نادیہ (نام تبدیل کر دیا گیا ہے) کہتی ہیں کہ ’میرے بریسٹ سائز کافی کم تھے۔ ہم دبئی میں رہتے تھے۔ میری نو عمری میں ہی لوگ میری والدہ سے کہتے تھے کہ اس طرف توجہ دیں۔ آگے جا کر مشکل ہو گی۔
’پھر بڑے ہونے کے مجھے براہ راست احساس دلایا جاتا رہا کہ مجھ میں نسوانی حسن کی کمی ہے۔ اس دباؤ کی وجہ سے میں نے 16،17 سال کی عمر سے ہی بازار میں ملنے والی مہنگے برینڈ کی بریسٹ کریم کا استعمال شروع کیا۔ ان کریم پر بڑے بڑے دعوے لکھے ہوتے تھے، لیکن مجھے کوئی خاص فائدہ نہ ہوا۔ جب پاکستان آتی تو یہاں فارمیسی سے کیپسول بھی لے جاتی۔
’یہی نہیں بلکہ مشورے میں ملنے والے ٹوٹکے بھی ساتھ ساتھ جاری رکھے۔ ان ساری کوششوں سے نتائج 19 سے 20 ضرور ہوئے، لیکن وہ بھی وقتی۔ لیکن تین چار ماہ مسلسل استعمال کرنے سے غیرضروری بال زیادہ مقدار میں نکلنے لگے۔ پیریڈ متاثر ہو گئے۔ ان سب کی وجہ سے میں چہرہ اور ہاتھ پاوں ڈھانپنے لگی۔ یعنی مجھے سیلف میڈیکشن کے اثرات جھیلنے پڑے۔ میں نے ایک دم کیپسول بھی ترک کر دیے۔
’اس دوران میں نے کراچی یونیورسٹی کے ویژوئل سٹڈیز کے شعبہ ڈیزائن میں داخلے لے لیا۔ میں اتنی پریشان تھی کہ بریسٹ امپلانٹ تک کے بارے میں سوچا۔ غرض کہ یہ ساری کوششیں بے کار اور پیسہ کا ضیاع ثابت ہوئیں۔ اس کیفیت نے مجھے نفسیاتی الجھنوں کا شکار کر دیا۔ میں نے باہر مسلسل عبایا پہنا شروع کر دیا تھا۔ میں زیادہ لوگوں میں گھبراتی تھی کہ یہاں بھی لوگ مجھے اس طرف توجہ دینے کے لیے نہ کہیں۔
’میری ایک دوست نے میرے بڑی مشکل حل کر دی۔ وہ یوگا کلاس کے لیے فٹنس کلب جاتی تھی۔ مجھے بھی ساتھ چلنے کے لیے کہا۔ وہاں انسٹرکٹر نے مجھے مختلف ایکسرسائز بتائیں اور باڈی شیپ لباس پہنے کے لیے کہا۔ مسلسل ورزش اور یوگا نے کافی فرق ڈالا۔ جو آج تک کرتی ہوں۔‘
نادیہ آج دو بچیوں کی ماں ہیں۔ وہ انسٹرکٹر کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’انہوں نے مجھے اعتماد دیا اور سمجھایا کہ کچھ چیزیں قدرتی ہوتی ہیں۔ اگر نوعمری میں اس پر کام کر لیا جائے تو کچھ فرق پڑ سکتا ہے لیکن قدرتی جسامت اور رنگت میں نمایاں فرق نہیں پڑتا، لہٰذا ان چیزوں سے نکلوں اور ایک پر اعتماد زندگی کی طرف واپس جاؤں، اور لوگوں کو بتاؤں کہ یہ کریمیں اور کیپسول نقصان دہ ہیں۔ کہیں کہیں صرف ڈاکٹر کی راہ نمائی مدد فراہم کر سکتی ہے۔‘
