ہدایت کار کندن شاہ کی پریشانی بڑھتی جا رہی تھی۔ ہمیشہ کی طرح انہوں نے روایتی موضوعات سے ہٹ کر فلم ’کبھی ہاں کبھی ناں‘ بنائی تھی لیکن اب یہ فلم ڈبوں میں بند پڑی تھی اور کوئی خریدار نہیں تھا، جو ان کی اس فلم کو سنیما گھروں میں لگانے پر تیار ہو۔
انہیں حیرانی بھی ہوتی کہ ان کی فلم کا ہیرو شاہ رخ خان اس وقت شہرت اور کامیابی کی راہ پر گامزن تھا، مگر اس کے باوجود ان کی فلم جوں کی توں پڑی تھی۔
کندن شاہ نے جب 1991میں شاہ رخ خان کو اس فلم کے لیے منتخب کیا تھا تو وہ اس وقت ’راجو بن گیا جنٹلمین‘ اور ’دیوانہ‘ میں کام کر رہے تھے۔ شاہ رخ خان کی کوئی بھی فلم ریلیز نہیں ہوئی تھی۔ اسی لیے کندن شاہ کو روایتی ہیروز والے ان کے ناز نخرے نہیں اٹھانے پڑے۔ ایک کروڑ 40 لاکھ روپے کے قریب فلم کا بجٹ تھا یعنی یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ کم بجٹ والی فلم تھی جس کی سٹار کاسٹ بھی کوئی بہت بڑی نہیں تھی۔ شاہ رخ خان کے علاوہ فلم میں نصیر الدین شاہ، سچترا کرشنا مورتی، دیپک تجوری اور اس زمانے میں اداکاری میں نام کمانے کی تمنا لیے ’لگان‘ کے ہدایت کار اشوتوش گاوائیکر شامل تھے۔ شاہ رخ خان کو صرف 25 ہزار روپے میں سائن کیا گیا تھا، فلم طے شدہ وقت میں مکمل بھی کرلی گئی تھی۔
اگلے دو برسوں کے دوران شاہ رخ خان کی پہلی ’دیوانہ‘ ریلیز ہوئی تو اس نے سنیما گھروں میں دھوم مچا دی۔ ایک صرف ’دیوانہ‘ ہی نہیں، ’چمتکار،‘ ’راجو بن گیا جنٹلمین،‘ ’دل آشنا ہے،‘ ’بازی گر‘ اور ’ڈر‘ کے بعد تو جیسے بھارتی فلموں کے نئے سپر سٹار کا ظہور ہوا۔
کندن شاہ جب شاہ رخ خان کی اس کامیابی کو دیکھتے تو بے پناہ خوشی محسوس کرتے۔ ان کا ہیرو اب فلمی افق پر چمکتا دمکتا ستارہ بن چکا تھا لیکن ان پر اور ’کبھی ہاں کبھی ناں‘ پر قسمت کی دیوی مہربان نہیں ہو رہی تھی۔
اِدھرکئی فلم ساز منہ مانگے معاوضے میں شاہ رخ خان کو ’ہاٹ کیک‘ سمجھ کر اپنی فلم میں شامل کر رہے تھے لیکن اس قدر کامیابی اور کامرانی کے باوجود کوئی ڈسٹری بیوٹر ’کبھی ہاں کبھی ناں‘ کو خرید کر سنیما گھروں میں سجانے پر آمادہ ہی نہیں تھا۔ ایورگرین کامیڈی فلم ’جانے بھی دو یارو‘ کے ہدایت کار کندن شاہ کے لیے یہ صورت حال خاصی مایوس کن تھی۔ فلم کو مکمل ہوئے ڈیڑھ دو سال کا عرصہ بیت گیا تھا اور بعض اوقات تو یہ سوچ کر ان کا دل بیٹھ جاتا کہ کیا ان کی فلم کہیں ہمیشہ کے لیے ڈبہ بند تو نہیں ہو جائے گی۔
’کبھی ہاں کبھی ناں‘ کی کہانی ایک ناکام محبوب کی تھی جو دل کا حال محبوبہ کے سامنے کہہ ہی نہیں پاتا ۔ شاہ رخ خان فلم کے ہیرو ہوتے ہوئے بھی ہیروئن کے دل میں اپنے پیار کا دیپ جلا نہیں پاتے۔ رقابت کی آگ میں تپ کر وہ پوری فلم میں سچترا کرشنا مورتی کے حصول کے لیے دیپک تجوری کی راہ میں ننھی منی رکاوٹیں کھڑی ہی کرتے رہتے ہیں۔ بلکہ وہ فلم کے کلائمکس تک میں ’انگوٹھی‘ جوتے تلے چھپا کر یہ کوشش کرتے ہیں کہ ہیروئن سچترا کرشنا مورتی کی شادی سائیڈ ہیرو دیپک تجوری سے نہ ہو۔
کچھ اسی نوعیت کے کردار شاہ رخ خان ’بازی گر‘ اور ’ڈر‘ میں کر چکے تھے لیکن کندن شاہ کو یقین تھا کہ ان دونوں فلموں کے برعکس شاہ رخ خان نے ’کبھی ہاں کبھی ناں‘ میں ایک گلاس توڑے بغیر ناکام اور نامراد عاشق کا کردار خوب ادا کیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کندن شاہ نے اس فلم کے تین مختلف کلائمکس شوٹ کیے تھے لیکن پھر باہمی رضا مندی سے وہی کلائمکس فائنل ہوا، جو فلم میں دکھایا گیا۔
