کسی بھی ایوارڈ کی طرح آسکر ایوارڈز کے فیصلوں پر ہمیشہ سے بحث کی گنجائش رہتی ہے، لیکن جہاں بہت سی عمدہ فلموں کو آسکر ایوارڈ ملا، وہیں آسکر کے کرتا دھرتاؤں نے کئی فیصلے ایسے بھی کیے جن کی کا سر پیر سمجھ میں نہیں آتا۔
اس میں یقیناً سیاست کا بھی عمل دخل ہو گا لیکن ہمارا خیال ہے کہ اس میں ایک اہم کردار وقت کا بھی ہے اور وقت کے ساتھ رونما ہونے والی سماجی تبدیلیوں کا بھی۔ جس طرح پہاڑ کے دامن میں کھڑے ہو کر اس کی بلندی کا اندازہ نہیں کر سکتے، اسی طرح بعض فلمیں ایسی ہی جو شاید فوری طور پر اپنی عظمت کا نقش کندہ نہیں کروا سکیں۔
البتہ کئی برسوں اور عشروں کے فاصلے کے بعد آج ہمیں احساس ہوتا ہے کہ اکیڈمی ایوارڈز کی جانب سے نظرانداز شدہ یہ فلمیں کتنی عمدہ تھیں۔
تھیئٹر، ناول، افسانے وغیرہ کے مقابلے پر فلم آرٹ کی بالکل نئی نئی صنف ہے، جسے وجود میں آئے، بقول شخصے، جمعہ جمعہ آٹھ دن بھی نہیں ہوئے، لیکن اس کے باوجود سینیما وقت کے ساتھ گزرنے والی تبدیلیوں کا بہترین عکاس ہے اور یہ خصوصیت فلم کو گذشتہ ایک صدی کی نمائندہ آرٹ فارم بناتی ہے۔
نوبل انعام ہی کی طرح آسکر ایوارڈ کا زیادہ رجحان بھی اینگلو امریکن فلم انڈسٹری کو نوازنے پر ہی رہا ہے۔ آسکر کی دوڑ میں شامل ہونے والی اور دوڑ جیتنے والی فلمیں عرصے تک عوام و خواص میں زیرِ بحث رہتی ہیں۔ کون جیتا کون ہارا، کیوں اور کیسے۔ آسکر ایوارڈ کے استقبالیہ میں پیش ہے دس ایسی فلموں کا مختصر جائزہ جو کسی وجہ سے بہترین فلم کا اعزاز نہ جیت سکیں:
10 دا شاشینک ری ڈییمپشن (1994)
فورسٹ گمپ کی بھاری بھرکم فتح کے با وجود یہ حقیقت ہے کہ فلم ناقدین اور ماہرین پلپ فکشن کی جیت کی آس لگائے بیٹھے تھے۔ شاشینک کو مزے سے نظر انداز کر دیا تھا سب نے۔ بھلا کون اس نامانوس نام والی فلم کو ووٹ دیتا۔ لیکن آنے والے برسوں میں جو ہوا اسے ایک معجزہ ہی کہنا چاہیے۔
اس گمنام فلم نے دیکھتے دیکھتے وہ مقبولیت حاصل کی جس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ اردو ادب ہی سے مثال لانی ہو تو اسے ہالی وڈ کا ’زنداں نامہ‘ کہہ لیں۔
شاشینک ایک بے گناہ ملزم کی گرفتاری، قید و بند، اور بالآخر فرار کی بے حد اثر انگیز داستان ہے۔ دلچسپی اور سنسنی برقرار رکھتے ہوئے یہ فلم نظامِ عدل اور افسر شاہی کے کردار پر بھی سوالیہ نشان لگاتی جاتی ہے۔
شاید عمومی مسائل پر مبنی بیانیہ اس ہر دلعزیزی کا جواز ہو کہ یہ فلم آئی ایم ڈی بی کی مشہور عوامی لسٹ میں پہلی پوزیشن پر دہائیوں سے براجمان چلی آتی ہے۔ تو پھر آسکر بھی اسی کو ملنا چاہیے تھا کہ نہیں؟
9 دا سوشل نیٹ ورک (2012)
