لوگوں کا عمومی خیال یہی لگتا ہے کہ یہ سب ٹارزن کا قصور ہے۔ 70 اور 80 کی دہائی میں گرمیوں کی چھٹیوں کی خاص بات ان پرانے ٹی وی شوز کی نشریات تھیں جن میں پیش کردہ جنگل کے بہت سے خطرات میں سے ایک لازمی خطرہ دلدل کا سامنا تھا، چاہے وہ 1960 کی دہائی کے Ron Ely کے مرکزی کردار والی قسطیں ہوں یا 1930 کی دہائی میں بننے والی بلیک اینڈ وائٹ فلمیں، جن میں بندر نما انسان (ape-man) کے کردار میں جانی وائسملر ہوا کرتے تھے۔
دلدل، جسے اپنے اندر دھنسا لینے والی ریت بھی کہتے ہیں، میری نسل کے لیے اچھی خاصی تشویش ناک چیز تھی۔ لنکاشائر کے شہر ویگن میں پرورش کے باوجود مجھے بہت خوف رہتا تھا کہ دلدل میں نہ دھنسا جاؤں اور کسے علم کہ نیچے کتنی گہرائی تک؟ کم سے کم بھی اتنی گہرائی کہ بے دردی سے موت کے منہ میں پہنچ جاؤں۔ یہاں تک کہ شاید زمین کے اندر وسط تک۔
دلدل کا قصہ محض ٹارزن تک محدود نہیں تھا۔ 60 سے 80 کی دہائی تک بہت سے ٹی وی شوز اور فلمیں تجسس برقرار رکھنے اور کہانی کو آگے بڑھانے کے لیے دلدل کو آلے کے طور پر استعمال کرتی رہیں۔ بیٹ مین سے ڈیوک آف ہیزرڈز اور دی انکریڈیبل ہلک سے لون رینجر تک جہاں کہیں کسی اچانک خطرے کا تاثر اجاگر کرنا ہوتا دلدل ایک بنا بنایا فارمولا تھا۔ یہاں تک کہ دلدلیں ’بلیک بیوٹی،‘ ’لٹل ہاؤس آن دا پریری‘ اور ’آئی لو لوسی‘ تک میں دلدل دکھائی گئی۔
ایک ہفتہ پہلے کسی خاص وجہ کے بغیر یونہی دلدل کے متعلق سوچتے ہوئے میں نے اچانک ایک ٹویٹ کر ڈالی کہ کوئی ایسا شخص ہے جو بچپن میں اس کے خوف میں مبتلا رہا ہو یا میں اکیلا ہی ڈرتا رہا (ایسا عین ممکن تھا کیونکہ مجھے برمودا ٹرائینگل میں بے ساختہ جھلسنے اور گم ہونے کا خوف بھی لاحق رہا ہے)۔
لیکن یہ محض میں ہی نہیں تھا۔ 14 سو سے زائد ایسے افراد کے جواب ملے جو دلدل کے جان لیوا خوف میں مبتلا رہے اور ان میں سے کچھ ایسے قصے بھی بیان کر رہے تھے جن سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ محض بے تکا خوف نہیں تھا۔ جی ہاں ’ربڑ کے لمبے جوتوں کے مٹی میں دھنسنے‘ کی بہت ساری کہانیاں گردش کرتی رہتی تھیں لیکن اس کے ساتھ ایسے قصے بھی کہ جب لوگ گیلی ریت میں گھٹنوں تک یا اس سے بھی زیادہ پھنس گئے۔
ڈیو لارنس کے ساتھ مل کر سٹیون بردرسٹون نے دو جلدوں پر مشتمل Scarred For Life نامی کتاب لکھی جو خاص طور پر 70 اور 80 کی دہائی میں فروغ پذیر پاپ کلچر کے سیاہ پہلوؤں کا جامع احاطہ کرتی ہے۔ انہوں نے مجھے خود بتایا کہ ’دلدل بلاشبہ ایک چیز تھی اور اس سے خوف زدہ ہونے کے لیے ضروری نہیں کہ آپ کا بچپن کسی جنگل، وائلڈ ویسٹ یا ریتلے ساحلوں پر گزرا ہو۔‘
