نغمہ نگار جاوید اختر کو ہدایتکار ودھو ونود چوپڑہ نے راہل دیو برمن کی موجودگی میں جب ’1942 اے لو سٹوری‘ کی کہانی سنانا شروع کی تو جاوید اختر کو اس تخلیق میں غیر معمولی کشش محسوس ہوئی۔
پس منظر 1942 کا تھا،جب انگریزوں سے آزادی کی جدوجہد چل رہی تھی اور ایسے میں محبت کی داستان کا بھی جنم ہوتا ہے۔ ودھو ونود چوپڑہ جو اس فلم سے قبل 1989میں ’پرندہ‘ بنا کر بہترین ہدایت کار کا فلم فیئر ایوارڈ حاصل کرچکے تھے، اپنی اس نئی تخلیق کو لے کر کچھ زیادہ ہی پرجوش تھے۔ بڑی سٹار کاسٹ کی موجودگی اور تاریخی پس منظر میں تیار اس مووی پر سرمایہ پانی کی طرح خرچ کیا جا رہا تھا۔
ودھو ونود چوپڑہ کہانی سنانے کے بعد نغمہ نگار جاوید اختر کا ردعمل جاننا چاہتے تھے، جنہوں نے مسکراتے ہوئے کہا ’کیوں نہ ہیرو انیل کپور، جب منیشا کوئرالا کو پہلی بار دیکھتے ہیں تو اس سچوئشن پر کوئی گیت ہو؟‘
ودھو ونود چوپڑہ نے حیر ت سے پوچھا ’ گانا۔۔؟؟؟ ابھی تو ہیروئن اور ہیرو کا ایک دوسرے سے تعارف بھی نہیں ہوا، کیا بات کرتے ہیں اس موقعے پر گانا؟ کوئی رومانس نہیں ہوا، کوئی گفتگو نہیں ہوئی، ایسی سچوئیشن پر گانا کچھ بے تکا نہیں لگے گا؟‘
ودھو ونود چوپڑہ کی بات سے موسیقار راہل دیو برمن نے بھی اتفاق کیا لیکن جاوید اختر اپنی بات پر اڑے ہوئے تھے۔ ان کا اصرار تھا کہ اگر اس موقعے پر گانا ہوا تو فلم میں جیسے نئی جان آجائے گی، اس گانے سے پہلی نگاہ میں محبت ہو جانے کے تصور کو بھی تقویت ملے گی۔
ودھو ونود چوپڑہ کچھ دیر کے لیے خیالات کی دنیا میں کھو گئے، وہ تصور میں سوچ رہے تھے کہ جاوید اختر جو کہہ رہے ہیں کیا وہ ہونا چاہیے کہ نہیں، اِدھر راہل دیو برمن، ودھو ونود چوپڑہ کی ’ہاں‘ اور ’ ناں‘ کے منتظر تھے۔ وہ اس بات سے بھی واقف تھے کہ ان کی فلم کا یہ ہدایت کار گانوں میں کوئی سمجھوتہ نہیں کرتا، وہ اس وقت کے ’ذومعنی گانوں‘ کے بجائے نغمہ نگاری اور موسیقی میں جدت اور معیار کا قائل ہے۔ جبھی ودھو ونود چوپڑہ نے اس دور کے ان موسیقاروں جن کا پوری فلم نگری میں ڈنکا بج رہا تھا، ان کے بجائے راہل دیو برمن کا انتخاب کیا تھا۔ جنہیں بیشتر فلم ساز اور ہدایت کار بھولتے جارہے تھے۔ جن کے سٹوڈیو میں کسی زمانے میں رش لگا رہتا تھا،اب بھیڑ چال کا شکار فلم ساز صرف اور صر ف چڑھتے سورج کی پوجا کرنے میں لگے تھے۔ بسا اوقات راہل دیو برمن فلم سازوں کی اس بے حسی پر کڑھتے ضرور تھے۔
نغمہ نگار جاوید اختر کی آواز پر ودھو ونود چوپڑہ اور آر ڈی برمن خیالات کی دنیا سے لوٹے، جو کہہ رہے تھے کہ انہیں چند دنوں کا وقت دیں وہ اس سچوئیشن پر گیت لکھ کر لاتے ہیں۔ ودھو ونود چوپڑہ نے اس موقعے پر ان پر واضح کردیا کہ اگر گیت ان کی منشا کے مطابق نہیں ہوا تو وہ زبردستی اسے فلم میں ہرگز شامل نہیں کریں گے۔ مطلب صاف تھا کہ گانے کو فلم کا حصہ بنانے کے لیے ہدایت کار نے کوئی ضمانت نہیں دی تھی۔ جاویداختر نے بھی اتفاق کیا اور اگلے بدھ تک کے لیے نشست برخاست ہو گئی۔
