ایک دوپہر میں حیدر آباد کے پریس کلب میں داخل ہو رہا تھا کہ گیٹ کے باہر کھڑے ایک کم عمر لڑکے نے میرا راستہ روک لیا۔ میں نے اس کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا تو اس نے کہا، ’مجھے کوئی نوکری لے کر دیں۔‘
میں نے سوال کیا، ’تمہاری یہ عمر نوکری کی نہیں ہے۔ تم پڑھتے کیوں نہیں ہو؟‘
جواب میں کہنے لگا، ’میرا والد 30 ستمبر کو فائرنگ میں قتل ہو گیا تھا۔‘
اس نے 30 ستمبر کہا تو مجھے دھچکا لگا اور میرے ذہن میں اس شام کی فلم چلنے لگی۔ اس لڑکے نے اپنے والد کا نام اختر میمن بتایا تھا۔ مجھ میں ہمت نہیں تھی کہ اس سے مزید سوالات کرتا یا پوچھ گچھ کرتا، اس لیے سر جھکا کر کوئی جواب دیے بغیر کلب کے اندر داخل ہو گیا۔
30 ستمبر 1988 کو میں حیدر آباد سے باہر گیا ہوا تھا۔ عین مغرب کے وقت جب میں شہر میں داخل ہوا اور ٹیلی گراف آفس کا رخ کیا تو مجھے دکانوں کے شٹر گرنے کی بیک وقت بہت ساری آوازیں آئیں۔ اس زمانے میں ٹیلی گراف آفس کا وہ حصہ جہاں ٹیلکس مشینیں لگی ہوئی تھیں عملاً اخبار والوں کا دفتر ہوا کرتا تھا۔ عام طور پر کاروبار بند کرنے یا دکانیں بند کرنے کا یہ وقت نہیں تھا اس لیے میں چونکا اور فوری طور پر ذہن میں آیا کہ کوئی بڑا واقعہ ہو گیا ہے۔
ٹیلی گراف آفس سے میں نے اپنی موٹر سائیکل اٹھائی، اور شہر کے وسط میں واقع حیدر چوک کی طرف چل پڑا۔ اس علاقے میں ہمہ وقت ٹریفک کی بھیڑ بھاڑ رہتی تھی، لیکن اس وقت سڑک پر ایک گاڑی بھی نہیں تھی، جس سے میری حیرانی میں مزید اضافہ ہو گیا۔
کچھ ہی فاصلے پر واقع پیٹرول پمپ پر پہنچا تو کسی نے بتایا کہ شہر میں فائرنگ ہوئی ہے۔ فائرنگ ہونا معمول تھا۔ جون کے مہینے میں سندھ یونیورسٹی جامشورو سے طلبہ کا ایک جلوس دو بسوں میں سوار ہو کر بلدیہ پر میئر آفتاب شیخ کے ایک اخباری بیان کے خلاف مظاہرہ کرنے آیا تھا۔ اس جلوس کو دیکھ کر بلدیہ کی عمارت سے ایم کیو ایم کے حامی ایک کارکن نے فائرنگ کر دی تھی، البتہ کوئی زخمی نہیں ہوا تھا اور بسیں آگے چلی گئیں تھیں۔
اس واقعے کے بعد سے پورا جون رات گئے فائرنگ کی آوازوں سے گونجتا رہتا تھا۔ جولائی کے مہینے کی 17 تاریخ کو میئر حیدرآباد آ فتاب احمد شیخ کی کار پر فائرنگ ہوئی۔ وہ ایک تدفین میں شرکت کے بعد گھر جا رہے تھے۔ ان کی گاڑی میں بیٹھے ہوئے بلدیہ کے کونسلر حاجی رشید شدید زخمی ہونے کی وجہ سے دم توڑ گئے تھے۔ آفتاب شیخ اور ان کا ڈرائیور زخمی ہو گئے تھے۔
