اسلام آباد سے 25 کلومیٹر دور قصبے روات کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کا ماخذ عربی لفظ رباط ہے جس کا مطلب ہے محفوظ مقام۔ مراکش میں اسی نام کا شہر بھی ہے۔
اسلام آباد پھیلتے پھیلتے روات سے آگے نکل چکا ہے اس لیے آنے والوں سالوں میں اسے اسلام آباد کی سرائے یا قلعہ ہی کہا جائے گا۔
عزیز ملک کی معروف کتاب ’پوٹھوہار‘ میں لکھا ہے کہ ’اس کو ہم قلعے سے زیادہ دیکھ بھال کی ایک چوکی کہہ سکتے ہیں کیونکہ اس کے صرف دو دروازے ہیں ایک مشرق کی سمت کھلتا ہے اور دوسرا مغرب کی طرف، اس کو قدرے بلندی پر تعمیر کیا گیا تھا تاکہ آس پاس کی آبادی پر نظر رکھی جا سکے۔
’علاوہ ازیں ملک کے مختلف حصوں میں ڈاک لے جانے والے ہرکارے اس چوکی پر گھوڑے بدلنے کے لیے ٹھہرا کرتے تھے اس کی دیواریں تیس فٹ بلند رکھی گئی تھیں اس میں فوجیوں کے لیے چند رہائشی مکانات بھی بنوائے گئے اور ایک مسجد بھی، درمیان میں خوبصورت اور کشادہ اسلامی طرز کا دیوان خانہ بھی ہے۔‘
آج بھی جب آپ روات قلعہ کے بلند ترین مقام پر کھڑے ہوتے ہیں تو آپ مارگلہ سے گزرتی جی ٹی روڈ کو دیکھ سکتے ہیں اور دوسری جانب سوہاوہ کے پہاڑوں تک نظر جاتی ہے۔
اس قلعے کو کب بنایا گیا اس بارے میں تاریخ میں کوئی ذکرموجود نہیں ہے تاہم قلعے کے دروازے پر لگے معلوماتی کتبے میں درج ہے کہ یہ قلعہ سلطان محمود غزنوی کے بیٹے مسعود نے تعمیر کروایا جس کا زمانہ 1039 کا ہے جوبعد ازاں اسی قلعے میں اپنے باغی سپاہیوں کے ہاتھوں گرفتار ہوا جنہوں نے اسے ٹیکسلا کے قریب گڑھی کے قلعے میں جا کر قتل کر دیا۔ بعد میں یہ قلعہ گکھڑ قبیلے کے قبضے میں آ گیا۔
راولپنڈی کے گزیٹیئر 1910 میں درج ہے کہ ’گکھڑوں کا اثر رورسوخ مشرق میں دریائے جہلم اور شمال میں مارگلہ کے درے، مغرب میں کھیڑی مورت اور جنوب میں ضلع جہلم کے کچھ حصے کے درمیان تھا۔‘
اس علاقے میں گکھڑوں کے تین قلعے مشہور تھے۔ ایک ڈڈیال آزاد کشمیر کے ساتھ دان گلی، دوسرا پھروالہ اور تیسرا روات۔ یہ گکھڑ کون تھے اور کہاں سے آئے تھے؟
تاریخ میں ان کے متعلق مختلف روایتیں بیان کی جاتی ہیں۔ خود گکھڑوں کا کہنا ہے کہ وہ فارسی الاصل اور سلطان کید بن گوہر یا کیگوہر کی اولاد ہیں جو اصفہان میں کیان کا رہنے والا تھا۔ جبکہ تاریخِ فرشتہ کے مطابق گکھڑوں نے تیرہویں صدی میں اسلام قبول کیا اور وہ پنجاب میں 682 سے آباد ہیں۔
ایک روایت کے مطابق سیالکوٹ کے راجہ رسالو کا شدید دشمن راجہ ہڈی (جو پنجاب کی لوک روایات میں ہیرو کا درجہ رکھتا ہے ) وہ بھی گکھڑ تھا۔
اسی گزیٹیئر کی ایک روایات یو ں ہے کہ ’گکھڑ ایک فارسی بادشاہ جرد کی اولاد ہیں اس بادشاہ کی شکست اور موت پر انہیں اپنا علاقہ چھوڑ کر چین کی طرف جانا پڑا جہاں ان کے قائد فیروز شاہ نے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ شہنشاہ کے محافظ دستے کے طور پر ملازمت اختیار کر لی۔
وہاں سے وہ تبت گئے اور ساتویں صدی کے آغاز میں مسلمان ہوئے، بعد ازاں وہ محمود غزنوی کے ہمراہ ہندوستان آئے ان کا رہنما کیگوہر محمود غزنوی کے ہمراہ آیا۔‘
