یہ پار سال ماہ جون کی جھلساتی دھوپ میں تپتے حبس زدہ لمحوں کا ذکر ہے جب ہم نے روہی میں مقیم اپنی خالہ جان کے ہاں جانے کا قصد کیا تھا۔
موٹر سائیکل پر اوچ شریف سے براستہ چنی گوٹھ، لیاقت پور، بنگلہ منٹھار اور فیروزہ ہماری منزل بنگلہ قاسم والا ٹھہری جہاں اس سے بھی کئی کلومیٹر دور روہی کی بھول بھلیوں میں پانچ گھنٹوں کے سفر کے بعد ہمیں ہمارا مطلوبہ مقام مل ہی گیا۔
روہی میں ریت سے روح تک فطرت اپنی تمام تر اسراریت اور دل کشی کے ساتھ ہمارے سامنے تھی۔ نہ بجلی، نہ ٹی وی، نہ سوشل میڈیا، نہ موبائل کے سگنل، نہ الیکٹرونک و پرنٹ میڈیا کی چیختی چنگاڑتی سرخیاں، نہ شور وغل، نہ افراتفری۔۔۔ سو ’روح تک آ گئی تاثیر مسیحائی کی۔‘
روہی رنگ رنگیلڑی کی روح پرور ساعتوں کو مزید چار چاند لگانے کے لیے ہم اپنے محبوب مصنف مظہر کلیم ایم اے کے لکھے عمران سریز کے ناول ساتھ لانا نہیں بھولے تھے کہ زمین زاد کا نوسٹیلجیا ان کے بغیر ہمیشہ بے قرار سا رہتا ہے۔
دوسرے دن ہم نے اپنے خالہ زاد بھائیوں جام افضل علی برڑہ اور جام صفدر علی برڑہ کی معیت میں تاریخ کے کسی بوسیدہ باب میں جھانکنے کا قصد کیا۔
افضل علی نے یہ کہہ کر ہمارا جوش و جذبہ یکلخت ختم کر ڈالا کہ سوائے ریتلے ٹیلوں اور چولستان کے سراب کے یہاں دور دور تک کوئی تاریخی مقام نہیں ہے، لہٰذا آپ ناول سے دل بہلائیں اور چائے سے حظ اٹھائیں۔
صفدر علی نے یہ کہہ کر ہمارے اندر امید کے ٹمٹماتے چراغ کی لو جِلا بخشی کہ اس بیابان سے ساٹھ ستر کلومیٹر دور قلعہ دراوڑ ہے، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہمیں موٹر سائیکل پر ہی ریتلے راستوں سے گزارکر وہاں جانا ہو گا اور راستہ بھی دیکھا بھالا نہیں ہے۔
ذرا سی کوشش کے بعد ہم نے انہیں وہاں جانے کے لیے راضی کر ہی لیا سو ان کی رہنمائی میں ہماری منزل قلعہ دراوڑ کی شکل میں متعین ہوئی جہاں تاریخ نے اپنے انمٹ نقوش اِس دیو ہیکل قلعے کی معدوم ہوتی بنیادوں میں چھوڑ دیے ہیں۔
ضلع رحیم یار خان کی روہی سے ضلع بہاول پور کے قلعہ دراوڑ تک موٹر سائیکل کے سفر وسیلہ سقر کی داستان ہم اپنے پیارے قارئین کے لیے کسی اور وقت کے لیے اٹھا رکھتے ہیں۔
مختصر یہ کہ قلعہ دراوڑ جا کر شنیدنی مناظر دیدنی ہوئے تو طلسم ہوشربا نگارستان کو اپنے سامنے پایا۔ 40 مضبوط اونچے برجوں سے بنا یہ قلعہ، جسے نویں صدی میں بھاٹی راجہ بجے راؤ کے بیٹے راجہ دیول نے تعمیر کیا اور جس پر بعد میں اس کی نسلیں آپس میں لڑ جھگڑ کر حکومت کرتی رہیں۔
بعد ازاں یہ قلعہ ریاست بہاول پور کے عباسی خاندان کے قبضے میں رہا، جسے نواب محمد صادق خان عباسی اول نے 1735 میں فتح کیا اور اس کی دوبارہ تعمیر و مرمت کرائی۔
یہ الگ بات ہے کہ اس کے بعد بھی یہ قلعہ جنگ اور بیرونی حملوں کا مرکز رہا یہاں تک کہ آخری بار عباسی خاندان کے نواب محمد مبارک خان نے 1806 میں ایک بار پھر اسے اپنے قبضہ میں لے لیا۔
قلعے کے بلند آہنی دروازوں سے، جہاں کسی زمانے میں ہاتھی پر سوار راجا بھی قلعے کے حکمران راجاؤں کی اجازت سے گزرا کرتے تھے، اب وہاں عام آدمی بھی ’نذرانہ‘ پیش کر کے اندر جا سکتا ہے۔
