28 سالہ خدیجہ بھنبھور ٹھٹھہ کی رہائشی اور پانچ بچوں کی ماں ہیں۔ بچوں کی پیدائش میں وقفہ کم ہونے کی وجہ سے وہ پہلے ہی کمزور تھیں اور اب پانچ ماہ بعد وہ اپنے چھٹے بچے کو جنم دیں گی۔
ہماری جب ان سے ملاقات ہوئی تو وہ چار ماہ کی حاملہ تھیں اور ان کا ہیموگلوبن 5.5 کی سطح تک گر چکا تھا۔ سوال سادہ ہے کہ کیا اس بار خدیجہ محفوظ وضع حمل سے گزر کر ایک صحت مند بچے کو جنم دے سکیں گی؟
خون کی شدید کمی کا شکار خدیجہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ان کے علاقے میں صحت کے بڑے مراکز نہیں۔ علاج معالجے کے لیے لوگوں کو ٹھٹھہ یا گھارو کے سرکاری ہسپتالوں میں جانا پڑتا ہے۔ خدیجہ بھی گھارو میں موجود سرکاری ہسپتال کی ڈاکٹر کے پاس جاتی ہیں۔ ان کے سارے بچے بھی وہیں پیدا ہوئے ہیں۔ دس دن پہلے ڈاکٹر نے ان کا الٹرا ساؤنڈ اور خون کی رپورٹ دیکھتے ہوئے کہا تھا کہ ’انہیں خون کی ضرورت ہے۔ میاں سے کہیں کہ خون کا بندوبست کریں۔‘
اپنے کچن گارڈن میں جتی خدیجہ نے بتایا: ’میں بولتی ہوں کہ خون کہاں سے چڑھاؤں۔ انسانی خون چڑھانے سے بہتر ہے کہ اپنی غذا کا خیال رکھوں۔ ہمارے گوٹھ میں یہ عام بات ہے۔ اکثر خواتین خود بھی کمزور ہیں اور کمزور بچوں کو جنم دیتی ہیں۔‘
خدیجہ نے اپنے لگائے ہوئے پودے سے بینگن توڑتے ہوئے کہا کہ ’ہاں میں کمزور ہوں، لیکن ڈاکٹر نے بتایا ہے کہ میرا بچہ ٹھیک ہے۔ اب میں سبزیاں اور پھل فروٹ کھا رہی ہوں اور طاقت کی دوا بھی لی ہے۔ ڈاکٹر مہینے مہینے بلاتی ہے، لیکن میں وقت سے جاتی ہوں۔ کیونکہ بھنبھور شہر میں بسیں ویگنیں تو چلتی نہیں۔ ہم چنگچی رکشے میں بیٹھ کر ہسپتال تک جاتے ہیں۔ ڈاکٹر ہر بار کہتی ہے کہ ٹیسٹ کراؤ، ہم غریب لوگ ہے۔ ہر بار تو ٹیسٹ نہیں کروا سکتے۔‘
یہ پاکستان کی کسی ایک خدیجہ کی کہانی نہیں ہے، جن کی زندگی اور صحت کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ ملک میں غربت، شدید غذائی قلت اور زچگی کے دوران ماں اور بچہ کی موت ایک عام بات ہے۔ پاکستان کی 24.3 فیصد آبادی خطِ غربت سے نیچے رہتی ہے۔ یہی نہیں بلکہ ایک سے پانچ سال تک کے بچوں میں شرح اموات بھی خطرناک حد تک زیادہ ہیں۔
ایشیائی ترقیاتی بینک کے مطابق ایک ہزار بچوں میں سے67 بچے اپنے پانچ سال تک پہنچنے سے پہلے ہی اس دنیا سے چلے جاتے ہیں، جبکہ ہزار میں سے 140 بچے پیدائش کے دوران مر جاتے ہیں۔ پانچ سال تک بچوں میں وزن کی کمی عام بات ہے اور اس کی شرح 23.1 فی صد ہے۔
پاکستان میں حاملہ خواتین کی دوران زچگی اموات کی شرح پچھلے سالوں کی نسبت کم ہوئی ہے۔ اقوام متحدہ کے فنڈ برائے بہبود آبادی کی 2020 کی رپورٹ کے مطابق دس ہزار پاکستانی حاملہ خواتین میں سے 187 خواتین موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں جبکہ 07-2006 میں یہ شرح 276 خواتین کی تھی۔