بردرسٹون تسلیم کرتے ہیں کہ ’لیور پول کے جنوبی حصے موسلی ہلز کے مضافات میں جنم لینے اور پروان چڑھنے والے میرے جیسے آٹھ سالہ بچے کے لیے خود کو دلدل کے کثیف بھورے کیچڑ میں دم توڑتے ہوئے دیکھنے کے امکانات کسی حد تک کم تھے۔ حالانکہ میں اور میرے دوست ڈوڈیل سکول کے پلے گراونڈ میں باقاعدگی سے دلدلی ریت پر کھیلا کرتے تھے جہاں ہم میں سے ایک پیٹ کے بل ایسے لیٹ جاتا جیسے غرق ہو کر مرنے والا ہو جبکہ باقی ہم لوگ پریشانی کے عالم میں اس کے لیے فرضی درخت کی شاخیں بنے کھڑے ہوتے تاکہ وہ سہارا لے سکے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
چاہے میں ویگن میں ہوں اور بردرسٹون لیور پول میں، لیکن یہ بالکل واضح ہے کہ ہمارے لیے دلدل کے خیال میں سنسنی کہاں سے پیدا ہوئی۔ وہ کہتے ہیں یہ ہمارے ذہنوں میں تسلسل سے ٹھونسا گیا تھا۔ 60 کی دہائی میں بننے والی ہر 35 فلموں میں سے ایک ضرور ایسی ہوتی جس میں دلدل کے مناظر دکھائے جاتے۔ ران ایلی کی ٹارزن سیریز کی ہر دوسری قسط دلدل کی خطرناک صورت حال کو دکھاتی نظر آتی تھی۔ حد تو یہ ہے کہ پارکر برادرز نے 1989 میں دلدل بورڈ گیم تک ریلیز کر دی۔ اگر اس سے تمام واقعہ اپنے نکتۂ عروج تک نہیں پہنچتا، تو پھر کسی چیز سے نہیں پہنچے گا۔ بہرحال دلدل کا خوف بھی اپنے عہد کی طرح عارضی ثابت ہوا۔ آج کل کے بچے شاید اس بارے میں زیادہ فکرمند ہوتے ہیں کہ انہیں انسٹا گرام پوسٹ پر محض ایک ہی ’لائیک‘ کیوں ملا۔‘
ٹھیک ہے دادا جی۔ ٹھیک ہے، ہم دلدلی ریت پر کھیلے لیکن ٹوئٹر پر اپنے سوال کے جواب میں موصول ہونے والے چند پیغامات سے ثابت ہوا کہ یہ سب اس وقت تک موج مستی اور کھیل ہے جب تک کسی کے مینڈک کی آنکھوں والے لمبے جوتے کھو نہیں جاتے۔
@FroggieJess کو ہی لے لیجیے: ’میں اپنی ماں اور چھوٹے بھائی کے ساتھ تھی۔ ہم نے قریبی ساحل سمندر پر اپنے خیمے سے ہولی آئی لینڈ تک ایک طویل چہل قدمی کی اور ہم گھٹنوں تک دھنستے چلے جا رہے تھے۔ ہم پہلے دلدل کا مذاق اڑایا کرتے تھے لیکن سچی بات یہ ہے کہ اب اس کی نسبت خوف کہیں زیادہ تھا کہ ابھی پانی کا ریلا آئے گا اور ہمیں ساتھ بہا لے جائے گا۔ ہم ہولی آئی لینڈ پہنچے اور اس پہ ہر طرف بورڈ لگے تھے کہ ’دلدل اور ان پھٹے بموں کے سبب ساحل پر جانے سے گریز کریں۔‘ ہمیں یہ بھی پتہ چلا کہ جزیرے پر حملہ آوروں کی ایک پوری فوج بظاہر دلدل کا لقمہ بن گئی۔
