’جو ڈوب نہیں سکتا،‘ یہ تھے وہ الفاظ جو اپنے وقت کے مشہور بحری جہاز ٹائی ٹینک کے تعارفی اشتہار میں استعمال کیے گئے تھے۔
اس جہاز کو بنانے والوں کو اس کی مضبوطی، پائیداری اور غرقاب نہ ہونے کا اتنا یقین تھا کہ انہوں نے نہ صرف یہ کہ اس میں لائف بوٹس کو مکمل تعداد میں نہیں رکھا تھا بلکہ زیریں حصوں کوجوڑنے والی دیواروں کو بھی مکمل طور پر تعمیر نہیں کیا گیا تھا۔ ان کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ اگر جہاز کے ابتدائی حصے میں پانی بھر جائے تو وہ پانی پچھلے حصوں میں بھی جاسکتا ہے۔
وائٹ اسٹار لائن کے اہتمام میں بننے والے دنیا کے اس سب سے بڑے جہاز کی لمبائی882 فٹ نو انچ اور چوڑائی 92 فٹ تھی جبکہ اس جہاز کی اونچائی 175 فٹ بتائی جاتی ہے۔ اس جہاز کی تعمیر کا حکم نامہ 17 ستمبر 1908 کو جاری ہوا تھا اور اس کی تعمیر31 مارچ 1909 کو شروع ہوئی تھی۔ 31 مئی 1911 کو اسے پانی میں اتارا گیا اور دو اپریل 1912 کو اس کی تعمیر مکمل ہو گئی۔
آٹھ دن بعد دس اپریل 1912 کو رات نو بجے یہ جہاز اپنے اولین سفر پر برطانوی شہر ساﺅتھیمپٹن سے امریکہ کے شہر نیویارک کے لیے روانہ ہوا۔ جہاز میں عملے کے 892 افراد سمیت 3327 مسافر سوار تھے۔ سفر کے ابتدائی چار دن بہت خوشگوار گزرے۔ جہاز کے مالکان اور مسافر سبھی اپنی خوش بختی پر نازاں تھے۔ وہ دنیا کے سب سے بڑے اور سب سے پرتعیش جہاز میں سفر کر رہے تھے۔
ٹائی ٹینک کے کپتان کا نام ایڈورڈ جان سمتھ تھا۔ وہ تجربہ کار کپتان تھے لیکن انہوں نے وائٹ سٹار لائن کی ہدایت پر تمام حفاظتی تدابیر بالائے طاق رکھتے ہوئے کوشش کی کہ وہ بحر اوقیانوس کو سب سے کم مدت میں عبور کرنے کا نیا عالمی ریکارڈ قائم کر دیں۔ چنانچہ انہوں نے جہاز کو انتہائی تیز رفتاری سے چلانا شروع کیا اور سمندر میں موجود ایک اور جہاز کی اس انتباہی اطلاع پر بھی کان نہیں دھرے کہ سمندر میں بڑے برفانی تودے (آئس برگ) موجود ہیں۔
جہاز کے عملے کے پاس دوربین بھی موجود نہیں تھی اور وہ دھند کے باعث زیادہ دور تک دیکھنے پر بھی قادر نہیں تھے۔ 14 اپریل 1912کو جہاز کے عملے نے ایک بہت بڑے آئس برگ کو قریب ہوتے ہوئے دیکھا۔ کپتان کو فوری طور پر مطلع کیا گیا لیکن اس وقت تک بہت دیر ہو چکی تھی۔ جہاز انجن بند کرنے کے باوجود رات 11 بج کر 40 منٹ پر ایک آئس برگ سے ٹکرا گیا۔
ٹائی ٹینک کے حصوں کو آپس میں جوڑنے کے لیے جن ریبٹس کو استعمال کیا گیا تھا وہ سٹیل کی بجائے بہت ناقص میٹریل سے بنائے گئے تھے۔ جہاز کے آئس برگ سے ٹکراتے ہی یہ ریبٹس ٹوٹ گئے اور سمندر کا شوریدہ پانی تیزی سے جہاز میں داخل ہو گیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جہاز کا انجن بند ہونے کے بعد مسافروں کو بھی احساس ہوا کہ کچھ گڑبڑ ہے۔ چونکہ جہاز کے زیریں حصے میں حفاظتی دیواریں نہیں بنائی گئی تھیں اس لیے تھوڑی ہی دیر میں پانی پورے جہاز میں پھیل گیا۔
پانی بھرنے سے جہاز کا اگلا حصہ اتنا بھاری ہو گیا کہ جہاز ڈوبنا شروع ہو گیا اور صرف تین گھنٹے میں دو ٹکڑے ہو کر سمندر میں ڈوب گیا۔
جہاز میں صرف 20 لائف بوٹس تھیں جو مسافروں کی تعداد کے حساب سے بہت کم تھیں۔ کشتیاں کم رکھنے کی وجہ وہی تھی کہ کمپنی کو اعتماد تھا کہ جہاز غرقاب ہو ہی نہیں سکتا۔
ان لائف بوٹس کی مدد سے صرف 755 مسافر اپنی جان بچا سکے اور باقی مسافر جن کی تعداد 1490 سے 1635 کے درمیان بتائی جاتی ہے، ڈوب کر ہلاک ہو گئے۔ زندہ بچنے والوں میں جہاز کا مالک بروس اسمے بھی شامل تھا جو خواتین اور بچوں کو ڈوبتے جہاز میں چھوڑ کر ایک کشتی کے ذریعے جان بچانے میں کامیاب رہا مگر اس خودغرضی پر وہ زندگی بھر نفرت کا نشانہ بنا رہا۔ اسے ’ٹائی ٹینک کا بزدل‘ کہا جاتا تھا۔ اس کا انتقال 1937 میں ہوا۔
