(اس واقعے کے راوی مشہور صحافی اور فلم ساز علی سفیان آفاقی ہیں)
یہ 1960 کی دہائی کے اوائل کی بات ہے جب ڈھاکہ سے ایک سکول کے فنڈ ریزنگ پروگرام کے لیے مادام نور جہاں کو شرکت کی دعوت موصول ہوئی۔
مادام نور جہاں اس نوعیت کے پروگراموں میں شرکت کرنے سے گریز کرتی تھیں اور عام طور پر موسیقی کے فنکشنز میں حصہ نہیں لیتی تھیں، مگر یہاں معاملہ مشرقی پاکستان کا بھی تھا اور ایک سکول کے لیے فنڈ ریزنگ کا بھی۔ چنانچہ مادام نور جہاں نے یہ پیش کش قبول کر لی اور ان کے ڈھاکہ جانے کی تیاریاں شروع ہو گئیں۔
مادام نور جہاں کے ساتھ ڈھاکہ جانے والوں میں اعجاز، نیلو، رتن کمار اور علی سفیان آفاقی شامل تھے۔ ہوٹل میں ریہرسل کا سلسلہ جاری تھا۔ ہوٹل کا تمام سٹاف مادام نور جہاں کو اپنے درمیان پا کر خوشی سے پھولے نہ سما رہا تھا۔ منیجر سے لے کر ویٹرز تک سب فرش راہ تھے، باورچی بھی اپنا ہنر آزما رہے تھے۔ نور جہاں اچھے کھانوں کی شوقین تھیں، انہیں ہوٹل کا کھانا بہت پسند آیا اور انہوں نے باورچی کو بلا کر داد و تحسین سے نوازا اور نقد انعام بھی دیا۔
باورچی نے موقع غنیمت جان کر اور ہاتھ جوڑ کرمادام سے کہا کہ ’مجھے آپ کے گیت بہت اچھے لگتے ہیں، اللہ کی مہربانی ہے کہ آپ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا، آپ کا گانا سننے کی دل میں بڑی آرزو ہے۔‘
نور جہاں نے کہا، ’تو پھر آپ بھی کل گانا سننے کے لیے وہاں آ جانا۔‘
باورچی نے کہا، ’ایسا کیسے ہونے سکتا ہے میڈم جی؟ ادھر تو بہت زیادہ پیسوں کا ٹکٹ ہے۔ ہم تو غریب لوگ ہیں میری گھر والی کو بھی بہت شوق ہے آپ کا گانا سننے کا۔‘
مادام کا دریائے سخاوت اس وقت جوش میں آیا ہوا تھا، انہوں نے کہا، ’ٹھیک ہے بابا جی کل رات کو کھانے کے بعد ہم آپ سب کو گانا سنائیں گے، آپ سب کے بیوی بچوں کو بھی۔ ٹھیک ہے نا؟‘
بابا جی کو اپنے کانوں پر یقین نہیں آیا، ’آپ ہم سب کو ادھر گانا سنائیں گے میڈم۔‘
’ہاں یہ وعدہ ہے آپ سے، کل رات کھانے کے بعد آپ سب لوگ تیار رہنا۔‘
’بالکل ٹھیک ہے میڈم جی۔‘ ہال میں موجود عملے کے تمام لوگ جیسے خوابوں کے جزیرے میں پہنچ گئے۔
شام کے وقت نور جہاں کا پروگرام ڈھاکہ کے ایک بہت بڑے سینما گھر میں پیش کیا گیا۔ مہنگے ٹکٹوں کے باوجود لوگ ہال کے اندر کھچا کھچ بھرے ہوئے تھے، جنہیں ٹکٹ نہ مل سکا وہ سینما گھر کے باہر پارک میں اکٹھے ہو گئے۔ منتظمین نے ان شائقین کے لیے سینما کے باہر لاؤڈ سپیکر نصب کروا دیے تھے تاکہ دور دور تک لوگ موسیقی اور نغمات سن سکیں۔ یہ پروگرام رات ساڑھے نو بجے کے لگ بھگ ختم ہوا۔
پروگرام کے آرگنائزر اے حمید صاحب نے آفاقی صاحب کو بتایا کہ گورنر ہائوس میں آج کچھ غیر ملکی مہمانوں کے اعزاز میں عشائیہ ہے، گورنر صاحب کی درخواست ہے کہ مادام نور جہاں اس میں ضرور شرکت کریں۔
