دوسری عالمی جنگ پر کئی فلمیں بنائی جا چکی ہیں جن میں سے کئی ایک کو عالمی شہرت ملی۔
دنیا بھر میں سلور سکرین کی زینت بننے والی ان فلموں کو کروڑوں لوگوں نے دیکھا۔ ایسی ہی فلموں میں سے چند ایک خاص طور قابل ذکر ہیں۔
’دی ڈرٹی ڈزن‘ (1967 - The Dirty Dozen )
اپنے وقت کی باکس آفس پر راج کرنے والی ’دی ڈرٹی ڈزن‘ ایسے امریکی قاتلوں، نفسیاتی مریضوں اور فوجی قیدیوں کی کہانی ہے جنہیں تربیت دے کر’اپنے گناہوں کے کفارے‘ کے لیے ایک خود کش مشن پر جرمنی بھیجا جاتا ہے۔
اس فلم کو بے حد پسند کیا گیا۔ مرکزی اداکاروں میں لی مارون، رابرٹ آلڈریچ اور چارلس برانسن شامل تھے۔
دوسری عالمی جنگ میں فوج کی ملازمت کے دوران خدمات پر اداکار چارلس برانسن کو ’پرپل ہارٹ ‘ کا ایوارڈ بھی ملا (ریکس فیچرز)
’ فرام ہیئر ٹو ایٹرنٹی ‘ (From Here to Eternity - 1953 )
یہ عالمی شہرت یافتہ ہدایت کار فریڈ زینی مان کی بہترین فلم مانی جاتی ہے جو سنسر کی پابندیوں کا شکار ہوئی۔ فلم کی کہانی ناول نگار جیمز جون کے متنازع ناول سے لی گئی۔
اس کے اداکاروں میں ارنسٹ بورنینے، برٹ لنکاسٹر اور ڈیبورا کیر، منٹگمری کلفٹ اورآسکر ایوارڈ یافتہ ڈونا ریڈ شامل تھے۔
معروف گلور فرینک سناترا نے اس فلم میں اپنی اداکاری کے جوہر بھی دکھائے اور ثابت کردیا کہ وہ اداکاری بھی کرسکتے ہیں(ریکس فیچرز)
’دی گریٹ سکیپ‘ (The Great Escape - 1963)
یہ فلم جرمن کیمپ سے فرار ہونے کی منصوبہ بندی کرنے والے اتحادی فوجی قیدیوں کی حقیقی کہانی پرمبنی ہے۔ فلم کا خوشگوار ماحول اس خوفناک حقیقت سے مطابقت نہیں رکھتا جس کے تحت جرمنوں نے فرار کے دوران کئی قیدیوں کو جان سے مار دیا تھا۔
دوسری عالمی جنگ پر بننے والی یہ بلاک بسٹر، اس موضوع پر بنی مشہور ترین فلموں میں سے ایک ہے۔ جب بھی فرصت ملتی ہے شائقین یہ سدا بہار فلم دیکھتے ہیں۔
فلم کے اداکاروں میں عالمی سطح کے سٹار جن میں ڈونلڈ پلیسنس بھی شامل ہیں جو بذات خود بھی جنگی قیدی رہ چکے تھے (ریکس فیچرز)
’ دی برج آن دی ریور کوائی ‘ (The Bridge on the River Kwai - 1957)
جنگی قیدیوں پر بنی اس مشہور فلم میں جاپانیوں کے زیر قبضہ برما ( موجودہ میانمار ) کا ماحول دکھایا گیا ہے۔ جنگی قیدیوں کے کیمپ میں موجود برطانوی کرنل نکولسن کے سر پر علاقے میں پل تعمیر کرنے کا بھوت سوار ہوتا ہے۔
کرنل کے خیال میں جنگی قیدیوں کے بہترین پل تعمیر کرنے میں ان کا حوصلہ بلند ہوگا۔ وہ کیمپ کے بے رحم کمانڈنٹ کو دکھا سکیں گے کہ برطانوی فوجی جاپانی فوجیوں سے بہتر ہیں۔
