خلائی ٹیکنالوجی میں تیزی سے ترقی کرنے والے چین نے آئندہ دس برسوں میں چاند پر انسان بردار مشن بھیجنے اور تحقیقاتی سٹیشن قائم کرنے کا اعلان کیا ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق، بدھ کو چین کے سرکاری میڈیا نے خلائی ادارے کے ایک اعلیٰ اہلکار کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ چین خلائی سپر پاور بننے کے لیے پُرعزم ہے اور اس سلسلے میں اس نے جنوری میں چاند کے تاریک حصے تک رسائی حاصل کر کے ایک اہم سنگِ میل عبور کر لیا ہے۔
چائنہ نیشنل سپیس ایڈمنسٹریشن کے سربراہ زینگ کیجیان نے’سپیس ڈے‘ کے حوالے سے منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا :’چین اگلے مرحلے میں چاند کے قطبِ جنوبی پر سائنٹیفک ریسرچ سٹیشن قائم کرنے جا رہا ہے‘۔
انہوں نے مریخ پر بھی تحقیقاتی مشن بھیجنے کا اعلان کیا جو 2020 تک ممکن ہو سکے گا، جبکہ چاند پر چوتھا چینی مشن ’چینج۔5‘ رواں برس کے اختتام تک بھیجنے کی تصدیق بھی کی۔
خلائی مشن ’چینج۔5‘ کو 2017 کے وسط میں چاند پر اس کی سطح کے نمونے حاصل کرنے کے لیے بھیجا جانا تھا، تاہم Y-2 راکٹ کی ناکامی کے بعد اس کی روانگی موخر کر دی گئی تھی۔
چین نے بدھ کو اعلان کیا کہ اس کا نیا راکٹ ’لانگ مارچ 5B- ‘ 2020 میں اپنی پہلی پرواز کے ذریعے مجوزہ چینی خلائی مرکز کی تعمیر کے لیے ضروری سازوسامان چاند کی سطح پر اتارے گا۔
اس مشن کا نام ’ٹیانگونگ‘ رکھا گیا ہے جس کا لفظی مطلب ’جنتی محل‘ ہے اور یہ 2022 میں پہلے چینی خلاباز کو چاند کی سطح پر اتارے گا۔
ایک اور چینی اہلکار کا کہنا ہے کہ چین کا یہ منصوبہ بین الاقوامی خلائی سٹیشن کی جگہ لے سکتا ہے جو 2024 میں اپنی مدت پوری کرے گا۔
بیجنگ نے گذشتہ ہفتہ اعلان کیا تھا کہ چین جلد ایک تحقیقاتی سیارچہ زمین کے مدار میں بھیجنے جا رہا ہے۔ چین نے دیگر ممالک کو دعوت دی کہ وہ بھی اس منصوبے سے استعفادہ حاصل کر سکتے ہیں۔
اس دوران چین کا ’چینج۔4‘ مشن جرمنی، ہالینڈ اور سویڈن کا خلائی سازوسامان زمین کے مدار میں پہنچائے گا۔
چین، امریکہ کے بعد خلائی پروگرام میں سرمایہ کاری کرنے والا دنیا کا سب سے بڑا ملک بن چکا ہے جو روس اور جاپان سے بھی زیادہ فوجی اور سویلین مشن خلا میں بھیج رہا ہے۔
2017 میں چین نے خلائی تسخیر کے لیے آٹھ ارب 40 کروڑ ڈالرز کا بجٹ مختص کیا تھا۔