یا @KDonnelly79 کی جانب سے: ’آکسفورڈ میں ہیڈنگٹن کے مقام پر واقع پرانے چرچل ہسپتال کے قریب دلدل کا ایک زمینی ٹکڑا تھا۔ یہ ایک طرح سے ’خستہ حال‘ جگہ تھی جس میں لکڑی کے ٹکڑے پھینکے جاتے تو نگل جاتی تھی جیسے بھوکی ہو۔ میں اس جگہ سے ڈرتا تھا لیکن پھر بھی وہاں جانا ترک نہیں کیا۔‘
یا @HamprtonRDS سے: ’میرے دوستوں اور میں نے سرے میں واقع سائلنٹ پول کی سیر کی۔ جس وجہ سے اسے سائلنٹ پول کا نام دیا گیا ہے اس اصل جھیل کے نچلی جانب ایک چھلکتی ہوئی جھیل موسم سرما کے مہینوں میں بہتی ہے جب قریبی پہاڑیوں سے کافی مقدار میں پانی آتا ہے۔ ہمیں علم نہیں تھا کہ گرمیوں میں یہ خشک ہو کر ایک ٹھوس فرش کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ گھومتے پھرتے ہم میں سے کچھ لوگ لاپروائی سے اس خشک زمین پر چلے گئے یہاں تک کہ کولہوں تک گاڑھی مٹی میں دھنس گئے جو بالکل دلدل کی طرح تھی۔ جب ہنسی مذاق مصیبت کی شکل اختیار کر گیا تو ہمارے کچھ دوستوں نے انسانی ہاتھوں کی زنجیر بنائی اور ہم دونوں کو اندر سے نکالا۔‘
ایسے ہی کئی میسجز جن میں چکنی، نرم، دلدلی زمین میں پھنسنے کے واقعات بیان کیے گئے۔ کئی لوگوں نے ساحل کی پرفریب ریت سے محتاط رہنے کا مشورہ دیا خاص طور پر مورکم بے نامی ساحل کے بارے میں جہاں کتنے ہی برسوں تک لوگوں کی راہنمائی کے لیے گائیڈ موجود رہے تاکہ وہ محفوظ طریقے سے خلیج پار کر سکیں۔
تو اس کا مطلب ہوا دلدل محض پرانے ٹی وی ڈراموں اور فلموں کی کہانی میں دلچسپی کا عنصر پیدا کرنے کی چیز نہیں بلکہ ایک حقیقت ہے؟
اس معاملے کی ماہر ڈاکٹر وینیسا بینکس کا جواب اثبات میں ہے، جو برطانوی ارضیاتی تحقیق کے ادارے کی جانب سے ارضیاتی خطروں سے بچاؤ کی ٹیم کی رہنما ہیں۔
وہ مجھے بتاتی ہیں کہ ’دلدل ایک غیر رسمی اصطلاح ہے جبکہ ارضیاتی حلقوں میں اسے سرکتی ریت (running sand) کہتے ہیں۔ اس کی سائنس بہت سادہ ہے کہ کچھ چٹانیں ریت کی ڈھیلی ڈھالی تہوں پر مشتمل ہو سکتی ہیں، ریتلی تہیں جو اپنے اندر سے گزرتے پانی کی بدولت مائع بن سکتی ہیں۔ ایسی ریت ’سرک‘ سکتی ہے جو عمارتوں پر اثر انداز ہوتے ہوئے ان کی دیواریں گرا کر انہیں نقصان پہنچا سکتی ہے۔‘
ڈاکٹر وضاحت کرتے ہوئے کہتی ہیں یہ مثال کے طور پر ایسی صورت میں وقوع پذیر ہو سکتا ہے جیسے زیر زمین چشمہ بہتا ہے یا زمین کے نیچے موجود ریت تک سمندری پانی پہنچتا اور وہیں سوکھ جاتا ہے۔ یہ زلزلوں یا صنعتی سرگرمی کی وجہ سے بھی پیدا ہو سکتا ہے۔
