یہ اتوار نو ستمبر 2001 کا واقعہ ہے۔ صبح دوپہر میں ڈھل رہی تھی۔ وادیِ پنج شیر کے علاقے خوجہ بہاء الدین میں تاریخی آمو دریا کے کنارے گوریلا کمانڈر احمد شاہ مسعود دو عرب صحافیوں کو تین دن انتظار کروانے کے بعد بالآخر انٹرویو دینے کے لیے آمادہ ہو گئے۔
ایک صحافی نوٹ بک سنبھال کر سوال کرنے کے لیے تیار ہوا، دوسرا اپنا کیمرا نصب کرنے لگا۔
احمد شاہ مسعود نے صحافیوں کو دیکھ کر اپنے ایک مشیر سے مذاقاً کہا، ’یہ صحافی ہیں یا پہلوان؟ مجھے تو لگتا ہے یہ میرا انٹرویو کرنے نہیں، مجھ سے کشتی لڑنے آئے ہیں!‘
دوسرے نے پہلا سوال کیا: ’ہم جاننا چاہتے ہیں کہ کمانڈر مسعود نے یہ کیوں کہا ہے کہ اسامہ بن لادن قاتل ہیں اور انہیں ملک سے نکال دینا چاہیے؟‘
احمد شاہ مسعود اس سوال سے تھوڑا جزبز ہوئے۔ انہوں نے کہا، ’اچھا چلو، شروع کرو۔‘
کیمرا مین نے اپنا کیمرا احمد شاہ مسعود کے خاصے نزدیک ٹرائی پاڈ پر فکس کیا اور خود تھوڑے فاصلے پر چلا گیا۔
جب کیمرا آن کیا تو اس کے اوپر سرخ بتی جلنے لگی۔ وہ کیمرے سے تھوڑا پیچھے ہٹا اور پوچھا، ’سر، افغانستان میں اسلام کی صورتِ حال کیا ہے؟‘
اس کے ساتھ ہی ایک نیلا گولہ بجلی کی طرح چمکا اور ایک دھماکے کے ساتھ کیمرے کے اندر چھپے بم کے ٹکڑے احمد شاہ مسعود کے بدن میں پیوست ہو گئے۔ پورے کمرے کو آگ کے شعلوں نے تندور کی طرح لپیٹ میں لے لیا۔
اس وقت کمرے میں جو لوگ موجود تھے، ان میں احمد شاہ مسعود کے ترجمان مسعود خلیلی کے علاوہ پریس سیکریٹری عاصم سہیل شامل تھے۔ اس کے علاوہ افغان رپورٹر فہیم دشتی اپنے کیمرے سے اس انٹرویو کی الگ ریکارڈنگ کر رہے تھے۔ (فہیم دشتی چند روز قبل طالبان کی جانب سے پنج شیر پر حملے میں مارے گئے)۔
باہر کھڑے محافظ کمرے کی طرف لپکے۔ احمد شاہ مسعود شدید زخمی تھے۔ سہیل ہلاک ہو چکے تھے اور دشتی بری طرح جل گئے تھے۔
انٹرویو کرنے والے نے اپنے جسم کے گرد بارودی مواد چھپا رکھا تھا۔ دھماکے کے ساتھ اس کے بھی ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے۔ کیمرا مین کھڑکی کود کر بھاگ گیا اور ڈھلانوں میں چھلانگیں لگا کر دریا کی طرف جانے لگا۔ محافظوں نے اس کا پیچھا کیا اور عین اس وقت جب وہ دریا میں غوطہ لگا چکا تھا، فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا۔
ادھر احمد شاہ مسعود بےہوش تھے اور ان کا بدن خون سے تر تھا۔ ان کے ساتھیوں نے انہیں ایک لینڈ کروزر میں ڈالا اور ایک ہیلی پیڈ کی طرف چلے جو چھ سات منٹ کے فاصلے پر تھا۔