لیکن اہم مسئلہ آج بھی جوں کا توں ہے کہ بلوچستان اور سندھ میں یہ شرح اب بھی بہت زیادہ ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق بلوچستان کی 298 حاملہ خواتین جبکہ سندھ کی 224 حاملہ خواتین ہر سال خراب صحت، ناکافی طبی سہولیات اور غذائی قلت کی وجہ سے مر جاتی ہیں جبکہ پنجاب میں یہ شرح 157 کی کم ترین سطح پر ہے۔ یقیناً پنجاب میں صورت حال کسی حد تک بہتر ہو گی۔
ڈاکٹر صدیقہ فیاض ماہر امراض نسواں ہیں۔ ماں اور بچے کی بنیادی صحت کے حوالے سے ان کا کہنا ہے کہ دوران حمل مناسب غذا کا نہ ملنا کسی خاتون کے جسم میں خون کی کمی کا سبب بن سکتا ہے۔ خواتین کا ہیموگلوبن 11 سے 13 گرام فی ڈیسی لٹر ہونا چاہیے۔ دیہی علاقوں، تھرپارکر اور کچی آبادیوں میں مناسب غذا نہ ملنے کے سبب حاملہ خواتین میں اکثر خون کی کمی پائی جاتی ہے اور ہیموگلوبن چھ تک گر جاتا ہے۔ مزید یہ کہ نارمل ڈیلیوری یا آپریشن کی صورت میں خون بہنے سے ماں کی زندگی کو شدید خطرات لاحق ہو جاتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ڈاکٹر صدیقہ کے مطابق ماں کمزور ہو تو نومولود کا پیدائشی وزن بھی کم ہوتا ہے۔ عام طور پر ایک نومولود بچے کا وزن ڈھائی کلو سے زیادہ ہونا چاہیے لیکن کم ہیموگلوبن والی ماؤں کے نومولود بچوں کا وزن دو کلو گرام سے کم ہی رہتا ہے۔ بعض اوقات ڈیڑھ کلو سے بھی کم ہو جاتا ہے اور ایسے بچوں کو نرسری میں انکیوبیٹر پر رکھنا پڑتا ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ ماؤں کو طاقت کی گولیاں بچے کی پیدائش سے پہلے اور اس کے بعد بھی دو سے تین ماہ تک استعمال کرنی چاہییں۔ حاملہ خواتین میں خون کی کمی کو ہنگامی طور پر دور کرنے کے لیے آئرن کے انجیکشن لگائے جاتے ہیں اور ایمرجنسی کی صورت میں خون بھی دیا جاتا ہے، تاکہ حاملہ خاتون کا ہیموگلوبن کم از کم دس گرام فی ڈیسی لٹر تک ہو جائے۔ فولک ایسڈ، فیرس سلفیٹ اور کیلشیم بہت سستی دوائیں ہیں اور کوئی بھی خاتون انہیں خرید سکتی ہے۔
ماہر امراضِ نسواں ڈاکٹر شیر شاہ سید نے ایک دوسرے نکتے کی طرف توجہ دلائی کہ حاملہ خواتین کی خراب صحت اور نومولود بچوں میں شرح اموات کی بنیادی وجوہات، انفیکشن، غذا، پانی اور نمکیات کی کمی ہیں۔ سب جانتے ہیں کہ ماں کی خراب صحت کا نقصان بچے کو ہوتا ہے اور اس کے نقصانات بہت دور تک جاتے ہیں۔ ڈاکٹر شیر شاہ نے زور دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں اگر اپنی خواتین کی صحت اور بچوں کی زندگیاں بچانی ہیں تو لامحالہ حکومت کو مڈ وائفری کے نظام کو مزید بہتر اور منظم کرنا ہوگا، جن سے مل کر خواتین اپنے بنیادی صحت کے مسائل حل کر سکیں اور مڈ وائف خواتین کی بنیادی صحت، انفیکشن سے بچنے اور غلط غذائی عادتوں کو بدل سکیں۔