ایک دوسری خاتون رحیمہ ایک مشہور مہنگی کریم استعمال کر چکی ہیں، جس پر ’ٹائیٹنگ اور سائز بڑھائے وہ بھی دو ہفتوں میں‘ کے دعوے درج تھے، لیکن انہیں اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ رحیمہ نے مزید بتایا کہ مہنگی کریم ہونے کے ساتھ ساتھ مقدار میں اتنی کم ہوتی ہیں کہ دو تین استعمال کے بعد ختم ہو جاتی ہے، مگر ان کی ایک دوست نے اس مسئلے کے حل کے لیے ڈاکٹر سے رجوع کیا اور ڈاکٹر نے ہارمونل تھیراپی تجویز کی جس سے انہیں کسی حد تک فائدہ ہوا۔
کبھی کبھی میں خود ان کریموں پر بنی بیہودہ تصایر سے پریشان ہو جاتی ہوں۔ یہاں سے مرد حضرات بھی گزرتے ہیں جس سے میرے ساتھ خریدار بھی شرمندہ ہوتے ہیں۔
میڈیکل سٹور کیا کہانی سناتے ہیں؟
18 سالہ رابعہ (نام تبدیل کر دیا گیا ہے) ایک بڑے ڈپارٹمنٹل سٹور پر سیلز گرل ہیں۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ان کی ذمہ داری مقامی اور بین الاقوامی برینڈ کی بریسٹ کریموں کے شیلف پر ہے۔ وہ ان کریمیں کی خریدار لڑکیوں اور خواتین کو پروڈکٹ خریدنے میں مدد فراہم کرتی ہیں۔ وہ خود لڑکیوں سے بات کرتی ہیں اور انہیں ان کی ضرورت اور قوت خرید کے لحاظ سے کریم کے بارے میں آگاہ کرتی ہیں۔ رابعہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ عام طور پر نوجوان لڑکیاں کے پاس سوشل میڈیا پر چلنے والی مختلف معلومات اور اشتہارات ہوتے ہیں۔ انہیں ایسی مشتہر کردہ کریم کی تلاش ہوتی ہے۔
رابعہ کے مطابق ’لڑکیاں ڈاکٹر کے مشورے سے ان کریموں کا استعمال نہیں کرتیں بلکہ اشتہارات یا کسی کے بتانے سے یہاں آتی ہیں۔ پہلے یہ سامان ’صرف خواتین‘ والے حصے میں رکھا جاتا تھا، لیکن ابھی چند ماہ سے یہ سامان عام میک اپ کے ساتھ رکھ لیا گیا ہے۔ کبھی کبھی میں خود ان کریموں پر بنی بیہودہ تصایر سے پریشان ہو جاتی ہوں۔ یہاں سے مرد حضرات بھی گزرتے ہیں جس سے میرے ساتھ خریدار بھی شرمندہ ہوتے ہیں۔‘
کامران میڈیکل سٹور پر کیمسٹ ہیں۔ ان کا یہ سٹور ایک جلدی امراض کے کلینک کے ساتھ منسلک ہے۔ ان کے مطابق ان کے پاس اسی سے 90 فیصد خواتین ڈاکٹر کا نسخہ لے کر آتی ہیں، اور یہ کریمیں یا ان سے ملتی جلتی کریمیں ڈاکٹر حضرات خود لکھ کر دیتے ہیں۔ لیکن ایک اور میڈیکل سٹور والے کا کہنا ہے کہ ’ہمارے پاس زیادہ تر حضرات آتے ہیں، اور ان کے پاس نسخے نہیں ہوتے۔ ہم پوسٹر لگا دیتے ہیں۔ جنہیں دیکھ کر وہ یہ کریمیں اور کیپسول طلب کرتے ہیں۔‘
بیوٹی پروڈکٹ یا میڈی کیٹڈ کریمیں کیا ہیں اور پاکستانی قانون کیا کہتا ہے؟
ایڈووکیٹ میمونہ نسرین پچھلے دس سالوں سے ہائی کورٹ کی وکیل ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ پاکستان کا پہلی قومی کمیٹی برائے کیمیائی سٹینڈرڈ 1972 میں بنا، جس میں پہلی بار بیوٹی پروڈکٹ میں شامل کیمیائی اجزا کا تناسب اور مقدار مقرر کی گئی تھی۔