میئر پر قاتلانہ حملہ کی خبر جوں ہی شہر میں پھیلی، شہر میں ہنگامے پھوٹ پڑے۔ انتظامیہ کو شہر میں کرفیو لگانا پڑا تھا۔ جولائی اور اگست کے مہینے میں تصادم جاری رہتا تھا۔ جون، جولائی 1988 میں شہر میں لسانی بنیادوں پر ہنگاموں کے بعد علاقے تقسیم ہو گئے تھے اور اس تقسیم کی وجہ سے لوگ تو لوگ، ہسپتال، تعلیمی ادارے ہی کیا، مساجد اور مدرسے تک محفوظ نہیں رہ سکے تھے۔
فائرنگ کرنے والوں کا کوئی ہدف نہیں تھا
ستمبر نسبتا پر امن تھا۔ لیکن 30 ستمبر کا دن پرسکون گزارنے کے بعد مغرب کے وقت شہر کے کئی علاقوں میں کئی کاروں میں سوار افراد نے اچانک بیک وقت سیدھی فائرنگ کی۔
اس فائرنگ کے نتیجے میں جگہ جگہ لوگ زخمی ہو کر سڑک اور فٹ پاتھوں پر گرے پڑے تھے۔ فائرنگ کرنے والوں کا کوئی ہدف نہیں تھا بلکہ سڑکوں پر جہاں بھی لوگ پیدل چل رہے تھے یا اپنی گاڑیوں میں چل رہے تھے، انہیں نشانہ بنایا گیا تھا۔
شہری اس قسم کے خوف کا شکار تھے کہ پورے شہر میں فائرنگ کرنے والی کاروں کے علاوہ کوئی ٹریفک موجود نہیں تھی۔ البتہ بعض علاقوں میں وہ گاڑیوں سڑکوں پر موجود تھیں جو فائرنگ کا نشانہ بنی تھیں۔
جب میں ڈپٹی کمشنر کے دفتر کے نیچے والی سڑک پر قائم پیٹرول پمپ پر پہنچا تو میں نے سرمئی رنگ کی ایک کار کو حیدر چوک کی طرف ون وے توڑ کر جاتے دیکھا۔
کار میں پیچھے کی طرف سوار ایک شخص نے اپنی رائفل کی نالی باہر نکالی ہوئی تھی۔ وہ کار تھوڑی دور ہی گئی ہوگی کہ حیدر چوک کی طرف سے ایک کار آتی ہوئی نظر آئی۔
کار جب قریب پہنچی تو میں نے دیکھا کہ اس میں ایس ڈی ایم سہیل اکبر شاہ اور ڈی ایس پی غلام شبیر تنیو سوار تھے (شبیر تنیو کچھ دنوں بعد ڈاکوؤں کے ایک حملہ میں ہلاک ہو گئے تھے۔) سہیل اکبر گاڑی چلا رہے تھے۔
میں نے انہیں بتایا کہ ایک کار ابھی ابھی حیدر چوک کی طرف گئی ہے آپ اس کا پیچھا کر سکتے ہیں، لیکن انہوں نے میری بات سنی اور ان سنی کر دی۔
میں حیدر چوک کی طرف چلا۔ اسرار صدیقی سٹی تھانے کے ایس ایچ او تھے۔ وہ عالم پریشانی میں حیدر چوک سے کوہ نور پلازہ کی طرف جانے والی سڑک کے موڑ پر اپنی موبائل کے باہر کھڑے تھے اور اپنے حکام کو گھبرائی ہوئی آواز میں وائر لیس پر لمحہ بہ لمحہ کی صورت حال سے آگاہ کر رہے تھے۔
اسرار صدیقی کو آج بھی اس شام کی تفصیلات ازبر یاد ہیں۔ حال ہی میں مجھ سے فون پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’میں نے ڈپٹی کمشنر شفیق الرحمان کو سلطان ہوٹل سے فون کیا کہ میرے سامنے چھ سات لاشیں سڑک پر پڑی ہیں، انہیں اٹھوانے کا انتظام کریں۔‘