آفاقی صاحب نے اے حمید کا یہ پیغام مادام نور جہاں تک پہنچایا۔ مادام نے کہا، ’میں وہاں کیسے جا سکتی ہوں، آپ کو یاد نہیں کہ میں نے آج ہوٹل کے سٹاف والوں کے ساتھ گانا سنانے کا وعدہ کیا ہے؟‘
آفاقی صاحب نے مادام کا یہ جواب حمید صاحب تک پہنچا دیا۔ حمید صاحب بولے، ’آفاقی، یہ گورنر کی دعوت ہے، دوسرا کمٹمنٹ منسوخ کیا جا سکتا ہے۔‘
آفاقی صاحب نے کہا، ’حمید صاحب، ہم میڈم کو جانتے ہیں وہ یہ کمٹمنٹ کسی صورت میں منسوخ نہیں کریں گی۔‘
حمید صاحب نے پوچھا، ’معلوم تو ہو ان کا کمٹمنٹ کس کے ساتھ ہے؟‘
آفاقی صاحب نے کہا، ’ہوٹل کے عملے کے ساتھ۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
حمید صاحب پہلے حیران ہو کر آفاقی صاحب کا چہرہ دیکھنے لگے، پھر ہنس پڑے، ’یار کیسی باتیں کرتے ہو؟ وہاں غیر ملکی مہمان آئے ہوئے ہیں، گورنر نے بذات خود دعوت دی ہے اور نور جہاں کے انتظار میں ابھی سب بھوکے بیٹھے ہیں۔‘
آفاقی صاحب نے کہا، ’آپ خود ہی میڈم سے بات کر لیجے۔‘
حمید صاحب کو اپنی قوت گفتار پر بہت ناز تھا، فوراً مادام کے پاس چلے گئے،مادام نے ان کی ساری گفتگو سننے کے بعد فرمایا، ’مگر بھائی جان میں نے ہوٹل کے عملے سے وعدہ کیا ہوا ہے، وہ کل رات سے انتظار کر رہے ہیں۔‘
حمید صاحب نے کہا، ’میڈم یہ وعدہ آپ کل بھی پورا کر سکتی ہیں۔‘
مادام مسکرائیں، ’حمید صاحب، یہ آپ اس لیے کہہ رہے ہیں کہ وہ غریب لوگ ہیں، اس لیے ان کے ساتھ کیے ہوئے وعدے کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔‘
حمید صاحب سٹپٹا گئے، ’ارے نہیں میرا یہ مطلب نہیں ہے۔‘
میڈم نے جواب دیا، ’اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ کل رات کوئی اور اہم آدمی مجھے دعوت نہیں دے گا، اس کی خاطر مجھے کل پھر اپنا وعدہ توڑنا پڑے گا۔ میں معافی چاہتی ہوں گورنر صاحب سے آپ شکریے کے ساتھ میری جانب سے معذرت کر لیجیے۔‘
حمید صاحب کی سمجھ میں نہیں آیا کہ اس کے جواب میں کیا کہیں۔ انہوں نے فون پر گورنر ہاؤس رابطہ کر کے یہ پیغام پہنچا دیا۔ جواب میں گورنر صاحب کے ملٹری سیکریٹری نے کہا، ’گورنر صاحب بذات خود میڈم نور جہاں سے بات کرنا چاہتے ہیں۔‘
مادام نے ٹیلی فون پر یہی جواب گورنر صاحب کو بھی دیا۔ وہ بے چارے ہکا بکا رہ گئے مگر پھر انہوں نے اصرار نہیں کیا۔
ہوٹل پہنچ کر مادام نے کھانا کھایا اور ہال میں پہنچ گئیں۔ سٹیج پر قالین بچھے ہوئے تھے اور طبلہ، ہارمونیم وغیرہ رکھے تھے، سارے ہال میں سٹیج کے رخ پرسینکڑوں کرسیاں بچھا دی گئی تھیں۔ مادام کو یہ سب کچھ بہت اچھا لگا، لیکن جب وہ سٹیج تک پہنچیں تو دیکھا کہ اچانک چاروں طرف سے خوش لباس لوگ ہال میں داخل ہونے لگے اور دیکھتے ہی دیکھتے ہال کی تمام کرسیاں پُر ہو گئیں۔