اسی دوران شمالی اتحاد کے انٹیلی جنس چیف انجینیئر عارف فون کر کے ہیلی کاپٹر منگوا چکے تھے۔ ہیلی کاپٹر پہنچا تو عارف نے پائلٹوں کو اصل صورتِ حال بتائے بغیر کہا کہ وہ قریب ترین ہسپتال تک پہنچیں۔ یہ ہسپتال بھارت نے خوجہ بہاء الدین کے قریب تعمیر کروایا تھا۔ یہ کہہ کر عارف نے جنرل فہیم خان کو سیٹیلائٹ فون پر خفیہ پیغام بھیجا، ’خالد کو کچھ ہو گیا ہے۔‘
یہ چھوٹا سا ہسپتال تھا اور احمد شاہ اتنے زخمی تھے کہ وہاں ان کا علاج ممکن نہیں تھا۔ انہیں فوری طور پر جنوبی تاجکستان کے شہر کولاب پہنچایا گیا، مگر وہ اس دوران چل بسے تھے۔
وائٹ ہاؤس نے خبر لیک کر دی
احمد شاہ کے ساتھیوں نے فیصلہ کیا کہ ان کی موت کی خبر کو پوشیدہ رکھا جائے، کیوں کہ انہیں خدشہ تھا کہ اس کی اطلاع ملتے ہی طالبان کو شہ ملے گی اور بھرپور قوت کے ساتھ پنج شیر پر ہلہ بولیں گے، اور ان کے اپنے جنگجوؤں کا مورال گرنے کی وجہ سے انہیں روکنا مشکل ہو جائے گا۔
البتہ احمد شاہ مسعود کے ساتھی امر اللہ صالح (بعد میں افغانستان کے نائب صدر) نے امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے کو اطلاع کر دی، مگر ان سے درخواست کی کہ یہ خبر پھیلنے نہ پائے۔ سی آئی اے قانوناً پابند ہے کہ وہ ایسی خبریں امریکی صدر کو پہنچائے، چنانچہ صدر بش کو اطلاع کی گئی۔ بات ایک منہ سے دوسرے اور پھر تیسرے تک پہنچی اور اگلے ہی دن وائٹ ہاؤس سے کسی نے میڈیا کو مخبری کر دی۔
جب امر اللہ صالح نے احمد شاہ مسعود کی موت کی خبر امریکی میڈیا پر پڑھی تو انہیں بڑا غصہ آیا اور انہوں نے سی آئی اے کو فون کر کے اس بارے میں پوچھا۔ آگے سے جواب آیا کہ ہم پتہ کر کے بتاتے ہیں۔ اس سے پہلے کہ پتہ چلتا، اگلے دن نائن الیون پیش آیا اور یہ معاملہ غتربود ہوگیا۔
نو ستمبر کی یہ صبح افغانستان کی تاریخ میں سنگِ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ احمد شاہ کی موت نے وقت کا دھارا پلٹ کر رکھ دیا اور اسی پر ان کی طویل جدوجہد کا بھی خاتمہ ہوا جو دو دہائیاں قبل سوویت یونین کے خلاف شروع ہوئی تھی اور جس نے انہیں ’شیرِ پنج شیر‘ کے لقب کے ساتھ ساتھ 20 ویں صدی کے عظیم ترین گوریلا کمانڈروں کی فہرست میں چوٹی تک پہنچا دیا تھا۔
لیکن صرف دو دن بعد امریکہ میں ایسے واقعات رونما ہوئے جنہوں نے احمد شاہ مسعود کے قتل جیسی بڑی اور بین الاقوامی اہمیت کی حامل خبر کو بھی دبا دیا اور میڈیا کو موقع ہی نہ مل سکا کہ وہ اس پر توجہ دے سکے۔
یہ دونوں ’صحافی‘ دراصل اسامہ بن لادن کے بھیجے ہوئے تھے۔ اسامہ بن لادن ایک عرصے سے احمد شاہ مسعود کو جانتے تھے اور دونوں کے درمیان ایک معاملے پر شدید اختلافات پیدا ہوگئے تھے (جس کا ذکر نیچے چل کر آئے گا)۔ اس لیے اسامہ مسعود کو ویسے ہی پسند نہیں کرتے تھے اور اب ان کے ہاتھ طالبان کو خوش کرنے کا موقع آ گیا تھا۔
’کون ہے جو مجھے احمد شاہ مسعود سے نجات دلائے؟‘
