افغانستان سے امریکی سرپرستی میں چلنے والی مداخلت کے خاتمے کے بعد غیر ملکی امدادی کارکنان اور ٹھیکیداروں کی بیشتر تعداد بھی کوچ کر چکی ہے۔ ممکن ہے یہ افغانستان کی جنگی قالین کی صنعت کا بھی خاتمہ ثابت ہو۔
اسلام کی بصری اور مادی ثقافت کا محقق ہونے کے ناطے 1990 کی دہائی میں افغانستان اور پاکستان میں ٹرکوں کی آرائش کے فن پر کتاب لکھنے کے دوران جنگی قالین کی صنعت سے میری پہلی مرتبہ شناسائی ہوئی۔
جنگی قالین یعنی جنگ کی علامات سے آراستہ قالین اپنے انداز میں بہت انوکھے اور جدت پسندانہ ہیں۔ لیکن بالعموم صارفین، صحافی اور عجائب گھروں کے نگران حضرات انہیں سمجھنے میں ٹھوکر کھا جاتے ہیں۔
جنگی قالین کی فروغ پذیر صنعت
بیسویں صدی سے قبل جنگی قالینوں کی موجودگی کا کوئی سراغ نہیں ملتا۔
1979میں افغانستان پر سوویت یونین کے حملے کے بعد لاکھوں افغانی ملک بدر ہو کر پاکستان میں قائم مہاجر کیمپوں میں پناہ گزیں ہوئے اور وہیں سے جنگی قالینوں کے ابتدائی نمونے سامنے آئے۔ بھیڑ کی موٹی اونی سے تیار شدہ ان چھوٹے اور بے ڈھنگے قالینوں پر بندوقیں، ہیلی کاپٹر اور ٹینک بنے ہوئے تھے۔
قالین سازوں اور یادگاری اشیا رکھنے والے دکانداروں نے انہیں غیر حکومتی تنظیموں کے کارکنوں اور مغربی حکومتی افراد کو بیچنا شروع کر دیا۔ البتہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کی بنت میں نفاست پیدا ہو گئی۔
ارادتاً یا غیر ارادی طور پر انگریزی الفاظ بے ربط انداز میں روسی رسم الخط اور ہجوں کی صورت میں لکھے گئے تاکہ سوویت یونین سے قرب کا احساس ہو۔
نائن الیون کے بعد چند مخصوص انداز فروغ پانے لگے جس کا مطلب تھا قالین بُننے والے افراد ان نمونوں پر عمل پیرا تھے جو انہیں قالین کے تاجر فراہم کر رہے تھے۔ اس مخصوص پیکر سازی سے یہ بآسانی واضح ہوتا تھا کہ ان کا بنیادی مقصد امریکی یادگاری اشیا کی مارکیٹ کو اپنی طرف متوجہ کرنا تھا۔
نائن الیون کی تصویر کشی کرتا ایک مقبول عام ڈیزائن اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ ان حملوں کے ذمہ دار افغانی نہیں بلکہ غیر ملکی دہشت گرد تھے۔
افغانستان کے نقشے والا ایک اور ڈیزائن اپنے متن اور پیکروں سے افغانستان کی امریکہ سے دوستی کا دعوی کرتا ہے۔ اس تصویر میں جو خطہ طالبان سے منسوب دکھایا گیا اس کے اوپر ٹیررازم اپنے غلط ہجے (terrarism) کے ساتھ درج ہے۔
بعض جنگی قالینوں پر لکھا ہوتا کہ وہ شبرغان میں بنے ہیں، افغانستان کا یہ شمالی علاقہ ترکمانی قالین سازوں کے لیے مشہور ہے۔
یہ بات بعید از قیاس ہے کہ وہ سب وہاں بنتے ہوں۔ تاہم چاہے وہ شمالی افغانستان میں بنے ہوں یا پاکستان کی افغان بستیوں میں ان پر انگریزی میں کنندہ ’شبر غان‘ اس بات پر مہر ثبت کر دیتا ہے کہ وہ افغانستان میں بنے ہیں۔