1978 اور پھر 2016 ان کی مقدار کا تعین پھر سے کیا گیا۔ اس کے بعد ہی 2017 میں نیشنل سٹینڈرڈ کمیٹی برائے سکن کریم مرتب کر لیا گیا جس میں ان کریموں میں استعمال ہونے والے کیمیائی اجزا کی حد کا تعین کر دیا گیا۔
ایڈووکیٹ میمونہ نے بتایا کہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بہت سی بیوٹی پراڈکٹس، خاص کر رنگ گورا کرنے والی کریموں میں پارہ، سٹیرائیڈ اور ہائیڈروکوینین کے خطرناک کیمیائی اجزا پائے گئے تھے۔ کریم اور پیکنگ پر واضح طور پر لکھا جائے کہ یہ کس استعمال کے لیے ہے، اور ان کے اجزائے ترکیبی، ان کے استعمال اور ممکنہ نقصانات بتانا ضروری ہیں، ساتھ ہی تیار کردہ اور استعمال کرنے کی آخری تاریخ درج ہونا ضروری ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
لیب رپورٹ ان کریموں کے بارے میں کیا کہتی ہے؟
ہم نے بازار میں ملنے والی تین کریم لے کر ان کا پاکستان کونسل آف سائنٹیفک اینڈ انڈسٹریل ریسرچ (پی سی ایس آئی آر) سے کیمیائی تجزیہ کرایا۔ ان تین کریموں کا انتخاب ان کی قیمت، برینڈ، دو مقامی اور ایک غیر ملکی پراڈکٹ کے لحاظ سے کیا گیا۔ اس انتخاب میں سیلز گرلز کی رائے بھی شامل تھی، جس نے ہمیں بتایا کہ لڑکیاں اور خواتین کس کریم کا زیادہ انتخاب کرتی ہیں۔
ہم نے ان تین کریموں میں صرف دو کیمیائی اجزا، پارہ اور سٹیرائیڈ کو اپنے تجزیے میں شامل کیا گیا جو انسانی جلد کے لیے سخت نقصان دہ ہیں اور جن کا مسلسل استعمال کینسر کا سبب بن سکتا ہے۔ پی سی ایس آئی آر کی دی ہوئی رپورٹ کے مطابق مہنگے بیوٹی پراڈکٹ میں یہ دونوں اجزا نہیں نکلے۔ لیکن تیسری نسبتاً کم قیمت وائٹنگ کریم میں ہائیڈروکورٹیزون (سٹیرائیڈ) پایا گیا، جو پاکستان سٹینڈرڈ آف سکن کریمز کے منافی ہے۔ یہ سٹینڈرڈ کہتا ہے کہ کسی بھی بیوٹی کریم میں یہ عنصر شامل نہیں ہونا چاہیے۔
سرکاری حکام کیا کر رہے ہیں؟
قانون میں مضرِ صحت اجزا کی ممانعت تو موجود ہے لیکن کیا کاغذوں میں ہی قانون لکھ دینا کافی ہے یا صحت کے ادارے ان کریموں کی فروخت کو روکنے کے لیے کوئی عملی قدم بھی اٹھا رہے ہیں؟
اس بارے میں ہم نے سندھ کے چیف ڈرگ انسپکٹر محمد شعیب انصاری صاحب اور ایڈیشنل ڈائریکٹر ڈرگ سندھ ڈاکٹر نجم الثاقب سے کئی بار رابطہ کیا، لیکن دونوں نے جواب دینے سے انکار کر دیا اور کہا کہ اسلام آباد کی وفاقی حکومت سے رابطہ کریں۔