یہی وجہ ہے کہ اسامہ بن لادن نے اپنے بیعت شدہ پیروکاروں سے پوچھا تھا، ’تم میں سے کون ہے جو مجھے احمد شاہ مسعود سے نجات دلائے، کیوں کہ اس نے اللہ اور اس کے بندوں کو نقصان پہنچایا ہے؟‘
القاعدہ کے دو اہلکاروں نے ہامی بھرلی۔ انہوں نے لندن میں واقع اسلام آبزرویشن سینٹر سے اپنے لیے صحافتی دستاویزات تیار کیں اور یوں انہیں پنج شیر تک رسائی ملی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
دراصل احمد شاہ مسعود کے قتل کا دو دن بعد ہونے والے واقعے سے گہرا تعلق ہے۔
اسامہ بن لادن جب نائن الیون کے حملوں کی منصوبہ کر رہے تھے تو انہیں اچھی طرح سے معلوم تھا کہ امریکہ کا ردِ عمل کیا ہوگا اور افغانستان میں اسامہ کے طالبان میزبانوں پر شدید دباؤ پڑے گا۔
اسی لیے وہ طالبان کے راستے کا سب سے کھٹکتا ہوا کانٹا صاف کر کے طالبان کو احسان مند کرنا چاہتے تھے کہ جب امریکہ طالبان پر دباؤ ڈالے کہ وہ اسامہ کو اس کے حوالے کر دیں تو طالبان ایسا نہ کر سکیں۔
اور واقعی یہی ہوا۔ نائن الیون کے فوراً بعد امریکہ نے سراغ لگا لیا کہ اس کے پیچھے اسامہ بن لادن کا ہاتھ ہے اور ان حملوں کی منصوبہ بندی افغانستان میں ہوئی تھی۔ اس نے ملا عمر سے مطالبہ کرنا شروع کر دیا کہ اسامہ کو ان کے حوالے کر دیا جائے۔
طالبان ایک طرف تو پشتون معاشرے کی مہمان کے لیے جان دینے کی روایت سے جڑے ہوئے تھے، تو دوسری جانب وہ القاعدہ اور اسامہ بن لادن کے زیرِ بار بھی تھے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ شدید دباؤ کے باوجود اسامہ کو امریکہ کے حوالے کرنے پر تیار نہیں ہوئے، حتیٰ کہ اس کے نتیجے میں انہیں اپنی حکومت سے ہاتھ دھونا پڑے۔
احمد شاہ مسعود کون تھے؟
فارسی شاعری کے دلدادہ احمد شاہ مسعود کے پاس ہزاروں کتابوں کا خزانہ تھا جن میں مولانا روم، فرید الدین عطار، مرزا بیدل اور شیخ سعدی کے دیوان شامل ہیں۔ میدانِ جنگ میں وہ سخت گیر گوریلا کمانڈر ضرور تھے، مگر ہم سخنوں کی محفل میں وہ شعر پر شعر سناتے نہیں تھکتے تھے۔
احمد شاہ ستمبر 1953 میں پنج شیر وادی کے صدر مقام بازارک میں رائل افغان آرمی کے کرنل دوست محمد اور بی بی خورشید کے گھر میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کا پیدائشی نام احمد شاہ تھا، جو افغانستان کے بانی احمد شاہ ابدالی سے متاثر ہو کر رکھا گیا تھا۔ بعد میں انہوں نے بطور تخلص ’مسعود‘ کو بھی نام کا حصہ بنا لیا۔
احمد شاہ کا خاندان سنی اور نسلاً تاجک تھا، اس کے باوجود پشتون احمد شاہ ابدالی سے متاثر ہو کر نام رکھنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ متنوع افغان معاشرے میں ابدالی کی یکساں قدر و منزلت کی جاتی ہے۔
صرف تعلیم کافی نہیں!
