2013 میں راولپنڈی کنٹونمنٹ بورڈ کی نظریں مال روڈ پر شاہ بلوط پارک میں واقع لینزڈاؤن انسٹی ٹیوٹ کی چھ ایکڑ اراضی پر جم گئیں جہاں وہ 130 سالہ قدیم اس تاریخی ورثے کو گرا کر ایک کثیر المقاصد کمرشل کمپلیکس میں تبدیل کرنا چاہتا تھا۔
اس کمپلکس میں ہوٹل، شاپنگ مال، کارپوریٹ دفاتر، سِنےپلیکس، ہیلتھ کلب، سوئمنگ پول، انڈور گیمز اور رہائشی اپارٹمنٹس بھی شامل تھے۔ اس وقت جنرل اشفاق پرویز کیانی پاک فوج کے سربراہ تھے۔ اب اسے سکیورٹی مسائل کہیں یا پھر اس وقت کے چیف آف آرمی سٹاف کی علم اور تہذیب دوستی کہ انہوں نے کنٹونمنٹ بورڈ کا یہ منصوبہ رد کر دیا۔ تاہم بعض ماہرین کا خیال تھا کہ 1882 کا ٹرسٹ ایکٹ کنٹونمنٹ بورڈ کو یہ اجازت ہی نہیں دیتا تھا کہ وہ اس کو اس کے قیام کے مقاصد جو تعلیمی و تفریحی تھے، سے ہٹ کر استعمال کر سکے۔
لینزڈاؤن انسٹی ٹیوٹ چونکہ راولپنڈی کینٹ کی حدود میں واقع ہے اس لیے اس کا انتظام ملٹری لینڈز اینڈ کنٹونمنٹس کے دائرہ اختیار میں آتا ہے جس نے اسے بحال کر کے منی تھیٹر، فوڈ کورٹ اور سپورٹس ہال میں بدلنے کے لیے 2019 سے کام شروع کر رکھا ہے۔ کرونا بحران کی وجہ سے یہ کام ہنوز تاخیر کا شکار ہے۔
البتہ بحالی کے امور اور اس کے بعد اسے کن مقاصد کے لیے استعمال کیا جائے گا؟ اس حوالے سے جب سیکریٹری راولپنڈی کنٹونمنٹ بورڈ قیصر محمود سے پوچھا گیا تو انہوں نے روایتی پن کا مظاہر کیا کہ یہ معلومات شیئر نہیں کی جا سکتیں۔ معلوم نہیں فوجی اداروں کے ساتھ کام کرنے والے سویلین افراد ایک سینما کی بحالی کے امور کو بھی قومی سلامتی کا راز کیوں گردانتے ہیں؟
1891 میں قائم ہونے والا لینزڈاؤن انسٹی ٹیوٹ راولپنڈی شہر کی تہذیبی روایت کا امین ہے۔ 1915 میں اس عمارت کی لیز سینیما کے نام پر دی گئی جس کا نام لینزڈاؤن سینما ہی رکھا گیا مگر قیام پاکستان کے بعد اسے اوڈین سینما کا نام دیا گیا جہاں 2008 تک فلمیں چلتی رہیں۔ بعد ازاں عمارت کی مخدوش حالت اور دگرگوں سکیورٹی حالات نے اس کے دروازے شائقین کے لیے بند کر دیے۔
لینزڈاؤن انسٹی ٹیوٹ راولپنڈی آج جہاں واقع ہے کبھی وہاں ساڑھے 15 ایکڑ پر مشتمل شاہ بلوط پارک ہوا کرتا تھا جس کے مالکان میں رئیس اعظم راولپنڈی سردار سوجان سنگھ اور اس کے بھائی کرپال سنگھ شامل تھے۔ یہ سردار ملکھا سنگھ تھلے پوریا کی اولاد تھے جس نے گکھڑوں سے یہ علاقہ چھین کر 1765 میں یہاں سکھ عمل داری کا آغاز کیا تھا۔
جب انگریزوں کا دور آیا تو لارڈ لینزڈاؤن جو 1884 سے 1894 تک ہندوستان کا وائسرائے رہا، اس نے راولپنڈی کا دورہ کیا۔ اس زمانے میں دیسی کمیونٹی میں یہ تاثر عام تھا کہ اگر انگریز سرکار کی خدمت کی جائے تو وہ نہ صرف بھولتے نہیں ہیں بلکہ ا س کا بدلہ بھی دیتے ہیں۔ شاید یہی سوچ کر سردار سوجان سنگھ اور سردار کرپال سنگھ نے شاہ بلوط پارک، جو ان دونوں بھائیوں کی ملکیت تھا، وہاں وائسرائے ہند کے اعزاز میں ایک شاندار عصرانے کا انتظام کیا جس میں سکھ برادران کی جانب سے یہ اعلان بھی کیا گیا کہ ہم نے یہ باغ اور اس کے ملحقہ جات لیڈی لینزڈاؤن کے نام وقف کر دیے ہیں۔