صدیقی نے مزید بتایا کہ ’میری سپاہی تھانہ چھوڑ کر بھاگ گئے تھے۔ میں ساری رات اسی کام میں مصروف رہا کہ ہلاک ہوجانے والوں، زخمیوں اور قتل عام کی واردات کرنے والوں کی تفصیلات جمع کروں۔‘
فائرنگ سے پہلے رنگ دار پٹاخے
شہر کے کئی علاقوں میں کاروں میں سوار افراد نے گولیاں تقریبا ڈیرھ گھنٹے اس طرح چلائی گئی تھیں جیسے شہر نہ ہو بلکہ کوئی شکار گاہ ہو۔
سابق طالب علم رہنما جہانگیر آذر مرحوم اس وقت لطیف آباد کے ایک مکان کی چھت پر بیٹھے ہوئے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ فائرنگ سے قبل رنگ دار پٹاخے چھوڑے گئے تھے۔
بعد میں اور لوگوں نے بھی تصدیق کی کہ شہر کے مختلف علاقوں میں رنگ دار پٹاخے چھوڑے گئے تھے۔ ان کے پھٹتے ہی مختلف علاقوں میں کاروں میں سوار افراد نے گولیاں برسانا شروع کر دی تھیں۔
یہ گولیاں بیک وقت شہر، لطیف آباد، ہیرا آباد، پھلیلی، مارکٹ، پریٹ آباد، سائٹ ایریا، گاڑی کھاتہ، پٹھان کالونی اور کئی اور علاقوں میں چلائی گئی تھیں۔ یہ سارے شہر کی گنجان آبادیاں ہیں۔
گولیاں چلانے اور شہریوں کا قتل عام کرنے کے بعد کاریں غائب ہو گئی تھیں لیکن شہر والوں کو تو سانپ سونگھ گیا تھا۔ ہر طرف ہر جگہ ویران تھی۔
لاشیں تو پڑی ہی تھیں لیکن زخمی ہونے والے افراد بھی کافی دیر تک سڑکوں اور فٹ پاتھوں پر پڑے تھے، انہیں اٹھا کر ہسپتال پہنچانے والا کوئی بھی نہیں تھا۔
میں شہر ہی میں گھوم رہا تھا۔ صدر کے علاقے میں واقع اپنے زمانے کے مشہور بیل ایئر کلینک پہنچا۔ عبدالواحد جعفری کو گولی لگی تھی اور وہ سڑک سے بیل ایئر کلینک پہنچ گئے تھے لیکن ہسپتال میں موجود ڈاکٹر انہیں طبی امداد دینے کے لیے آمادہ نہیں تھا۔
میں بھی پہنچ گیا تھا میں نے ڈاکٹر کو کہا کہ آپ کے ہسپتال میں تو آہریشن تھیئٹر موجود ہے، ان کے زخموں کی پٹی وغیرہ ہی کر دیں، تاکہ ان کا خون ضائع ہونا بچ جائے۔
لیکن ڈاکٹر مختلف حیلے بہانے بنا کر آمادہ ہی نہیں ہوئے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ واحد زخموں کی تاب نہ لا کر ہلاک ہو گئے تھے۔ واحد کی ایک بیٹی ہے۔ گولی لگنے سے ہلاک ہونے والوں میں ڈاکٹر رخشندہ بھی شامل تھیں۔
وہ اپنے شوہر اور ایک نوزائیدہ بچے سمیت کار میں پونے دس بجے لطیف آباد جا رہی تھی کہ انہیں ایک گولی کار ہی میں لگی۔ ڈاکٹر رخشندہ ہسپتال پہنچنے سے قبل ہی دم توڑ گئی تھیں۔ وہ اس مقام سے جہاں انہیں گولی لگی تھی چند قدم کے فاصلے پر واقع قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔
جب لوگوں کو ہوش آیا کہ ان کے شہر میں اس بڑے پیمانے پر قتل عام ہو گیا ہے تو لوگ اپنے گھروں اور محلوں سے باہر نکلے۔ ان لوگوں نے زخمیوں اور لاشوں کو ہسپتالوں میں پہنچایا۔
