مڈل کلاس کا تاریخی کردار

فرانس میں متوسط طبقہ 1789 کے انقلاب اور انگلستان میں صنعتی انقلاب کے نتیجے میں متحرک ہوا اور معاشرتی تبدیلیوں کا باعث بنا۔

10 جولائی، 1954 کو پیرس میں لی گئی اس تصویر میں اداکاروں کو فرانسیسی انقلاب کے سنز-کلوٹس اور جنگجو حامیوں کا کردار ادا کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے (اے ایف پی)

یورپی عہدِ وسطیٰ میں معاشرہ تین طبقوں میں تقسیم تھا، جو تین آرڈرز کہلاتےتھے، یعنی کلرجی یا چرچ کے عہدے دار، اُمرا اور بقیہ لوگ نچلے طبقے سے ہوتے تھے۔

کلرجی اور اُمرا کا تعلق مراعات یافتہ طبقوں سے تھا۔ یہ ٹیکسوں کی ادائیگی نہیں کرتے تھے جبکہ نچلے طبقوں پر ٹیکسوں کا بوجھ تھا اور قانونی طور پر یہ غیرمراعات یافتہ تھے۔

وقت کی تبدیلیوں کے ساتھ نچلے طبقوں سے تاجر، کاریگر، ہُنرمند اور تعلیم یافتہ لوگ پیدا ہوئے۔ یہ طبقہ معاشرے میں مساوات چاہتا تھا اور اپنے حقوق کا تحفظ اس کی خواہش تھی۔

اس لیے فرانسیسی انقلاب میں اس مُتوسط طبقے نے اہم کردار ادا کیا۔ Edmond Burk نے اپنی کتاب میں ’فرانسیسی انقلاب‘ پر تاثرات میں اس طبقے کو الزام دیا کہ اس نے فرانس کی قدیم روایات اور اداروں کو ختم کر کے سیاسی اور سماجی بحرانوں کو پیدا کیا۔

انقلاب نے کلرجی اور اُمرا کے طبقوں کو ختم کر دیا تھا، اور اُن کی جگہ ریاست کے اداروں میں مُتوسط طبقہ قابض ہو گیا۔

انگلستان میں صنعتی انقلاب نے ایک جانب سرمایہ دار طبقے کو طاقت ور کیا تو دوسری جانب ورکنگ کلاس پیدا ہوئی، جس نے سرمایہ دارانہ طبقے کو چیلنج کیا۔

انگلستان کے سرمایہ دار طبقے کا تعلق نہ تو اُمرا سے تھا اور نہ چرچ سے۔ فرانس اور انگلستان دونوں ملکوں نے اُمرا کی خاندانی مراعات کی بجائے اپنی ذہانت، قابلیت اور تعلیم کی وجہ سے ترقی کی۔

اس لیے مُتوسط طبقے کا عروج میرٹ پر تھا۔ یہ ایک بڑی تبدیلی تھی جس نے خاندانی اُمرا اور چرچ کے تسلط کو ختم کیا۔

مُتوسط طبقے نے اعلیٰ تعلیم کے حصُول کے لیے سکول، کالج اور یونیورسٹیاں قائم کیں۔ کاریگری اور ہُنرمندی کے لیے ادارے بنائے۔ تجارت اور کاروبار میں پوری طرح سے شرکت کی۔

خاص طور سے جب انگلستان نے ایشیا اور افریقہ میں اپنی نوآبادیات بنائیں تو یہ مُتوسط طبقے کے افراد تھے، جنہوں نے نوآبادیات میں جا کر جنگیں کیں۔

اُس کے انتظامات کو سنبھالا اور تجارت کے لیے خام مال لے کر اپنے مُلک میں صنعتی ترقی کی۔ نوآبادیات کے انتظامات کے لیے انگلستان کی ریاست نے انڈین سوِل سروس کا امتحان شروع کیا۔

اس میں کامیاب ہونے والے مُتوسط طبقے کے نوجوان ہوتے تھے، جو نوآبادیات علاقوں میں جا کر اعلیٰ عہدوں پر فائز ہوتے۔

فرانس میں مُتوسط طبقے نے انقلابات کو اپنی ترقی کا ذریعہ بنایا۔ 1830 اور 1848 کے انقلابات میں مُتوسط طبقے نے اہم کردار ادا کیا۔

1870 اور 1871 کے درمیان پیرس کمیون کا قیام بھی انہی کی جدوجہد کا نتیجہ تھا، جس کا مقصد تھا کہ فرانس میں عوامی حکومت قائم کی جائے۔