برطانوی کرنل کے ذہن میں یہ نہیں آتا کہ پل تعمیر کرنے کا مطلب دشمن کی مدد ہے۔ ایکشن سے بھر پور فلم میں برطانوی اور جاپانی فوجیوں کے درمیان حوصلے کا ٹکراؤ دکھایا گیا ہے۔
فلم نے سات آسکر ایوارڈ جیتے جن میں بہترین فلم اور بہترین ڈائریکٹرکے ایوارڈ بھی شامل ہیں۔ اداکار ایلیک گینس کو کرنل نکولسن کے کردار پر بہترین اداکار کا ایوارڈ ملا(ریکس فیچرز)
’ داس بوٹ ‘ (Das Boot - 1981 )
’ داس بوٹ ‘ دوسری عالمی جنگ میں خوف کی علامت جرمن آبدوز ’ یو بوٹ ‘ کے عملے کی بحر اوقیانوس میں جنگ کے دوران حقیقت سے قریب ترین داستان ہے۔
سسپنس سے بھرپور فلم میں تناؤ کے ساتھ ساتھ لڑائی کے مناظر کو حقیقی انداز میں فلمایا گیا ہے۔
’داس بوٹ‘ کا پیغام جنگ مخالف ہے۔ یہ بھی دکھایا گیا ہے کہ آبدوز کا عملہ نازیوں کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔
آبدوز کا عملہ اور فلم ناظرین دونوں سمندری پانی کی گہرائی میں جنگ کے اکتا دینے والے طویل دنوں اور تنگ مقامات کی ہولناکی کو محسوس کرسکتے ہیں(ریکس فیچرز)
’ ڈنکرک ‘ (Dunkirk )
دوسری عالمی جنگ میں جرمن فوج نے فرانس کی بندرگاہ ’ڈنکرک‘ اور دوسرے ساحلوں پر اتحادی افواج کو گھیرے میں لے کر رسد کاٹ دی تھی۔
ڈائریکٹر کرسٹوفر نولان کی ہدایت کاری میں بننے والی فلم ’ڈنکرک‘ اتحادی فوجوں کے محصور علاقوں سے انخلا سے متعلق ہے۔
یہ فلم ریلیز ہوتے ہی جنگی موضوعات پر بنائی گئی کامیاب فلموں کی دوڑ میں شامل ہوگئی تھی۔
فلم میں تین الگ الگ کہانیاں ہیں۔ ایک کہانی ساحل پر موجود فوجیوں کی ہے جس میں ایک نوجوان برطانوی فوجی خاص طور پر قابل ذکر ہے۔
انخلا کے دوران فضا میں موجود برطانوی طیارے فوجیوں کو تحفظ دیتے ہیں جبکہ بہادر شہری کشتیوں میں سوار ہو کر رودبارانگلستان (English Channel ) عبورکرنے لیے زندگی داؤ پر لگا دیتے ہیں تاکہ اتحادی فوجیوں کی مدد کرسکیں۔ یہ ساری کہانیاں ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہیں (وارنر برادرز)
’ سیونگ پرائیوٹ ریان ‘ ( Saving Private Ryan - 1998 )
’ سیونگ پرائیوٹ ریان ‘ بننے تک کسی ہولی وڈ فلم میں قتل عام کے مناظر نہیں دکھائے گئے تھے۔ فلم کے آغاز کے بعد اتحادی فوجوں کی فرانس میں نارمنڈی کے علاقے میں آمد کے دوران آدھے گھنٹے تک ’اوماہا‘ کے ساحل کے مناظر بڑے حقیقی انداز میں پیش کیے گئے ہیں۔
ایک فلمی منظرمیں اداکار ٹام ہینکس کے زیر کمان فوجی ایک شخص کو بچانے کے لیے دشمن کے علاقے میں دور تک گھس جاتے ہیں تاکہ وہ شخص گھر لوٹ سکے جہاں دوسرے تین بیٹے کھو چکنے کے بعد اس کی ماں بہت غمزدہ ہے۔
اس فلم نے جنگ کے موضوعات پر بنائی گئی فلموں کو نئی جہت بخشی ہے(یونیورسل/کوبل /ریکس)