہتے ہیں کہ، ’انہیں اپنے خیالات سے جنون کی حد تک وابستگی ہوتی تھی۔‘
سٹارمین : اے بائیو گرافی آف گیگارین کے مصنفین جیمی ڈورین اور پیئرز بزونی 1961 میں صحافی اولگا آپیچینکو کی چیف ڈیزائنر سے ملاقات کا احوال بیان کرتے ہیں۔ یقیناً وہ ان کے اصلی نام سے واقف نہیں تھیں لیکن ان کا ذکر کیا کہ ’تیکھے نقوش کے مالک وہ سخت طبیعت کے انسان تھے۔‘
انہوں نے تذکرہ کیا کہ جب بھی وہ کمرے میں داخل ہوتے ایک مخصوص آواز سنائی دیتی، ’ایک عزت و حیرت سے لبریز زیر لب سرسراہٹ۔ جب وہ کارخانے میں داخل ہوتے تو ہر چیز بدل جاتی یہاں تک کہ مشینوں سے بھی نئی آواز آنے لگتی۔‘ یہ تصور کرنا مشکل نہیں کہ ان کی موت کے بعد پورے خلائی منصوبے کا مزاج اور حرکیات کیسے غیر متوقع طور پر مکمل بدل گئی ہوں گی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اگرچہ کورولیف کے علم میں تھا کہ کس نے 1938 میں ان پر بے بنیاد الزامات عائد کیے لیکن انہوں نے کبھی کسی سے تذکرہ نہیں کیا۔
لیونوف اور کچھ دیگر افراد کا خیال ہے کہ الزام عائد کرنے والوں میں ایک ان کے شدید مخالف ہم پیشہ انجینیئر ویلنٹائن گلشکو تھے جنہوں نے بعد میں خلائی جہاز تیار کیے۔
دونوں کے درمیان زندگی بھر ذاتی اور پیشہ ورانہ رقابت جاری رہی۔ اگرچہ ایک رائے کے مطابق کورولیف اور دیگر پر الزام تراشی کے سبب تخاچیوسکی کی پوری ٹیم کو حراست میں لے لیا گیا تھا اور گلشکو بھی چند دن کے لیے گھر میں نظر بند رہے۔
ستم ظریفی دیکھیے کہ کورولیف کے سنہرے عہد کا اختتام گلشکو کے ہاتھوں ہوا۔ 1973 میں میشین کو ملازمت سے برخاست کرنے کے بعد انہیں سوویت خلائی منصوبے کی قیادت سونپی گئی۔ ان کا پہلا فیصلہ کورولیف کا آغاز کردہ چاند تک پہنچنے کا خلا ئی منصوبہ ختم کرنا تھا۔
گلشکو میں اپنے سابقہ حریف جیسی فراست اور تیکنیکی مہارت نہ تھی اور دیانت داری کی بات یہ ہے کہ ویسے وسائل بھی فراہم نہیں کیے گئے تھے۔ 1989 میں کئی ادھورے خواب لیے وہ اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔
حکام بالا بالخصوص خروشیف تک براہ راست رسائی کورولیف کے علاوہ کسی دوسرے کو نصیب نہ ہو سکی۔
ان کا عہد بصیرت اور جذبے کا عہد تھا جب ایک شخص نے تقریباً تن تنہا زراعت پیشہ سوویت یونین کو ٹیکنالوجی کی صف اول میں لا کھڑا کیا اور اس میدان میں کہیں آگے امریکہ کو کئی بار خفت سے دوچار کیا۔
ان کے بغیر آج سے 60 برس قبل یوری گیگارین کبھی بھی دنیا کے مشہور ترین شخص نہ بن پاتے۔ کیسے افسوس کی بات ہے کہ ابھی دنیا کو ان سے آگاہ ہونا ہی تھا کہ وہ پہلے ہی کوچ کر گئے۔
© The Independent