ہم ایک بار پھر بھنبھور چلتے ہیں۔ اپنے گھر میں موجود بکری سے دودھ نکالتے ہوئے خدیجہ نے بتایا کہ ’تین سال پہلے پانچویں بیٹے عمر کے پیدائش پر بھی ڈاکٹر نے کہا تھا کہ جسم میں خون بہت کم ہے۔ عمر کی پیدائش پر ہی انہیں یورپی یونین اور سندھ رولر سپورٹ کے تحت چلنے والے پروگرام میں بکریاں ملیں۔ تاکہ وہ اور بچے دودھ پیں اور اپنی صحت کا خیال رکھیں۔‘ ان کا کہنا ہے کہ ’میں خود بھی دودھ پیتی ہوں اور بچوں کو بھی پلاتی ہوں۔ دودھ سے ہی دہی اور لسی بھی بنا لیتے ہیں۔‘
خدیجہ نے ہمیں تو بتا دیا۔ لیکن ان کی باتوں کی تصدیق ان کی خون کی رپورٹ نہیں کر رہی۔ ہم جانتے ہیں کہ ہمارے روایتی معاشرے میں اکثر و بیشتر خواتین کی پہلی ترجیح میاں اور بیٹوں کی غذا کا خیال رکھنا ہوتا ہے۔
ڈاکٹر خالد زبیری سندھ گورنمنٹ چلڈرن ہسپتال کی او پی ڈی کے سربراہ اور ماہر غذائیت ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’خون کی کمی، غذائی عادات، غذائی قلت اور خواتین کی اپنی صحت سے لاپروائی اس کی اہم وجوہات ہیں۔ دیہی علاقوں میں غربت، تعلیم کی عدم دستیابی ، بیروزگاری اور سماجی ڈھانچے میں عورت کا اپنا مقام اسے بہت پیچھے دھکیل دیتا ہے۔ ہمارے سماجی ماحول میں ماں خود بھوکی رہتی ہے، لیکن میاں اور بچوں کو جو دستیاب ہوتا ہے کھلا دیتی ہے۔‘
ڈاکٹر خالد کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’ہمارے ہاں ایک بڑا مسئلہ متوازن غذا کا انتخاب ہے۔ ہماری دیہات میں روٹی کے ساتھ جو ملتا ہے کھا لیتے ہیں۔ یہاں تک صرف پیاز سے روٹی کھانا عام بات ہے۔ ہمیں لوگوں کو سمجھانا پڑے گا۔ اگر لحمیات، یعنی گوشت غذا کا حصہ نہیں تو ہم اس کمی کو دور کرنے کے لیے مختلف دالیں اور اجناس ملا کر پکا سکتے ہیں۔ سبز یوں اور پھلیوں کا استعمال بھی بہتر رہے گا۔ عموماً ہمارے ہاں ایک دال پکائی جاتی ہے۔ لیکن اگر ہم مختلف دالوں، پھلیوں اور اجناس کو ملا کر اپنا کھانا تیار کریں تو ہماری غذائی قلت کو کسی حد تک دور کیا جاسکتا ہے۔ یعنی ہماری خواتین متوان غذا کی ضرورت کو سمجھ جائیں تو خون کی کمی اور دیگر صحت کے مسائل میں کمی لائی جا سکتی ہے۔‘
خدیجہ اپنی لگائی ہوئی سبزیوں سے بہت خوش ہیں۔ انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا کہ ’پہلی بار بیج اپنی پڑوسن سے لیے۔ یہ پھول گوبھی، پیاز، بیگن، ہرا دھنیہ پودینہ ٹماٹر سب گھر کے ساتھ کی مٹی میں لگا دیا تھا۔ اب دیکھیں یہ سب تیار ہے۔ پہلے سبزی کے لیے شہر جاتے تھے، جو قریب بھی نہیں۔ اب جب مرضی ہوتی ہے تو ڑ کر سالن پکا لیتے ہیں۔ اب آس پڑوس سے بھی لوگ آتے ہیں تو ان کو بھی دے دیتی ہوں۔ بلکہ بیچتی بھی ہوں۔ اب شہر تو دور ہے۔ لہذا مائیں اپنے بچوں کو بھیج کر مجھ سے خرید لیتی ہیں۔ تازہ فصل ہے۔ اور بغیر کسی کیمیائی کھاد کے۔
خدیجہ کے میاں احمد نے بتایا کہ ’کام نہیں ملتا تو اب میں خدیجہ کے ساتھ زمین کی تیاری میں مدد کر دیتا ہوں۔ یا سبزی مارکیٹ تک بیچ آتا ہوں۔ کرونا میں سب کی حالت خراب ہوئی۔ ہماری بھی ہے۔ ہمیں پہلے کون سا روزانہ کام مل جاتا تھا۔ اب تو صورت حال اور بھی خراب ہو گئی ہے۔ لیکن یہاں ہمارے علاقے میں زندگی ایسے ہی چلتی ہے۔‘