ہدایت کارعباس مستان کو ایسا محسوس ہوا کہ اس منظر کے مکالمے میں کچھ کمی ہے، کچھ ادھورا پن ہے، جو اس منظر کے ساتھ انصاف نہیں کر پا رہا۔
دونوں کا خیال تھا کہ یہاں منظر ختم ہونے پر کوئی اضافی دم دار مکالمہ ہونا چاہیے لیکن مشکل یہ تھی کہ ان کے سکرپٹ اور سکرین پلے رائٹرز کی ٹیم جو رابن بھٹ، آکاش کھرانہ اور جاوید صدیقی پر مبنی تھی، وہ سیٹ پر موجود نہیں تھی، بلکہ کسی اور فلم میں مصروف تھی۔
ان کے انتظار کے مطلب یہ تھا کہ عکس بندی ایک دن اور آگے تک پہنچ جائے گی۔ اسی لیے عباس مستان کی پریشانی کچھ بڑھتی جا رہی تھی۔ جو وہ چاہ رہے تھے، وہ ممکن ہوتا نظر نہیں آ رہا تھا۔
یہ ذکر ہو رہا ہے 1993 میں تیار کی جانے والی فلم ’بازی گر‘ کا۔ 1953 میں شائع ہونے والے امریکی مصنف ایرا لیون کے ناول ’اے کِس بیفور ڈائنگ‘ (A Kiss Before Dying) پر 1991 میں ہالی وڈ میں بھی فلم بن چکی تھی جس کی کامیابی کو دیکھتے ہوئے ہی ہمیشہ سفید براق کپڑوں میں رہنے والے عباس مستان نے اسی موضوع پر بالی وڈ فلم بنانے کا منصوبہ بنایا۔
ظاہری بات ہے کہ ہالی وڈ کے برعکس اس فلم کی کہانی میں جذباتی، نغماتی اور دیسی انداز دیا گیا۔ کہانی کے مطابق جائیداد پر قبضہ ہو جانے کے بعد ہیرو بچپن سے کئی دکھ جھیلتا ہے اور پھر جوانی کی دہلیز پر قدم رکھنے کے بعد بوڑھی ماں کو اس کا حق دلانے کے لیے خوف ناک منصوبہ بناتا ہے۔ جس نے اسے غربت اور مفلسی کے اندھیرے میں دھکیلا اس سے خونی انتقام لینے کے لیے باقاعدہ پہلے اس کا دل جیتنے کی کوشش کرتا ہے اور پھر اس کامیابی کے بعد اس کی بیٹیوں میں سے ایک کو پیار کا جھانسہ دے کر بلند و بالا عمارت سے دھکا دے کر موت کی وادی میں پہنچا دیتا ہے۔
پھر وہ دوسری بیٹی سے محبت تو کرتا ہے لیکن اپنی احساس محرومی اور حق تلفی کو فراموش نہیں کر پاتا۔ انتقام کے شعلے اسے اندر اندر ہی بھڑکاتے ہیں جبھی وہ سب کچھ بھسم کرنے کا فیصلہ کرلیتا ہے۔ ایسی چالیں چلتا ہے کہ اس کا دشمن صرف خالی ہاتھ ہی رہ جاتا ہے۔ درحقیقت اس فلم میں ہیرو ہی ولن تھا۔ جبھی کوئی بھی اداکار اسے ادا کرنے پر تیار نہیں تھا۔
عباس مستان ’بازی گر‘ سے پہلے ’کھلاڑی‘ بنا کر شہرت کما چکے تھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اکشے کمار کی یہ فلم بھی ہالی وڈ مودی سے متاثر تھی۔ بہرحال جب عباس مستان نے’بازی گر‘ بنانے کا فیصلہ کیا تو اکشے کمار سے ہی پہلے رابطہ کیا لیکن منفی رخ ہونے پر معذرت ملی پھر بات پہنچی انیل کپور تک، وہ بھی کیرئیر کے اس موڑ پر ولن بننے پر تیار نہیں تھے اور کچھ ایسا ہی خیال سلمان خان کا تھا۔
