بھارتی حکومت نے گذشتہ سال متعارف کروائے گئے متنازع زرعی قوانین تو واپس لینے کا فیصلہ کر لیا ہے مگر جس طرح ان قوانین کو پارلیمنٹ سے منظور کروایا گیا، اس سے بھارت میں جمہوریت کی صورت حال کے بارے میں بہت کچھ پتہ چلتا ہے۔
شمالی ریاستوں سے مارچ کر کے دارالحکومت دہلی پہنچنے والے کسانوں کے دھرنے کو جاری رہتے ہوئے تقریباً ایک سال ہو چکا ہے۔ کسانوں کا احتجاج ان قوانین کے خلاف تھا جو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت میں زراعت کے مستقبل پر گہرے طریقے سے اثر انداز ہوتے مگر پارلیمنٹ میں واجبی سی بحث یا معمولی جانچ پڑتال کے ساتھ ہی منظور کر لیے گئے۔
ان کی اہمیت کے باوجود گذشتہ ستمبر کے دوران ایوان زیریں (لوک سبھا) میں بل محض دو دن کے لیے پیش ہوئے جس دوران حکومت نے انہیں تفصیلی جانچ پرکھ کے لیے پارلیمانی کمیٹی کے پاس بھیجنے کی درخواستوں کو مسترد کر دیا۔
اس طریقہ کار سے مایوس اور مجوزہ قوانین کو ’کسان دشمن‘ قرار دیتے ہوئے حکومت میں شامل ایک چھوٹی اتحادی جماعت کے ایک وزیر نے بل منظور ہونے کے بعد احتجاجاً استعفیٰ دے دیا۔
20 ستمبر کو جب حکومت نے پارلیمنٹ کے ایوان بالا راجیہ سبھا میں رائے شماری کے لیے بل پیش کیے تو دن کا آدھا حصہ گزر چکا تھا۔ اپوزیشن جماعتوں نے تفصیلی بحث پر اصرار کیا اور مطالبہ کیا کہ رائے شماری اگلے دن تک ملتوی کر دی جائے، لیکن حکومت نے ان کی بات ماننے سے انکار کر دیا۔
اس کے بعد پارلیمان میں افراتفری پھیل گئی، اپوزیشن سے وابستہ اراکین ایوان میں ہر سمت ہنگامہ کرتے نظر آئے، کچھ نعرے لگا رہے تھے تو کچھ اجلاس کی صدارت کرنے والے ڈپٹی چیئرمین ہری ونش نرائن سنگھ پر کاغذات پھینکنے لگے۔
جلد ہی ایوان کے مائیکروفون بند کر دئیے گئے اور سرکاری ٹی وی سنسد پر کارروائی کی براہ راست نشریات روک دی گئیں۔ بالآخر اپوزیشن نے مطالبہ کیا کہ ہر رکن پارلیمان کا ووٹ انفرادی طور پر الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے ذریعے لیا جائے تاکہ بعد میں انہیں جواب دہ بنایا جا سکے، لیکن اسے بھی رد کر دیا گیا اور بل زبانی رائے شماری کے لیے پیش ہوا جہاں صاحب صدر فیصلہ سناتا ہے کہ ’حق‘ میں پڑنے والے ووٹوں کی تعداد ’مخالف‘ ووٹوں سے زیادہ ہے۔
یہ اصلاحات گذشتہ چھ دہائیوں کے دوران بھارتی زراعت میں سب سے بڑی تبدیلی تھے جن کے ذریعے حکومت کے زیر انتظام تھوک منڈیوں کے سلسلے کو ختم کر کے اس شعبے کو نج کاری کے لیے کھول دیا جانا تھا۔
حکومت کا کہنا تھا کاشت کاری کو جدید خطوط پر استوار کرنے اور نجی سرمایہ کاری کے ذریعے پیداواری صلاحیت بڑھانے کے لیے اصلاحات ضروری ہیں لیکن کسانوں کو خدشہ تھا کہ نئی قانون سازی سے ان کی روٹی روزی تباہ ہو جائے گی اور وہ اپنی فصلیں کارپوریشنوں کو سستے داموں فروخت کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔
گذشتہ سال 25 نومبر کو دہلی میں دھرنا شروع ہونے کے بعد بہت سے دیگر کسانوں کی طرح ان قوانین کے خلاف احتجاج میں شریک اتر پردیش سے تعلق رکھنے والے کسان انوج سنگھ کہتے ہیں مسئلہ صرف قوانین کے مضمرات کا نہیں بلکہ یہ بھی ہے کہ جس طرح انہیں نریندر مودی کی زیر قیادت بی جے پی کی حکومت نے منظور کیا اور اس کے بھارت کی جمہوریت پر جو اثرات مرتب ہوں گے۔