یہ قالین ای بے پر اور حالیہ دنوں تک کابل اور مزار شریف جیسے افغانستان کے ان شہروں میں یادگاری اشیا کے تاجر بیچتے نظر آتے تھے جہاں غیر ملکی کارکنوں اور سیاحوں کی تعداد ملک کے دیگر علاقوں کی نسبت زیادہ ہوتی تھی۔ طالبان کی اقتدار میں واپسی کے بعد ابھی تک یہ واضح نہیں کہ جنگی قالین سازی اور اس کی مارکیٹ کا کیا بنے گا۔
گذشتہ کچھ برسوں کے دوران جنگی تصورات کو اظہار کے زیادہ نفیس سانچے میسر آئے، قالینوں کا سائز اور معیار بڑھا ہے اور ان پر روایتی انداز کے بھاری بھرکم پیکروں کی جگہ چھوٹے ٹینک نظر آتے ہیں۔ دیگر قالینوں میں روایتی اور جدید طرزوں کا انتہائی جامع سنگم ملتا ہے۔
اگرچہ ان بڑے قالینوں پر عام چھوٹے اور موٹے قالینوں کی نسبت زیادہ پیسہ اور وقت خرچ ہوتا ہے لیکن اس کے باوجود وہ عمدہ قالینوں کے معیار کو نہیں پہنچتے جس کا مطلب ہے ان کی کھپت آرام دہ گھروں کی تزئین و آرائش کے بجائے یادگاری اشیا بیچنے والوں کی دکانیں میں ہوتی ہے۔
قالین کی علامتی حیثیت سمجھنے میں ٹھوکر
گذشتہ 20 برسوں کے دوران افغانستان کے جنگی قالینوں نے اچھی خاصی توجہ حاصل کی ہے۔
جرمنی اور انگریزی میں شائع ہونے والی کتب ان کا ذکر، ان کی کیٹلاگ سازی اور ان کے سیاق و سباق کا مطالعہ کرتی ہیں۔ رسائل اور بڑے اخبارات نے ان پر فیچرز کیے اور یونیورسٹیوں کی آرٹ گیلریوں میں ان کی نمائشیں پیش کی گئی ہیں۔
افغانستان پر بات کرتے ہوئے ان قالینوں کو بُننے والوں کے جذبات کی عکاسی کے طور پر دیکھا جانے لگا ہے کہ جنگ اور تشدد سے تباہ حال لوگ اپنے ڈیزائنوں میں اپنے جنگی مدعا کا اظہار کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔
مضامین اور نمائشیں اکثر و بیشتر یہ حقیقت نظر انداز کر دیتی ہیں کہ قالین بُننے والے نہیں بلکہ ان کے دلال اور کاروباری افراد انہیں مارکیٹ کے ذوق کے مطابق تیار کرواتے ہیں۔
قالین سازی کی صنعت میں مزدوروں پر کی گئی تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ وہ عام طور پر نئے انداز، نئے رنگوں اور مختلف انداز کی بُنت کے قالین بھیجتے ہیں۔ میں نے طویل عرصے پر محیط اپنے مشاہدے میں یہی جدت پسندانہ رویے دیکھے ہیں۔
بہرحال سادہ سی بات یہ ہے کہ بالآخر افغانی جنگی قالین مارکیٹ میں بیچنے کے لیے بنائے جاتے ہیں۔
اس کے باوجود آپ دیکھیں گے کہ نمائشیں منعقد کرنے والے ٹھیکدار جنگی قالینوں کو ’قالین سازوں کی روزمرہ زندگی کی تازہ ترین صورت حال قدیم انداز میں‘ قرار دیتے ہیں یا جنگ زدہ علاقے میں ’عام غریب شہریوں‘ کی روزمرہ زندگی میں جھانکنے کی کھڑی کہتے ہیں۔
2014 میں نیویارک ٹائمز نے لکھا کہ قالین تیار کرنے والے افراد نے ’اپنے روایتی فن کے ذریعے جنگ زدہ علاقے میں زندگی کے تلخ حقائق‘ کو پیش کیا ہے۔
چھ سال قبل سمتھ سونین میگزین نے بہت سی دیگر باتوں کے علاوہ مختصراً یہ اعتراف کیا کہ قالین سیاحوں کے لیے نہیں بلکہ انتہائی محدود دلائل کی بنا پر کہا کہ ابتدائی ترین قالین روس کے خلاف لڑنے والے افغان صارفین کے لیے تھے۔