انہیں اٹھانے کے لیے کوئی ایمبولنس کی سہولت نہیں تھی۔ کالی پیلے رنگ کی چھ نشستوں والی رکشہ سے لاشوں اور زخمیوں کو ہسپتالوں میں لایا جا رہا تھا۔
یہ گاڑیوں شہر کے مختلف علاقوں سے زخمیوں کو لطیف آباد میں واقع سینٹ ا لزبتھ ہسپتال المعروف امریکن ہسپتال اور بھٹائی ہسپتال لا رہی تھیں۔ لوگ لاشوں اور زخمیوں کو لا لا کر بوریوں کی طرح ہسپتال کے میدان میں پھینک رہے تھے۔
جب میں اور ادریس بختیار صاحب امریکن ہسپتال پہنچے تو میری تو حالت ہی غیر ہو گئی۔ ہسپتال کے میدان میں لاشیں ہی لاشیں پڑی تھیں اور لاشوں کے بیچ میں زخمی بھی شامل تھے۔ علاقے کے لوگ رضاکارانہ طور پر زخمیوں کو پانی وغیرہ پلا رہے تھے اور لاشوں کو ایک طرف رکھ رہے تھے۔
امریکن ہسپتال میں اس وقت بھی معمولی سا آپریشن تھیئٹر تھا جہاں زچگی وغیرہ ہوتی ہے۔ اس آپریشن تھیئٹر میں سرجن اظہر حسین زخمیوں کے زخموں کو ٹانکے لگا رہے تھے، مرہم پٹی کر رہے تھے۔ ان کی مدد کے لیے ڈاکٹر اکمل جمال موجود تھے۔
جوتے انسانی خون سے لتھڑ گئے
سرجن اظہر ہسپتال کے سامنے ایک سڑک پر واقع گھر میں مقیم تھے۔ ڈاکٹر اکمل بھی ہسپتال کے قریب ہی رہتے تھے۔ تھیئٹر کے باہر امریکن ہسپتال کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر شمیم جو ہسپتال کے احاطے میں ہی رہائش رکھتے تھے، مصروف تھے جو زخمی نازک حالت میں تھے انہیں تھیئٹر میں بھیج رہے تھے۔
ہسپتال کا میدان تو لاشوں اور زخمیوں سے اٹااٹ بھرا تھا لیکن اس کے چوڑے کوریڈور میں بھی زخمی اور لاشیں پڑی تھیں۔ ہم جیسے جیسے آگے بڑھ رہے تھے، ہمارے جوتے انسانی خون سے لتھڑتے جا رہے تھے۔
ہم نے ایسا منظر پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ میں نے فوٹو بنوانے کی کوشش کی۔ ہسپتال سے باہر آیا تو فوٹو گرافر علی واحد مل گئے۔ میں نے ان سے پوچھا کہ فوٹو بنائے ہیں، ان کا سپاٹ سا جواب تھا کہ میرے پاس فلم ہی نہیں ہے۔
میں انہیں ساتھ لے کر سات نمبر لطیف آباد جہاں ہسپتال واقع ہے، سے آٹھ نمبر لطیف آباد، گیارہ نمبر لطیف آباد گیا تاکہ کہیں سے فلم مل جائے یا فلم سمیت کیمرا مل جائے۔ گیارہ نمبر میں دو گاڑیاں جل رہی تھیں لوگ اپنے دروازوں کی اوٹ سے باہر دیکھ رہے تھے۔
ایک مکان سے اخبار فروش مرتضیٰ بر آمد ہوئے اور ہمارے آنے کی وجہ معلوم کی۔ میں نے اپنی ضرورت کا ذکر کیا تو کورا جواب ملا۔
ہم بادل نخواستہ واپس ہسپتال پہنچے۔ یہیں ہمیں کسی نے مشورہ دیا تھا کہ اپنے گھر جاکر بیٹھو۔ علی واحد کو اتار کر اور ادریس صاحب کو ساتھ لے کر ہم لطیف آباد سے شہر آگئے۔