گھرانہ کھاتا پیتا تھا، اس لیے ان کی پرورش اچھے ماحول میں ہوئی۔ احمد شاہ کی تربیت میں ان کی والدہ کا بڑا ہاتھ تھا۔ ان کے بھائی یحییٰ شاہ نے لکھا ہے کہ ان کی والدہ بچوں کو صرف تعلیم نہیں دلانا چاہتی تھیں بلکہ تعلیم کے علاوہ جسمانی تربیت پر بھی توجہ مرکوز رکھتی تھیں۔ ایک بار ان کے والد نے کہا، ’تم اور کیا کیا چاہتی ہو، بچے سکول میں اچھے نمبر لے تو رہے ہیں؟‘
والدہ نے جواب دیا، ’کیا یہ گھوڑے پر سواری کر سکتے ہیں؟ کیا یہ بندوق چلا سکتے ہیں؟ کیا یہ مجمعے کے سامنے بات کر سکتے ہیں؟ کیا یہ مسجد میں جا کر تقریر کر سکتے ہیں؟‘
باپ نے کہا، ’اس کا بچوں کو کیا فائدہ ہو گا؟‘
والدہ نے کہا، ’یہ چیزیں انسان کے لیے ضروری ہیں۔ ان کا کردار ان چیزوں سے تشکیل پاتا ہے۔ صرف تعلیم کافی نہیں۔‘
احمد شاہ نے ابتدائی تعلیم ہرات میں ایک اپر کلاس سکول میں حاصل کی، جہاں فرانسیسی بھی پڑھائی جاتی تھی، اسی لیے انہوں نے فرانسیسی زبان میں مہارت حاصل کی۔ بعد میں انہوں نے 1971 میں کابل پولی ٹیکنک انسٹی ٹیوٹ میں فنِ تعمیر کے شعبے میں داخلہ لیا اور اگرچہ وہ تعلیم مکمل نہیں کرسکے، مگر اس کے کئی برس بعد پنج شیر میں اپنا گھر انہوں نے خود ڈیزائن کیا، جس کے اندر گول لائبریری بھی تھی۔
جیسا کہ طلبہ عام طور پر کرتے ہیں، آرکیٹیکچر کی تعلیم کے دوران احمد شاہ مسعود بھی کابل کی سیاسی سرگرم فضا میں مختلف سیاسی بحث مباحثوں میں حصہ لیتے رہے۔ اسی دوران ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس نے اس سیاسی تالاب میں گویا پتھر پھینک دیا۔
ہوا یوں کہ طویل عرصے سے افغانستان کے بادشاہ چلے آنے والے ظاہر شاہ جولائی 1973 میں ایک دورے پر اٹلی گئے ہوئے تھے کہ ان کے اپنے بھتیجے محمد داؤد خان نے یک لخت اپنے چچا کو معزول کر کے اقتدار خود سنبھال لیا۔
اس زمانے میں افغانستان میں سوویت یونین کا اثر و نفوذ روز بروز بڑھتا جا رہا تھا۔ احمد شاہ مسعود جس انسٹی ٹیوٹ میں پڑھتے تھے وہ خود سوویت یونین نے چار سال قبل بنوایا تھا اور یہاں کئی اساتذہ روسی تھے۔ اسی باعث یہاں کمیونسٹ خیالات کی ریل پیل تھی اور انہی سے نوجوان احمد شاہ مسعود کو سخت بیر تھا۔ وہ بچپن ہی سے دینی مزاج رکھتے تھے اور یہ قبول کرنے کے لیے تیار نہیں تھے کہ افغانستان پر کمیونسٹوں کا غلبہ ہو جائے۔
ایک دن ان کی اپنے ایک روسی استاد سے تو تو میں میں ہو گئی، بات یہاں تک بڑھی کہ نوجوان احمد شاہ نے استاد کو مکہ مار کر بےہوش کر دیا۔ یہ معمولی بات نہیں تھی، اس کے بعد احمد شاہ کو نہ صرف انسٹی ٹیوٹ، بلکہ افغانستان بھی چھوڑنا پڑا اور تعلیم ادھوری رہ گئی۔