یہ تو پکی بات ہے کہ آپ نے سائبر ایج کی ایک پراڈکٹ کا نام ضرور سنا ہو گا، اور کافی حد تک یقینی ہے کہ اسے استعمال بھی کیا ہو گا۔ اسے عرف-عام میں فیس بک کہتے ہیں۔
سوشل نیٹ ورک اسی انقلاب کے بانی مبانی کی کہانی ہے۔ اور یہ اتنے موثر انداز سے سکرین پر لائی گئی ہے کہ بعضوں نے تو اسے نئی صدی کی سٹیزن کین تک قرار دے ڈالا۔
سوشل نیٹ ورک ایک روایتی بائیوپک نہیں، یہ فلم ان بدلتے ہوئے حالات کی نشاندہی کرتی ہے جن کے تحت فیس بک ہماری طرزِ زندگی کے ساتھ ساتھ طرزِ احساس تک کا حصہ بن چکی ہے۔
ایک ایپلیکیشن نے اس سرعت سے دنیا بھر پر اثر ڈالا کہ اس کے پھیلاؤ میں کوئی مذہب یا نظریہ، کوئی علاقائی یا لسانی عصبیت اس سیلاب کی راہ میں حائل نہ ہو سکی۔ سوائے اکادمی کے جس نے اس فلم کو بیسٹ پکچر کا اعزاز جیتنے سے روک دیا۔ حالانکہ اس سے فرق تو پڑتا نہیں کوئی۔
8 سیونگ پرائیویٹ رائن (1998)
پہلی اور خصوصا دوسری جنگِ عظیم کے بارے میں بنائی جانے والی فلمیں درجنوں نہیں سینکڑوں کی تعداد میں ہیں۔ لیکن سیونگ پرائیویٹ رائن جیسیے شہکار انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں۔
سٹیون سپیل برگ کو اپنی محنت کا کچھ صلہ ڈائریکشن کے آسکر کی شکل میں میسر آیا۔ البتہ سیونگ پرائیویٹ رائن کو بیسٹ پکچر کا اعزاز ملتے ملتے رہ گیا۔
کوئی بھی فلم ہو وہ کافی حد تک فکشن ہی ہوتی ہے تاہم رائن کے کیس میں فسانے کی بنیاد حقیقت پر ہے۔ فلم کا اوپننگ سین جو بظاہر ایک شاٹ میں فلمایا گیا ہے سینیماٹو گرافی اور ایڈٹنگ کی نہایت عمدہ مثال ہے۔
جنگ پر مبنی بیشتر فلمیں تھوڑی بہت دیر بعد بور کرنے لگتی ہیں اور عام ناظرین تو کیا ناقدین بھی بیزار ہو جاتے ہیں، لیکن سیونگ پرائیویٹ رائن کا سحر ایسا ہے جو تب سے اب تک نہیں ٹوٹا۔
7 بروک بیک ماؤنٹین (2004)
اس سال کی آسکر تقریب میں اینگ لی ہدایت کاری کا ایوارڈ جیتنے والے پہلے غیر سفید فام تو بن گئے لیکن ان کی بنائی ہوئی فلم ہار گئی۔ حالانکہ اب ایل جی بی ٹی کے حساس موضوع پر بنائی گئی بروک بیک ماؤنٹین اپنی غیر معمولی کہانی کے علاوہ اتنی ہی جاندار داکاری کے باعث یادگار سمجھی جاتی ہے۔
اور خود اکادمی ووٹرز سے کیے گئے سروے کے مطابق ایوارڈ کی اصل مستحق بھی۔
بعد میں جوکر کے کردار کو امر کر کے آسکر جیتنے والے جوانمرگ ہیتھ لیجر نے اس فلم میژ اپنا رول جیسے نبھایا اسے اب عمومی طور پہ عظیم تسلیم کیا جاتا ہے۔
اسی طرح، بروک بیک ماؤنٹین کو اپنے موضوع کے حوالے سے سنگ-میل کی حیثیت حاصل ہو چکی ہے اور اس کی شکست آسکر کے متنازع ترین فیصلوں میں گنی جاتی ہے۔
6 ریجنگ بل (1980)