کندن شاہ نے ’کبھی ہاں کبھی ناں‘ کی تشہیر بھی کی تاکہ کوئی ڈسٹری بیوٹر مل جائے لیکن ان کی یہ کوشش بھی کامیاب نہ ہو سکی۔ ادھر شاہ رخ خان دو تین فلموں کی زبردست کامیابی کے باوجود ’کبھی ہاں کبھی ناں‘ کو بھولے نہیں تھے۔ انہیں بھی بے چینی سے انتظار تھا کہ کب کندن شاہ ان کی اس فلم کو پردہ سیمیں کی زینت بناتے ہیں اور جب ان پر یہ عقدہ کھلا کہ ’کبھی ہاں کبھی ناں‘ کے لیے کندن شاہ کو کوئی تقسیم کار نہیں مل رہا تو انہوں نے اس مرحلے پر اب اپنے تعلقات استعمال کرنا شروع کر دیے۔
شاہ رخ خان نے میوزک کمپنی ’وینس‘ کے وجے گیلانی سے رابطہ کیا اور انہیں اس بات پر رضا مند کر لیا کہ شاہ رخ خان اور وہ مل کر ’کبھی ہاں کبھی ناں‘ کو بمبئی میں ریلیز کرنے کے لیے خرید لیں۔ وجے گیلانی کو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہوا، کیونکہ وہ جانتے تھے کہ اس وقت ہر جانب شاہ رخ خان کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے، ’کبھی ہاں کبھی ناں‘ ان کے لیے گھاٹے کا سودا ثابت نہیں ہو گی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کندن شاہ کو جب معلوم ہوا ان کی فلم کا خریدار فلم کا ہیرو ہی ہے اور اب ’کبھی ہاں کبھی ناں‘ ریلیز ہونے جا رہی ہے تو انہوں نے سکھ کا سانس لیا اور پھر وہ دن بھی آیا جب یہ فلم 25 فروری 1994 کو نمائش کے لیے پیش ہوئی۔ اعلان کیا گیا کہ شاہ رخ خان بمبئی کے ایک سینیما گھر میں فلم ٹکٹ پر آٹو گراف بھی دیں گے۔ بس پھر کیا تھا، پرستاروں کا ایک طوفان تھا جو شاہ رخ خان کی ایک جھلک پانے کے لیے سنیما گھر پہنچ گیا۔
فلم نے چند ہی دنوں میں شہرت کے ساتھ ساتھ کاروبار بھی ایسا کیا کہ اب بھارت کے دیگر شہروں کے تقسیم کار بھی اسے خرید کر اپنے اپنے سنیما گھروں میں لگانے پر مجبور ہو گئے۔ اب ہر جگہ ’کبھی ہاں کبھی ناں‘ کا ڈنکا بج رہا تھا۔ نغمہ نگار مجروح سلطان پوری کے گیتوں پرموسیقار جتن للت نے ایسے گانے ترتیب دیے کہ فلم اور زیادہ مقبول ہوتی چلی گئی۔ اس کا اندازہ یوں لگایا جا سکتا ہے کہ ’کبھی ہاں کبھی ناں‘ کے کم و بیش آٹھ لاکھ البم فروخت ہوئے۔ نمائش کے پہلے ہفتے میں فلم 96 لاکھ روپے کی کمائی کر چکی تھی اور پسندیدگی کا گراف بڑھتا ہی جا رہا تھا۔
فلم کے کلائمکس میں جوہی چاؤلہ کی انٹری نے جیسے مزید رنگ بھر دیے کیونکہ اس سے قبل ’ڈر‘ میں شاہ رخ خان جوہی چاؤلہ کا قرب اور پیار حاصل کرنے کے لیے آگ کا دریا پار کرکے بھی ناکام رہے تھے۔ اب ’کبھی ہاں کبھی ناں‘ میں شاہ رخ خان کو جوہی چاؤلہ کے ساتھ دیکھ کر فلم بینوں کو خوشگوار احساس ہوا۔
آنے والے دنوں میں ’کبھی ہاں کبھی ناں‘ شاہ رخ خان کی ایک اور سپر ہٹ فلم میں شمار ہوئی۔ جبھی تو اس تخلیق کو کرٹک ایوارڈز میں بہترین فلم کا جبکہ شاہ رخ خان کو بہترین اداکار کا فلم فیئر ایوارڈ ملا۔ شاہ رخ خان کے مطابق ’کبھی ہاں کبھی ناں‘ ان کی زندگی کی یادگار فلم ہے۔
یہ بھی اتفاق ہے کہ سات اکتوبر 2017 کو دنیا سے منہ موڑنے والے کندن شاہ کے ساتھ پھر شاہ رخ خان نے کسی اور فلم میں کام نہیں کیا اور اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے شاہ رخ خان نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ کندن شاہ کہتے تھے کہ ’تمہارے ساتھ کبھی کام نہیں کروں گا کیونکہ تمہیں تو اداکاری کرنا آتی ہی نہیں ہے۔‘