انڈیپینڈنٹ سے بات کرتے ہوئے انوج نے کہا: ’ملک جن حالات سے گزر رہا تھا، یہ گذشتہ سو سال میں پہلی مرتبہ ہوا کہ دنیا ایک وبائی بیماری کی لپیٹ میں تھی۔ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ حکومت اس موقع کو غنیمت جانتے ہوئے ایسا قانون منظور کروائے گی جو ہمارا استحصال کرے۔ ایسا قانون جس کی ضرورت تھی اور نہ کوئی مطالبہ۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
برطانوی پارلیمنٹ ویسٹ منسٹر کے برعکس بھارت کا کوئی مقررہ پارلیمانی کیلنڈر نہیں۔ مجموعی طور پر بھارتی آئین کے مطابق دو پارلیمانی اجلاسوں کے دوران چھ ماہ سے زیادہ وقفے کی گنجائش نہیں لیکن روایتی طور پر ہر سال تین مختصر اجلاس منعقد کیے جاتے ہیں۔ لیکن یہاں تک کہ انہیں بھی مزید مختصر کر دیا جاتا ہے۔
بھارتی پارلیمان کے گذشتہ چاروں اجلاس بہت ہی جلد ختم کر دیے گئے۔
موجودہ سال جولائی میں مون سون سیشن کے دوران ایوان زیریں کو 19 دن تک روزانہ کی بنیادوں پر چھ گھنٹے کام کرنا تھا۔ اس کے باوجود پولیٹیکل ریسرچ انسٹی ٹیوٹ پی آر ایس لیجسلیٹیو کے انڈپینڈنٹ کو فراہم کردہ اعداد و شمار کے مطابق یہ اجلاس اپنے مقررہ وقت کے محض 21 فیصد وقت تک ہی منعقد ہو سکا۔ پورا سیشن بار بار ملتوی اور خلل اندازی کا شکار ہوتا رہا۔
اراکین پارلیمان کا زیادہ وقت کے لیے نہ مل بیٹھنا مودی حکومت سے ہی مخصوص نہیں، 2014 میں اس کی پہلی مدت کے دوران لوک سبھا کے اجلاسوں کا وقت اپنے پیش رو کے مقابلے میں 20 فیصد زیادہ تھا۔ لیکن اس کے باوجود مدت حکومت پوری کرنے والی ماضی کی تمام حکومتوں کی اوسط کے مقابلے میں یہ 40 فیصد کم تھا۔ اعداد و شمار سے واضح ہوتا ہے کہ بھارتی پارلیمان کے اجلاس کے گھنٹوں میں بالخصوص 1977 سے مخلوط حکومت کا دور شروع ہونے کے بعد سے عمومی کمی واقع ہوئی ہے۔
پارلیمانی کمیٹی کو جانچ پڑتال کے لیے بہت کم بل بھیجنے پر مودی حکومت کڑی تنقید کی زد میں آتی ہے۔ پی آر ایس لیجسلیٹیو میں قانون سازی اور عوامی شراکت داری کے لیے کیے جانے والے اقدامات کے سربراہ چاکشو رائے بتاتے ہیں کہ یہ کمیٹیاں ضروری فورم ہیں جہاں حکومت اور اپوزیشن جماعتوں کے اراکین قوانین کے تکنیکی پہلوؤں پر مفصل گفتگو کے لیے کیمروں کے بغیر ملاقات کر سکتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں: ’آپ کے پاس اس موضوع سے متعلق ماہرین موجود ہوتے ہیں جو کمیٹی کے سامنے پیش ہو کر اس کی تصدیق کرتے ہیں اور کسی مخصوص قانون پر تحفظ کا اظہار کرتے ہیں۔
’پارلیمان میں بل پیش کرنے سے پہلے اسے کمیٹی کو بھیجنا متنازع معاملات پر سیاسی اور تکنیکی دونوں اعتبار سے اتفاق رائے پیدا کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔‘
وہ اپنی بات واضح کرتے ہوئے کہتے ہیں: ’پارلیمان میں قانون پاس کروانے کا مطلب ہے ایسا بل پیش کرنا جو (اس) قانون کا بہترین ورژن ہو۔ اس کے لیے دو چیزیں درکار ہوتی ہیں۔ پہلی قانونی مسودے پر جاندار سیاسی بحث اور دوسری مفصل تکنیکی جانچ پڑتال۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’ایسی تکنیکی جانچ پڑتال پارلیمان کے فلور پر نہیں ہو سکتی کیونکہ ممکن ہے وہاں اتنا وقت ہی نہ ملے۔ یہ وقت پارلیمانی کمیٹی کے پاس ہوتا ہے۔‘
لیکن اپوزیشن کے بار بار مطالبے کے باوجود زرعی قوانین کی طرح مودی کے دوسرے دور حکومت میں ابھی تک 88 فیصد ایسے بل متعارف کروائے جا چکے ہیں جو پارلیمانی کمیٹیوں کے سامنے نہیں بھیجے گئے۔ ان کے پہلے دور حکومت میں یہ صورت حال کچھ بہتر تھی جہاں پارلیمان میں پیش کیے گئے 25 فیصد بل کمیٹیوں سے ہو کر آئے تھے۔
اس کا موازنہ ان کے پیش رو ڈاکٹر من موہن سنگھ کے دو ادوار حکومت سے کریں جنہوں نے ایک مکمل اور ٹیکنوکریٹک رہنما کے طور پر اپنا نام پیدا کیا حالانکہ وہ تقریری صلاحیتوں میں ویسے عمدہ نہیں تھے۔
پی آر ایس لیجسلیٹیو کے اعداد و شمار کے مطابق من موہن سنگھ کی 2004 سے 2009 تک کے پہلے دور حکومت میں گانگریسی حکومت نے اپنے 60 فیصد بل پارلیمانی کمیٹیوں کو بھیجے جن کی اوسط دوسرے دور حکومت میں 71 فیصد تک جا پہنچی۔
واضح رہے کہ جبکہ مودی حکومت کے بل جانچ پڑتال کے لیے کمیٹیوں کے سامنے بہت کم رکھے گئے تو جب پارلیمان میں ایک بار پیش کر دئیے گئے تو من موہن سنگھ کے دور حکومت کے مقابلے میں ان پر بامعنی بحث ہونے کا امکان کہیں زیادہ تھا۔
تیس منٹ کے اندر پاس ہونے والے قوانین کا مطلب ہے گویا پارلیمان کے اندر ان پر تقریباً بحث ہوئی ہی نہیں اور ایسے قانونی مسودوں کا تناسب مودی کے پہلے دور حکومت میں محض چھ فیصد تھا جبکہ پچھلی حکومت کے دوران یہ بڑھ کر 26 فیصد ہو گیا۔
ایک ماہر قانون فیضان مصطفیٰ بتاتے ہیں کہ 1980 کی دہائی میں ٹی وی کیمروں کے متعارف ہونے کے بعد سے اجلاس کے دورانیے میں ڈرامائی طور پر کمی آئی۔ رائے کہتے ہیں بحث کے لیے مزید وقت کو یقینی بنانے کا واحد راستہ پارلیمانی اجلاسوں کے دنوں کی تعداد میں اضافہ ہے۔
وہ کہتے ہیں: ’پارلیمنٹ کے اجلاس زیادہ دنوں تک چلنے چاہیے تاکہ وہ نہ صرف حکومت کو جواب دہ ٹھہرا سکے بلکہ اس کے پاس مناسب وقت ہو تاکہ ہر کوئی بول سکے اور ہر کوئی اپنی رائے (سامنے) رکھ سکے۔‘
فیضان مصطفیٰ کہتے ہیں کہ 1985 کے اینٹی ڈیفیکشن لا (فلور کراسنگ کے خلاف قانون) سے بھی پارلیمانی مباحثوں کا معیار متاثر ہوا ہے جن کا مقصد قانون سازوں کی پارٹیاں تبدیل کرنے کی روش کی حوصلہ شکنی کر کے حکومت میں استحکام لانا تھا۔ ’لیکن قانون ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے قانون سازوں کو پارلیمنٹ میں کسی مسئلے پر بحث کے دوران پارٹی لائن کے خلاف جانے سے روکتا ہے۔ بیشتر مضبوط جمہوریت والے ممالک میں ایسا نہیں ہے۔‘
اگرچہ اپوزیشن اور حکومت دونوں کو برابر فائدہ ہے کہ پارلیمنٹ کا نظام درست طریقے سے چلے، رائے کے خیال میں جب یہ موثر طریقے سے کام نہ کر رہی ہو تو اقتدار میں موجود حکومت کو فائدہ ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا: ’اس کا فائدہ یوں ہوتا ہے کہ وزرا کو اپنی وزارت کے کام کاج سے متعلق سوالات کے جوابات نہیں دینا پڑتے۔ بغیر بحث مباحثے کوئی قانون منظور ہو جاتا ہے۔ اس طرح قانون سازی کا حکومتی ایجنڈا پورا ہو جاتا ہے۔ اپوزیشن کو نقصان اٹھانا پڑتا ہے کہ وہ وزرا پر گرفت کرنے یا قانون میں بہتری کی نشان دہی کا موقع گنوا دیتے ہیں۔‘