بیجنگ بل ایک باکسر کے عروج و زوال کی بظار سادہ سی داستان کو جس پر کار انداز میں مارٹن سکورسیزی سامنے لائے، انہی کا حصہ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ مارٹی جن کی فلم کیمرے کی حرکت سے پہچانی جاتی ہے، یہ فلم بنانے پر تیار نہ تھے۔
انہیں اس پر آمادہ کرنے کا سہرا رابرٹ ڈی نیرو کے سر ہے جنہوں نے جیک لموٹا کا مرکزی کردار ادا کرنے کے لیے اپنا وزن کوئی من بھر بڑھا لیا۔ یقینا اپنا دوسرا آسکر جیت کر ان کا خون بھی سیروں کے حساب سے بڑھ گیا ہو گا۔
آسکر تو سکورسیزی کی دیرینہ رفیق کار تھیلما شکون ماکر نے بھی فلم ایڈیٹنگ کے کمالات دکھا کر جیت لیا۔ بس خود سکورسیزی اور ان کی فلم کو آسکر دینے والوں نے محروم ہی رکھنا پسند کیا۔
اس محرومی کی تلافی یوں ضرور ہوئی کہ یہ فلم نہ صرف سکورسیزی کا شہکار سمجھی جاتی ہے بلکہ عظیم فلموں کی معتبر فہرستوں میں بھی مسلسل شامل کی جاتی ہے۔
5 اے سٹریٹ کار نیمڈ ڈیزائر (1951)
محبت کی شادی اور وہ بھی دو مختلف طرح کے انسانوں کے درمیان، ہمیشہ ایک دلچسپ موضوع رہا ہے۔ دوسری جنگِ عظیم کے بعد پوری دنیا میں اقدار کی شکست و ریخت عروج پر تھی۔
ٹینیسی ولیمز کے ڈرامے نے اس ازلی ابدی فیملی ایشو کو امریکی ورکنگ کلاس کے پس منظر میں پیش کر کے پلٹزر انعام جیتا۔ جب اس ڈرامے کو فلمی روپ دیا گیا تو اس کے عصری حسیت سے لبریز مکالموں میں اداکاری نے نئی روح پھونک دی۔
یہ پہلی فلم تھی جس نے ایکٹنگ کے چار میں سے تین آسکر جیتے۔ اور نہیں جیتا تو مارلن برانڈو کی اداکاری پر! بہت سے ہدایت کاروں، اداکاروں اور نقادوں کے مطابق برانڈو کے اس رول سے ایکٹنگ کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔
غیر معروف برانڈو کے اس لافانی کردار کو ٹائم میگزین نے سر ورق پر جگہ دی۔ لیکن اکادمی نے میتھڈ ایکٹنگ کے باوا آدم کی طرح اس فلم کو بھی ایوارڈ سے محروم رکھا۔
4 اپاکلپس ناؤ (1979)
گاڈ فادر کے دوسرے حصے پر بھی بہترین فلم کا ایوارڈ جیتنے کے بعد فرانسس فورڈ کاپلا نے جن پراجیکٹس پر توجہ دی ان میں سے اپاکلپس ناؤ سب سے اہم ثابت ہوا۔ جوزف کونریڈ کے لیجنڈ ناول ’ہارٹ آف ڈارکنس‘ کو ویت نام کی جنگ کے مسئلے سے ملا کر ایک نئی متھ تخلیق کرنے میں بڑی حد تک کامیاب رہے۔
اپاکلپس ناؤ دیکھتے ہوئے سینیماٹو گرافی اور ایڈیٹنگ کے ایسے شاندار نمونے ملیں گے کہ آپ عش عش کر اٹھیں۔ آپ کو I love the smell of napalm in breakfast جیسے لافانی ڈائیلاگ سننے ملیں آئیں گے اور مارلن برانڈو کی زبانی ٹی ایس ایلیٹ کی نظم The Hollow Men کی یادگار قرات بھی۔
پھر کیسے یہ پہاڑ آسکر والوں کی نظر سے اوجھل رہ گیا!