مُتوسط طبقے نے جمہوریت کے ساتھ ترقی کی، اپنی سیاسی پارٹیاں بنائیں اور پارلیمنٹ میں جا کر عوامی حقوق کے لیے قانون سازی کی، جس نے یورپ کے معاشرے کو تبدیل کیا۔

برصغیر ہندوستان میں مُتوسط طبقے کا وجود نہیں تھا۔ ہندوؤں میں ذات پات کی بنیاد پر سماجی مقام کا تعین ہوتا تھا۔

مسلمان معاشرے میں امیر و غریب دو طبقے تھے، لہٰذا ہندو اور مسلمان دونوں ہی کے ہاں مُتوسط طبقہ موجود نہیں تھا۔

جب ہندوستان میں برطانوی راج قائم ہوا تو اس کی وجہ سے معاشرتی تبدیلیاں آئیں۔ بنگال میں ریونیو کے مستقل نظام میں جب ریونیو کی ادائیگی نہ ہوتی تھی تو زمینوں کو نیلام کر دیا جاتا تھا۔

کلکتہ کے تاجروں نے ان زمینوں کو خریدا اور سرمایہ اکھٹا کیا۔ اس بورژوا طبقے نے انگریزی تعلیم حاصل کی، برطانوی راج سے تعاون کیا، سرکاری عہدوں پر فائز ہوئے، معاشرے میں اصلاحی تحریکیں شروع کیں، سکول اور کالجز کھولے اور یہ مطالبہ بھی کیا کہ سوِل سروس کے امتحان ہندوستان میں ہوں تاکہ وہ مقابلے میں شریک ہو سکیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

1885 میں مُتوسط طبقے نے کانگریس پارٹی قائم کی۔ اس کے اہم رہنما وکالت کے پیشہ سے تھے جو برطانوی حکومت سے حقوق کا مطالبہ کر رہے تھے۔

مغربی تعلیم کے نتیجے میں نوجوانوں میں قوم پرستی کے جذبات بھی پیدا ہوئے۔ بنگال کے تعلیمی اداروں میں نوجوان طالب علم مُلک کی آزادی کا مطالبہ کرنے لگے تھے۔

اس کا مظاہرہ اُس وقت ہوا جب 1905 میں لارڈ کرزن کی حکومت نے بنگال کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا۔ اس تقسیم سے مسلمان تو خوش تھے مگر ہندو قوم پرست اس کے سخت مخالف تھے چنانچہ احتجاجاً طالب علموں نے تعلیمی اداروں کا بائیکاٹ کیا۔

انگریزی کپڑا خریدنے سے انکار کیا۔ جلسے، جلوسوں اور مظاہروں کے ذریعے تقسیم بنگال کی مخالفت کی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ 1911 میں برطانوی راج کو یہ تقسیم ختم کرنا پڑی۔

ہندوستان کی سیاست میں اگرچہ مسلمانوں کا مُتوسط طبقہ جس کی نمائندگی مسلم لیگ کر رہی تھی لیکن یہ طبقہ بہت کمزور تھا۔

1947 میں ان دونوں مُتوسط طبقوں میں تصادُم رہا۔ پاکستان کے قیام کے بعد یہاں مُتوسط طبقہ اپنا کردار ادا نہیں کر سکا۔

جاگیردارنہ نظام میں اُن کے لیے سیاست میں کوئی جگہ نہ تھی۔ جب سندھ اور پنجاب سے ہندوؤں اور سکّھوں کا مُتوسط طبقہ ہجرت کر کے چلا گیا تو اُس خلا کو پُر نہیں کیا جا سکا۔

موجودہ حالات میں پاکستان کے مُتوسط طبقے کی کوئی شناخت نہیں۔ ایک جانب وہ ہر ممکن طریقے سے اشرافیہ میں شامل ہونا چاہتا ہے۔ دوسری جانب اُسے یہ ڈر اور خوف ہے کہ وہ نچلے طبقے میں شامل ہو کر غربت کا شکار نہ ہو جائے۔

اس ذہنی اور نفسیاتی کشمکش نے اُس کی صلاحیتوں کو ختم کر دیا۔ اُنہوں نے یا تو انتہاپسندی میں پناہ لی یا مُلک چھوڑ کر امریکہ یا یورپی مُلکوں میں اپنا مُستقبل تلاش کر رہے ہیں۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی تاریخ