ان کی نئی منزل پڑوسی ملک پاکستان تھا۔ پاکستان میں اس وقت ذوالفقار علی بھٹو وزیراعظم تھے جنہوں نے نہ صرف احمد شاہ مسعود بلکہ ان جیسے متعدد نوجوان انقلابیوں کو نہ صرف پناہ دی بلکہ فوجی تربیت بھی فراہم کی۔ انہی انقلابیوں میں گلبدین حکمت یار بھی تھے جو احمد شاہ کی طرح انجینیئرنگ کی تعلیم ادھوری چھوڑ کر آئے تھے۔
پاکستان میں دو سال گزارنے کے دوران حکمت یار اور احمد شاہ مسعود نے مل کر افغانستان میں قائم داؤد کی حکومت کا تختہ الٹنے کا فیصلہ کیا۔
منصوبے کے مطابق حکمت یار کو افغانستان کے مختلف علاقوں میں حکومت مخالف کارروائیوں کے لیے لوگوں کو ابھارنا، جب کہ احمد شاہ کے ذمے پنج شیر میں شورش بپا کر کے وہاں اسلامی حکومت قائم کرنا تھی۔
اس وقت مسعود، برہان الدین ربانی کی پارٹی جمعیت اسلامی کے رکن تھے۔ اس پارٹی نے 1975 میں داؤد خان کی حکومت کے خلاف بغاوت کی کوشش کی مگر ناکام رہے۔ یہیں سے گلبدین حکمت یار اور مسعود کے راستے الگ الگ ہوگئے۔
1978 میں داؤد خان کو قتل کر دیا گیا اور ملک میں پی پی ڈی اے کی کٹر مارکسسٹ لیننسٹ حکومت قائم ہوگئی۔
عوام کو حکومت کی جابرانہ پالیسیاں پسند نہیں آئیں، جس کی وجہ سے ملک بھر میں بڑے پیمانے پر مظاہرے شروع ہوگئے۔ قریب تھا کہ حکومت کا تختہ الٹتا، سوویت یونین نے اس حکومت کی ڈوبتی کشتی کو سہارا دینے کے لیے افغانستان میں فوجیں اتار دیں۔
یہی موقع تھا کہ احمد شاہ مسعود کو اپنی جنگی اور تنظیمی صلاحیتیں آزمانے کا موقع ملا۔
شیرِ پنج شیر
پنج شیر وادی کا جغرافیہ ان کے کام آیا۔ ہندوکش پہاڑی سلسلے میں واقع ڈیڑھ سو کلومیٹر لمبی یہ وادی افغانستان کے شمالی اور جنوبی حصے کو ایک دوسرے سے جوڑتی ہے۔ ایک زمانے میں افغانستان کے جنوبی صوبوں سے شمالی علاقوں اور وسطی ایشیا تک جانے کا یہ واحد راستہ تھا، پھر 1960 کی دہائی میں سوویت حکومت کے تعاون سے سالنگ سرنگ تعمیر کی گئی۔ لیکن یہ سڑک وادیِ پنج شیر کے پہلو سے گزرتی ہے، اس لیے اسے اس وادی کے دروں سے نشانہ بنا کر آسانی سے مسدود کیا جا سکتا ہے۔
احمد شاہ مسعود کے جنگجو آئے دن اس شاہراہ کو بند کر دیتے تھے، جس سے کابل میں ایندھن کی قلت پیدا ہو جاتی۔
یہی نہیں، پنج شیر کی جغرافیائی اہمیت کا مزید اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ یہاں سے بگرام کا ہوائی اڈہ صرف 30 کلومیٹر اور دارالحکومت کابل 70 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہیں، چنانچہ اسے مرکز بنا کر افغانستان کا بڑا حصہ مفلوج کیا جاسکتا ہے۔
