حال ہی میں حیدرآباد میں وفاقی اردو یونیورسٹی کے قیام کے اعلان کے بعد جمعرات کو وزیراعظم ہاؤس اسلام آباد میں یونیورسٹی کے افتتاح کی تقریب کے لئے گورنر سندھ عمران اسمعیل، مئیر کراچی وسیم اختر، پی ٹی آئی اور ایم کیو ایم کے قومی اور صوبائی ارکان اسمبلی کو مدعو کیا گیا لیکن سندھ حکومت یا پی پی پی کے کسی قانون ساز کو دعوت نہیں دی گئی۔
جوابا سندھ حکومت نے صوبائی حکومت کی رضامندی اور مشاورت کے بغیر صوبے کے کسی شہر میں یونیورسٹی کے قیام کی مخالفت کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ جب بھی یونیورسٹی کی منظوری کے لیے بل سندھ اسمبلی میں پیش کیا جائے گا تو وہ پاس نہیں ہونے دیں گے۔
پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) کے رہنما اور سندھ حکومت کے ترجمان بیرسٹر مرتضی وہاب نے کہا کہ آٹھارویں ترمیم کے بعد یونیورسٹیاں اب صوبائی دائرے کار میں آتی ہیں لہذا قانون سازی کے بغیر حیدرآباد میں وفاقی یونیورسٹی بنانے کی منظوری خلاف قانون ہے۔
ترجمان کی جانب سے جاری بیان میں انہوں نے سوال کیا کہ عمران خان بتائیں کہ وزیراعظم ہاؤس میں بننے والی یونیورسٹی کا چارٹر منظور ہوگیا؟
مرتضی وہاب نے تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اعلان کے باوجود وزیراعظم ہاؤس کو یونیورسٹی بنایا نہیں جاسکا لیکن حیدرآباد یونیورسٹی بنانے چلے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ حیدرآباد یونیورسٹی کا اسلام آباد میں افتتاح سندھ کے ساتھ مذاق ہے، جس کے لیے سندھ حکومت سے منظوری بھی نہیں لی گئی۔
وزیراعلی ہاؤس سندھ کے ترجمان رشید چنا نے وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے حیدرآباد میں یونیورسٹی کے قیام کے اعلان کو غیر آئینی، غیر جمہوری اور غیر قانونی قرار دیتے ہوئے ایسے اقدام کو سیاسی سکور کرنا قرار دیا۔
رشید چنا نے انڈیپنڈنٹ اردو کو بتایا کہ حیدرآباد میں سندھ یونیورسٹی کا پرانا کیمپس موجود ہے جبکہ حال ہی میں وزیراعلی سندھ نے ڈگری کالج کو یونیورسٹی کا درجہ دیا ہے۔ اس کے علاوہ جامشورو میں حیدرآباد سے متصل تین بڑی یونیورسٹیاں ہیں، اس لحاظ سے حیدرآباد کو یونیورسٹی کی ضرورت ہی نہیں ہے۔
انہوں نے کہا: ’ اگر وفاقی حکومت ضرورت کے تحت یونیورسٹی بنانا چاہتی ہے تو تھر میں یونیورسٹی کی شدید ضرورت ہے، وہاں بنائیں، ٹھٹھہ میں بنائیں۔‘
’ایسی کوشش صرف حکومت اتحادی ایم کیو ایم کی حیدرآباد میں گرتی ہوئی سیاسی ساکھ کو بحال کرنے کے لیے کی جارہی ہے۔‘
رشید چنا کا مزید کہنا تھا کہ ایم کیوایم کا دیرینہ خواب ہے کہ حیدرآباد میں یونیورسٹی کا قیام سندھ حکومت کی اجازت کے بغیر عمل میں لایا جائے، جو ممکن نہیں ہے۔
2014میں بحریہ ٹاؤن کے سربراہ ملک ریاض نے کراچی اور حیدرآباد میں متحدہ قومی موومنٹ کے بانی الطاف حسین کے نام سے دو عالمی معیار کی جامعات بنانے کا اعلان کیا تھا مگر سندھ حکومت کی جانب سے اجازت نہ ملنے پر ایس نہ ہو سکا۔
قانونی ماہرین نے بھی سندھ حکومت کی منظوری کے بغیر یونیورسٹی کے قیام کو غیر قانونی قرار دیا ہے۔
سابق ایڈووکیٹ جرنل سندھ بیریسٹر ضمیر گھمرو نے کہا قانونی طور پر وفاقی حکومت کسی صوبے میں کوئی یونیورسٹی نہیں بنا سکتی، جب تک صوبے کی حکومت سے اجازت نہ لی جائے اور کسی بھی یونیورسٹی کے قیام کے اعلان سے پہلے صوبائی حکومت سے اس یونیورسٹی کا چارٹرمنظور کرانا ضروری ہوتا ہے ورنہ قیام کےاعلان کی کوئی قانونی حیثیت نہیں۔
گھمرو نے انڈیپنڈنٹ اردو کو بتایا کہ اس حوالے سے سپریم کورٹ کا 2012 میں دیا گیا ایک فیصلہ بھی ریکارڈ پر ہے جس میں وفاقی حکومت کسی صورت صوبوں میں یونیورسٹی نہیں بنا سکتی۔ ’اس کے علاوہ آئین پاکستان بھی اس کی اجازت نہیں دیتا اور اٹھارویں ترمیم کے بعد تو بالکل بھی ممکن نہیں ہے۔‘
’میرا ذاتی خیال ہے کہ اس یونیورسٹی کا چارٹر سندھ حکومت سے منظور کروائے بغیر افتتاح کرنا صرف اپنی اتحادی ایم کیو ایم کوخوش کرنا ہے۔‘