ایران کی سرکاری خبر رساں ایجنسی آئی آر این اے نے جمعرات کو وزیر خارجہ عباس عراقچی کے حوالے سے بتایا کہ ایران نے عمان کے ذریعے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اُس خط کا جواب بھیج دیا ہے جس میں ٹرمپ نے تہران سے ایک نیا جوہری معاہدے کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔
آئی آر این اے نے عراقچی کے حوالے سے کہا: ’ہماری پالیسی اب بھی وہی ہے کہ ہم زیادہ سے زیادہ دباؤ اور فوجی دھمکیوں کے تحت براہ راست مذاکرات میں شامل نہیں ہوں گے، تاہم جیسا کہ ماضی میں بھی ہوتا رہا ہے، بالواسطہ مذاکرات جاری رہ سکتے ہیں۔‘
اس سے قبل جمعرات کو، ایران کے سپریم لیڈر کے مشیر کمال خرازی نے کہا کہ تہران نے امریکہ کے ساتھ تنازعات کے حل کے تمام دروازے بند نہیں کیے اور وہ واشنگٹن کے ساتھ بالواسطہ مذاکرات کے لیے تیار ہے۔
وزیر خارجہ عراقچی نے ارنا سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ڈانلڈ ٹرمپ کے خط کا جواب 26 مارچ کو مناسب انداز میں عمان کے ذریعے امریکہ کے حوالے کردیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حددرجہ دباؤ اور فوجی دھونس دھمکیوں کے پیش نظر ہماری پالیسی بدستور بالواسطہ مذاکرات پر مبنی ہے۔
سید عباس عراقچی نے کہا کہ بالواسطہ مذاکرات سابق صدر روحانی اور رئیسی کے دور میں بھی انجام پاچکے ہیں۔
12 مارچ کو امریکی صدر کا مراسلہ متحدہ عرب امارات کے وزیر مشیر برائے امور خارجہ انور قرقاش کے ذریعے تہران کے حوالے کیا گیا تھا۔
ٹرمپ نے اس قبل دعوی کیا تھا کہ یہ خط رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کے نام لکھا گیا ہے جس میں ان کے بقول ایران کو مذاکرات اور جے سی پی او سے مختلف معاہدے کے حصول کی پیش کش کی گئی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اب تک تہران نے ٹرمپ کی دھمکی کو مسترد کر دیا ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ اگر ایران معاہدہ نہیں کرتا تو اسے فوجی نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔ سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے اس پیغام کو ’فریب پر مبنی‘ قرار دیا، اور عراقچی نے کہا کہ اس وقت تک مذاکرات ناممکن ہیں جب تک واشنگٹن اپنی ’زیادہ سے زیادہ دباؤ‘ کی پالیسی ترک نہیں کر دیتا۔
سرکاری میڈیا کے مطابق خرازی نے کہا: ’اسلامی جمہوریہ نے تمام دروازے بند نہیں کیے۔ وہ امریکہ کے ساتھ بالواسطہ مذاکرات کے لیے تیار ہے تاکہ دوسرے فریق کا اندازہ لگایا جا سکے، اپنے شرائط بیان کیے جا سکیں اور مناسب فیصلہ کیا جا سکے۔‘
عراقچی نے جمعرات کو کہا: ’ہمارا جواب ایک خط پر مشتمل ہے جس میں ہم نے موجودہ صورت حال اور مسٹر ٹرمپ کے خط کے بارے میں اپنے خیالات کی وضاحت کی ہے۔‘
ٹرمپ نے اپنے 2017 سے 2021 کے پہلے صدارتی دور میں امریکہ کو 2015 کے اس جوہری معاہدے سے نکال لیا تھا جو ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان ہوا تھا اور جس میں تہران کی جوہری سرگرمیوں پر سخت پابندیاں عائد کی گئی تھیں، جس کے بدلے میں اقتصادی پابندیاں ہٹائی گئی تھیں۔
2018 میں ٹرمپ کے معاہدے سے نکلنے اور امریکی پابندیاں دوبارہ عائد ہونے کے بعد، ایران نے ان حدود کی خلاف ورزی کی اور اب وہ یورینیم کی افزودگی کے اپنے پروگرام میں ان حدود سے کہیں آگے بڑھ چکا ہے۔
مغربی طاقتیں ایران پر الزام لگاتی ہیں کہ وہ خفیہ طور پر جوہری ہتھیار بنانے کی صلاحیت حاصل کرنا چاہتا ہے، کیونکہ وہ یورینیم کو اس سطح تک افزودہ کر رہا ہے جو صرف شہری ایٹمی توانائی کے پروگرام کے لیے قابل جواز نہیں۔
تہران کا کہنا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام مکمل طور پر شہری توانائی کے مقاصد کے لیے ہے۔