سوویت یونین کی فوجیں اسی درے کو استعمال کر کے افغانستان کے جنوبی علاقوں تک آتی تھیں، یہی وجہ ہے کہ پنج شیر ان کی آنکھوں میں تنکے کی طرح کھٹکتی رہی۔ سٹیون ٹینر نے اپنی کتاب ’دا ملٹری ہسٹری آف افغانستان‘ میں لکھا ہے کہ یہ ’وادی سوویت کنٹرول والے علاقے میں شمال کی جانب سے ایک خنجر کی طرح گڑی ہوئی ہے اور یہ ان کی شہ رگ یعنی سالنگ پاس سے بالکل قریب واقع ہے۔‘
پنج شیر سے احمد شاہ مسعود کے قدم اکھاڑنے کے لیے سوویت فوج نے اگلے ڈیڑھ برس کے اندر وادی پر چھ مزید حملے کیے اور ہر بار پہلے سے زیادہ طاقت استعمال کی، مگر وہ احمد شاہ مسعود کو اپنی جگہ سے ہٹانے میں ناکام رہے۔ اسی دوران احمد شاہ کو ’شیرِ پنج شیر‘ کا خطاب ملا۔
روسی فوجی جاتے جاتے انتقاماً لوگوں کے مکان بمباری کر کے مسمار کر دیتی، ان کی کھڑی فصلوں کو آگ لگا دیتی اور صدیوں سے بنی ہوئی پہاڑی نہریں تباہ کر جایا کرتی تھی۔
یہ سلسلہ نجانے کب تک چلتا کہ روس میں حکومت بدل گئی اور خروشیف کی جگہ یوری آندراپوف آ گئے۔ انہوں نے جنگ پر صلح کو ترجیح دیتے ہوئے 1983 میں احمد شاہ مسعود کے ساتھ معاہدہ کر لیا کہ دونوں ایک دوسرے کو نہیں چھیڑیں گے۔ اس معاہدے کے بعد احمد شاہ مسعود پر زبردست تنقید کی گئی کہ سارے افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف مزاحمت جاری ہے اور وہ روسیوں سے مل گئے ہیں، مگر احمد شاہ مسعود بھی آئے روز کے حملوں اور دیہات کی تباہی سے تنگ آ چکے تھے، اس لیے انہوں نے روسیوں سے ہاتھ ملا لیا۔
1989 میں جب سوویت یونین ہزیمت اٹھا کر افغانستان سے رخصت ہوئی تو کابل میں ایک حکومت چھوڑی گیا جو 2021 کے برعکس خاصا عرصہ قائم رہی اور روسی تربیت یافتہ فوج نے کئی برس تک افغانستان کے تقریباً تمام حصوں پر قبضہ برقرار رکھا۔
تاہم رفتہ رفتہ حالات بگڑتے چلے گئے، حتیٰ کہ 1992 میں ڈاکٹر نجیب اللہ نے استعفیٰ دے دیا اور اقوامِ متحدہ کے مشن کی عمارت میں پناہ لے لی۔
اب کے افغانستان میں جو سیٹ اپ قائم ہوا، اس میں ماضی کے دوست اب جانی دشمن بن چکے تھے۔ 92 سے 96 تک جو خانہ جنگی کا سلسلہ شروع ہوا، اس میں ایک طرف سب سے اہم کمانڈر احمد شاہ مسعود تھے جو برہان الدین ربانی کی حکومت میں وزیرِ دفاع تھے تو دوسری جانب گلبدین حکمت یار تلوار سونتے ہوئے مدِ مقابل تھے۔ ان دونوں کی کشمکش نے دارالحکومت کابل کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔
’جارحانہ جہاد،‘ بمقابلہ ’دفاعی جہاد‘