شاید اسی دوران انہیں جغرافیائی اہمیت کے لحاظ سے اس علاقے میں آباد کیا گیا۔ کیونکہ پھروالہ کے قلعے کی تعمیر بھی 1012 سے 1018 کے درمیان بیان کی جاتی ہے۔
راولپنڈی کے گزیٹیئر کے صفحہ 64 پر درج ہے کہ 1205 میں گکھڑوں کو شہاب الدین غوری نے شکست دی اور انہیں اسلام قبول کرنے پر مجبور کر دیا بعد ازاں یہی شہاب الدین غوری جب ہندوستان سے واپس جا رہا تھا تو گکھڑوں کے ایک ٹولے نے اسے خیمے میں گھس کر قتل کر دیا۔
ایک مقامی محقق حبیب گوہر کے مطابق سلطان مسعود غزنوی کے لشکریوں نے دریائے سندھ کراس کرتے ہوئےبغاوت کر دی۔
ہم عصر عرب مورخوں کے بقول وہ رباط مارگلہ میں قلعہ بند ہو گیا۔ تاریخ فرشتہ میں دریا کا نام غلطی سے دریائے سندھ کی بجائے دریائے جہلم لکھ دیا گیا۔
چونکہ دریائے سندھ اور جہلم کے درمیان کسی رباط مارگلا کے نشانات نہیں ملے اس لیے سرائے روات کو ہی رباط مارگلا سمجھ لیا گیا۔
نہ تو مسعود غزنوی کی گرفتاری کا سرائے روات سے کوئی تعلق ہے اور نہ ہی رباط کا روات سے کچھ لینا دینا ہے۔
نہ صرف یہ کہ جرنیلی سڑک کے کنارے تمام سراؤں کے نام مقامی ہیں بلکہ روات کے ارد گرد بھی تمام جگہوں کے نام مقامی ہیں۔
جرنیلی سڑک کے کنارے سرائے راجو، سرائے خربوزہ، سرائے کالا، سرائے کھولا اور سرائے بیگم ایسی کچی پکی سراؤں کی دیسی قطار میں عربی لفظ رباط سراب سی دلفریبی رکھتا ہے۔
لفظ رباط کی شہرت کی وجہ گکھڑ مورخین دنی چند اور برج ناتھ کی تحریریں ہیں۔ روات کا پہلا ذکر تاریخ میں اطالوی پادری منسیراٹ کی کمنٹڑی میں ملتا ہے۔ جس کے مطابق 1581 میں اکبر کے لشکر نے مانکیالہ کے بعد ’راونڈم‘ میں پڑاؤ کیا ہے۔
’اکبر کا ہندوستان‘ میں ڈاکٹر مبارک علی نے اس کا ترجمہ روات کیا ہے۔ دو اور سفرناموں میں بھی اس جگہ کا ذکر ہے۔ ایک فرانسیسی جم مرچنٹ جین بیپٹسٹ ٹورنر نے 1650 میں اس سرائے کو اپنے سفرنامے میں ’روپت‘ اور ستروہویں صدی کے بھوٹانی زائر تگ تس راس پا نے ’رواتا‘ لکھا ہے۔‘
قلعہ روات میں گکھڑ سردار سارنگ خان اپنے سولہ بیٹوں کے ساتھ دفن ہے۔ وہ ایک خون ریز معرکے میں مارے گئے تھے جس کی تفصیل ’وادی پوٹھوہار‘ مرتب رشید نثار 1997میں دی گئی ہے۔
کرنل محمد خان کے مضمون ’قلعہ روات‘ میں درج ہے کہ جب شیر شاہ سوری کی فوجیں ہمایوں کا تعاقب کررہی تھیں توشیر شاہ سوری نے اپنا ایک ایلچی گکھڑ سرادر سارنگ خان کے پاس بھیجا اور مدد چاہی۔
مگر سارنگ خان چونکہ ہمایوں سے مدد کا وعدہ کر چکا تھا اس لیے اس نے ایلچی کے ہاتھ شیر کے دو بچے اور تیروں سے بھرا ہو ا ترکش بھیجا جس کا مطلب تھا کہ وہ شیر شاہ کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہے۔
اس پر شیر شاہ سوری بہت سیخ پا ہوا اور اس نے گکھڑوں پر چڑھائی کر دی۔ یہ معرکہ 1542 میں روات کے مقام پر ہوا جسے اس وقت رباط سرائے کہا جاتا تھا۔ سلطان سارنگ اور اس کی فوج کو نہ صرف شکست ہوئی بلکہ وہ اپنے 16 بیٹوں کے ساتھ مارا گیا۔ مگر شیر شاہ نے مستقبل میں گکھڑوں کی شورش کی پیش نظر روہتاس میں ایک قلعہ بنانے کو حکم جاری کیا۔