وہ کہتی ہیں ’جب زلزلوں یا مشینوں کے ارتعاش سے سخت زمین ہلتی ہے تو اس کے نتیجے میں ڈھیلی ڈھالی تہوں، زمین پر یا سطح زمین کے قریب سیر شدہ یا سیراب ہونے کے قریب ریت کی گرفت کمزور پڑ جاتی ہے جس کے لیے پگھلاہٹ Liquefaction کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے۔ گرفت کی یہ کمزوری مٹی کو لیس دار رطوبت کی طرح بنا دیتی ہے۔‘
وہ افراد جو اپنے بچپن میں دلدل سے خوفزدہ تھے اور اب سوچتے ہیں کہ کسی بھی جگہ پر دلدل کے اچانک نظر آنے کا خوف بلا جواز تھا، انہیں چاہیے کہ دوبارہ غور کریں۔ بینکس کے مطابق زمین کے اندر بہتا پانی یا اس کے نیچے ریت جو ریتلے ذرات کو تیرنے پر مجبور کرتی ہے اور بالآخر ایک مائع شکل اختیار کر لیتی ہے وہ ایک عارضی قسم کی چیز ہے جو بہت تیزی سے اپنی سمت تبدیل کر سکتی ہے۔
تاہم بینکس کے بقول ایسا ’شاذ و نادر‘ ہی ہوتا ہے کہ سرکتی ریت اتنی توانا ہو کہ ایک جوان بچے کو اپنے اندر کھینچ کر اس کی سٹی گم کر دے۔ البتہ وہ اپنی بات میں اضافہ کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’لوگ اپنے جوتے گم کر سکتے ہیں۔‘
بہرحال ’شاذ و نادر‘ کا مطلب یہ نہیں کہ ایسا کبھی ہوتا ہی نہیں۔ پھر اگر ہم خود کو خطرناک دلدل میں دھنسا ہوا پائیں تو ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ فطری طور پر یہ سوال پوچھنے کے لیے جنگل کے تجربے سے آشنا اور فطرت کے نباض رے میئرز مناسب ترین شخص ہیں جو انسانی آبادیوں سے دور رہ کر جینے کے لیے معروف اور ایسے انسان ہیں کہ اگر آپ نے خطرناک دلدلی زمین پر قدم رکھا تو وہ آپ کے طرفدار ہوں گے۔
پہلی بار جب میں نے رے سے بات کرنے کی کوشش کی تو سگنلز کا مسئلہ ہوا اور میرا رابطہ منقطع ہو گیا۔ بالآخر جب رابطہ ہو گیا تو وہ چلاتے ہوئے بولے ’ڈیوڈ کیا آپ پھنس چکے ہیں؟ کیا آپ کو مدد کی ضرورت ہے؟ میں فکرمند ہو گیا جب آپ نے کہا کہ آپ دلدل سے باہر نکلنے کے متعلق بات کرنا چاہتے ہیں اور پھر لائن کٹ گئی۔‘
جب یہ بات اچھی طرح واضح ہو گئی کہ مجھے زندگی بچانے کے لیے فوری نوعیت کا تعاون درکار نہیں بلکہ یہ ایک عمومی سوال تھا کہ اگر ہم سے کوئی دلدل میں پھنس جائے تو اس صورت حال سے کیسے نبٹے، میئرز ایک زوردار قہقہہ لگاتے ہوئے کہتے ہیں ’یہ ہمیشہ ٹی وی پر دکھایا جاتا تھا، کیا ایسا نہیں ؟ The Virginian جیسی ڈراما سیریز میں ایسی چیزیں ہوتی تھیں۔ ہمیشہ بالکل اچانک اور ڈرامائی انداز میں۔ ایک لمحہ پہلے انہوں نے ریتیلی جگہ پر قدم رکھا اور اگلے ہی لمحے وہ بے چینی سے ہاتھوں کے اشارے کرتے اس میں غالب ہو رہے تھے۔‘