یہ وہ زمانہ ہے جب اسامہ بن لادن افغانستان پہنچ چکے تھے۔ انہوں نے اس موقعے پر احمد شاہ مسعود کی بجائے حکمت یار کا ساتھ دیا۔ اسامہ بن لادن اور ایمن الظواہری ’جارحانہ جہاد‘ کے قائل تھے، جس کے تحت مسلمانوں کو بھی نشانہ بنایا جا سکتا ہے اور غیر مسلم بےقصور لوگوں، جن میں بچے اور عورتیں شامل ہیں، کو مقاصد کے حصول کے لیے قتل کیا جا سکتا ہے۔
اس کے علاوہ اس ’جہاد‘ کی سرحدیں کسی ایک ملک تک محدود نہیں تھیں اور اس کا دائرہ تمام دنیا تک پھیلا ہوا تھا۔
اس کے برعکس احمد شاہ مسعود اور شیخ عظام ’دفاعی جہاد‘ کے قائل تھے اور وہ اپنی سرگرمیوں کو افغانستان تک محدود رکھنا چاہتے تھے۔ اس کے علاوہ وہ بےگناہ غیر مسلموں اور مسلمانوں کو نشانہ بنانے کے حق میں نہیں تھے۔
’کسی اور ہی دنیا کے رہنے والے‘
1996 میں جب طالبان نے کابل پر کنٹرول حاصل کیا تو احمد شاہ مسعود وہیں تھے اور بڑی مشکل سے جان بچا کر وہاں سے نکلنے میں کامیاب ہوئے۔ پنج شیر پہنچ کر احمد شاہ مسعود نے ’یونائٹڈ فرنٹ‘ نامی ایک تنظیم بنائی جسے نادرن الائنس یا ’شمالی اتحاد‘ بھی کہا جاتا ہے۔ اس تنظیم میں سابق صدر برہان الدین ربانی، عبداللہ عبداللہ، امر صالح اور رشید دوستم بھی شامل تھے۔
ایک موقعے پر احمد شاہ مسعود صرف دو محافظ ساتھ لے کر طالبان کے پاس پہنچے اور کہا کہ اگر آپ افغانستان میں امن چاہتے ہیں تو بات کریں۔ لیکن دونوں کے درمیان شرائط پر اتفاق نہ ہو سکا اور حالات جوں کے توں رہے۔
احمد شاہ مسعود کے بھائی احمد ولی مسعود کہتے ہیں کہ جب احمد شاہ مذاکرات سے واپس آئے تو انہوں نے کہا، ’میرا نہیں خیال کہ یہ لوگ امن چاہتے ہیں، یہ کسی اور ہی دنیا کے رہنے والے ہیں۔‘
آنے والے سالوں میں طالبان سوویت فوجیوں کی طرح بار بار بھاری لشکر لے کر پنج شیر وادی پر حملے کرتے رہے، مگر ریڈ آرمی کی طرح وہ بھی کبھی اس پر قبضہ کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے۔
اس لحاظ سے پنج شیر کو افغانستان کا واحد صوبہ ہونے کا اعزاز حاصل ہے جس پر طالبان کبھی قبضہ نہیں کرسکے۔
اسلام آباد کی سڑک احمد شاہ مسعود کے نام؟
دو ماہ قبل یہ خبر آئی کہ وزیرِاعظم پاکستان عمران خان نے وزارتِ خارجہ کو ہدایت کی ہے کہ اسلام آباد کی کسی سڑک کا نام احمد شاہ مسعود کے نام پر رکھا جائے۔
اس پر بعض حلقوں نے تعجب کا اظہار کیا تھا، کیوں کہ احمد شاہ مسعود نے اپنی جدوجہد کے ابتدائی دنوں میں پاکستان کی مدد ضرور لی تھی، اور وہ اپنے خاندان کے ساتھ ایک عرصہ پاکستان میں مقیم رہے، اور ان کے والد بھی پشاور میں دفن ہیں۔ لیکن 90 کی دہائی میں انہیں محسوس ہوا کہ پاکستان ان کے حریف گلبدین حکمت یار کے پلڑے میں وزن ڈال رہا ہے تو وہ پاکستان کے کھلم کھلا مخالف بن گئے۔