3 ورٹیگو (1958)
پیار محبت میں محبت عشق میں اور عشق جنون میں کیسے بدل جاتا ہے اور کسی کو کیسے بدل دیتا ہے یہ چیز کم ہی فلمیں اتنے لافانی انداز میں دکھا سکیں گی جیسے ورٹیگو۔ ماسٹر آف سسپینس کہلانے والے ایلفرڈ ہچکاک کے ہاں متاثر کن فلموں کی کوئی کمی نہیں۔ آخر کوئی بات تو تھی کہ ورٹیگو کو اپنی سب سے ذاتی فلم قرار دیتے رہے۔
محبت، نرگسیت، وحشت، اور یادداشت کے ستونوں پر کھڑی اس فلم میں اتنا کچھ اتنی خوبی سے سمو دیا گیا ہے کہ اس کی مثال کسی عظیم ناول میں ملے تو ملے۔ پھر ورٹیگو ہی واحد فلم ہے جو معروف جریدے سائٹ اینڈ ساؤنڈ کے مشہور سروے میں ’سٹیزن کین‘ کو پہلی پوزیشن سے ہٹا پائی۔
یہ اور بات کہ اس فلم کو آسکر ایوارڈز میں نہ ہونے کے برابر لفٹ ملی۔ ہے نا عجیب بات۔
2۔ 2001 اے سپیس اوڈیسی (1967)
آپ کو خلا سے کال ملا کے گھر بات کرنا کیسا لگے گا؟ شاید اتنا عجیب نہیں جتنا یہ کہ آپ کی چاند گاڑی کا مکمل کنٹرول ایک سپر کمپیوٹر کے پاس ہو۔ اور پھر جب وہی سمیع و بصیر کمپیوٹر اچانک کھلم کھلا بغاوت کر دے، نہ صرف آپ کے احکام ماننے سے انکار کر دے بلکہ آپ کو موت کے گھاٹ اتارنے پر تل جائے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ایک سائنس فکشن فلم کو عظیم بنانے کے لیے تو اتنا بھی بہت تھا۔ لیکن سٹینلے کیوبرک کی اوڈیسی یہیں ختم نہیں ہوتی۔
سائنس فکشن میں مبالغہ آرائی اور فراریت پسندی عام ہے مگر اوڈیسی کی خاص بات ہی اس کی سائنسی فصاحت اور تکنیکی بلاغت ہے۔ فلم ارتقا کی تاریخ پر کمنٹری کے ساتھ مصنوعی ذہانت کے بارے میں سمت نمائی بھی کرتی ہے۔ کئی مناظر تو کلاسیک کا درجہ حاصل کر چکے ہیں۔ جیسے ہڈی سے راکٹ پر جمپ کٹ۔
عظیم ترین سائنس فکشن سمجھی جانے والی اوڈیسی بہترین فلم کا آسکر جیتنا تو دور کی بات اس اعزاز کے لیے نامزد تک نہ ہو سکی۔
1 سٹیزن کین (1941)
تب شاید اس پیش بینی کے لیے شہرہ آفاق ادیب بورخیس کی ذہانت درکار ہو، اب یہ بات سب کو پتا ہے کہ سٹیزن کین اگر تاریخ کی عظیم ترین فلم ہی نہیں تو ان میں سے ایک بہر طور ہے۔ عظیم فلموں کی کوئی لسٹ جس لسٹ ٹاپر کے بغیر مکمل نہیں ہوتی، امریکی سینیما کا یہ شہکار اورسن ویلز نے محض 26 برس کی عمر میں تخلیق کیا تھا۔ واقعی؟؟ اور یہ اس نوجوان کی پہلی کاوش تھی۔ جی ہاں!!
پب جی (اور می ٹو!) کھیلتی جنریشن کو شاید یقین نہ آئے کہ جواں سال ویلز نے اس فلم کی صرف ہدایت کاری ہی نہیں کی، سکرپٹ بھی لکھا اور اس کا مرکزی، یادگار کردار بھی ادا کیا۔ وہ سکرپٹ کے علاوہ خود کچھ جیت پائے نہ ہی ان کی فلم۔
سٹیزن کین نے سینیما کی دنیا پر لاتعداد احسانات کیے۔ متعدد تکنیکوں کو جنم دیا اور متنوع زاویے متعارف کروائے۔ اسے آسکر نے بہترین نہیں سمجھا تو کیا، رہی تو یہ بہترین ہی۔