ہدایت کارعباس مستان تھک ہار کر شاہ رخ خان کے پہنچے جن کی کچھ عرصے پہلے ’دیوانہ‘ سینیما گھروں میں لگی تھی اور اسی فلم سے وہ بالی وڈ میں بڑا نام کمانے کی جستجو میں تھے۔ سکرپٹ جب انہیں سنایا گیا تو شاہ رخ خان نے پہلی ہی ملاقات میں بتا دیا کہ وہ تیار ہیں۔ انہیں اس بات سے فکر نہیں تھی یہ کردار منفی نوعیت کا ہے۔ شاہ رخ خان تو بس ملنے والی ہر اچھی پیش کش کو قبول کرکے خود کو دوسرے ہدایت کاروں کی نگاہوں میں لانے کا بہانہ ڈھونڈ رہے تھے۔
’بازی گر‘ میں شاہ رخ خان کے علاوہ کاجول، شلپا شیٹی، راکھی اور دلیپ تاہل نمایاں ستاروں میں شامل تھے۔ شلپا شیٹی کی یہ پہلی فلم تھی جبکہ کاجول بھی کسی بہترین فلم کی تلاش میں تھیں، جو ان پر سے یہ چھاپ مٹا دے کہ وہ تنوجہ کی بیٹی اور نوتن کی بھانجی ہیں۔
فلم کی عکس بندی کا آغاز ہو چکا تھا اور عباس مستان چنائے میں وہ منظر عکس بند کر رہے تھے، جس میں شاہ رخ خان کی پہلی بار ملاقات اپنے محرومیوں کے ذمے دار دشمن مدن چوپڑہ (دلیپ تاہل) سے اس کی بیٹی کاجول کی موجودگی میں ہوتی ہے۔ گاڑیوں کی دوڑ میں وہ جان بوجھ کر ہار جاتے ہیں۔ مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ کسی طرح دلیپ تاہل کے دل میں اپنے لیے جگہ بنائیں۔ یہاں شاہ رخ خان سے دلیپ تاہل دریافت کرتے ہیں کہ تم تو دوڑ جیت رہے تھے، آخری لمحات میں کیا ہوا تو شاہ رخ خان بتاتے ہیں کہ وہ ان کے آئیڈل ہیں اور ان سے ملاقات کے لیے انہوں نے یہ مناسب نہیں سمجھا کہ اپنے آئیڈل سے جیت جائیں۔ اس مرحلے پر شاہ رخ خان مکالمہ بولتے ہیں کہ ’کچھ جیتنے کے لیے کچھ ہارنا بھی پڑتا ہے۔‘
یہی وہ منظر تھا۔ جس کو عکس بند کرتے ہوئے عباس مستان کو لگ رہا تھا کہ یہاں کوئی ایسا اضافی مکالمہ ہونا چاہیے جو اس میں اور جان ڈال دے۔ اس منظر کو جیسے اور زیادہ پرکشش بنا دے کیونکہ ہیرو ایک تیر سے دو شکار جو کر رہا تھا۔
نوجوان سکرین رائٹر آدیش کے ارجن جنہوں نے ’کھلاڑی‘ کے کچھ مکالمات لکھے تھے اورعباس مستان کی پروڈکشن ٹیم میں محض اس لیے شامل تھے کہ کچھ نہ کچھ تجربہ حاصل کریں، انہوں نے عباس مستان کی پریشانی نوٹ کرلی۔ وہ آگے بڑھے اور ہدایت کارجوڑی سے کہا کہ اگر وہ کچھ مکالمے لکھ کر دیں تو چلے گا؟ بھلا عباس مستان کو کیا اعتراض ہوتا۔
آدیش کے ارجن نے چند ہی لمحوں میں سیٹ پر بیٹھے بیٹھے ایک کاغذ پر کچھ لکھ کر عباس مستان کی جانب بڑھایا تو وہ اسے پڑھ کر بے اختیار کھل اٹھے، جیسا وہ اس منظر کا اختتام چاہتے تھے، وہ ان کے مطلب کا بن گیا تھا۔