اس اعلان کی بھر پور پذیرائی ہوئی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ سردار سوجان سنگھ جو پہلے ہی اینگلو افغان جنگوں میں ایک بڑے ملٹری کنٹریکٹر کے طور پر سامنے آئے تھے ان کے کاروبار کو اور زیادہ وسعت ملنے لگی۔ پانچ اگست 1891کو لینزڈاؤن ٹرسٹ قائم کر دیا گیا، لیکن عمارت کی تعمیر دو سال پہلے شروع ہو چکی تھی۔ ٹرسٹ کی شرائط میں انگریزی دان طبقے کے لیے لائبریری اور تفریحی سرگرمیوں کے لیے ہال کی تعمیر شامل تھی۔ 1891 میں جب شاہ بلوط پارک میں لینزڈاؤن ٹرسٹ کی عمارت مکمل ہو گئی تو اسے لینزڈاؤن ٹرسٹ کے سپرد کر دیا گیا جس کے اراکین میں راولپنڈی کے جی او سی، کمشنر، ڈپٹی کمشنر، کنٹونمنٹ مجسٹریٹ یا آنریری سیکریٹری آف راولپنڈی کلب اور وقف کنندہ خاندان کا ایک فرد شامل تھا۔
شروع میں یہاں پر انگریز، دن کو لائبریری میں کتابیں پڑھنے اور شام کو اپنے جوڑوں کے ساتھ ناؤ نوش کی محفلیں سجانے آتے تھے۔ کچھ عرصہ بعد ٹرسٹ کا انتظام کنٹونمنٹ کمیٹی کے سپرد کر دیا گیا جس کا دفتر پونچھ ہاؤس کے قریب عباس مارکیٹ میں تھا۔ 1915 میں کنٹونمنٹ کمیٹی نے انسٹی ٹیوٹ، پارک اور لائبریری کو مالی خودمختاری دینے کی غرض سے اس کے ہال کو سینما میں بدل دیا۔ سردار سنت سنگھ نے دو سو روپے ماہانہ کرائے پر لے کر یہاں سینما شروع کر دیا۔ کمیٹی نے ایک اور کام یہ کیا کہ ٹرسٹ کے عقب میں واقع دو کنال سولہ مرلے زمین ایک انگریز مسٹر لنٹاٹ کو ماہانہ کرائے پر دے دی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کنٹونمنٹ کمیٹی جو 1924 میں کنٹونمنٹ بورڈ میں تبدیل کر دی گئی تھی کہ سامنے سردار سوجان سنگھ کے پوتے سردار موہن سنگھ نے معاملہ اٹھایا کہ یہ جگہ جو ایک انگریز کو لیز پر دی گئی ہے درحقیقت ٹرسٹ کی ملکیت ہے، اس لیے بورڈ اس کا کرایہ وصول نہیں کر سکتا بلکہ کرایہ ٹرسٹ کے اکاؤنٹ میں جمع کروایا جائے۔
جس کے بعد فیصلہ ہوا کہ کرائے کا ایک چوتھائی ملٹری اسٹیٹ آفس اور تین چوتھائی ٹرسٹ کے اکاؤنٹ میں جمع کروایا جائے گا۔ جب ٹرسٹ کی مالی حالت بہتر ہوئی تو 1933 میں لائبریری جو سینیما کے مغربی حصے کے ایک کمرے تک محدود تھی اس کے لیے انسٹی ٹیوٹ کے ساتھ ایک الگ عمارت بنانے کا فیصلہ ہوا۔ یہ لائبریری آج بھی اس عمارت میں قائم ہے اور راولپنڈی کنٹونمنٹ لائبریری کہلاتی ہے۔ اس زمانے میں راولپنڈی کنٹونمنٹ بورڈ اپنی باقاعدہ عمارت سے محروم تھا چنانچہ 1932 میں شاہ بلوط کے درختوں کو کاٹ کر پارک کی جگہ کنٹونمنٹ نے اپنی عمارت کھڑی کر دی جہاں بورڈ کے انتظامی امور نمٹائے جاتے تھے۔