سو اس سے بچنے کے لیے ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ میئرز کہتے ہیں پہلی چیز تو یہ ہے کہ ایسا کام کرو ہی نہیں۔ ان کے الفاظ میں ’دلدل کی کلاسیکی مثالیں دیکھنے کے لیے آپ کو اس حد تک جانا ہی نہیں چاہیے۔ خاص طور پر مورکیمبے خلیج۔ آپ کو ایسی ریت سے واسطہ پڑتا ہے جس میں یہ عجیب و غریب اثرات ہیں کہ وہ مائع کی شکل اختیار کر لیتی ہے اور جیسے ہی آپ اس پر پاؤں دھرتے ہیں آپ کے پاؤں پھنس جاتے ہیں۔‘
’صاف ظاہر ہے لوگ پاؤں نکالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن ایسا کرنے کے لیے آپ کو اپنا وزن اپنے دوسرے پاؤں پر ڈالنا پڑتا ہے، اور اس کا فوری نتیجہ یہ کہ جیسے ہی آپ ایک پاؤں باہر نکالنے کی کوشش کرتے ہیں دوسرا مزید اندر دھکیل رہے ہوتے ہیں اور اس طرح آپ خود کو اس مقام تک نیچے سے نیچے دھکیلتے چلے جاتے ہیں جہاں سے آپ باہر نہیں نکل سکتے۔ ہاں یہ ممکن ہے کہ آپ اپنے ٹخنوں یا اپنی کمر سے زیادہ نیچے نہ جائیں لیکن ممکن ہے آپ ایسی جگہ پر پھنسے ہوں جہاں سمندری لہر آئے اور آپ کو ساتھ بہا لے جائے۔ یا ممکن ہے آپ شدید ٹھنڈک hypothermia یا باہر نکلنے کی کوشش میں تھکاوٹ کا شکار ہو جائیں۔‘
یقیناً میئرز کو اس کا براہ راست تجربہ ہے۔ ان کا بھی ایک ایسا ہی قصہ ہے جب وہ ایک کشتی پر دور دراز کسی دریا میں تھے لیکن ساحل تک پہنچنا اس لیے مشکل ہو گیا کہ کنارے پر موجود وسیع مٹی میں گِھر کے رہ گئے۔ وہ کہتے ہیں ’مجھے کشتی کا چپو مٹی میں پھینکنا پڑا اور اس پر پاؤں رکھنا پڑا اور اس طرح خود کو بتدریج ساحل تک لانا پڑا۔‘
ایسا لگتا ہے جیسے زمین میں دھنسنے، ڈوبنے اور hypothermia کے خطرات کی بدتر صورت حال میں کچھ کسر رہ گئی ہو، میئرز کہتے ہیں ’اس بات پر انحصار کرتے ہوئے کہ آپ کس جگہ پر ہیں ایسے حالات میں ریچھ یا شیر کی خوراک بننے کا اضافی خطرہ بھی پیدا ہو جاتا ہے۔ بعض جانور اپنے شکار کو ایسے حالات میں دھکیل دیتے ہیں جہاں وہ مٹی یا دلدل میں جا پھنستا ہے۔‘
میئرز تجویز پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جب دلدلی علاقے میں جاؤ تو احتیاط سے کام لیتے ہوئے جیسے ہی ایک پاؤں دھنسنے لگے فوراً واپس پلٹ آؤ۔ لیکن فرض کریں کہ ہم گئے اور خود کو پھنسا بیٹھے تو ہمیں پھر کیا کرنا چاہیے؟
میئرز اپنی بات دہراتے ہیں کہ ’اپنا پاؤں باہر نکالنے کی کوشش نہ کرو۔ کیوں کہ جو پاؤں باہر ہے آپ اس طرح اسے بھی پھنسا بیٹھیں گے۔ آپ کو فوراً لیٹ جانا چاہیے تاکہ آپ کا وزن زمین پر تقسیم ہو جائے اور آپ غرق ہونے سے بچ جائیں۔ زیادہ بہتر ہے کہ کمر کے بل لیٹ جائیں۔ اگر آپ ٹانگوں کے بل پر سیدھا لیٹیں گے تو یہ بہت تکلیف دہ ہو گا۔ پیچھے کی جانب کمر کے سہارے بیٹھ جائیں پھر شاید آپ اپنی ٹانگیں باہر نکالنے کے قابل ہوں، انہیں مزید نیچے مت دھکیلئیے بلکہ دائیں بائیں گھماتے ہوئے نکالئیے۔ اگر پھر بھی نہ ہو سکے تو شاید کوئی اور رینگتا ہوا آئے اور انہیں باہر نکالے۔‘
