یہ 1982 کی بات ہے، جب سوویت یونین کی فوجوں کا غلبہ تقریباً سارے افغانستان پر ہو چکا تھا، لیکن ایک چھوٹی سی وادی ابھی تک اس کی پہنچ سے باہر تھی۔
بالآخر سوویت کمان کے صبر کا جام چھلک گیا اور انہوں نے ایک دن بھرپور تیاری کے ساتھ زمینی اور ہوائی حملہ شروع کر دیا جس میں سوویت فوجیوں کے علاوہ ہزاروں افغان سرکاری فوجی بھی شریک تھے۔
سوویت تمام بھاری جنگی ہارڈ ویئر میدان میں لے آیا۔ مِگ 6 ہیلی کاپٹر نیچی پروازیں کر کے کمانڈو فوجیوں کو پہاڑوں پر اتارنے لگے اور مگ 24 گن شپ ہیلی کاپٹروں نے جنگجوؤں کے ٹھکانوں پر کارپٹ بمباری شروع کر دی۔ اسی حملے میں سوویت یونین نے پہلی بار اپنا جدید ترین بمبار طیارہ سخوئی 25 بھی آزمایا۔ ساتھ ہی ساتھ زمینی حملہ شروع کر دیا گیا۔ حملہ آور لشکر میں آگے آگے ٹینکوں پر سوار افغان فوجی تھے اور ان کے پیچھے سوویت دستے۔
اس دوران ایک 29 سالہ گوریلا کمانڈر پہاڑ کی بلندی سے نیچے وادی کا منظر دیکھ رہے تھے۔ اس کمانڈر کا نام احمد شاہ مسعود تھا۔ انہوں نے پوری منصوبہ بندی کر رکھی تھی، جس کے تحت انہوں نے سرکاری فوجیوں کو وادی کے خاصے اندر تک آنے دیا، پھر پہلے سے نصب کردہ ڈائنامائیٹ اڑا کر پورا درہ سڑک پر گرا دیا اور سرکاری فوجی چوہے دان کے اندر پھنس گئے۔
سرکاری فوجی سرکاری فوجی ہی ہوتے ہیں، چاہے وہ 1982 کے ہوں یا 2021 کے، انہوں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ، وفاداریاں الٹ دیں اور احمد شاہ مسعود کے ساتھ جاملے۔ کچھ ہی دیر بعد ان کے روسی ساختہ ٹینک پلٹ کر سوویت فوج پر گولے داغنے لگے۔
اسی دوران سوویت فوج کے ایک حصے نے وادی کے شمالی حصے سے بھی حملہ شروع کر دیا۔ وادی کی فضاؤں میں سخوئی 25 جنگی طیارے چنگھاڑتے ہوئے آتے تھے اور وادی کے تنگ دروں کے اندر غوطے لگا لگا کر جنگجوؤں پر آگ برساتے تھے۔ وادی کے دامن سے ٹینکوں اور توپوں سے اور فضا سے ہونے والی بمباری کی شدت اتنی تھی کہ احمد شاہ مسعود کے جنگجو چٹانوں کے چھجوں کے نیچے اور غاروں میں پناہ لینے پر مجبور ہو گئے۔ سوویت فوج نے وادی کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک گزرنے والی تمام سڑک پر قبضہ کر لیا۔
لیکن سڑک پر قبضے کا مطلب وادی پر قبضہ نہیں تھا۔ جب بھی سخوئی یا گن شپ ہیلی کاپٹر نظروں سے اوجھل ہوتے تھے، احمد شاہ مسعود کے نشانہ باز تاک تاک کر نیچے وادی میں موجود سوویت ٹھکانوں کو نشانہ بناتے اور پھر پناہ گاہوں میں چھپ جاتے۔ سوویت فوجی جب بھی پہاڑوں پر چڑھنے کی کوشش کرتے، انہیں آگ میں نہلا دیا جاتا۔
آخر کار دو ہفتے بعد سوویت فوج دو سے تین سو فوجیوں کی لاشیں ساتھ لے کر وادی سے رخصت ہو گئی۔