جب ہم نے اسلام آباد میں ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان کے سی ای او خالد روف صاحب سے رابطہ کیا تو انہوں نے کہا کہ ’سوال بھیجیں۔‘
ہم نے سوال بھیج دیے لیکن کئی روز گزر جانے کے باوجود ہمیں جواب موصول نہیں ہوئے۔
ورزشیں، جن کے بارے میں مشہور کیا جاتا ہے کہ وہ بریسٹ کا سائز بڑھاتی ہیں، صرف ان پٹھوں کو سہارا دیتی ہیں جو بریسٹ کو سہارا دیتے ہیں، ان پٹھوں کی ورزش سے بریسٹ کا سائز نہیں بڑھے گا۔
امریکی ایف ڈی اے کی رپورٹ
امریکہ میں ادویات اور خوراک کی نگرانی کرنے والے مستند اور سرکردہ ادارے ایف ڈی اے نے ایک اعلامیے میں کہا ہے:
’کئی عشروں سے ایسے آلات، کریموں اور لوشنوں پر اربوں ڈالر خرچ کیے گئے ہیں جن کے بارے میں اشہار چلائے جاتے ہیں کہ وہ بریسٹ سائز میں اضافہ کرتے ہیں۔
’ایسے کوئی آلات، یا ورزش کا سسٹم موجود نہیں ہے جو بریسٹ کا سائز بڑھا سکے۔ زیادہ سے زیادہ یہ ہوتا ہے کہ یہ ورزشیں، جن کے بارے میں مشہور کیا جاتا ہے کہ وہ بریسٹ کا سائز بڑھاتی ہیں، صرف ان پٹھوں کو سہارا دیتی ہیں جو بریسٹ کو سہارا دیتے ہیں، ان پٹھوں کی ورزش سے بریسٹ کا سائز نہیں بڑھے گا۔‘
ان کریموں کے بارے میں پاکستانی ماہرین کیا کہتے ہیں؟
ڈاکٹر تانیہ شیخ ماہر جلد ہیں اور سندھ ادارہ برائے جلدی امراض، کراچی میں خواتین کے شعبے سے منسلک ہیں۔ ڈاکٹر تانیہ کا ان کریم کے حوالے سے کہنا تھا کہ ’چند ایک کو چھوڑ کر اکثر کریموں میں کیمیائی اجزا کی مقدار زیادہ ہوتی ہے۔ سادہ الفاظ میں یوں کہہ سکتے ہیں کہ اگر کریم میں قدرتی اجزا شامل ہوں، ساتھ ہی وٹامن سی اور ای جو موسچرائز یا کلنزنگ کریم کا لازمی جز ہیں، وہ تو بنیادی طور پر ایک عام موسچرائز کریم ہے، جو جلد کے کسی بھی حصے پر استعمال کی جا سکتی ہے، لیکن جن کریم کی آپ بات کر رہی ہیں ان کا استعمال درست نہیں۔ اکثر بچیاں بغیر ڈاکٹر کے مشورے کے انہیں استعمال کر لیتی ہیں، اور پھر ہمارے پاس آتی ہیں۔‘
ڈاکٹر تانیہ سمجھتی ہیں کہ ’سب کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ان کریم پر جو دعوے درج ہوتے ہیں گورا اور پنک کرنے یا بریسٹ انلارجمنٹ وغیرہ، یہ چیزیں ہارمون تھراپی اور انڈوکرونولوجسٹ کی رہنمائی سے ہی کسی حد تک ممکن ہیں، اور وہ بھی ہر انسان کے ساتھ اس کی مقدار الگ الگ ہوگی۔ یعنی سیلف میڈیکشن یا ان کریمیوں کے استعمال سے نقصان ہی ہو گا۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’یہ بالکل اس ہی طرح ہے کہ ہمارے ہسپتال میں بچیا ں اپنی ماؤں کے ساتھ آتی ہیں۔ کم عمر لڑکیوں کا سب سے پہلا مطالبہ گورا رنگ ہوتا ہے، کہ ان کی منگی یا شادی ہو رہی ہے، انہیں دس پندرہ دنوں میں یا چند ماہ کے اندر گورا رنگ چاہیے۔ مارکیٹ میں کئی طرح کی سستی کریم آ رہی ہیں، جو انسانی جلد کے لیے نقصان دہ ہوتی ہیں۔ اس میں سٹرائیڈ یا کورٹی زون اور پارہ استعمال کیا جاتا ہے، جن کا براہ راست استعمال انسانی جلد کے لیے بہت نقصان دہ ہے۔‘
سوشل میڈیا نے کچے ذہنوں کومتاثر کیا ہے، جس کی وجہ سے لوگ ڈاکٹر کے پاس نہیں جاتے۔
ڈاکٹر تانیہ نے کہا کہ ’یہ کریم بچیاں لگا لتی ہیں جس سے بظاہر تو ان کی رنگت بہتر ہوجاتی ہے، مگر سٹیرائیڈ کے استعمال سے جلدی امراض بڑھ جاتے ہیں، استعمال شدہ جگہ پر غیر ضروری بال آنا شروع ہو جاتے ہیں اور چہرے پر دانے نکل آتے ہیں۔ ہم اپنے مریضوں کو یہی سمجھاتے ہیں کہ آپ یہ والی کریم استعمال نہ کریں۔ ہمیں سمجھنے کی ضرورت ہے کہ بیماری کسی بھی قسم کی ہو، ڈاکٹر سے رجوع کرنا ضروری ہے۔‘
روتھ کے ایم فاؤ ہسپتال کی سینیئر سرجن ڈاکٹرفرح ادریس سمجھتی ہیں کہ ’اس طرح کی ساری کریم مذاق کے علاوہ کچھ نہیں، ان پر جو باتیں درج ہوتی ہیں وہ ممکن ہی نہیں۔‘
ڈاکٹر فرح بریسٹ کینسر کا علاج کرتی ہیں۔ وہ سمجھتی ہیں ناسمجھ لوگ ان غیر ضروری چیزوں کا استعمال کر کے نقصان اٹھاتے ہیں۔ سوشل میڈیا نے کچے ذہنوں کومتاثر کیا ہے، جس کی وجہ سے لوگ ڈاکٹر کے پاس نہیں جاتے۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ یقیناً بریسٹ کینسر بڑھنے کی کئی وجوہات میں سےایک ان کریم اور ادویات کا استعمال بھی ہے۔
سوشل میڈیا اور آن لائن شاپنگ کی وجہ سے ’سہولت‘
پاکستان میں ایسی کریموں اور لوشنز کی بھرمار ہے جن کے اشتہاروں میں دعویٰ کیا جاتا ہے کہ ان کے استعمال سے چند دنوں کے اندر اندر بریسٹ کا سائز بڑھ جائے گا۔ یہ اشتہار بازی اب اخباروں اور دیواروں سے نکل کر سوشل میڈیا تک پہنچ گئی ہے اور اگر آپ نے کسی ایک لنک پر کلک کر دیا تو پھر سوشل میڈیا ہر طرف آپ کو ان پروڈکٹس کے اشتہار دکھائے گا۔
ایک اور بےحد نقصان دہ چیز آن لائن مارکیٹنگ ہے۔ بعض خواتین کو کسی سٹور میں جا کر ایسی کوئی پروڈکٹ خریدنے میں ہچکچاہٹ محسوس ہوتی تھی، لیکن اب آن لائن شاپنگ کی بدولت بہ بھی گھر بیٹھے نہایت سہولت سے یہ مصنوعات منگوا سکتی ہیں۔
اگر آپ گوگل پر اس بارے میں سرچ کریں تو کسی تحقیقی مقالے یا طبی معلومات کی بجائے درجنوں آن لائن شاپنگ کمپنیوں کے اشتہارات کی یلغار شروع ہو جائے گی۔
کیا یوگا اور ورزش سے اس مسئلے کا حل نکالا جا سکتا ہے؟
