پاکستان کے معروف ڈیزائنرز میں سے ایک اور گذشتہ 31 سال سے ملبوسات کے لیے مشہور حسن شہریار یاسین (ایچ ایس وائے) نے اب ہالی ووڈ میں قدم رکھ دیا ہے۔
ملبوسات اور ڈیزائنز کے علاوہ کئی پروگرامز کی میزبانی اور ڈراموں، فلموں میں بھی کام کرنے والے حسن شہریار یاسین نے ایک ویب سیریز ’ڈیلی بوائز‘ جو ہولو اور کہیں کہیں ڈزنی پلس پر میسر ہوگی کی دو اقساط کے لیے ملبوسات تیار کیے ہیں اور چند سیکنڈز کا ایک کیمیو بھی دیا ہے۔
ان کی کراچی آمد پر ہم نے ان سے ملاقات میں ان کے ہالی وڈ میں داخلے اور تجربات کے بارے میں تفصیل سے بات کی۔
حسن شہریار یاسین نے اپنے ہالی وڈ پہنچنے کی کہانی کچھ یوں سنائی کہ ’ڈیلی بوائز کی جو مرکزی اداکارہ ہیں پورنا ان سے نیویارک میں کافی عرصہ قبل ملاقات ہوئی تھی، وہ اچھی رہی پھر انہوں نے 11 سال بعد پیغام بھیجا کہ وہ ایک ڈیلی بوائز کے نام سے سیریز کررہی ہیں تو کیا آپ اس کے لیے چند ملبوسات تیار کرسکتے ہیں؟
’تو بس اس طرح پہنچا، دیکھا جائے تو اخلاق کی جیت ہوئی ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے دس اقساط کی سیریز کی آٹھویں اور نویں قسط میں جو شادی کے سین تھے اس کے لیے عروسی ملبوسات بنائے تھے، جس کے لیے خاص ہدایات تھیں کہ یہ وہ لوگ ہیں جو 90 کی دہائی کے پاپ کلچر سے متاثر ہیں، اس لیے اسی مناسبت سے ان کے لباس تیار کیے گئے تھے جس میں ہر چیز کو بہت زیادہ تیز دکھانا تھا۔
ڈیلی بوائز میں اکلوتے پاکستانی ہونے کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ سیٹ پر ایسا محسوس نہیں ہوا تھا کیونکہ اس کے مصنف پاکستانی تھے، بہت سے اسسٹنٹ ڈائریکٹرز پاکستانی تھے، جبکہ بہت سے اداکار امریکہ میں دوسری جنریشن کے پاکستانی تھے، اس لیے ان کا انداز کچھ مختلف تھا۔
’لیکن یہ ضرور ہے کہ ہم شاید سوچیں کی یہاں سے امریکہ اداکاروں کو لے کر جاتے، لیکن یہ کردار وہیں کے تھے اور انہیں وہیں کا ہی ہونا چاہیے تھا۔‘
حسن شہریار یاسین کا کہنا تھا کہ کام ملنا آسان نہیں ہوتا، اس کے لیے باضابطہ منصوبہ بندی کے علاوہ ملک کی نمائندگی کی بھی ضرورت ہے، جس کے بعد دروازے کھل سکتے ہیں، لیکن ضروری ہے کہ پڑوسی ملک کے علاوہ، مشرقِ وسطٰی، شمالی افریقہ اور ترکی کی مارکیٹ کو بھی دیکھا جائے۔
حکومت کی جانب سے مدد حاصل ہونے کے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ وہاں کے لوگوں نے تو کافی مدد کی ہے لیکن حکومت کی مدد کے بارے میں وہ کچھ کہنے سے اجتناب کرتے نظر آئے کیونکہ ان کا کہنا تھا کہ شکایت سے بہتر ہے کہ خود کچھ کر لیا جائے اور وہ حکومت سے خفا نہیں ہیں۔
البتہ ان کا یہ کہنا تھا کہ وہ بھی سنتے آئے ہیں کہ پڑوسی ملک والے اپنے لوگوں کی بہت مدد کرتے ہیں۔
اس ویب سیریز میں وہ سکرین پر بھی چند سیکنڈز کے لیے آئے ہیں۔
اس کی تفصیل انہوں نے کچھ یوں بتائی کہ ’پہلے پہل صرف ایک لباس بنانا تھا، لیکن بعد میں سارے بنائے، وہاں خود نہیں جانا تھا لیکن پھر بلا لیا گیا، چند گھنٹوں کے لیے گیا تھا لیکن کئی دن لگ گئے، پھر ایک دن بات کر رہے تھے کہ ڈائریکٹر نے کہا کہ ہم آپ کو بھی اس سین میں لیتے ہیں، بس اچانک ہوا، کپڑے دیے اور میں سکرین پر تھا۔‘
’لیکن کیونکہ وقت نہیں تھا اس لیے میں نے اپنے بنائے ہوئے کپڑے نہیں پہنے۔‘
سیٹ کے بارے میں بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہاں نا کھانے پینے کی اجازت تھی اور نا ہی کسی سے بات کرنے کی، جبکہ وہ پاکستان میں جن سیٹ پر کام کرنے کے عادی ہیں وہاں سب چلتا ہے، جبکہ وہاں سیٹ پر چاہے کوئی بڑا اداکار تھا یا چھوٹا سب برابر تھے۔
پاکستانی اداکاروں کو ہالی وڈ لے جانے پر ان کا کہنا تھا کہ وہ لاکھوں فالوورز رکھتے ہیں، لیکن اگر مل جل کر چلیں تو بہت اچھا ہو جائے گا، اس طرح عالمی سطح پر نمائندگی ہو جائے گی، لیکن اس لیے خود کوشش کرنا ہوگی۔