صدر بازار کے ایک ہندو تاجر ارجن داس نے عدالت میں دعوی ٰ دائر کر دیا کہ ٹرسٹ کی جگہ پر کنٹونمنٹ بورڈ کی عمارت غیر قانونی ہے ؛لیکن ارجن داس کو بورڈ سے مخاصمت مہنگی پڑی اور انہوں نے مقدمہ واپس لے لیا۔ تاہم یہ بات 8 مارچ 1938 کو پنجاب لیجسلیٹیو اسمبلی میں گونجی جب ایک رکن شام لال نے سوال کیا کہ بورڈ کس ضابطے کے تحت ٹرسٹ کی زمین پر قبضہ کیے ہوئے ہے؟
قانون ساز اسمبلی نے راولپنڈی کے سٹیشن کمانڈر سے استفسار کیا تو انہوں نے یہ معاملہ ایل ایف سی سب ایریا کو بھیج دیا۔ اسی دوران دوسری جنگ عظیم شروع ہو گئی اور کھاتہ سرد خانے میں چلا گیا۔ اس دوران ٹرسٹ کی مالی حالت دگرگوں ہوئی تو کنٹونمنٹ بورڈ نے 23 جون 1942 کو ایک خط کے ذریعے سردار موہن سنگھ سے ٹرسٹ کے معاملات سنبھالنے کی درخواست کی۔ جس پر انہوں نے مشروط رضا مندی ظاہر کر دی کہ ٹرسٹ کی جملہ تمام عمارات جن میں لائبریری، سینما، کینٹین، سڑکیں، پارک اور کنٹونمنٹ کی عمارت بھی شامل ہے اس کے حوالے کی جائیں اور وہ کنٹونمنٹ بورڈ کو ا س کی عمارت کا عوضانہ مارکیٹ ریٹ کے مطابق دینے کو تیار ہے اس کے بعد کنٹونمنٹ بورڈ ٹرسٹ کو ماہانہ کرایہ ادا کرے گا۔ ساتھ یہ بھی کہا کہ میرے آنجہانی دادا نے کچھ اور بھی ٹرسٹ قائم کیے تھے جو اب میری نگرانی میں چل رہے ہیں۔ لیکن کنٹونمنٹ بورڈ نے اپنے اجلاس منعقدہ 23 فروری 1943 میں موہن سنگھ کی تجاویز رد کر دیں۔
موہن سنگھ اس وقت راولپنڈی کے دو سینما روز سینماراجہ بازار اور نیو روز سینما پوہڑی پل کے مالک تھے لیکن لینزڈاؤن سینما کی لیز ان کے پاس نہیں تھی۔ راولپنڈی کے ایک شہری حسین احمد خان اپنی یاداشتوں کی کتاب ’راولپنڈی کی یادیں‘ میں لکھتے ہیں کہ 1944 میں ہم مشہور فلم ’رتن‘ کے دوسرے دن والا شو اپنے خاندان کے ہمراہ دیکھنے کو گئے لیکن ہاؤس فل کا بورڈ دیکھ کر واپس جانے لگے کہ موہن سنگھ کی نظر ہمارے والد پر پڑ گئی فوراً واپس بلا کر ہال میں اضافی کرسیاں لگوائیں اور ہمیں مفت شو دکھایا، کیا وضع دار لوگ تھے۔‘
جنگ عظیم ختم ہوئی تو ہندوستان میں آزادی کی تحریکیں چلنا شروع ہو گئیں۔ قیام پاکستان کے وقت راولپنڈی میں بدترین فسادات ہوئے جن میں لینزڈاؤن انسٹی ٹیوٹ اور لائبریری کو بھی آگ لگا دی گئی۔ جس کے بعد کئی قیمتی کتابیں راکھ ہو گئیں اور انسٹی ٹیوٹ کی چھت برباد ہو گئی۔ کنٹونمنٹ بورڈ نے عمارت کی مرمت کروائی اور اسے الحاج غلام جیلانی کو 1600 ماہانہ کرائے پر دے دیا جنہوں نے یہاں اوڈین نامی سینما قائم کر دیا۔ اس کے علاوہ وہ امپیریل سینما کے بھی مالک تھے جہاں آج کل امپیریل مارکیٹ ہے۔ یہ خود ایوب کے دور میں بی ڈی ممبر بنے اور ان کے بیٹے آغا عبد الرشید جیلانی بعد میں راولپنڈی کے میئر بنے۔