بات یہ ہوئی کہ ہوٹل کی انتظامیہ نے اپنے خصوصی جاننے والوں کو اس پروگرام میں مدعو کر لیا تھا۔ خوش پوش، خوش حال مرد، قیمتی زرق برق ساڑھیوں، میک اپ اور قیمتی زیورات میں لدی پھندی بیگمات مسکراتی ہوئی مادام کی طرف دیکھ رہی تھیں اور خود ان کی زبانی ان کے سامنے بیٹھ کران کے نغمات سننے کی زندگی بھر کی حسرت پوری کرنے کی امیدوار تھیں۔
مادام کے چہرے پر غصے کے آثار نمودار ہو گئے۔ انہوں نے پوچھا، ’یہ کون لوگ ہیں؟‘
مینیجر نے آگے بڑھ کر لجاجت سے کہا، ’یہ شہر کے معزز اور ممتاز لوگوں کے اہل خانہ ہیں۔‘
’یہاں انہیں کس نے بلایا ہے؟‘ مادام نے ناراضی سے پوچھا۔
’جی، جی، وہ، میں۔۔۔‘ منیجر گڑبڑا گیا۔
مادام کا موڈ ایک دم بگڑ چکا تھا۔ ’آپ نے کس سے پوچھ کر انہیں یہاں بلایا ہے؟ میں نے ہوٹل کے عملے کو گانا سنانے کا وعدہ کیا تھا وہ تو مجھے کہیں نظر نہیں آ رہے، مہربانی فرما کر آپ ان سب سے کہیے یہاں سے چلے جائیں۔‘
’جی؟‘ مینیجر کو اپنے کانوں پر یقین نہیں آیا، ’مگر میڈم۔۔۔‘
’ یہ میرے مہمان نہیں ہیں اور نہ ہی میں نے انہیں بلایا ہے۔‘
پھر وہ حیران پریشان مہمانوں سے براہ راست مخاطب ہوکر بولیں، ’دیکھیے مجھے افسوس ہے کہ آپ کو غلط بتایا گیا ہے، آپ لوگ مہربانی فرما کر ہال خالی کر دیں، پلیز۔‘
چند لمحے تو خاموشی رہی، پھر سب لوگ سمجھ گئے کہ مادام نور جہاں جو کہہ رہی ہیں اسے منوا کر بھی رہیں گی۔ غصے اور شرمندگی سے ڈھاکہ کی ہائی سوسائٹی کے خاندانوں کے رنگ اڑ گئے مگر میڈم کی بات مانے بغیر چارہ نہ تھا۔ ایک ایک کرکے تمام مہمان ہال سے رخصت ہو گئے، تمام کرسیاں خالی ہو گئیں تو میڈم نے بلند آواز سے پوچھا، ’سٹاف کے لوگ کہاں ہیں؟‘
برآمدوں اور راہ داریوں میں ٹھٹکے ہوئے عملے کے لوگ سامنے آ گئے۔ ان میں باورچی، بیرے، صفائی کرنے والے، چوکیدار، سکیورٹی والے، ٹیلی فون آپریٹرز سبھی شامل تھے۔
’’آپ لوگ تشریف رکھیے اور اپنے گھر والوں کو بھی بلا لیجیے۔‘
مادام کو پہلے ہی پتہ تھا کہ ہوٹل کے سٹاف کے گھر والے بھی اسی احاطے میں واقع کوارٹروں میں رہتے ہیں، کچھ دیر میں ہال کی تمام کرسیاں بھر گئیں، ہال کی بیرونی بڑی کھڑکیاں کھول دی گئی تھیں، جن عورتوں اور بچوں کو کرسیوں پر جگہ نہ مل سکی وہ کھڑکیوں میں کھڑے ہو گئے، ہر ایک کا چہرہ خوشی اور فخر سے دمک رہا تھا، رزق برق لباسوں کی جگہ پرانے اور سادہ لباسوں نے لے لی تھی، مگر ہال کی رونق اور روشنی میں کئی گنا اضافہ ہو گیا تھا۔
مادام نے سٹیج پر جگہ سنبھالی، سازندوں نے اپنے اپنے ساز تھامے۔ بنگال کے سب سے بڑے موسیقار سبل داس نے ہارمونیم کے سر چھیڑے اور آفاقی صاحب سے کہا، ’مسٹر آفاقی! ایسی عورت دنیا میں کوئی اور نہیں ہوگی، مجھے پورا یقین ہے۔ شی از رئیلی گریٹ۔‘