شہر میں ٹریفک تو چالو ہو گیا تھا لیکن تمام کاروبار بند تھا۔ انتظامیہ نے ہنگاموں کی روک تھام کی غرض سے غیر معینہ مدت کے لیے کرفیو نافذ کر دیا تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب فون کی لینڈ لائن ہوتی تھی اور کیمرے کے بغیر فوٹو کھینچنا ممکن نہیں ہوتا تھا۔
اخباروں میں ہلاکتوں کی متضاد تعداد
میں بھی اپنے گھر چلا گیا تاکہ خبریں جمع کر کے اخبار کو لکھوا سکوں۔ میں اس دور میں کراچی سے شائع ہونے والے شام کے انگریزی روزنامہ ’سٹار‘ کے ساتھ ساتھ صبح کے اردو روزنامہ ’حریت‘ کے لیے بھی کام کرتا تھا۔ ’حریت‘ اس زمانے میں ’ڈان‘ اخبار کی انتظامیہ شائع کرتی تھی۔
’حریت‘ واحد اخبار تھا جن نے ہلاک ہونے والوں کی تعداد 80 لکھی تھی۔ ’حریت‘ کی سرخی تھی: ’حیدرآباد میں جگہ جگہ فائرنگ، 80 ہلاکت، 220 زخمی، کرفیو کا نفاذ۔
’جنگ‘ جیسے اخبار نے تعداد 50 لکھی تھی۔ ’نوائے وقت‘ اور ’جسارت‘ نے 60 ہلاکتیں بتائی تھیں۔ البتہ نوائے وقت نے دوسرے روز سرخی لگائی: ’حیدر آباد کے سفاکانہ قتل عام میں مرنے والوں کی تعداد 160 سے زیادہ ہو گئی۔‘
اتنا بڑا سانحہ صرف یک طرفہ اندھا دھند فائرنگ کا نتیجہ تھا۔ قاتل ایسے دندنا رہے تھے جیسے شکار کرنے نکلے ہوں۔ بعض اخبارات نے لکھا کہ ہنگاموں کی وجہ سے ہلاکتیں ہوئی ہیں، جو اس لیے غلط تھا کیوں کہ کہیں بھی کسی قسم کا ہنگامہ نہیں ہوا تھا۔
پولیس نے عدالت میں جو مقدمہ درج کیا تھا اس میں بتایا گیا تھا کہ حیدرآباد کے مختلف علاقوں میں 30 ستمبر، 1988 کو ہلاک ہونے والوں کی تعداد 200 افراد تھی۔ بعد میں یہ تعداد زخمیوں کے ہلاکت کے بعد 256 ہو گئی تھی۔ پولیس نے کل 68 مقدمات درج کیے تھے۔
ان میں ایف آئی آر سٹی تھانہ، 23 ایف آئی آر مارکٹ تھانہ، 16 ایف آئی آر لطیف آباد اے سیکشن تھانہ، دو ایف آئی آر ہوسڑی تھانہ، اور دو آیف آئی آر پھلیلی تھانے میں درج ہوئی تھیں۔
پولیس نے تو ایک ایک ایف آئی آر ریاست کی جانب سے درج کی تھیں لیکن بعد میں لوگوں نے اپنے پیاروں کی ہلاکتوں اور مالی نقصانات کے بارے میں آیف آئی آر درج کرائی تھیں۔ واقعے کے فوری بعد لاوارث حالتوں میں چھوڑ کاریں کر ملزمان زیر زمین چلے گئے تھے۔
قادر مگسی سمیت تمام لوگ کئی دنوں کے بعد منظر عام پر آئے اور انہوں نے گرفتاریاں دے دیں۔
