دہلی کا مدرسہ رحیمیہ جہاں قرآن کا پہلا اردو ترجمہ کیا گیا

یہ 16ویں صدی کے آس پاس کی بات ہے جب انڈیا میں مشنری سرگرمیاں عروج پر تھیں، قرآن کی عام فہم درس و تدریس کا نظام نہیں تھا۔

دہلی کی مشہور شاہراہ بہادر شاہ ظفر سے کچھ فاصلہ پر مہدیان کے نام سے ایک تاریخی جگہ ہے، جہاں ایک مدرسہ ہے، جس کا نام اب جامعہ رحیمیہ ہے۔ یہ مدرسہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے والد شاہ عبد الرحیم کے نام سے منسوب ہے۔

یہاں قاضی ثنا اللہ، شاہ اسماعیل شہید، شاہ عبد القادر، شاہ اسحاق خواجہ محمد امین کشمیری اور اخوان محمد سعید وغیرہ جیسی اہم شخصیات نے تعلیم حاصل کی تھی۔

اسی مدرسے میں سب سے پہلے قرآن کا اردو ترجمہ پڑھانے کا رواج شروع ہوا اور اسے نقل کی صورت میں رکھا گیا۔ بعد میں شاہ ولی اللہ کے تیسرے صاحبزادہ شاہ عبد القادر نے مسجد اکبر آبادی میں اسے باقاعدہ مرتب کیا اور حواشی لگائے، جو ہندوستان میں اردو ترجموں کی بنیاد ہے۔ یہ ترجمہ 1798 کے لگ بھگ مکمل ہوا۔ 

اس زمانے میں انڈیا میں مشنری سرگرمیاں عروج پر تھیں اور قرآن کی عام درس و تدریس کا نظام نہیں تھا۔

شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے والد نے مدرسہ کے قیام سے پہلے درس قرآن کا نظام بنانا شروع کیا، اس کے بعد شاہ ولی اللہ اور ان کے صاحبزادوں نے مسلمانوں کو قرآن مجید کی حقیقی تعلیم کی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کی اور اسلامی عقاید اور خیالات کو اس طرحمرتب کیا کہ اسے پڑھا اور پڑھایا جا سکے۔

مورخین لکھتے ہیں کہ اسلامی زندگی کے اصولوں کا شعور بیدار کرنے کے لیے مدرسہ رحیمیہ قائم کیا گیا تھا۔

یہ فکری اور عملی درس گاہ تھی جس میں دین سیکھنے کے لیے نہ صرف ہندوستان بلکہ بیرون ملک سے بھی طلبہ آتے تھے۔ یہ مدرسہ نہ صرف ایک تعلیمی ادارہ تھا بلکہ مسلمانوں کے لیے ایک فکری تحریک بھی تھی جو انہیں اسلامی نظام حیات کے قریب لے آئی۔

یہ مدرسہ اس وقت ایسا نہیں تھا جیسا کہ اب نظر آتا ہے، بلکہ انفرادی طور پر کچھ طلبہ پر مشتمل درسگاہیں لگتی تھیں، جس میں قرآن و حدیث کی تعلیم دی جاتی تھی۔

سوانح نگاروں کے مطابق مدرسہ رحیمیہ شروع ہونے سے بہت پہلے شاہ عبدالرحیم دہلی میں درس و تدریس کا کام انجام دیتے تھے، پورے دن قرآن مجید اور حدیث کا درس دیتے تھے۔ ان کے انتقال کے بعد شاہ ولی اللہ نے ان ذمہ داریوں کو سنبھالا اور زیادہ انہماک کے ساتھ درس و تدریس میں مشغول ہوگئے۔

وہ اس درمیان حج کے لیے تشریف لے گئے اور واپسی کے بعد مدرسہ رحیمیہ میں حدیث کی تعلیم دینی شروع کی جس کا شہرہ پورے برصغیر میں ہوا۔ انہوں نے ہی مدرسہ رحیمیہ کے لیے نصاب تعلیم مرتب کیا تھا جس میں نحو میں شرح جامی، کافیہ منطق میں شرح شمسیہ، فلسفہ میں شرح ہدایہ اور کلام میں شرح عقائد کے علاوہ فقہ میں متعدد کتابیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان سب میں قرآن کا علم اور حدیث کا درس اعلیٰ تھا۔ واقعات درالحکومت دہلی میں لکھا ہے کہ مدرسہ میں تعلیم کی شہرت کی وجہ سے اب اس مدرسہ کے آس پاس چھوٹے چھوٹے مکان بن چکے تھے، جس میں طلبا رہتے تھے، وہیں ایک مسجد تھی جو آج بھی موجود ہے۔

اسی دوران، شاہ ولی اللہ نے قرآن مجید کا فارسی میں ترجمہ کیا، کیونکہ اس وقت ہندوستان کے مسلمانوں کی علمی زبان فارسی تھی اور زیادہ تر لوگ عربی براہ راست سمجھنے سے قاصر تھے۔

