افریقی ملک کیمرون کی رہائشی 16 سالہ نگوڈبی* بریسٹ آئیرننگ یعنی چھاتی کی استری کا ہیبت ناک عمل سہہ چکی ہیں۔
نوعمر لڑکی کا کہنا ہے کہ انہوں نے اس رواج کے بارے میں خود کے ساتھ ایسا ہونے سے بہت پہلے سنا تھا، مگر کسی نے ان کو یہ نہیں بتایا کہ ایسا کیوں کیا جاتا ہے۔
نگوڈبی نے بتایا: ’میں ہمیشہ سوچتی رہی کہ انہوں نے میرے ساتھ ایسا کیوں کیا۔ جب تک مجھے سمجھ آیا، میں جان چکی تھی کہ میں اسے کبھی نہیں بھولوں گی۔ یہ بہت تکلیف دہ ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا: ’جب بھی میں اس دن کے بارے میں سوچتی ہوں تو مجھے خیال آتا ہے کہ میرے اپنے خاندان نے میرے ساتھ ایسا کیوں کیا۔‘
چھاتی کی استری یا بریسٹ آئرنگ کیمرون میں ایک اتنا عام عمل ہے کہ کچھ اعداد و شمار کے مطابق ہر تین میں سے ایک لڑکی کو اس نہایت تکلیف دہ عمل سے گزارا جا چکا ہے۔
سالوں سے چلے آئے اس رواج کے تحت بلوغت کے قریب کم عمر لڑکیوں کی چھاتی کو ٹھیک طرح سے بڑھنے سے روکنے کے لیے ایک لمبے عرصے یا کبھی سالوں تک استری، مساج یا زور زور سے دبا کر ہموار یا چپٹا کیا جاتا ہے۔
اس عمل میں عام طور پر گرم کی گئی چیزیں جیسے پتھر، چپٹے چمچ، ہتھوڑی، استری، جھاڑو اور سینے کے گرد باندھنے کے لیے بیلٹ کا استعمال ہوتا ہے۔
اس عمل کو زیادہ تر گھر کی خواتین یا مقامی شامن (دیسی معالج) سرانجام دیتے ہیں۔ اس کے پیچھے یہ سوچ ہوتی ہے کہ لڑکیوں کی چپٹی اور بچوں جیسی چھاتی ہونے کی وجہ سے مردوں کی ان چاہی توجہ، ریپ اور شادی سے پہلے حاملہ ہونے سے بچا جائے گا۔
کچھ دائیاں اس کو کمائی کا ایک ذریعہ بھی بنا لیتی ہیں۔ اسے لڑکیوں کے ختنے (فیمیل جینیٹل میوٹلیشن یا ایف جی ایم) سے بھی تشبیہ دی جا سکتی ہے۔
نیشنل ایف جی ایم سینٹرکے مطابق اس افریقی ملک کے کچھ حصوں میں آدھی سے زیادہ خواتین اس عمل سے گزر چکی ہیں۔
نگوڈبی بچپن میں شادی سے بھی گزر چکی ہیں۔
وہ صرف 13 سال کی تھیں جب ان کی زبردستی شادی کروا دی گئی۔ ایسا تب ہوا جب ان کے والد کا انتقال ہوگیا اور ان کے چچا نے فیصلہ کیا وہ اب انہیں اپنے گھر میں مزید نہیں رکھ سکتے۔
نگوڈبی نے بتایا: ’وہ میری دادی کے پاس گئے کہ ان کو اس بات پر راضی کر سکیں کہ میری شادی ان کے ایک دوست سے کردی جائے جو ہمارے گاؤں میں ایک دکان چلاتا تھا۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’میں نے کئی مرتبہ کہا کہ میں اس شادی میں نہیں رہنا چاہتی، مگر انہوں نے میری ایک نہ سنی۔ ایک دن جب میرا شوہر دوسرے گاؤں ایک بازار گیا تو میں گھر سے بھاگ گئی۔ مجھے گروا بولائی میں ڈھونڈ لیا گیا۔ میرا خاندان 50 کلومیٹر دور زیمبے میں ہے۔ میں واپس نہیں جا سکتی کیونکہ وہ مجھے میرے شوہر کے پاس واپس لے جائیں گے اور میں ایسا بالکل نہیں چاہتی۔‘
چھاتی کی استری صرف کیمرون میں ہی نہیں کی جاتی، بلکہ یہ وسطی اور مغربی افریقہ کے کچھ اور علاقوں میں بھی عام ہے۔ اقوام متحدہ بریسٹ آئیرنیگ کو سب سے کم رپورٹ ہونے والے جنس کی بنیاد پر کیے گئے تشدد کے جرائم میں سے ایک قرار دے چکا ہے۔
چھاتی کی استری سے متاثرہ لڑکی کو طبی مسائل جیسے تیز بخار، بریسٹ ٹشوز کو نقصان یا دونوں پستان کے ضائع ہو جانے تو پیش آتے ہی ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ ان کے نفسیات پر بھی یہ چیز شدید اثرانداز ہوتی ہے۔
اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق دنیا بھر میں تقریباً 38 لاکھ ٹین ایجر لڑکیاں اس عمل سے گزر چکی ہیں۔
15 سالہ وائبائی* بھی بچپن کی شادی اور چھاتی کی استری سے گزر چکی ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اب وہ کیمرون کے ایک ریسٹورنٹ میں کام کرتی ہیں۔
ان کے مطابق: ’میری چھاتی کو بھی استری کیا گیا، لیکن میں اس وقت یہ سمجھ نہیں پائی کہ ایسا کیوں ہوا۔ مجھے بعد میں بتایا گیا کہ یہ اس لیے کیا گیا تاکہ میری چھاتی جلدی نہ بڑھے۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’میری 14 سال کی عمر میں شادی ہوگئی تھی اور اس کو ایک سال بھی ہوگیا ہے۔‘
یونیسیف کے اعداد و شمار کے مطابق کیمرون کے شمالی علاقے میں 18 سال سے کم عمر کی 60 فیصد لڑکیوں کی شادی ہو چکی ہے۔ ان میں سے کچھ کی تو اس عمر سے پہلے ایک سے زیادہ بار شادی ہوچکی ہے۔
گذشتہ کچھ سالوں میں اس علاقے میں حالات خراب ہیں اور تین لاکھ 20 ہزار سے زائد کیمرونی اور نائجیرین شہری یہاں پناہ گزین ہیں۔
ایسے حالات میں مالیاتی مشکلات کا ایک نتیجہ بچوں کی شادیاں بھی ہو سکتی ہیں کیونکہ لڑکیوں کو اکثر پیسوں اور دوسری اشیا کے عوض بھی بیچ دیا جاتا ہے۔
وائبائی نے بتایا: ’میرا حمل بہت صدمہ خیز تھا کیونکہ مجھے مرنے کا بہت خوف تھا۔ میرا شوہر کئی بار مجھ پر تشدد کر چکا ہے خاص طور پر مشکل وقتوں میں جب ہمارے پاس پیسے نہیں تھے۔ بہت سے مرد جن کو میں جانتی ہوں، ان کا ماننا ہے کہ اپنی بیویوں کو مارنا ٹھیک ہے اور کئی بار میں نے جنسی تعصب کا سامنا بھی کیا ہے۔‘
خواتین کے خلاف تشدد کے واقعات کیمرون میں کافی عام ہیں۔ یونیسیف کے ڈیٹا کے مطابق، تقریباً 40 فیصد مردوں کا کہنا ہے کہ اپنی بیویوں کو مارنے میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق، دنیا بھر میں ہر تین میں سے ایک خاتون اپنی زندگی میں ایک مرتبہ جسمانی یا جنسی تشدد کا سامنا ضرور کرے گی، اور اس کے زیادہ تر ذمہ دار کوئی قریبی پارٹنر ہی ہوں گے۔
اقوام متحدہ کا ماننا ہے کہ 2017 میں قتل کی گئی 87 ہزار خواتین میں سے 58 فیصد کا قتل کسی قریبی پارٹنر یا خاندان کے فرد نے کیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا بھر میں ہر روز 137 خواتین اپنے ہی رشتہ داروں کے ہاتھوں قتل ہوتی ہیں، اور اس تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔
21 سالہ ہریرہ* کو بھی اپنے شوہر کے ہاتھوں تشدد برداشت کرنا پڑتا ہے۔
انہوں نے بتایا: ’میں 16سال کی عمر میں چائلڈ میرج کا شکار ہوئی۔ میرا شوہر ہمیشہ مجھے مارتا ہے کیونکہ میں جو بھی کرتی ہوں اس کو اچھا نہیں لگتا۔ وہ کہتا ہے کہ جب میں باہر جاتی ہوں تو دوسرے مردوں سے بات کرتی ہوں۔ وہ بہت جلتا ہے جب میں مونگ پھلی بیچنے جاتی ہوں۔ اکثر وہ میرے پاس آ کے بیٹھ جاتا ہے اور جب کوئی مرد مجھ سے بات کرتا ہے تو مجھے پتہ ہوتا ہے کہ جب میں گھر جاؤں گی تو چھڑی میرا اننظار کر رہی ہوگی۔‘
ہریرہ کی ایک 11 ماہ کی بیٹی ہے اور تین سال کا بیٹا ہے۔
انہوں نے مزید کہا: ’میں اس بارے میں زیادہ بات کرنا پسند نہیں کرتی کیونکہ کسی لڑکی کے لیے یہ سب سہنا بہت شرمناک ہے خاص طور پر جب اس کے بچے سب دیکھ رہے ہوں۔‘
*اس آرٹیکل میں خواتین کی شناخت چھپانے کے لیے ان کے لیے فرضی نام استعمال کیے گئے ہیں۔
© The Independent