راج سبھا (ایوان بالا) میں رکن پارلیمان اور اپوزیشن کی دوسری سب سے بڑی جماعت ترینمول کانگریس کے اہم رہنما ڈیرک اوبرائن اینٹی ڈیفیکشن لا کی حمایت کرتے ہیں۔
’میرا خیال ہے آپ پارٹی کے فورمز پر آزادی سے اظہار خیال کر سکتے ہیں۔ آپ کو پہلے اپنی جماعت کو قائل کرنا ہو گا لیکن جب ایک بار آپ کی جماعت نے کوئی فیصلہ کر لیا اور آپ جماعت کی اکثریت کو اپنا ہمنوا نہیں بنا سکے تو آپ کو سب کے ساتھ چلنا پڑے گا۔ پارلیمنٹ میں کسی طرم خان کی گنجائش نہیں ہوتی۔ اگر آپ جماعت سے متفق نہیں تو اسے چھوڑ دیں۔ جائیں اور کسی اور جماعت کا حصہ بن جائیں اور نئے سرے سے الیکشن لڑیں۔‘
بہرحال وہ ان قانون سازوں میں سے ایک تھے جنہوں نے زرعی قوانین بل کے دوران الیکٹرانک ووٹنگ کا مطالبہ کیا تھا تاکہ ممبران پارلیمان کے ووٹوں کو الگ الگ ریکارڈ کیا جائے۔
جس طرح سے بل منظور کیا گیا اس پر بی جے پی کو کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے او برائن کہتے ہیں: ’میں نے ایک قرارداد پیش کی تھی کہ بل کو جانچ پڑتال کے لیے بھیج دیا جائے۔ بطور رکن یہ میرا حق ہے، حتیٰ کہ یہ بھی ہر رکن کا حق ہے کہ وہ (الیکٹرانک ووٹنگ) کا مطالبہ کرے۔ مجھے اس حق سے محروم کر دیا گیا۔ اس کے بجائے پارلیمنٹ کے ذریعے بل کو زبردستی مسلط کر دیا گیا۔‘
وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ملک کے دیگر اہم اداروں کی طرح حکومت نے بھارتی پارلیمنٹ کو بھی ’کمزور‘ کر دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا: ’مودی حکومت بھارت کی پارلیمانی جمہوریت کو منتخب آمریت کے رستے پر ڈالنے کے لیے سخت محنت کر رہی ہے۔‘
دی انڈپینڈنٹ نے پارلیمنٹ کے کام کاج پر رائے لینے کے لیے بی جے پی اور کئی موجودہ حکومتی اراکین پارلیمان سے رابطہ کیا لیکن کوئی بھی بات کرنے پر آمادہ نہ ہوا۔
ملک بھر میں کسانوں کے احتجاج کی قیادت کرنے والی ان کی نمائندہ تنظیم بھارتیہ کسان اتحاد کے قومی ترجمان راکیش ٹکیت نے ان قوانین کی منظوری کو ’غیر قانونی‘ قرار دیا۔
ان کا کہنا تھا: ’انہوں نے بی آر امبیڈکر (بھارت کے بانیوں میں سے ایک) کے تیار کردہ آئین کو تماشا بنا دیا ہے۔ اپوزیشن اور ان کی تجاویز کو کوئی اہمیت نہیں دی جاتی۔ ایسا لگتا ہے ان کی آرا کوئی وقعت ہی نہیں رکھتیں جبکہ حکومت اپنے طور طریقوں میں متذبذب اور غیر لچک دار ہے۔‘
ایک سال سے سراپا احتجاج ٹکیت نے غازی پور اور دہلی کی سرحد پر قائم فلائی اوور کے نیچے ایک چارپائی پر بیٹھے ہوئے دی انڈپینڈنٹ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان قوانین کی وجہ سے ’تقریباً 750 کسان شہید ہو چکے ہیں۔‘
یہ پوچھے جانے پر کہ وہ ان اموات کا ذمہ دار کسے ٹھہراتے ہیں، ان کا دو ٹوک جواب تھا ’مودی حکومت۔‘
© The Independent