بلند و بالا آہنی دروازے پر لگی نوکیلی سلاخیں، جو دشمن کے چنگھاڑتے بدمست ہاتھیوں کے لشکر کی ضرب کو بھی روکنے کی بھرپور صلاحیت رکھتی تھیں، خود کو وقت کے بے رحم ہاتھوں سے محفوظ نہ رکھ پائیں۔
خاک دان عبرت کی ان ہیبت ناک، طویل القامت فصیلوں کے اندر جانے کتنے ہی راجے مہاراجے اپنے اپنے وقت کے فرعون رہے ہوں گے۔
کیسے کیسے مناظر ہیں جو آن کی آن میں تخیل میں ابھر آتے ہیں۔ جنگوں اور لڑائیوں میں مرتے سپاہیوں کی دلدوز چیخیں، ظلم اور جارحیت سے بھرپور قہقہے، آنسوؤں سے لپٹی جاں بخشی کی التجائیں، ایک دوسرے کی گردنیں کاٹتے حملہ آور، فاتحین کے نعرے، جنگ سے گھائل تڑپتے بلکتے لوگوں کی سسکیاں، وحشت بھرے رقص، پیاس کی شدت سے نڈھال قیدی، مال و متاع اور اقتدار کی ہوس، بیڑیوں کے بوجھ سے نڈھال، گرد آلود چہرے، پھانسیوں پر جھولتی نعشیں، آگ، خون، ماتم اور جانے کیا کیا کچھ ہے جو آپ اس قلعے کی فصیل کے باہر وقت کی لہروں پر باآسانی سن اور دیکھ سکتے ہیں لیکن جونہی آپ ان آہنی دروازوں سے اندر قدم رکھیں گے وقت کے گردش آپ کو چونکا دینے والی حد تک گھما کر رکھ دے گی۔
باہر سے یہ قلعہ جتنا ہیبت ناک اور پُر جلال ہے اندر سے اِس کی خستہ حال شکستہ دیواریں، ٹوٹی پھوٹی محرابیں، گرتے ستون، ادھڑے ہوئے فرش اور ہر جانب سے منہدم ہوتے آثار، جنہیں ظالم وقت نے بڑی تیزی اور مہارت سے کھنڈرات میں تبدیل کر دیا ہے، بارہا آپ سے اپنے بچاؤ اور تعمیرِ نو کی التجا کرتے نظرآئیں گے۔
آپ بار بارگھوم کر کسی گائیڈ یا راہ دکھانے والے کا اتا پتہ پوچھیں گے اور کوئی پرسانِ حال نہ ہو گا۔ کسی قسم کا کوئی سائن بورڈ، تاریخ کی داستان سناتا کوئی بینر، کوئی ایسا نشان نہیں ہو گا جو آپ کو اس منہ زور تاریخ کے قصے سنائے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یہاں ہو کا وہ عالم ہے کہ خدا کی پناہ! اگر کوئی چیز یہاں باقی رہ گئی ہے تو وہ ’وقت‘ ہے جسے زوال نہیں، جو تخت و تاج کو تاراج کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتا، جس کے بھید بھی اُسی کی طرح پُراسرار اور لافانی ہیں، جو نہ رکتا ہے، نہ جھکتا ہے اور نہ تھکتا ہے۔
خوبصورت پچ کاری سے منقش چھتیں اور محرابیں جو کسی زمانے میں، اپنے بنانے والے کی محنت، محبت اور مہارت کا عکس ہوں گی، اب لٹکی ہوئی زمین کو چھوتی ہیں، جھروکوں سے سامنے کی طرف نظر آتی دہلی کی موتی مسجد سے مشابہ، اجلی سفید ویران عباسی مسجد اور شاہی قبرستان کے گنبد، تب کیسا شاندار نظارہ دیتے ہوں گے، خوبصورت برآمدے، نقش و نگار سے آراستہ کھڑکیا ں اور دروازے، جن سے گزرنے والے لوگوں کا ذوق بھی ان جیسا ہی نفیس ہو گا، اب اپنی اجڑی اور ویران حالت کا نوحہ پیٹتی ہیں۔
سمجھ نہیں آتا کہ ہم اپنے ایسے قیمتی ورثے کو سنبھالنے میں اتنے ناکام کیوں ہیں۔ ہماری تاریخ کی ایسی شاندار تہذیبی نشانی کی اِس زبوں حالی پر، دل قدم قدم پر دُکھتا ہے، ماضی کے قصوں کا قبرستان بنا یہ قلعہ، جو اندر سے کافی حد تک زمیں بوس ہو گیا ہے، حکومت اور عباسی خانوادے، دونوں کی بے توجہی کا گلہ کرتا ہے اور اب محض اپنے بیرونی خستہ برجوں کے سہارے پر کھڑے ہو کر، ہر آنے والے کو اپنے فنا ہونے کی داستان سناتا ہے۔
یقین مانیے! وہ وقت دور نہیں جب ہم اپنی نئی نسل کواس عظیم الشان قلعے کی محض تصاویر دکھا کر ہی اِس کے ہونے کا ثبوت دیا کریں گے۔