دیگر مصروفیات کی بنا پر جاوید اختر بہت جلد بھول گئے کہ انہوں نے ودھو ونود چوپڑہ اور آر ڈی برمن سے کچھ وعدہ کیا تھا۔ خیال تو انہیں طے شدہ دن پر اس وقت آیا جب ودوھو ونود چوپڑہ کے یہاں سے فون آیا کہ شام چار بجے میٹنگ ہے، جاویدا ختر کے تو ہاتھ پیر پھول گئے، انہیں اب اپنے آپ پر بھی غصہ آیا کہ انہوں نے خود گانے کی فرمائش کی تھی اور بحث کے بعد اسی بات پر قائل کر رہے تھے کہ اس سچوئیشن پر گانا ہوا لیکن خود دنیا کے دیگر میلوں میں ایسے گم ہوئے کہ یہ بات ہی ان کے ذہن سے نکل گئی کہ انہیں کوئی گانا لکھنا تھا۔
گھر سے نکلتے ہوئے انہیں یہی بات ہلکان کر رہی تھی کہ اب سب کے سامنے انہیں کس قدر خفت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ دوسرا مسئلہ یہ تھا کہ موسیقار آر ڈی برمن نے انہیں ایک دھن سنائی تھی اور انہیں اسی دھن پر بول لکھنے تھے، لیکن اب وہ دھن ہی ذہن سے اتر گئی تھی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جاوید گاڑی ڈرائیو کر رہے تھے لیکن ان کا دل و دماغ عجیب سی پریشانی سے دوچار تھے۔ ذہن کے گھوڑے دوڑا رہے تھے کہ بمبئی کے ایک سینیما گھر کے قریب سے گزرتے ہوئے یکدم ان کے ذہن ایک مکھڑے کی ’آمد‘ ہوئی۔ انہیں اب لگا کہ سٹوڈیو پہنچ کر کچھ نہ کچھ عزت تو بچ ہی جائے گی۔ اِدھر آر ڈی برمن اور ودھو ونود چوپڑہ بے صبری کے ساتھ انہی کا انتظار کر رہے تھے۔ منزل پر پہنچ کر جاوید اختر نے لمبی سانس لینے کے بعد کہنا شروع کیا کہ ’میرے ذہن میں ایک مکھڑا ہے، اگر کہیں تو سناؤں؟‘
پھر جاوید اختر نے ان کے جواب سے پہلے مکھڑا بیان کیا کہ ’ایک لڑکی کو دیکھا تو ایسا لگا‘ اور پھر خاموش ہو گئے۔ ودھو ونود چوپڑہ نے پوچھا، ’یہ تو ٹھیک ہے آگے؟ ایک لڑکی کو دیکھا تو ایسا لگا، جیسے؟؟‘
جاوید اختر نے سانس لیے بغیر بولنا شروع کیا ’جیسے کھلتا گلاب، جیسے شاعر کا خواب، جیسے اجلی کرن، جیسے بن میں ہرن۔‘
نغمہ نگار جاوید نے کہا، ’تھوڑا وقت دیں، ابھی دو تین انترے لکھ دیتا ہوں۔‘
ودھو ونود چوپڑہ نے بے زاری کے ساتھ جاوید اختر کو ایک اور موقع دیا، جو جان چکے تھے کہ انہوں نے اب تک گیت نہیں لکھا۔ چند منٹوں بعد کاغذ پر انترے لکھ کر جاوید اختر نے ودھو ونود چوپڑہ کی طرف بڑھائے، جاوید اختر کا کہنا تھا کہ وہ اس پورے گانے میں ہیروئن کو دیکھنے کے بعد ہیرو کے دل کی صرف کیفیت کو بیان کیا گیا ہے جس میں رومان اور ہیروئن کی معصومیت کو مختلف چیزوں سے تشبہیہ دی گئی ہے۔
جاوید اختر کا کاغذ کا ٹکڑا اب آر ڈی برمن کے پاس تک پہنچ گیا تھا جنہوں نے حسب روایت اسے بنگالی زبان میں ایک اور کاغذ پر لکھا اور ہارمونیم کھینچ کر جاوید اختر کے لکھے ہوئے گانے کو گنگنانے لگے۔
