جب تاج برطانیہ نے ہندوستان چھوڑنے کا اصولی فیصلہ کر لیا تو اس وقت ایک اہم سوال یہ تھا کہ ہندوستان کی ان 584 ریاستوں اور راجواڑوں کا کیا بنے گا، جنہوں نے ضرورت کی ہر گھڑی میں تاج کے ساتھ اپنی وفاداری نبھائی تھی۔
یہ وفاداری فوجی امداد سے لے کر مالی امداد تک ہر سطح پر قائم تھی، اس لیے ان راستوں کے راجوں، مہاراجوں کا خیال تھا کہ تاج برطانیہ ان کے مفادات کا ہر صورت تحفظ کرے گا، لیکن جب آزادی کے اعلان سے اڑھائی ہفتے پہلے 26 جولائی کو لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے ریاستوں کے نوابوں اور مہاراجوں کا دربار منعقد کیا تو اس میں اپنا دو ٹوک مؤقف بیان کر دیا کہ کسی ریاست کو آزاد حیثیت نہیں دی جائے گی بلکہ انہیں پاکستان اور انڈیا میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑے گا۔ اس حوالے سے کوئی واضح پالیسی بھی نہیں دی گئی جس کی وجہ سے کئی ریاستیں آخر تک مخمصے کا شکار رہیں۔
کانگریس اس معاملے میں شروع ہی سے دو ٹوک موقف رکھتی تھی کہ تمام ریاستیں ہندوستان کا جزو لاینفک ہیں اور انہیں کسی صورت الگ نہیں کیا جائے گا۔ اس تناظر میں کانگریس نے سردار پٹیل اور وی پی مینن کی سربراہی میں خود مختار ریاستوں کے ساتھ مذاکراتی ٹیم بھی تشکیل دے دی جس پر انہیں لارڈ ماؤنٹ بیٹن کی واضح حمایت بھی حاصل تھی۔
بیکانیر، برودا اور راجستھان کی کچھ دوسری ریاستوں نے آغاز میں ہی بھارت میں شمولیت کا اعلان کر دیا، تاہم کئی ریاستیں ایسی بھی تھیں جو بھارت میں شمولیت نہیں چاہتی تھیں۔ ان میں سے کچھ چاہتی تھیں کہ انہیں آزاد حیثیت سے تسلیم کر لیا جائے جبکہ کچھ پاکستان میں شامل ہونا چاہتی تھیں۔
ٹراونکور
ہندوستان کی جنوبی ساحلی ریاست ٹراونکور وہ پہلی ریاست تھی، جس نے بھارت میں شمولیت سے انکار کیا تھا۔ ریاست سٹریٹیجک حوالے ہی سے اہم نہ تھی بلکہ معدنی وسائل سے بھی مالا مال تھی۔
اس کے دیوان سر سی پی رمام شوامے ایار جو ایک ممتاز وکیل بھی تھے، انہوں نے 1946 میں ہی اپنی ریاست کی آزاد حیثیت برقرار رکھنے کا اعلان کر دیا تھا، جسے قائد اعظم کی حمایت بھی حاصل تھی اور کسی حد تک برطانیہ کی بھی کیونکہ ریاست مونازائیٹ نامی دھات سے مالا مال تھی جسے ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری میں استعمال کیا جا سکتا تھا۔
دیوان جولائی 1947 تک اپنے مؤقف پر ڈٹے رہے لیکن کیرالہ سوشلسٹ پارٹی کے ایک کارکن کی جانب سے دیوان کو جان سے مارنے کی کوشش کی گئی، جس کے بعد دیوان نے بھارت میں شمولیت کا اعلان کر دیا۔ موجودہ انڈیا میں ٹرانکور کا رقبہ اب کیرالہ، کنیا کماری اور تامل ناڈو پر مشتمل ہے۔
جودھ پور
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
راجستھانی ریاستوں میں سب سے بڑی راجپوتانہ ریاست جودھ پور کا معاملہ بھی عجیب نوعیت کا ہے۔ 93424 مربع کلومیٹر پر مشتمل ریاست کی تاریخ 1226 تک جاتی ہے۔ ریاست کا بادشاہ ہندو تھا اور یہاں کی اکثریت بھی ہندو مت سے تعلق رکھتی تھی مگر بادشاہ کا رجحان پاکستان کی جانب تھا۔
مہاراجہ ہنونت سنگھ کا خیال تھا کہ اس کی ریاست کی سرحدیں چونکہ پاکستان کے ساتھ ملتی ہیں اس لیے پاکستان میں شمولیت اس کے لیے زیادہ سود مند ہوگی۔ قائداعظم محمد علی جناح نے بھی اسے ہر ممکن تعاون کی یقین دہانی کرائی تھی جس پر ایک وقت میں وہ کراچی آنے کے لیے تیار بھی ہوگیا تھا۔ جیسے ہی سردار پٹیل کو اس کا علم ہوا اس نے مہاراجہ کوایک مسلمان ملک کا حصہ بننے سے روکا اور متوقع خطرات سے آگاہ کیا، جس کی وجہ سے مہاراجہ نے کراچی جانے اور پاکستان میں شمولیت کا ارادہ ترک کر کے بھارت میں شمولیت کے کاغذات پر دستخط کر دیے۔
بھوپال