اس کے بعد سوویت فوج نے اگلے ڈیڑھ برس کے اندر وادیِ پنج شیر پر چھ مزید حملے کیے اور ہر بار پہلے سے زیادہ طاقت استعمال کی، مگر وہ احمد شاہ مسعود کو اپنی جگہ سے ہٹانے میں ناکام رہے۔ روسی فوجی جاتے جاتے انتقاماً لوگوں کے مکان بمباری کرکے مسمار کر دیتی، ان کی کھڑی فصلوں کو آگ لگا دیتی اور صدیوں سے بنی ہوئی پہاڑی نہریں تباہ کر جایا کرتی تھی۔
یہ سلسلہ نجانے کب تک چلتا کہ روس میں حکومت بدل گئی اور خروشیف کی جگہ یوری آندراپوف آ گئے۔ انہوں نے جنگ پر صلح کو ترجیح دیتے ہوئے 1983 میں احمد شاہ مسعود کے ساتھ معاہدہ کرلیا کہ دونوں ایک دوسرے کو نہیں چھیڑیں گے۔ اس معاہدے کے بعد احمد شاہ مسعود پر زبردست تنقید کی گئی کہ سارے افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف مزاحمت جاری ہے اور انہوں نے روسیوں سے ہاتھ ملالیا ہے، مگر احمد شاہ مسعود بھی آئے روز کے حملوں اور دیہات کی تباہی سے تنگ آ چکے تھے اس لیے انہوں نے روسیوں سے ہاتھ ملا لیا۔
روسی پنج شیر وادی کو فتح کرنے کے لیے اتنے بےتاب کیوں تھے؟
وادی پنج شیر سنگلاخ ڈھلوانوں پر مشتمل ہے، جن کے کٹیلے زاویے وادی کے دامن میں بہتے تند و تیز پنج شیر دریا میں جا گرتے ہیں۔ انہی پہاڑوں کے پہلو کاٹ کاٹ کر سخت جان پنج شیریوں نے اپنے کھیتوں اور گھروں کے لیے جگہ نکالی ہے۔ کاشت کاری کے علاوہ لوگوں کا گزارہ گلہ بانی سے بھی ہے۔ بل کھاتے دریائے پنج شیر کے ساتھ ساتھ چلتی سڑک کے راہی نظر اٹھا کر دیکھیں تو دونوں طرف کی ڈھلوانوں پر انہیں بکریاں اور بھیڑیں چرتی نظر آتی ہیں۔
ہندوکش پہاڑی سلسلے میں واقع ڈیڑھ سو کلومیٹر لمبی یہ وادی افغانستان کے شمالی اور جنوبی حصے کو ایک دوسرے سے جوڑتی ہے۔ ایک زمانے میں افغانستان کے جنوبی صوبوں سے شمالی علاقوں اور وسطی ایشیا تک جانے کا یہ واحد راستہ تھا، پھر 1960 کی دہائی میں سوویت حکومت کے تعاون سے سالنگ سرنگ تعمیر کی گئی۔ لیکن یہ سڑک وادیِ پنج شیر کے پہلو سے گزرتی ہے، اس لیے اسے اس وادی کے دروں سے نشانہ بنا کر آسانی سے مسدود کیا جا سکتا ہے۔
اس کی ایک مثال 1997 میں دیکھنے میں آئی جب احمد شاہ مسعود نے سالنگ سرنگ کو ڈائنامائیٹ سے اڑا دیا تاکہ طالبان اسے استعمال نہ کر سکیں۔
یہی نہیں، پنج شیر کی جغرافیائی اہمیت کا مزید اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ یہاں سے بگرام کا ہوائی اڈہ صرف 30 کلومیٹر اور دارالحکومت کابل 70 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہیں، چنانچہ اسے مرکز بنا کر افغانستان کا بڑا حصہ مفلوج کیا جاسکتا ہے۔
سوویت یونین کی فوجیں اسی درے کو استعمال کر کے افغانستان کے جنوبی علاقوں تک آتی تھیں، یہی وجہ ہے کہ پنج شیر ان کی آنکھوں میں تنکے کی طرح کھٹکتی رہی۔ سٹیون ٹینر نے اپنی کتاب ’دا ملٹری ہسٹری آف افغانستان‘ میں لکھا ہے کہ یہ ’وادی سوویت کنٹرول والے علاقے میں شمال کی جانب سے ایک خنجر کی طرح گڑی ہوئی اور یہ ان کی شہ رگ یعنی سالنگ پاس سے بالکل قریب واقع ہے۔‘