پولیس نے چالان میں ڈاکٹر قادر مگسی سمیت 33 افراد کو نامزد کیا۔ ان میں امیر بخش بھمبرو جنہوں نے بعد میں سندھ نیشنل پارٹی بنالی تھی، شفیع برفت جو آج کل خود ساختہ جلاوطن ہیں اور کالعدم ’جیے سندھ متحدہ محاذ‘ کے سربراہ ہیں، ڈاکٹر ہمایوں قاضی، محبوب ابڑو، ڈاکٹر داود اوٹھو، ڈاکٹر عظیم کندھر، ڈاکٹر قدیر میمن، داکٹر حمید میمن، کریم لغاری، ڈاکٹر مظہر میمن، جرائم پیشہ حسن چانڈیو، نواب لغاری، ڈاکو جانو آرائیں کے نام شامل کیے تھے۔
ملزموں کے خلاف کیس میں کوئی میرٹ نہیں
مقدمہ چلا، مگر حیدر آباد کے ایڈیشنل سیشن جج نے ڈاکٹر قادر مگسی سمیت 34 افراد کی رہائی کا حکم دے دیا۔ حکومت اس فیصلے کے خلاف اپیل میں چلی گئی۔
سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس سید زوار حسین جعفری اور جسٹس عزیز اللہ میمن پر مشتمل ڈویزن بنچ نے 27 اکتوبر، 2004 کو 33ملزمان کو طلب کیا تھا۔ عدالت نے تمام ملازمان کو بری کردیا تھا۔ حکومت کی طرف سے اپیل کی گئی۔
اس کی 19 مئی 2017 کو ہونے والی سماعت کے دوران سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس نعمت اللہ پھلپوٹہ اور محمد کریم خان آغا نے فیصلہ دیا کہ ’جس عدالت نے بری کرنے کا فیصلہ دیا تھا وہ مضبوط بنیادوں پر تھا اور اس میں مداخلت کا کوئی جواز نہیں بنتا۔ بریت کے خلاف اپیلوں کی کوئی میرٹ نہیں ہے اس لیے ان کو خارج کیا جاتا ہے۔‘
اس فیصلے کے بعد ’بلیک فرائیڈے‘ اور ’ستمگر ستمبر‘ کے تمام ملزمان باعزت بری ہو گئے۔
حیدر آباد کے ان 256 افراد کے قاتل کون تھے، یہ معلوم نہیں ہو سکا، نہ کبھی معلوم ہو سکے گا۔ جنگ اخبار میں 30 ستمبر کی رات حیدر آباد میں ہونے والے اندہوناک اور دل خراش واقعے کی خبر کے علاوہ آٹھویں کالم میں یکم اکتوبر کے روز چند سطری ایک خبر شائع ہوئی تھی۔
اس خبر میں کہا گیا تھا، ’فائرنگ کرنے والوں میں دو بدنام ڈاکو شامل ہیں۔ کراچی (سٹاف رپورٹر)۔ حیدرآباد میں جمعہ کی رات کو اندھا دھند فائرنگ کر کے متعدد بے گناہ شہریوں کو ہلاک اور زخمی کرنے والے افراد میں ایک مخصوص تنظیم کے افراد شامل تھے۔
’اس سلسلے میں حکومت سندھ کے باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ فائرنگ کر کے فرار ہوجانے والے افراد میں سے دو افراد کو بدنام ڈاکو جانو آرائیں اور قادر مگسی کے نام سے شناخت کر لیا گیا ہے جو اس تنظیم سے تعلق رکھتے ہیں۔‘
جنگ میں خبر کس ذریعے سے کس طرح شائع ہوئی کیوں کہ پولیس اور انتظامیہ کو تفتیش اور تحقیق کرنے کا وقت ہی نہیں ملا تھا۔ لیکن خبر میں ڈاکو جانو آرائیں اور قادر مگسی کے نام شائع کیے گئے تھے۔
