پاکستان کے وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے گذشتہ روز روسی فیڈریشن کے نائب وزیر اعظم الیکسی اوورچک سے چین میں ایک کانفرنس میں ملاقات کے دوران 31 مارچ کو پاکستان سے براستہ ایران ماسکو تک مال گاڑی منصوبہ شروع کرنے کا اعلان کیا۔
یہ منصوبہ شمال جنوبی ٹرانسپورٹ کاریڈور کا حصہ ہے، جو انڈیا کو براستہ ایران روس سے ملاتا ہے اور انڈیا، ایران، پاکستان، روس سمیت وسطی ایشیائی ممالک کے لیے اہم تجارتی گزرگاہ سمجھا جاتا ہے۔
ملاقات کے دوران محمد اورنگزیب نے روس کے نائب وزیر اعظم سے فریٹ پائلٹ ٹرین منصوبے کے قواعد و ضوابط پر بھی گفتگو کی۔
انٹرنیشنل شمال -جنوبی ٹرانسپورٹ کاریڈور
انڈیا، ایران اور روس نے ستمبر 2000 میں تجارتی مقصد کے لیے وسطی ایشیا ممالک تک رسائی اور انڈیا کو روس کے ساتھ ملانے کے لیے ایک منصوبے پر دستخط کیے، جسے انٹرنیشنل شمال- جنوبی ٹرانسپورٹ کاریڈور کا نام دیا گیا۔
یہ چین کی بیلٹ اینڈ روڈ اینیشیٹیو( بی آر آئی) طرز کا ٹرین، ریل، سمندر اور روڈ روٹ کا ایک تجارتی منصوبہ ہے جس کا مقصد اس منصوبے میں شامل ممالک کا ایک دوسرے کے تجارتی مارکیٹوں تک رسائی ہے۔
منصوبے پر انڈیا، روس اور ایران کے دستخط کے بعد آذربائجان، قازقستان، بیلاروس، اومان، تاجکستان، کرغزستان، ترکی اور یوکرائن بھی اس کا حصہ بن گئے، جبکہ 2024 میں روسی صدر ولادمیر پیوتن کی دعوت پر پاکستان بھی اس میں شامل ہوا۔
آرمینیا، شام اور بلغاریہ اس منصوبے میں بطور آبزرورز شامل ہیں لیکن شامل ہونے کے کیے لیے تیار ہیں، جبکہ ترکمانستان سے منصوبے کا ایک روٹ گزرنے کے باوجود اس منصوبے کا حصہ نہیں ہے۔
باکو ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کی جانب سے اس منصوبے پر لکھے گئے تحقیقی مقالے کے مطابق یہ کاریڈور یورپ کے شمال مغربی حصے کو وسطی ایشیائی ممالک، خلیج فارس، اور بحر ہند سے ملاتی ہے۔
اسی تحقیقی مقالے کے مطابق یہ تجارتی گزرگاہ روس سے انڈیا تک 7200 کلومیٹر طویل ہو گی اور موجودہ یورپ کو ایشیائی ممالک سے ملانے والی سویز کنال والی گزرگاہ سے 30 فیصد سستی اور 40 فیصد مختصر روٹ ہو گا۔
سویز کنال والے روٹ سے سامان 45 سے 60 دنوں میں جبکہ شمال جنوبی کاریڈور پر سامان لے جانے میں تقریباً ایک مہینہ وقت لگتا ہے جبکہ بذریعہ ریل گاڑی انڈیا اور روس کے مابین سامان لے جانے پر 40 دن لگیں گی۔
گزرگاہ کے تین مختلف روٹس اس شمال جنوبی ٹرانسپورٹ کاریڈور میں تحقیقی مقالے کے مطابق رین روٹس شامل ہوں گے جو روس کے پیٹرسبرگ بندرگاہ سے ایران کے بندر عباس بندرگاہ پہنچے گا گا اور تینوں روٹس مخلتف ٹرانسپورٹ کے ذرائع کے ہوں گے۔
پہلا روٹ تقریباً 5000 کلومیٹر طویل مغربی روٹ ہے جو بذریعہ بحیرہ کیسپیئن روس سے آذربائجان کے راستے جائے گا اور یہ روڈ اور ریل کے ساتھ ملانے کے لیے بہترین روٹ ہے۔
دوسرا روٹ مشرقی روٹ کہلاتا ہے اور یہ روٹ کیسپیئن سمندر کے مشرقی ساحل پر قازقستان اور ترکمانستان سے گزرتا ہے جو تقریباً 6000 کلومیٹر ہے۔
تیسرا روٹ ٹرانس کیسپیئن کہلاتا ہے جس پر فیری اینڈ فیڈر کنٹینر لائن موجود ہے اور اس کی لمبائی 4900 کلومیٹر ہے لیکن اس کاریڈور کی مجموعی ٹریفک کا 84 فیصد مشرقی اور مغربی روڈ سے ہو گا۔