1996 میں جب طالبان نے کابل پر کنٹرول حاصل کیا تو احمد شاہ مسعود وہیں تھے اور بڑی مشکل سے جان بچا کر وہاں سے نکلنے میں کامیاب ہوئے۔ پنج شیر پہنچ کر احمد شاہ مسعود نے یونائٹڈ فرنٹ نامی ایک تنظیم بنائی جسے نادرن الائنس یا شمالی اتحاد بھی کہا جاتا ہے۔ اس تنظیم میں سابق صدر برہان الدین ربانی، عبداللہ عبداللہ، امر صالح اور رشید دوستم بھی شامل تھے۔
اس دوران طالبان سوویت فوجیوں کی طرح بار بار بھاری لشکر لے کر پنج شیر وادی پر حملے کرتے رہے، مگر ریڈ آرمی کی طرح وہ بھی کبھی اس پر قبضہ کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے۔
اس لحاظ سے پنج شیر کو افغانستان کا واحد صوبہ ہونے کا اعزاز حاصل ہے جس پر طالبان کبھی قبضہ نہیں کر سکے۔
’پنج شیر کا ہمیشہ دفاع کرتے رہیں گے‘
کہا جاتا ہے کہ تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے۔ چنانچہ اب 2021 میں طالبان کی واپسی کے بعد وادیِ پنج شیر ایک بار پھر توجہ کا مرکز بن گئی ہے اور طالبان مخالف قوتیں وہاں اکٹھی ہونا شروع ہو گئی ہیں۔
شیرِ پنج شیر کہلانے والے احمد شاہ مسعود تو 2001 میں القاعدہ کے ایک خودکش حملے میں مارے گئے تھے، تاہم ان کے بیٹے احمد مسعود نے واشنگٹن پوسٹ میں ایک کالم میں لکھا کہ ’چاہے جو بھی ہو، میں اور میرے مجاہدین جنگجو افغانستان کی آزادی کی آخری چٹان کے طور پر پنج شیر کا ہمیشہ دفاع کرتے رہیں گے۔ ہمارے حوصلے قائم ہیں۔ ہمیں ماضی کے تجربے سے معلوم ہے کہ آگے کیا ہو گا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے آگے چل کر لکھا ہے کہ ’ہمارے پاس بڑے پیمانے پر اسلحہ اور گولہ بارود موجود ہے جسے ہم نے اپنے والد کے وقتوں سے بڑی محنت سے اکٹھا کیا ہے کیوں کہ ہم جانتے تھے یہ دن آنے والا ہے۔‘
یہ آنے والا وقت بتائے گا کہ احمد مسعود اور دوسرے رہنما اس اسلحے کا کس حد تک فائدہ اٹھا سکیں گے۔ کیوں کہ حال ہی میں افغان فوج کے مکمل انہدام نے ایک بار ثابت کر دیا ہے کہ جنگ، چاہے وہ گوریلا جنگ ہو یا آمنے سامنے، اسلحے سے زیادہ آہنی اعصاب، حکمت عملی اور منصوبہ بندی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کے بغیر نہ تو اسلحہ کام آتا ہے نہ کسی علاقے کا جغرافیہ۔ احمد شاہ مسعود نے اپنی صلاحیتوں سے جغرافیے کو اپنے حق میں استعمال کیا۔ اسی لیے ان کا نام 20ویں صدی کے اہم گوریلا جنگجوؤں کے ساتھ لیا جاتا ہے۔
دوسری جانب طالبان کے لیے بھی اس چھوٹی سی وادی کی بہت اہمیت ہے، کیوں کہ مسئلہ علامتی بھی ہے اور جذباتی بھی۔ اگر اس وادی میں طالبان مخالف قوتوں کا اکٹھ جاری رہتا ہے تو اس سے ملک کے دوسرے علاقوں کے لوگوں کو طالبان کے خلاف اٹھ کھڑا ہونے کے لیے شہ مل سکتی ہے۔
اس لیے طالبان چاہیں گے کہ وہ ہر صورت وہ کام کر دکھائیں جو روس 1979 سے 1983 تک اور ملا عمر 1996 سے 2001 تک نہیں کر پائے تھے۔