میئرز سختی سے کہتے ہیں کہ سب سے زیادہ اہم چیز یہ کہ پریشان مت ہوں۔ وہ کہتے ہیں ’میں جانتا ہوں یہ عام سی بات لگتی ہے لیکن پرسکون رہیں۔ لوگ اگر زیادہ ہاتھ پاؤں ماریں تو ہمیشہ اپنی مشکل بڑھا لیتے ہیں۔ اگر کوئی شخص پھنس جاتا ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ اگر میں نے بلا سوچے سمجھے فوراً کوشش کی تو جلدی نکل آؤں گا تو اس طرح وہ مزید پھنسے گا۔ سو ایسی صورت حال جہاں بقا کا معاملہ درپیش ہو ہم لوگوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں کہ وہ رکیں، سوچیں، مشاہدہ کریں اور منصوبہ بندی ترتیب دیں۔ دلدل کے بارے میں بہترین حکمت عملی یہی ہے کہ اس سے بالکل ہی دور رہیں۔ اگر آپ اپنا قدم رکھیں اور یہ زمین میں دھنسنے لگے تو فوراً واپس کھینچ لیں۔ دوبارہ اسی ٹھوس زمین پر پہنچیں جہاں آپ پہلے کھڑے تھے اور اپنے اگلے قدم کے بارے میں سوچیں۔ قوت فیصلہ بہادری کا نہایت لازمی جزو ہے۔ فطرت مجھ سے زیادہ طاقتور ہے اور میں اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے اس سے لڑائی کی کوشش نہیں کرتا۔‘
سو ہم کسی حد تک جانتے ہیں کہ دلدل کیا ہے، ہم کسی حد تک جانتے ہیں کہ اس سے باہر کیسے نکلنا ہے اور کسی حد تک ہمیں معلوم ہے کہ اس کا خوف کیسے ہماری زندگیوں میں شامل ہوا۔ لیکن دلدل کی کہانی کا ضمیمہ ابھی رہتا ہے جو بے نام بلائنڈ بوائے Blindboy کی پوڈ کاسٹ کی حالیہ قسط سے ہم نے لیا ہے، جنہوں نے دلدل میں گہرا غوطہ لگایا اور ایک دلچسپ نظریہ برآمد کر لائے۔
وہ کہتے ہیں ’دلدل میرے بچپن کا ایک خصوصی جزو تھا۔ یہ ایک حقیقی چیز تھی جس کے متعلق مجھے محتاط رہنے کی نصیحت کی گئی تھی۔ آج یہ ایک فرسودہ موضوع بن چکا ہے لیکن میں نے بچپن میں کبھی دلدل نہیں دیکھی۔ دلدل اہم نہیں ہے۔ میں دلدل کے متعلق نہیں سوچتا، مجھے نہیں خیال آتا کہ میں اس کا کبھی سامنا کروں گا۔ سو میں نے اپنے بچپن میں جو بھی کارٹون دیکھا اس میں یہ کیوں شامل ہوتی تھی؟
