کھانے میں نمک کی مقدار معمولی کم کر دینے سے بھی صحت پر مفید اثر پڑ سکتا ہے۔
امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے ایک رپورٹ میں لکھا ہے کہ یہ معلوم نہیں کہ کتنا نمک محفوظ ہے اور بعض لوگوں کے لیے اس کی کم مقدار بھی خطرناک ثابت ہو سکتی ہے لہٰذا بہتر یہی ہے کہ کھانے میں نمک کی مقدار کم سے کم رکھی جائے۔
عالمی ادارۂ صحت کی بلڈ پریشر کے بارے میں معلوماتی ویب سائٹ کے مطابق دنیا بھر میں 30 تا 79 برس کے ایک ارب 28 کروڑ لوگ بلڈ پریشر کے مرض کا شکار ہیں جن میں سے 46 فیصد لوگوں کو پتہ ہی نہیں کہ وہ اس مرض کا شکار ہیں، کیوں کہ اس مرض کی کوئی نمایاں علامات نہیں جس کی وجہ سے اسے ’خاموش قاتل‘ بھی کہا جاتا ہے۔
زیادہ بلڈ پریشر کی وجہ سے دل کا دورہ پڑ سکتا ہے اور فالج کا حملہ ہو سکتا ہے اور کھانے میں نمک کے بےدریغ استعمال سے یہ خطرہ کئی گنا بڑھ جاتا ہے۔
امریکہ کی سٹینفرڈ یونیورسٹی کی ایک تحقیق کے مطابق کھانے میں صرف 350 ملی گرام (چائے کی چمچ کا چھٹا حصہ) کم کر دینے سے صرف امریکہ میں 10 لاکھ دل کے دورے اور فالج کے حملوں سے بچا جا سکتا ہے۔
امریکی ادارے ایف ڈی اے کے مطابق نمک کی مقدار 40 فیصد کم کر دینے سے اگلے 10 سال میں امریکہ میں پانچ لاکھ زندگیاں بچائی جا سکتی ہیں۔
خوراک میں نمک کم کرنے کے فوائد جاننے کے لیے چین میں 21 ہزار کے قریب لوگوں پر ایک تحقیق کی گئی جس میں انہیں عام کھانے کے نمک کی بجائے پوٹاشیم ملا نمک دیا گیا جس سے ان میں موت، دل کے دورے اور فالج کا خطرہ نمایاں طور پر کم ہو گیا۔
یاد رہے کہ عام خوردنی نمک میں سوڈیم ہوتا ہے اور اس کا کیمیائی فارمولا سوڈیم کلورائیڈ ہے۔
امریکہ میں صحت کے حکام تجویز کرتے ہیں کہ ہر صحت مند شخص روزانہ 2.3 گرام (چائے کا تقریباً ایک چمچ) سے زیادہ نمک استعمال نہ کرے، مگر جن لوگوں کو بلڈ پریشر کی شکایت ہے، انہیں 1.5 گرام سے زیادہ نمک نہیں استعمال کرنا چاہیے۔
نمک کے بغیر جسم کام نہیں کر سکتا مگر ضروری نمک کی مقدار صرف 220 ملی گرام (ایک گرام کا چوتھائی حصہ) یومیہ ہے، اس لیے لوگ بہت زیادہ مقدار میں فالتو نمک استعمال کر رہے ہیں۔
نمک ہمیشہ سے انسانی خوراک کا حصہ نہیں رہا۔ زراعت کی ایجاد سے پہلے لوگ زیادہ تر خوراک گوشت سے حاصل کرتے تھے جس میں نمک مطلوبہ مقدار میں موجود ہوتا ہے۔
اس کے علاوہ وہ لوگ بہت متنوع قسم کی جڑی بوٹیاں، سبزیاں اور جڑیں وغیرہ کھاتے تھے اور ان میں اناج کے مقابلے پر زیادہ نمک ہوتا ہے۔
زرعی دور کے بعد جب انسان نے اناج کا بڑی مقدار میں استعمال شروع کیا تو اسے کھانے میں اضافی نمک ڈالنے کی ضرورت پڑی کیوں کہ اناج میں نمک کم ہوتا ہے۔ اس کے بعد معدنی نمک کا استعمال شروع ہوا۔
نمک بلڈ پریشر کیسے بڑھاتا ہے؟
آپ نے سکول میں پڑھا ہو گا کہ نمک دو کیمیائی اجزا پر مشتمل ہے، کلورین اور سوڈیم۔ کلورین کی تو خیر ہے لیکن سوڈیم وہ عنصر ہے جو بلڈ پریشر میں اضافے کا باعث بنتا ہے۔
جب کھانے میں نمک زیادہ ہو تو وہ معدے اور آنتوں سے ہوتا ہوا سیدھا خون میں پہنچ جاتا ہے۔
خون میں سوڈیم کی مقدار زیادہ ہو تو گردے جسم سے پانی کا اخراج کم کر دیتے ہیں اور یوں رگوں میں پانی کی مقدار زیادہ ہونے سے جسم میں خون کی مجموعی مقدار بڑھ جاتی ہے۔
خون کی مقدار میں اضافے سے خون کا دباؤ بڑھ جاتا ہے، بالکل ایسے ہی جیسے آپ کسی پائپ میں پانی کی مقدار بڑھا دیں تو پائپ میں پانی کے دباؤ میں اضافہ ہو جائے گا۔
اس اضافی دباؤ کا اثر دل اور رگوں دونوں پر پڑتا ہے اور وہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بیماری کا شکار ہو سکتے ہیں۔
کھانے میں نمک کیسے کم کیا جائے؟
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
چونکہ ہر اچانک تبدیلی کو قبول کرنا مشکل ہوتا ہے، اس لیے نیویارک ٹائمز نے تجویز دی ہے کہ کھانے میں نمک کو بتدریج کم کیا جائے۔
اگر مثال کے طور پر آپ روزانہ دو چمچ نمک استعمال کرتے ہیں تو اسے ایک مہینے تک ڈیڑھ چمچ کر دیجیے، اگلے مہینے آدھا چمچ اور کم کر لیں۔ اس طرح رفتہ رفتہ نمک کم کرنے سے آپ کو ذائقے میں فرق محسوس نہیں ہو گا۔
جب آپ کے ٹیسٹ بڈ کم نمک کے عادی ہو جائیں تو پھر آپ کو وہی دو چمچ نمک والا کھانا اتنا زیادہ نمکین لگے گا کہ اسے کھانا مشکل ہو جائے گا۔
ایک اور ترکیب یہ ہے کہ بجائے کھانا پکتے وقت نمک ڈالنے کے، بعد میں اوپر سے نمک چھڑک دیں۔ اس طرح سے کم نمک استعمال ہو گا اور اس کی مقدار حسبِ ضرورت کم یا زیادہ کی جا سکتی ہے۔
اسی طرح ڈبل روٹی اور بیکری کی بنی نمکین چیزوں میں بہت زیادہ نمک ہوتا ہے، اس سے پرہیز نہیں ہو سکتا تو مقدار کم کر دیں۔
سب سے زیادہ نمک ہوٹلوں کے کھانے میں ہوتا ہے۔ اس لیے ہوٹل کا کھانا کم کر دینے سے یومیہ نمک کی مقدار میں خاصی کمی لائی جا سکتی ہے۔