آگے جا کر مصنف لکھتے ہیں کہ جب خواتین قالین سازوں نے قالین بنائے تو انہوں نے تشدد کو دکھانے کے لیے اپنی زندگیوں سے علامات اٹھائیں۔
دکھ کی منڈی کے بڑھتے بھاؤ
افغان جنگی قالینوں کے متعلق جب بہت سے ایسے شواہد ملتے ہیں کہ وہ مارکیٹ کی ڈیمانڈ کے مطابق تیار ہوتے ہیں تو پھر اس بات پر اصرار کیوں کہ وہ بُننے والوں کے جنگی تجربات کی ترجمانی کرتے ہیں؟
اس بات کا کسی حد تک جواب دستکاری کی عالمی طلب میں پوشیدہ ہے۔ صارفین کو جس وقت ٹین تھاؤزند یا ایٹسی جیسے آن لائن سٹورز یا چین سٹورز میں ہزاروں کی چیزیں فروخت کی جاتی ہیں تب وہ دستکاروں کے ہاتھ کی بنی ہوئی چیزیں خریدنے کی جذباتی کیفیت محسوس کرنا چاہتے ہیں۔
یہ سوچتے ہوئے کہ قالین تکلیف زدہ اور بے سہارا افغان خواتین کا ذریعہ معاش ہیں وہ اس حقیقت کو نظر انداز کر دیتے ہیں کہ نفع کی ایک کثیر مقدار مڈل مین اور ڈیلرز کو چلی جاتی ہے۔ گھروں میں کام کرنے کی وجہ سے مزدوروں کو جب بھی وقت ملتا ہے وہ قالین تیار کرنے بیٹھ جاتے ہیں۔
اس وجہ سے چھوٹے بچوں کو بھی مزدوری کرنا پڑتی ہے، بچوں کو عام طور پر خام قالین تیار کرنے پر لگا دیا جاتا ہے یا ان سے زبردستی وہ کام لیے جاتے ہیں جو بڑوں کے ذمے ہوتے ہیں۔
جنگی قالینوں کی اپیل اور اس بات پر اصرار کہ ان کے ڈیزائن جنگ کے متاثرین کے تجربات کی عکاسی کرتے ہیں دراصل افغان شہریوں کے جذباتی تجربات کو ہر حال میں دیکھنے کی ہماری اپنی خواہش کا اظہار ہے۔
اس طرح حقیقت میں یہ قالین افغانیوں کے اصل تجربات کے بجائے مظلوم ہونے کے اس تصور کو ترجیح دیتے ہیں جو ناظرین اور صارفین کا قائم کردہ ہے۔ گھر بار، مال مویشی، خاندان کے افراد کی اموات یا اشیائے خورد و نوش کی کمی جیسے زندگی کے تلخ حقائق فن قالین سازی میں پیش نہیں کیے جاتے۔
نہ ہی ہمیں یہ فرض کرنا چاہیے کہ بُننے والے اپنے دکھوں کو دنیا کے سامنے نمائش کے لیے پیش کرنا چاہتے ہوں گے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جدید قالین اپنی ذات کے اظہار کا محل نہیں ہیں اور ڈیزائن ایسی علامات سے مزین ہونے چاہیں جو آؤٹ سائیڈر کی جنگ سے متعلق سوجھ بوجھ کا اظہار ہوں جیسا کہ نائن الیون، کلاشنکوف، سکیورٹی پالیٹکس اور ڈرون وغیرہ۔
کئی دہائیوں کے تشدد اور محرومی سے افغانیوں کے نفسیاتی اور جسمانی صحت پر پڑنے والے اثرات قالینوں میں کہیں دور دور تک نظر نہیں آتے۔
نفسیاتی صدمے کو خرید و فروخت کی شے بنا دینا مشکل ہے اور اس کے ساتھ زندگی جینا مشکل تر، چاہے وہ سیاحتی تحفے کی شکل میں کیوں نہ ہو۔
نوٹ: یہ تحریر اس سے پہلے ’دا کنورسیشن‘ میں شائع ہوئی تھی اور یہاں ان کی اجازت سے چھاپی جا رہی ہے۔ اس کے مصنف پروفیسر جمال جے الیاس امریکہ کی پینسلوینیا یونیورسٹی میں والٹر ایچ این برگ پروفیسر آف ہیومینیٹیز اور ریلیجس سٹڈیز ہیں۔