اس خبر کی وجہ سے ملزمان کو فائدہ اس لیے پہنچا کہ وکلائے صفائی نے سوال اٹھایا تھا کہ واقعے کے تین گھنٹے کے اندر جب کسی طرح کی تفتیش اور تحقیق نہیں ہوئی تھی تو قادر مگسی اور جانو آرائیں کے نام دینا بدنیتی ظاہر کرتا ہے۔
سرحد کے اس پار کے لوگ ملوث ہیں
سندھ کے ممتاز سیاسی رہنماء شاہ محمد شاہ (آج کل وہ ن لیگ سندھ کے صدر ہیں) اپنی یاداشتوں میں لکھتے ہیں کہ ایک خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے افسر کرنل ایوب (ان کا انتقال ہو گیا ہے) کو لے کر صحافی ظہیر احمد علی الصبح شاہ محمد شاہ کے پاس پہنچے۔
کرنل ایوب نے ان سے کہا کہ وہ اپنے بیانات میں آئی ایس کا ذکر نہ کیا کریں۔ شاہ محمد شاہ نے مجھے حال ہی میں بتایا کہ جنرل رحیم الدین خان (جنرل رحیم الدین جنرل ضیاء الحق کے سمدھی ہیں) سیاسی رہنماؤں سے ملاقات کر رہے تھے تو انہوں نے کہا کہ سرحد کے اس پار کے لوگ اس واقعے میں ملوث ہیں۔
شاہ محمد شاہ کہتے ہیں کہ انہوں نے جنرل رحیم نے کہا کہ اس طرف کے لوگ ضرورہو سکتے ہیں لیکن اس طرف کے لوگ بھی ملوث ہوں گے۔ انہوں نے کرنل ایوب کی ان کے پاس آمد کا ذکر کیا۔
30 ستمبر کو قتل عام حیدرآباد میں ہوا، اس واقعے کے تین چار گھنٹوں کے اندر کراچی کی بعض بستیوں میں سندھی زبان بولنے والوں کے نشان زدہ مکانات پر حملے کیے گئے، جن میں 50 سے 60 شہری قتل ہوئے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یہ سوال آج تک اپنی جگہ موجود ہے کہ ان قتل عام سے کسے کیا فائدہ پہنچا یا کس نے فائدہ اٹھایا یا حیدر آباد اور کراچی میں کیے جانے والے ان قتل عام کی کیا ضروورت تھی؟
کس سے پوچھوں، کس سے سوال کروں؟
ہلاک ہونے والوں میں مسرت نامی ایک صاحب بھی تھے جو اپنی اہلیہ اور بچوں کے ساتھ حیدر آباد میں اپنے گھر جارہے تھے۔
30 سال بعد میں نے مسرت مرحوم کی بیوہ محسنہ خانم سے 2017 میں ایک ملاقات کے دوران 30 ستمبر کے المناک واقعے کے بارے میں معلوم کیا تو ان کے تاثرات تھے:
’یہ 30 سال، لمحہ لمحہ، پل پل، مر مر کر گزرے ہیں۔ اس دوران خوشیاں بھی آئیں تو وہ ہمیں یاد آئے اور غم آئے تو بھی یاد رہے۔ آج بھی میرے لیے ہر شام وہ 30 ستمبر کی شام ہوتی ہے۔ میں کبھی وہ منظر بھلا نہیں پاتی، میں نے انہیں خون میں لتھڑا ہوا دیکھا ہے۔
مجھے اپنی بیٹی کی وہ حالت بھی یاد آتی ہے، ننھا سا، نازک سا بدن تھا اس کا،اس کے تمام اعضا باہر نکل چکے تھے۔
’میں اپنی بیٹی کو بھول نہیں پاتی ہوں، نہ ہی مسرت کو بھول سکی ہوں۔ ہر شام میرے لیے بہت دکھ بھری ہوتی ہے ۔میں نے کسی کا کچھ نہیں بگاڑا تھا تو میرے ساتھ ایسا کیوں ہوا۔ میں کس سے پوچھوں، کس سے سوال کروں؟‘