سلطان سارنگ خان کے بعد سلطان آدم خان پوٹھوہار کا حکمران بنا تو ا س نے رباط سرائے میں بھائی کی یاد میں ایک مقبرہ بنایا۔ جو آج بھی ا س قلعہ میں سلامت کھڑا ہے لیکن یہ بات حیران کن ہے کہ قبریں مقبرے سے باہر رکھی گئی ہیں۔
اس کی کوئی وجہ ابھی تک سمجھ نہیں آسکی کیونکہ اس طرز کے جتنے بھی مقبرے پنجاب اور سندھ میں موجود ہیں قبریں ان کے اندر ہیں مگر یہ واحد مقبرہ ہے جس کے اندر کسی قبر کا کوئی نام و نشان موجود نہیں ہے۔
روات میں بظاہر گکھڑوں کو شکست ہوئی لیکن جب ہمایوں نے شاہ ایران کی فوجی مدد سے دوبارہ ہندوستان کو رخ کیا تو اس نے دریائے سندھ کو عبور کر کے گکھڑوں کے قلعہ پھروالہ میں قیام کیا یہاں اس کے ساتھ شہزادہ اکبر بھی تھا جس کی عمر اس وقت چودہ سال تھی۔ گکھڑوں نے ہمایوں کی بھرپور مدد کی اوراسے اپنی کھوئی ہوئی سلطنت واپس دلائی۔
جب اکبر بادشاہ بنا تو اس نے سلطان سارنگ خان کے بیٹے سلطان کمال خان کو پوٹھوہار کا علاقہ دینے کے ساتھ مغل فوج میں پنج ہزاری کا خطاب دیا۔
راج موہن گاندھی اپنی کتاب ’پنجاب۔ اے ہسٹری فرام اورنگ زیب ٹو ماؤنٹ بیٹن‘ کے صفحہ 139میں لکھتے ہیں: ’گکھڑ سردار مقرب خان نے 1739میں مغلوں کے خلاف ایرانی حملہ آور نادر شاہ کاساتھ دیا۔ جس پر نادر شاہ نے انہیں نواب کا خطاب دیا۔
مقرب خان نے مغرب میں یوسفزئی اور خٹک قبلیوں کو شکست دے کر اپنی ریاست سندھ سے چناب تک پھیلا دی۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بعد ازاں مقرب خان سکھوں کی بڑھتی ہوئی طاقت کے آگے نہ ٹھہر سکا اوربھنگی مثل کے گوجر سنگھ کے ہاتھوں 1765 میں گجرات میں مارا گیا۔ جس کے بعد سکھوں نے اس قلعے کو کھنڈر بنا دیا۔ اس کے ساتھ ہی پوٹھوہار پر گکھڑوں کے ساڑھے سات سو سالہ اقتدار کا سورج غروب ہو گیا۔
اس قلعے کو 1955 میں محکمہ آچار قدیمہ کے سپرد کی اگیا۔ آج کل یونیسکو کے تعاون سے اس تاریخی قلعے کی بحالی کا کام جاری ہے۔
روات کا قلعہ اور اس علاقے کے گکھڑوں نے کئی مقامات پر ہندوستان کی تاریخ کا دھارا موڑا۔ ہمایوں ان کی مدد کی بدولت اپنا تخت دوبارہ حاصل کر سکا۔ شہاب الدین غوری گکھڑوں کے ہاتھوں قتل ہوئے۔ نادر شاہ کو مغلوں کے خلاف کرنال کے معرکے میں گکھڑوں کی مدد نہ ملی ہوتی تو بعد کے ہندوستان کی تاریخ بہت مختلف ہوتی۔
مگر آج کی تاریخ گکھڑوں کو اور تاریخ میں ان کے مقام کو فراموش کر چکی ہے۔ تاریخ کے صفحات پر بڑے بڑے جنگجو، سپہ سالاراور فاتحین مدفون ہیں۔ قلعہ روات میں سلطان سارنگ خان اپنے 16 بیٹوں کے ساتھ دفن ہیں ایک پر شکوہ مقبرہ بھی ایستادہ ہے مگر یہاں آنے والے اکثر لوگ نہیں جانتے کہ سلطان سارنگ خان کون تھا ؟جہاں آج پاکستان کا دارالحکومت واقع ہے وہ کبھی گکھڑ سرداروں کی راج دہانی تھی۔
دریائے سندھ اور دریائے جہلم کے درمیان جب ان کے گھوڑے دوڑتے تھے تو ان کی سموں کی ہیبت سے تاریخ کے بڑے بڑے فاتحین لرز جاتے تھے۔