مادام نور جہاں اس روز بڑے اچھے موڈ میں تھیں۔ انہوں نے بابا جی (ہیڈ باورچی)سے دریافت کیا کہ ’بولیے کون سا گانا گاؤں؟‘
بابا جی نے فوراً انمول گھڑی کے ایک گانے کی فرمائش کر دی اور مادام نغمہ سرا ہو گئیں، ’آواز دے کہاں ہے، دنیا مری جواں ہے۔‘
سننے والوں پر سحر طاری ہو گیا، گانا ختم ہو گیا، چند لمحے بالکل خاموشی طاری رہی، آواز کا جادو کم ہوا تو دوسرے نغمے کا آغاز ہو گیا، مادام ہر ایک سے فرمائش دریافت کر رہی تھیں اور نئے پرانے سبھی گانے سنا رہی تھیں۔ وقت کے گزرنے کا احساس نہ مادام کو تھا نہ ہی سننے والوں کو، ہوٹل کا عملہ تھوڑی تھوڑی دیر بعد گرم چائے اور کافی سرو کر رہا تھا مگر چائے یا کافی پینے کا ہوش کس کو تھا۔
نور جہاں تمام نغمے اس قدر وارفتگی کے عالم میں سنا رہی تھیں کہ یہ فیصلہ کرنا مشکل تھا کہ سالہا سال پہلے یہ نغمات جب پہلی بار گائے گئے تھے اس وقت انہوں نے اچھا گایا تھا یا اس وقت بہتر گا رہی ہیں۔ نغمات کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ مسلسل جاری تھا۔ اس دوران مادام ہنسی مذاق اور فقرے بازی بھی کرتی جا رہی تھیں۔
مادام نے بابا جی سے پوچھا، ’بابا، اب بتائو کون سا گانا سناؤں، میرا کون سا گانا آپ کو سب سے اچھا لگتا ہے؟‘
بابا جی تو اس روز ساتویں آسمان پر تھے، انہیں اور ان کے ساتھیوں کو اس روزمادام نور جہاں نے جو شرف بخشا تھا وہ غالباً سربراہان مملکت کے حصے میں بھی نہ آیا ہو گا۔
بابا جی بولے، ’میڈم جی ہم کو تو آپ کا سارا گانا اچھا لگتا ہے۔‘
’پھر بھی کوئی تو گانا ہو گا جو سب سے اچھا لگتا ہو گا؟‘
بابا جی سوچ میں پڑ گئے اور یاد کرکے بولے، ’ہاں یاد آ گیا، میڈم جی وہ گانا سناؤ، جا نہیں سکتا کبھی شیشے میں بال آیا ہو۔‘ بابا جی کی فرمائش پر مادام نے یہ گیت چھیڑ دیا۔
کس طرح بھولے گا دل تیرا خیال آیا ہوا
جا نہیں سکتا کبھی شیشے میں بال آیا ہوا
انہوں نے یہ گیت اس طرح ڈوب کر گایا کہ محفل میں سناٹا چھا گیا۔ رات کے 12 بجے، ایک بجا، دو بج گئے مگر نہ مادام گاتے ہوئے تھک رہی تھیں اور نہ ہی سننے والے سیراب ہورہے تھے، ایک کے بعد ایک ماضی کا ورق الٹتا رہا، حیرت کی بات یہ ہے کہ مادام کو اپنے بے شمار گانے ہر تفصیل کے ساتھ لفظ بہ لفظ یاد تھے۔ طرز اور لے میں بھی ذرا سی تبدیلی نظر نہ آئی۔ ایسا لگتا تھا جیسے ان کے گلے میں کوئی کیسٹ لگا ہوا ہے جو بٹن دباتے ہی آن ہو جاتا ہے۔
آفاقی صاحب نے لکھا ہے کہ ’اس رات میڈم جس موڈ میں تھیں شاید اس سے پہلے خود ان پر بھی طاری نہ ہوا ہو گا۔‘
اگلے دن مادام نے باورچی خانے اور ہوٹل کے دوسرے عملے کو نقد انعام بھی دیا۔ باباجی منہ سے تو کچھ نہ بولے، بس بار بار اپنے آنسو پونچھتے رہے۔