وہ اسی کی دہائی کے ٹرانسفارمرز، انسپیکٹر گیجٹ، ٹین ایج موٹنٹ ننجا ٹرٹلز جیسے کارٹونوں کی مثال دیتے ہیں جن سب میں کہانی کا مرکزی واقعہ دلدل ہوتا تھا اور وہ قیاس لڑاتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان ڈراموں کے بنانے والے مذکورہ بالا ٹارزن اور دا لون رینجرز جیسے ٹی وی ڈراموں سے مہمیز لیتے تھے جو انہوں نے اپنے بچپن میں دیکھے۔ لیکن ان پرانے ڈراموں کے بنانے والے سینما کے ابتدائی دور یعنی 1920 کی دہائی میں بننے والی فلموں سے متاثر ہو کر بناتے تھے جن میں دلدل کہانی کا مرکزی حصہ ہوا کرتی تھی۔
ان سنسنی خیز فلموں اور ڈراموں میں دلدل کے حصہ بننے کی ایک وجہ بہت واضح ہے کہ فلم سیٹ پر اس کا چربہ کرنا بہت آسان ہے۔ لیکن 1920 کی دہائی میں ابتدائی طور دلدل کو استعمال کرنے والے فلم سازوں کے ذہن میں یہ بات کہاں سے آئی؟ بلائنڈ بوائے کہتے ہیں اس کی جڑیں انیسویں صدی کے وسطی دور میں ہیں جب کیلیفورنیا میں نیا نیا سونا دریافت ہوا تھا کیونکہ تب دلدل ایک بالکل حقیقی خطرہ تھا۔
وہ کہتے ہیں ’کیلی فورنیا میں بعض مقامات پر بہت زیادہ بارشوں کی وجہ سے پہاڑی نالے دریاؤں کا روپ دھار لیتے تھے اور پہاڑوں سے مٹی نیچے دریا میں بہا کر لے جاتے جو مختلف جگہوں پر اکٹھی ہو کر دلدل کی شکل اختیار کر لیتی۔ ایک عام شخص جو دریاؤں میں سونا تلاش کرنا چاہتا اس کے لیے دلدل ایک انجانی خوفناک چیز بن گئی جو آپ کو کھینچ کر زیر زمین لے جا سکتی تھی اور اس طرح دلدل کی دیومالا لوک کہانیوں کا حصہ بن گئی۔‘
مگر بات یہیں ختم نہیں ہوئی۔ بلائنڈ بوائے کہتے ہیں ایک حقیقی خطرے کے ساتھ ساتھ دلدل استعارے کا روپ بھی اختیار کر گئی۔ لالچ اور مادیت پرستی کا استعارہ۔ کیلیفورنیا کی سرزمین سے سونا نکالنے کی کوشش کرو اور بدلے میں زمین آپ کو دلدل کی صورت میں سزا دے گی۔
بلائنڈ بوائے کہتے ہیں ’پھر یہ ہالی وڈ کی فلم سازی کا داستانوی عنصر بنی۔ جب بھی نظر کو خیرہ کرنے والے ایسے خزانے کا ذکر آتا جس پر بے رحمی سے ہاتھ صاف کیا جا رہا ہو، اور ہالی وڈ کے لیے مال و دولت ایسی چیز ہے جو اپنے ساتھ شہرت بھی لے کر آتی ہے، تو دلدل ایسی علامت کے طور پر نمودار ہوتی جو آپ کو واپس خاک میں ملاتی۔‘
وہ کہتے ہیں یہی وجہ ہے کہ فلم سازوں کی کئی نسلیں دلدل کو استعمال کرتی رہی اور اسی لیے ہمارے ذہنوں میں اس کا خوف اتنا گہرا اتر چکا ہے۔ ہماری حد سے بڑھی ہوئی لالچ کی سزا دلدل ہے۔
یہ ایک دلچسپ نظریہ ہے۔ لیکن ایسے لوگوں کی اکثریت جو 70 اور 80 کی دہائی میں پروان چڑھے اور جو لوگ ناہموار زمین یا دلدلی کھیت یا آبی ساحل پر قدم رکھنے سے پہلے سوچتے تھے کہ اگر انہوں نے ایسا کیا تو کہیں اندر دھنستے ہوئے موت کے منہ میں نہ پہنچ جائیں، ان سب کا عمومی خیال آج بھی یہی ہے کہ یہ سب ٹارزن کی غلطی ہے۔
© The Independent