جہاں تک کپتان کی بات ہے تو وہ عملے کے افراد کے ساتھ خواتین اور بچوں کو بچانے کی کوشش میں مصروف رہا، وہ آخری آدمی تھا جس نے جہاز سے چھلانگ لگائی مگر خود اپنی جان نہیں بچا سکا۔
اس کے عظیم جذبے کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے اس کا مجسمہ برطانیہ کے شہر لچ فیلڈ سٹیفورڈ شائر کے بیکن پارک میں نصب کیا گیا ہے۔ کپتان سمتھ نے اس موقعے پر مدد کے لیے ایس او ایس کا سگنل بھی دیا۔
یہاں اس بات کا ذکر بےمحل نہ ہو گا کہ یہ پہلا موقع تھا جب مدد کے لیے ایس او ایس کے سگنل کا استعمال کیا گیا۔ ٹائی ٹینک سے کچھ ہی فاصلے پر تین بحری جہاز موجود تھے جن کے نام فرینکفرٹ، کارپیتھیا اور ماﺅنٹ ٹیمپل تھے مگر ان تینوں جہازوں نے ٹائی ٹینک کے اس سگنل پر فوری توجہ نہیں دی۔
صبح کے وقت کارپیتھیا ٹائی ٹینک تک پہنچنے میں کامیاب ہوا، مگر اس وقت تک ٹائی ٹینک مکمل طور پر غرقاب ہو چکا تھا۔ کارپیتھیا کا عملہ صرف لائف بوٹس میں سوار مسافروں اور عملے کے ارکان کی جان بچانے میں کامیاب ہو سکا۔
73 برس بعد یکم ستمبر1985 کو مہم جوﺅں کی ایک ٹیم نے بحر اوقیانوس کی تہہ میں تقریباً ڈھائی میل کی گہرائی میں ٹائی ٹینک کی باقیات کو تلاش کر لیا جس کی وجہ سے نئے انکشافات ہوئے۔
ان باقیات کی تلاش کے لیے ماہرین ایک عرصے سے جستجو میں تھے مگر ہر مرتبہ ناکامی ان کا مقدر بنتی تھی۔ 1985میں ایک مہم جو ڈاکٹر رابرٹ بیلرڈ کی قیادت میں ایک مہم ان باقیات کی تلاش میں بھیجی گئی جس نے بحر اوقیانوس میں تقریباً 12 ہزار فٹ کی گہرائی میں انہیں دریافت کر لیا۔
اس دریافت کے نتیجے میں بعض تکلیف دہ حقائق بھی سامنے آ گئے وہ یہ کہ زندگی اور موت کی اس طویل کشمکش میں بھی سماجی اور اقتصادی تقسیم کو مدنظر رکھا گیا۔ جہاز کے عملے نے تیسرے درجے کے مسافروں کو ڈیک کے نیچے آخری وقت تک بند رکھا، کیوں کہ لائف بوٹس پر پہلے درجے کے مسافروں کو حق مقدم سمجھا گیا تھا۔
تیسرے درجے میں سفر کرنے والی 179 عورتوں میں سے 81 ہلاک ہو گئیں جبکہ پہلے درجے میں سوار 143 عورتوں میں سے صرف چار ہلاک ہوئیں جن میں سے تین وہ تھیں جنہوں نے اپنے شوہر کا ساتھ ترک کرنا قبول نہیں کیا تھا۔
1997میں ٹائی ٹینک کے موضوع پر ایک زبردست فلم بنائی گئی جس نے مقبولیت کے تمام پچھلے ریکارڈ توڑ دیے۔ یہ فلم جیمز کیمرون نے بنائی تھی اور اس میں مرکزی کردار کیٹ ونسلیٹ اور لیونارڈوڈی کیپریو نے ادا کیے تھے۔
یہ دنیا کی پہلی فلم تھی جس نے باکس آفس پر ایک ارب ڈالر کمانے کا اعزاز حاصل کیا تھا، یہ اعزاز 12 سال تک قائم رہا۔ اس فلم کو 14 شعبوں میں آسکر ایوارڈ کے لیے نامزد کیا گیا جن میں سے 11 میں اسے کامیابی ملی۔
ٹائی ٹینک کے موضوع پر لاتعداد کتابیں بھی تحریر کی گئی ہیں جن میں اس حادثے کے ایک ایک پہلو کو محفوظ کیا گیا ہے۔ 1997 میں بننے والی فلم ٹائی ٹینک بھی اس موضوع پر بننے والی اولین فلم نہیں تھی بلکہ پہلے بھی اس موضوع پر کئی فلمیں بن چکی تھیں۔
بلکہ جس سال ٹائٹینک ڈوبا، اسی سال اس پر ایک خاموش فلم بن گئی تھی۔
مگران فلموں میں سے بیشتر کی نوعیت دستاویزی تھی چنانچہ انہیں وہ کامیابی حاصل نہیں ہوئی جو 1997 میں بننے والی فلم کو حاصل ہوئی۔
اگر دنیا میں ہونے والے بڑے بحری حادثوں کی فہرست دیکھی جائے تو ٹائٹینک کا نمبر کہیں نیچے آتا ہے، اور دنیا میں اس سے بڑے بحری حادثے ہوئے ہیں جن میں کہیں زیادہ لوگ غرق ہوئے مگر ٹائٹینک کو جو شہرت ملی وہ کسی اور کے حصے میں نہیں آئی۔
اس واقعے کے 110 سال گزر جانے کے باوجود ٹائٹینک پر کتابیں لکھی جا رہی ہیں اور اور فلمیں بنائی جا رہی ہیں۔
اس لحاظ سے دیکھا جائے تو ٹائٹینک واقعی ’ناقابلِ غرقابی‘ (unsinkable) ہے۔