اب شاہ رخ خان کاجول سے مخاطب ہو کرمکالمہ ادا کرتے ہیں کہ ’کبھی کبھی جیتنے کے لیے کچھ ہارنا بھی پڑتا ہے اور ہار کر جیتنے والے کو بازی گر کہتے ہیں۔‘
شاہ رخ خان کو یہ سکرپٹ تھمایا گیا تو وہ اس بات سے انجان تھے کہ یہ آدیش کے ارجن نے لکھا ہے۔ اس موقعے پر انہوں نے اس میں یہ اضافہ کیا کہ وہ کاجول سے پوچھیں گے کہ ’کیا کہتے ہیں؟‘ تو وہ جواباً کہیں گی ’بازی گر۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مقصد شاہ رخ خان کا مدن چوپڑہ ہی نہیں ہیروئن کے دل پر بھی حکمرانی کرنی تھی۔ اس پہلی ہی ملاقات میں شاہ رخ خان کے اس پراثر مکالمے کا کاجول پر ایسا جادو چلتا ہے کہ وہ ان کے پیار میں تڑپنے لگتی ہیں اور یہیں سے کہانی ایک نیا پلٹا کھاتی ہے۔
عباس مستان کی ’بازی گر‘ 12 نومبر 1993 کو نمائش پذیر ہوئی تو اس نے باکس آفس پر تہلکہ مچا دیا۔ فلم بین جو اس سے پہلے کسی ہیرو کو ولن بن کر اس قدر سفاکیت بھرے روپ میں دیکھ نہیں پائے تھے، ان کے لیے شاہ رخ خان کا منفی کردار چونکا دینے والا تھا۔
فلم کے گیت بھی بےحد مقبول ہوئے۔ کہانی اور ڈائریکشن تو عباس مستان کی کمال کی ہی تھی۔ شاہ رخ خان ’بازی گر‘ میں کام کرنے کے ساتھ ساتھ ان دنوں یش چوپڑہ کی ’ڈر‘ میں اداکاری دکھا رہے تھے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ کردار بھی منفی نوعیت کا تھا۔ جبکہ ’بازی گر‘ کی نمائش کے بعد ہی اگلے ماہ ’ڈر‘ بھی سنیما گھروں میں لگی اور دونوں فلموں نے زبردست کاروبار کی کئی نئی مثالیں قائم کیں لیکن برتری ’بازی گر‘ کو ہی رہی۔ اس فلم نے اگلے برس فلم فیئر ایوارڈ میں سے 10 نامزدگیوں میں سے چار جیتے۔ اس میں شاہ رخ خان کو بہترین اداکار، انو ملک کو موسیقار، بہترین گلوکار کا کمار سانو اور سب سے بڑھ کر بہترین سکرین پلے کا جاوید صدیقی، رابن بھٹ اور آکاش کھرانہ کو ایوارڈز دیے گئے۔
اس کامیابی کے شور میں کوئی یہ نہ جان سکا کہ جس مکالمے پر سینیما گھروں میں تالیاں اور سیٹیاں بجتی تھیں، جسے شاہ رخ خان نے ایک ادا سے بولا، وہ کس کا ہے۔
لیکن یہ عباس مستان ہی ہیں جو اپنے کسی نہ کسی انٹرویو میں یہ ضرور بتاتے ہیں کہ شہرہ آفاق مکالمہ آدرش ارجن کا لکھا ہوا ہے، اور وہ ان کے انداز تحریر سے وہ اس قدر متاثر ہوئے کہ اپنی اور فلموں ’دارڑ‘ ا ور ’اعتراض‘ کے بھی مکالمات لکھوائے لیکن ان کا ’بازی گر‘ کا مشہور مکالمہ اتنے برس گزرنے کے باوجود شاہ رخ خان کی پہچان بن چکا ہے۔