کریموں اور لوشنز کے علاوہ ایک اور معاملہ ورزش کا بھی ہے اور ایسی کئی ورزشیں اور یوگا کی تکنیکیں تجویز کی جاتی ہیں جن سے نسوانی حسن میں اضافہ کیا جا سکتا ہے، تاہم جیسا کہ اوپر ایف ڈی اے کی ہدایات کے تحت درج ہے، ورزش سے نسوانی حسن میں اضافے کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔
کہکشاں یوگا انسٹرکٹر ہیں اور ان کا دعویٰ ہے کہ یوگا اور دیگر ورزشوں سے نسوانی حسن میں اضافہ ممکن ہے اور یوگا کے بہت سے آسن اس میں کارآمد ثابت ہوتے ہیں۔ انہوں نے زور دیا کہ ہر لڑکی کو ہی پش اپ ٹائپ اور دونوں ہاتھو ں کو کھینچ کر ہلکی پھلکی ورزشیں کرنی چاہییں۔
کرن نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ انہوں نے یوگا ایکسرسائز کر کے اپنی باڈی شیپ بہتر کیا ہے۔ ان کی بہن نے انہیں مشورہ دیا تھا کہ وہ یہ کریم استعمال کریں، لیکن وہ نہیں سمجھتیں کہ ایسی کریموں کا کوئی فائدہ ہوتا ہے۔ ان کی یوگا کلاس میں بہت سے نوجوان لڑکیاں اور خواتین بریسٹ سائز کے لیے پوچھتی تھیں لیکن اب کرن انسٹرکٹر کے بتائے ہوئے آسن گھر پر کرتی ہیں، جس سے باڈی شیپ میں رہتی ہے۔
نادیہ کا ان کریم کو استعمال کرنے والی لڑکیوں اور خواتین کے لیے ایک ہی مشورہ ہے کہ لوگوں کو بھی سمجھنا چاہیے کہ یہ سب باتیں باڈی شیمنگ کے زمرے میں آتی ہیں۔ یہ سمجھنا ضروری ہے کہ جس طرح جلد کی رنگت، قد اور جسامت پر بات کرنا غلط ہے اسی طرح نسوانی حسن پر اتنی بات کرنا کہ سامنے والا ذہنی دباؤ میں چلا جائے، بہت غلط رجحان ہے، جس کوروکنا ضروری ہے۔
ان کی غیر ضروری متوجہ ہونے سے نوجوان لڑکیاں سیلف میڈیکشن کی طرف چلی جاتی ہیں اور نقصان اٹھاتی ہیں۔ سب کو ہی اپنے قدرتی خوبصورت کو تسلیم کرنا چاہیے اور خود پراعتماد رکھنا چاہیے۔
کمپنی کا موقف
رواج کمپنی بریسٹ بڑھانے کی کریمیں اور لوشن کی مارکیٹنگ کرتی ہے اور سوشل میڈیا پر بھی بہت فعال ہے۔ ہم نے اس کمپنی کے محمد جاوید صاحب سے بات کی اور ان سے پوچھا کہ ان کے پاس کیا ثبوت ہے کہ ان کی کریمیں موثر ہیں اور ان میں مضر کیمیکل نہیں ہیں۔
محمد جاوید نے بتایا کہ رواج برطانیہ کی رجسٹرڈ کمپنی ہے اور رواج بریسٹ انلارجمنٹ کریم ہمارے پاس تیار ہو کر آتی ہے، ہم پاکستان میں اس کو فروخت کرتے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ہمیں ریزلٹ کے حوالے سے تو شکایت ملتی ہے کہ جو کہا گیا تھا وہ سائز نہیں ملا یا کم ملا، لیکن کوئی بڑی شکایت ہمیں موصول نہیں ہوئی، اور ہم سٹینڈرڈ کا خیال رکھتے ہیں۔‘