رقبے کے لحاظ سے ہندوستان کی دوسری بڑی ریاست بھوپال بھی آزاد ی چاہتی تھی۔ ریاست کی اکثریت ہندو تھی تاہم اس کے نواب حامد اللہ خان مسلمان تھے۔ نواب کا شمار مسلم لیگ کے سرکردہ رہنماؤں میں ہوتا تھا اور انہوں نے لندن کی گول میز کانفرنس میں بھی شرکت کی تھی۔ جب انہوں نے دیکھا کہ ان کی ریاست کی سرحدیں پاکستان کے ساتھ نہیں ملتیں تو انہوں نے ماؤنٹ بیٹن سے مطالبہ کیا کہ ریاست کو آزاد حیثیت دی جائے۔ تقسیم کے بعد ریاست میں آزادی پسندوں اور بھارت میں شمولیت کے حامیوں میں جنگ چھڑ گئی تاہم 30 اپریل 1949 کو نواب نے بھارت میں شمولیت کی دستاویز پر دستخط کر دیے۔
حیدرآباد
رقبے کے لحاظ سے ہندوستان کی سب سے بڑی ہونے کے ناطے حیدر آباد سب سے اہم ریاست تھی جس کی آبادی کی اکثریت ہندو تھی۔ تاہم نظام عثمان علی خان نے برطانیہ سے مطالبہ کیا کہ انہیں دولت مشترکہ میں ایک آزاد ریاست کی حیثیت سے شامل کیا جائے، جس پر لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے کہا کہ برطانیہ اس پر راضی نہیں ہے، اس لیے آپ کو دونوں نئی ریاستوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑے گا۔
نظام کو قائداعظم کی حمایت حاصل تھی کیونکہ انہوں نے مسلمانوں کی سب سے قدیم ریاست کے دفاع کا وعدہ کر رکھا تھا، تاہم پٹیل کا کہنا تھا کہ حیدر آباد کی آزاد حیثیت بھارت کے پیٹ میں پھوڑے کی طرح ہو گی۔
جیسے ہی لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے جون 1948 میں استعفیٰ دیا تو کانگریس کی حکومت نے فیصلہ کن اقدام لینے کا تہیہ کر لیا۔ ’آپریشن پولو‘ کے تحت بھارت نے ستمبر 1948 میں اپنی فوجیں ریاست میں بھیج دیں۔ چار دن کی جنگ کے بعد بھارتی فوجوں نے ریاست پر قبضہ کرلیا اور نظام کو بدلے میں ریاست کا گورنر بنا دیا گیا۔ موجودہ انڈیا میں اس ریاست کو تین حصوں میں بانٹ کر اس کے تین صوبے بنائے گئے ہیں جن میں تلنگانا، کرناٹک اور مہاراشٹر شامل ہیں۔
جونا گڑھ
حیدر آباد کی طرح جونا گڑھ نے بھی 15 اگست تک بھارت میں شمولیت کا فیصلہ نہیں کیا تھا۔ کاٹھیاواڑ کی ریاستوں میں جونا گڑھ سب سے اہم ریاست تھی۔ جہاں نواب محمد محبت خان سوم ایک ہندو اکثریتی ریاست کا حاکم تھا۔ 1947 کے اوائل میں دیوان آف جونا گڑھ نبی بخش نے مسلم لیگ کے سر شاہنواز بھٹو کو ریاست کے کونسل وزیر کا عہدہ سنبھالنے کے لیے دعوت دی۔ دیوان کی عدم موجودگی میں بھٹو نے دیوان کا عہدہ سنبھال لیا اور نواب پر زور دیا کہ وہ پاکستان میں شامل ہو جائے۔ جب پاکستان نے نواب کی پاکستان میں شمولیت کی درخواست قبول کرلی تو بھارتی رہنماؤں نے اس فیصلے کو جناح کے دو قومی نظریے کے مخالف قرار دیا۔ جس پر ریاست میں حالت خراب ہو گئے۔ نواب کراچی چلا گیا۔ سردار پٹیل نے ریاست میں ریفرینڈم کرانے کا مطالبہ کیا اور ساتھ ہی فوجیں بھیج دیں۔
کشمیر
کشمیر میں مسلمانوں کی اکثریت تھی جبکہ اس کا مہاراجہ ہری سنگھ سکھ تھا چنانچہ اسے معلوم تھا کہ اگر اس نے بھارت میں شمولیت اختیار کی تو مسلمان بغاوت کر دیں گے۔ یہی ہوا مہاراجہ کے خلاف بغاوت میں دو لاکھ لوگ مارے گئے، مہاراجہ نے بھارت سے فوجی امداد طلب کرلی اور کہا کہ جب جنگ ختم ہوگی تو اس کے بعد ریفرنڈم ہوگا، جس میں آزادی کا خانہ نہیں ہوگا بلکہ ریاست کو پاکستان اور انڈیا میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑے گا۔
جب یکم جنوری 1949 کو کشمیر میں اقوام ِ متحدہ کی مداخلت پر جنگ بندی ہو گئی تو اس کے بعد سے آج تک وہاں ریفرنڈم نہیں کرایا جا سکا۔ اس مسئلے کی وجہ سے پاکستان اور بھارت کے درمیان چار جنگیں بھی ہو چکی ہیں۔ مسئلہ کشمیر دنیا کے نقشے پر نیوکلیئر فلیش پوائنٹ بن چکا ہے۔ حیرت کی بات یہ بھی ہے کہ جس فارمولے کے تحت جونا گڑھ بھارت کو دی گئی اسی فارمولے کے تحت کشمیر پاکستان کو نہیں دیا گیا۔