جاوید اختر نے ایک پروگرام میں بتایا کہ حیرت انگیز طور پر آر ڈی برمن نے چند ہی منٹوں میں اس گانے کی دھن بھی بنا لی۔ کچھ دنوں بعد مکمل گیت لکھ کر جاویداختر نے آر ڈی برمن کے حوالے کیا تب تو وہ پوری دھن ’ڈمی بولوں ’پر بنا چکے تھے۔ جو ودھو ونود چوپڑہ کو بھی بھا گئی۔
آر ڈی برمن نے اس گانے کے لیے کمار سانو کا انتخاب کیا، جو جب بڑھی ہوئی شیو اور عام سے کپڑوں کے ساتھ سٹوڈیو پہنچے تو آر ڈی برمن نے گانا ریکارڈ کرنے سے معذرت کر لی تھی۔ موسیقار کا کہنا تھا کہ گیت خاصا خوبصورت ہے جس کا ہر لفظ معنویت سے بھرا ہے اور ایسے حسین گانے کو جب اس بے ڈھنگے حلیے میں گایا جائے گا تو کیسے اس گانے میں محبت کا درد اور احساس اجاگر ہو گا؟ جبھی اگلی بار کمار سانو بن ٹھن کر آئے اور یہ گیت ریکارڈ کیا گیا۔
فلم ’1942 اے لو سٹوری‘ کا البم جاری ہوا تو سب سے زیادہ جس گانے کو پذیرائی ملی، وہ ’ایک لڑکی کو دیکھا تو ایسا لگا‘ ہی تھا۔ 15اپریل 1994کو یہ فلم سنیما گھروں میں سجی تو کامیابی کے کئی نئے ریکارڈ پاش پاش ہو گئے۔ گانوں کی عکس بندی دیکھ کر سب ودھو ونود چوپڑہ کے پرستار بن گئے، بالخصوص اس گانے کو جسے ’زبردستی‘ شامل کیا گیا تھا۔
اگلے برس جب فلم فیئر ایوارڈز منعقد ہوئے تو ’ 1942 اے لو سٹوری‘ نے مختلف کیٹگریز میں 13 نامزدگیاں حاصل کیں، ان میں یہ فلم نو میں سرخرو رہی۔ جاوید اختر کو ’ایک لڑکی کو دیکھا‘ پر بہترین نغمہ نگار، جبکہ کمار سانو کو بہترین گلوکار کا ایوارڈ بھی اسی گیت پر ملا اور کویتا کرشنا مورتی کو فلم کے گیت ’پیار ہوا چپکے سے‘ پر بہترین گلوکارہ کا فلم فیئر ایوارڈز ملا لیکن ان سب میں اہمیت کا حامل بہترین موسیقار کا ایوارڈ تھا، جو آر ڈی برمن کے حصے میں آیا، مگر افسوس کہ وہ اس وقت تک دنیا سے رخصت ہو چکے تھے۔
یہ وہ زمانہ تھا جب آر ڈی برمن کا زوال شروع ہو چکا تھا فلم ساز ان کے قریب جانے سے گھبراتے تھے۔ یہ فلم ان کے دوبارہ جنم کا اعلان ہو سکتی تھی، مگر اس کی مہلت نہ مل سکی۔ لیکن آر ڈی برمن نے ثابت کیا کہ وقت چاہے کیسا بھی ہو، فلم ساز انہیں یاد رکھیں نہ رکھیں، ان کے گیتوں میں اب بھی نغمگی اور مٹھاس موجود ہے۔ یہ بھی قسمت کا عجیب کھیل ہے کہ فلم کی نمائش اور اس کے گانوں کی پذیرائی سے پہلے موسیقار آر ڈی برمن چار جنوری 1994 کو چل بسے تھے۔
کہا تو بھی جاتا ہے کہ جاوید اختر نے یہ گیت شریک سفر شبانہ اعظمی سے متاثر ہو کر لکھا تھا لیکن ایک بھارتی ٹی وی شو میں ان کا کہنا تھا کہ جب وہ یہ گانا لکھ رہے تھے تو ان کے ذہن میں کوئی اور نہیں مادھوری ڈکشٹ کی مثالی خوبصورتی اور دلکشی تھی۔ 2019 میں اسی مکھڑ ے پر ودھو ونود چوپڑہ نے فلم بھی پروڈیوس کی جس میں انیل کپوراور ان کی بیٹی سونم کپور تھیں۔
اس فلم میں ’ایک لڑکی کو دیکھا تو ایسا لگا‘ کو ایک بار پھر نئے انداز سے پیش کیا گیا ۔ بدقسمتی سے یہ فلم اور موسیقار روچک کوہلی کی کاوش دلوں میں گھر نہ کر پائی۔