اس دوران ایک دلچسپ واقعہ یہ ہوا کہ کنٹونمنٹ بورڈ کے ایک سابق رکن الحاج محبوب الہٰی نے عدالت میں استغاثہ دائر کر دیا کہ چھاؤنی کے علاقے میں کوئی مسجد نہیں اس لیے سینیما گر اکر یہاں مسجد تعمیر کی جائے۔ اس کے جواب میں الحاج غلام جیلانی نے کہا کہ بہت اچھی تجویز ہے لیکن اس سینیما کے ساتھ پلازا سینما بھی ہے پہلے اسے گرایا جائے تاکہ مسجد کے نزدیک کسی خرافات کا وجود نہ رہے۔ جس پر عدالت نے استغاثہ خارج کر دیا۔ پلازا سینما قیام پاکستان سے پہلے ناچ گھر کہلاتا تھا جہاں رقص و سرود کی محفلیں سجائی جاتی تھیں۔
لینزڈاؤن انسٹی ٹیوٹ راولپنڈی کی تاریخ کے کئی یادگار واقعات کو سموئے ہوئے ہے۔ ایک زمانے میں یہاں ہندوستانیوں کا داخلہ ممنوع تھا اور صرف گورے ہی داخل ہو سکتے تھے۔ 1936 میں سردار موہن سنگھ کے بیٹے کی شادی مہاراجہ جیند کی بیٹی کے ساتھ ہوئی تو اسی پارک میں کئی روزہ تقریبات ہوئیں۔ شادی کا پہلا دن ہندوؤں اور سکھوں کے لیے مختص تھا۔ دوسرا دن انگریزوں اور تیسرا دن مسلمانوں کے لیے تھا۔ ہر روز سر سنگیت کی محفلیں سجائی جاتیں۔ سر سکندر حیات بھی مہمانوں میں شامل تھے۔ کہتے ہیں کہ جب وہ محفل میں آئے تو طوائف نے نعت پڑھنا شروع کی جس پر سر سکندر حیات نے آگے بڑھ کر طوائف کو روک دیا کہ کہ ناؤ نوش کی محفل میں میرے آقا کا نام نہیں لیا جا سکتا۔
حلقہ اربابِ ذوق راولپنڈی کی محفلیں بھی ایک زمانے میں لینزڈاؤن انسٹی ٹیوٹ کی لائبریری میں ہوتی تھیں۔ یہاں سعادت حسن منٹو بھی تشریف لائے اور اپنا مضمون ’منٹو، سعادت حسن کی نظر میں‘ پیش کیا۔ کہتے ہیں کہ اس روز لائبریری تو کجا پارک میں بھی تل دھرنے کو جگہ نہیں تھی۔
لینزڈاؤن انسٹی ٹیوٹ اور لائبریری کی عمارت کے درمیان ایک اور عمارت بھی ہے جہاں ’رائل اکیڈمی آف بیفلوز‘ نامی کلب تھا جس کی سرگرمیاں انتہائی مشکوک تھیں۔ ’راول دیس‘ نامی کتاب کے مصنف اور معروف ادیب عزیز ملک لکھتے ہیں کہ ایک روز انہوں نے چھپ کر دیکھا کہ یہاں انگریز کیا کرتے ہیں تو انہوں نے دیکھا کہ میز پر بھاری بھرکم بھینسے کا سر لکڑی کے تخت پر نصب کر کے درمیان میں رکھا گیا تھا، درمیان میں چمڑے کا ایک پیالہ تھا اور اس کے ساتھ چمڑے کی چھڑی رکھی تھی اور اس کے ارد گرد بیٹھے کچھ انگریز کالے جادو کی مشق کر رہے تھے۔ اسی ہال میں قیام پاکستان کے بعد پاکستان کی سرکاری نیوز ایجنسی اے پی پی کا دفتر قائم ہوا اور پھر 1983 میں اسے لائبریری کا حصہ بنا دیا گیا جس کا افتتاح اس وقت کے صدر ضیاء الحق نے کیا تھا۔
130 سال پہلے جب یہ انسٹی ٹیوٹ قائم ہوا تو اس کا رقبہ ساڑھے 15 ایکڑ تھا جو اب چھ ایکڑ میں سمٹ چکا ہے۔ تاہم یہ بات خوش آئند ہے کہ کنٹونمنٹ بورڈ اس تاریخی ورثے کی بحالی میں سنجیدہ ہے۔ امید ہے کہ صدر کے علاقے میں جو تاریخی ورثہ بدحال ہو چکا ہے اس کی بحالی کے لیے بھی سنجیدہ کوششیں کی جائیں گی۔