روس نے اس منصوبے کی تکمیل پر فروری 2022 سے کام شروع کیا ہے کیونکہ باکو ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے مقالے کے مطابق مغر ی ممالک کے ساتھ جنگ کی وجہ سے روس انڈیا، ایران اور وسطی ایشیا ممالک کے ساتھ 2030 تک تجارتی حجم کو 35 ملین ڈالر (موجودہ سے 155 فیصد زیادہ) تک بڑھانا چاہتے ہیں۔
ایک تحقیق مقامے کے مطابق اس منصوبے پر 2022 سے 2030 تک تقریباً تین ارب ڈالر( ایک کھرب پاکستانی روپے) لاگت آئے گی۔
روس کے لیے مقالے کے مطابق اس منصوبے کے کی سٹریٹجک اہمیت بھی ہے کیونکہ روس اور ایران جنگی اسلحہ کی ترسیل کے لیے کیسپیئن سمندر کا استعمال کرتے ہیں اور اسی راستے سے مغربی نظروں سے اوجھل ہوسکتے ہیں۔
اسی کی وجہ مقالے کے مطابق امریکہ اسی روٹ کی ٹریکنگ کرتا ہے اور روس و ایران کے مابین سمندری جہاز کی ٹریکر آف کر کے اسی روٹ کو باآسانی استعمال کیا جا سکتا ہے۔
پاکستان کے لیے یہ روٹ کتنا اہم ہے؟
جون 2024 میں روس کے صدر ولادیمیر پیوتن کی دعوت پر پاکستان نے اس کاریڈور میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا تھا اور اس کی بڑی وجہ ساؤتھ ایشیا جریدے میں شائع تحقیقی مقالے کے مطابق اس روٹ کی سٹریٹجک اہمیت ہے۔
اس تحقیقی مقالے کے مطابق انڈیا پہلے سے اس منصوبے کا حصہ ہے اور پاکستان و انڈیا کے مابین خراب تعلقات کی وجہ سے انڈیا اس روٹ کے ذریقے پاکستان کو تنہا چھوڑ سکتا تھا اور یہی وجہ تھی کہ پاکستان نے منصوبے میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا۔
ڈاکٹر ناصر اقبال پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار ڈویلپمنٹ اکنامکس کے پروفیسر ہیں، جو پاکستان کے معاشی معاملات پر متعدد تحقیقی مقالے لکھ چکے ہیں۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ پاکستان میں اس کوریڈور کی اس وجہ سے اہمیت زیادہ ہے کہ ہمارے ایرن، انڈیا اور افغانستان کے ساتھ تعلقات اتنے اچھے نہیں ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ڈاکٹر ناصر اقبال نے بتایا، ‘اب اگر اس منصوبے میں بڑے پلیئرز یعنی انڈیا، روس، اور ایران ہیں، تو پاکستان سفارتی اور تجارتی طور پر ان سے تعلقات بنا سکتا ہے۔‘
تاہم ڈاکٹر ناصر اقبال نے بتایا کہ ایک بڑا سوال یہ ہو سکتا کہ پاکستان کو اگر امریکہ کی طرف سے اس منصوبے کو جوائن کرنے میں سپورٹ نہیں ہو گی، تو پاکستان کے لیے مشکل ثابت ہوسکتا ہے۔
انہوں نے بتایا، ‘پاکستان کا امریکہ کے ساتھ بہتر تعلقات ہیں اور اب آئی ایم ایف کی طرف سے سپورٹ دی جا رہی ہے، اس تناظر میں اس منصوبے سے فائدہ لینا ایک چیلنج ضرور ہو گا، تاہم پاکستان کو چین اور امریکہ دونوں کے مفادات کو دیکھ کر ہی اس منصوبے سے کچھ حاصل کر پائے گا۔’
ساؤتھ ایشیا جریدے میں شائع تحقیقی مقالے کے مطابق پاکستان کے کوریڈور میں شمولیت سے چین پاکستان اکنامک کوریڈور(سی پیک) کو بھی فائدہ ہو سکتا ہے کیونکہ شمال جنوبی ٹرانسپورٹ کاریڈور کے تحت گوادر بندرگاہ جنوبی ایشیا، وسطی ایشیا، اور مشرق وسطٰی کے ممالک کے مابین بطور گیٹ وی استعمال کا جا سکتا ہے۔
اسی طرح مقالے کے مطابق سی پیک روٹ کو اس کاریڈور کے ساتھ منسلک ہونے سے چین، پاکستان اور شمال جنوبی ٹرانسپورٹ کاریڈور میں شامل ممالک کو معاشی فائدہ ہو سکتا ہے۔