مدرسے میں قرآن کو ترجمے کے ساتھ پڑھنے کا رجحان بڑھ رہا تھا۔ اسی ماحول میں شاہ عبدالقادر نے بھی تعلیم حاصل کی۔

شاہ عبد القادر، جو 1753 کے آس پاس دہلی میں پیدا ہوئے، شاہ ولی اللہ دہلوی کے تیسرے صاحبزادے تھے۔ ان کا بچپن والد کی سرپرستی میں گزرا، لیکن صرف نو برس کی عمر میں وہ اس شفقت سے محروم ہو گئے۔

ابتدائی تعلیم والد سے حاصل کی اور بعد میں شاہ محمد عاشق اور دیگر علما سےعلوم کی تکمیل کی۔ اپنے بڑے بھائی شاہ عبد العزیز دہلوی سے بھی فیض حاصل کیا۔

شاہ عبد القادر کے تعلیمی دور میں اردو زبان فروغ پا رہی تھی، اور انہوں نے درس و تدریس کا آغاز اکبر آبادی مسجد میں کیا۔

سر سید احمد خان لکھتے ہیں کہ شاہ صاحب نے اپنی پوری زندگی اسی مسجد کے ایک حجرے میں گزار دی۔ ان کے شاگردوں میں عبد الحئی بڈھانوی، شاہ اسماعیل دہلوی، فضل حق خیر آبادی اور شاہ اسحاق دہلوی جیسے نامورعلما شامل ہیں۔

اسی مسجد میں انہوں نے قرآن مجید کا پہلا اردو ترجمہ کیا، جو آج برصغیر میں قرآن کے اردو ترجمے کے لیے ایک بنیادی ماخذ کی حیثیت رکھتا ہے۔

مولانا صابر کے مطابق جب پہلی بار قرآن کا ترجمہ فارسی میں ہوا تب بھی بہت اختلاف ہوا اور جب شاہ عبدالقادر نے اردو میں ترجمہ کیا تب بھی اختلاف ہوا، جس کی بنیادی وجہ یہی تھی کہ اس وقت قرآن کو کسی غیر عربی زبان میں پڑھنے کو معیوب سمجھا جاتا تھا اور علما شدید مخالفت کرتھے تھے۔

مدرسہ رحیمیہ میں حدیث کے استاد مفتی محمد صابر بتاتے ہیں کہ شاہ ولی اللہ کے عہد سے مدرسہ رحیمیہ جاری ہے، تاہم 1857 کی جنگ آزادی کے بعد جس طرح اکبر آبادی مسجد کو شہید کیا گیا جہاں شاہ عبدالقادر نے قرآن کا ترجمہ کیا اسی طرح مدرسہ رحیمیہ کو بھی ختم کر دیا گیا، لیکن شاہ ولی اللہ اور ان کے اہل خانہ کے مزارت یہیں مہدیان میں تھے، برسوں گزرنے کے بعد اسے دوبارہ سے حاصل کیا گیا۔

رعنا صفوی لکھتی ہیں کہ قبرستان مہدیان کبھی ایک وسیع و عریض علاقہ تھا، جہاں کئی اولیا کرام اور عام لوگوں کی قبریں موجود تھیں۔ آج اس کا بیشتر حصہ قبضے میں جا چکا ہے، اور جو تھوڑا بہت باقی ہے، وہ دھوبی گھاٹ کے طور پر استعمال ہو رہا ہے۔

 1960 کی دہائی میں، جب دہلی کی توسیع ہو رہی تھی، تو اس علاقے کو بلڈوز کر کے یہاں فلیٹ یا بنگلے بنانے کا منصوبہ بنایا گیا۔ مومن کے ایک بڑے عاشق، علی محمد، شیرِ میوات کو جب اس کی خبر ملی تو وہ میوات (ہریانہ) سے دہلی پہنچے تاکہ ان مزارات کو بچا سکیں۔

کہا جاتا ہے کہ انہوں نے ٹین مورتی ہاؤس کے سامنے سڑک پر لیٹنے کا فیصلہ کیا اور اس وقت تک نہ اٹھے جب تک کہ پنڈت جواہر لال نہرو، جو اپنی کار میں جا رہے تھے، رکنے پر مجبور نہ ہو گئے۔

آخرکار، پنڈت نہرو اپنی کار سے باہر آئے اور معاملے کی حقیقت جاننے کے بعد، شاہ ولی اللہ اور مومن خان مومن کے مزارات کو مسمار کرنے کا حکم فوراً رکوا دیا۔

علی محمد، شیرِ میوات نے ان مزارات کی مرمت کروائی اور ان کے گرد ایک چار دیواری بھی تعمیر کروائی۔ کہا جاتا ہے کہ انہوں نے پہلے بھی بلڈوزر کے سامنے لیٹ کر مزاحمت کی تھی، جس کے نتیجے میں ان کی ٹانگ ٹوٹ گئی تھی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی تاریخ