اس کے بعد جب طالبان نے کابل کی طرف پیش قدمی کی تو ایک بار پھر احمد شاہ مسعود یہ سمجھنے لگے کہ ان کے پیچھے پاکستان کا ہاتھ ہے۔
1995 میں چھ ستمبر یعنی عین پاکستان کے یومِ دفاع کے موقعے کابل میں پاکستان کے سفارت خانے پر پانچ ہزار کے لگ بھگ بلوائیوں نے دھاوا بول دیا جو مبینہ طور پر احمد شاہ مسعود کے حمایتی تھے (احمد شاہ مسعود اس وقت افغانستان کے وزیرِ دفاع تھے)۔ اس واقعے میں پاکستانی سفیر قاضی ہمایوں سمیت دو درجن کے قریب سفارت کار زخمی ہوئے جب کہ ایک اہلکار کو چاقوؤں کے وار کر کے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔
اسی واقعے کو مدِ نظر رکھتے ہوئے پاکستان کے سابق سفیر عاقل ندیم نے لکھا کہ اسلام آباد کی کسی سڑک کو احمد شاہ مسعود کے نام کرنا ’نہ صرف ریاست پاکستان کی تحقیر ہے بلکہ وزارت خارجہ کے افسران کے کام کی بھی توہین ہے جو اس وقت ان خطرناک ترین حالات میں اپنی جانوں پر کھیلتے ہوئے اپنی قومی ذمہ داریاں ادا کرنے کے لیے سفارت خانے میں موجود تھے اور اس کا دفاع کر رہے تھے۔‘
قائدانہ صلاحیتوں سے مالامال
احمد شاہ مسعود اپنے ہم نام ہیرو احمد شاہ ابدالی کی طرح زبردست رہنما اور منتظم تھے۔ بہت سے لوگ سمجھتے تھے ان کی سوویت یونین اور طالبان کے خلاف کامیابی سے پنج شیر کا دفاع کرنے کی اصل وجہ اس وادی کا جغرافیہ تھا۔ جیسا کہ اوپر ذکر ہوا، جغرافیہ واقعی اہم تھا، لیکن احمد شاہ مسعود کی قائدانہ صلاحیتوں کے بغیر جغرافیہ کسی کام کا نہیں۔ لوگوں کو اپنے گرد جوڑے رکھنا اور ان کی ہمتیں بلند رکھنا اور دشمن کی چالوں کو پہلے سے بھانپ لینا، یہ ان کے ترکش کے اصل تیر تھے۔
اگر واقعی جغرافیہ ہی واحد اثاثہ ہوتا تو احمد شاہ مسعود کے بیٹے احمد مسعود بھی اپنے والد کے نقشِ قدم پر چل پاتے، مگر وہ طالبان کے خلاف چند دن تک بھی وادی کا دفاع کرنے میں ناکام رہے، حالانکہ وہی پنج شیر وادی تھی اور وہی اس کا جغرافیہ۔
احمد شاہ مسعود کا نام احمد شاہ ابدالی کے نام پر رکھا گیا تھا اور دونوں کی زندگی مسلسل مسلح جدوجہد میں گزری۔ دونوں میں یہ قدرِ مشترک بھی ہے کہ دونوں کی موت کو خفیہ رکھا گیا کیوں کہ ان کے لواحقین کو معلوم تھا کہ اب ان کے پائے کا کوئی رہنما دور دور تک موجود نہیں۔
مسعود کو وہ دور نہیں ملا تھا کہ ایک اولوالعزم سپہ سالار اٹھ کر سلطنت کھڑی کر دے، مگر انہوں نے جس طرح دستیاب وسائل سے کام لیتے ہوئے ایک سپر پاور کے دانت کھٹے کیے اور پھر ایک اور ابھرتی ہوئی طاقت کے راستے میں دیوار بنے رہے، اس پر بڑے احمد شاہ بھی داد دیے بنا نہ رہتے۔