پانچ جولائی 1977 کو چار عشرے سے زیادہ بیت گئے۔ یہ وہ دن ہے جب پاکستان میں جنرل ضیا نے مارشل لا نافذ کیا تھا۔ پاکستان میں بہت سے لوگ پانچ جولائی کو یوم سیاہ مناتے ہیں لیکن اس بات پر غور نہیں کرتے کہ پانچ جولائی 1977 ہماری زندگیوں میں کیوں آیا تھا اور یہ اب تک ختم کیوں نہیں ہوا؟
اپریل 1977 میں ملک بھر میں پہلے منتخب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف احتجاجی تحریک جاری تھی۔ یہ تحریک اسی برس مارچ میں منعقد ہونے والے انتخابات میں مبینہ دھاندلیوں کے نتیجے میں شروع ہوئی اور دیکھتے ہی دیکھتے ملک کے طول و عرض میں پھیل گئی۔ پاکستان قومی اتحاد کے پاس اگرچہ عوامی قوت نہ ہونے کے برابر تھی۔ انتخابی جلسوں کے دوران بھی وہ لوگوں کو متاثر نہیں کر سکے تھے، لیکن اس تحریک کے لیے انہوں نے نظام مصطفیٰ کے نفاذ کا نعرہ بلند کیا۔ تحریک کو تحریکِ نظامِ مصطفیٰ کا نام دیا گیا اور لوگ اسلام کے نام پر سڑکوں پر آ گئے۔ گویا آج سے 42 سال پہلے بھی لوگوں کے مذہبی جذبات کے ساتھ اسی طرح کھیلا جاتا تھا جیسے آج کھیلا جاتا ہے۔
گھیراؤ جلاﺅ کا عمل شروع ہوا تو توڑ پھوڑ اور جلوس جلسے روز کا معمول بن گئے، کچھ ہلاکتیں بھی ہوئیں لیکن بھٹو صاحب کو اقتدار سے ہٹانے کے لیے صرف سٹریٹ پاور کا مظاہرہ ہی تو کافی نہیں تھا۔ اس کے لیے پارلیمانی عدم استحکام پیدا کرنا بھی ضروری ہو گیا تھا۔ اس مقصد کے لیے ایجنسیوں نے اپنا کھیل شروع کیا۔ کچھ غلطیاں پیپلز پارٹی کی قیادت سے کرائی گئیں اور کچھ اراکین اسمبلی یا پارٹی رہنما ایسے تھے جو پہلے ہی ایجنسیوں کے اشارے پر نئی منزلوں کی جانب سفر کو تیار تھے۔ یہ وہ لوگ تھے جو ہمیشہ ہوا کا رخ دیکھ کر فیصلہ کرتے ہیں کہ ہم نے کب وفاداریاں تبدیل کرنی ہیں۔ ہوا کے مخالف پرواز کرنا ان پنچھیوں کے لیے ممکن ہی نہیں ہوتا۔
8اپریل کو بھٹو صاحب نے پارٹی مفادات کے منافی سرگرمیوں کے الزام میں تاج محمد لنگاہ (جو بعدازاں سرائیکی صوبے کی آواز بنے)، احمد رضا قصوری ( جو بعد ازاں اُس مقدمے کے مدعی بنے جو ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی پر منتج ہوا) اور حامد یاسین کو پارٹی سے نکالنے کا اعلان کر دیا۔ 12 اپریل1977 کو پیپلز پارٹی کے سیکریٹری جنرل مبشر حسن نے استعفیٰ دے دیا۔
اسی روز ملتان سے پی پی کی خاتون رہنما فخر النسا کھوکھر (سابق جسٹس لاہو رہائی کورٹ) پارٹی رکنیت سے مستعفی ہوئیں۔ اگلے روز ایجنسیوں نے اسمبلیوں میں کھیل شروع کر دیا۔ کچھ لوگوں کو شاید یہ سن کر حیرت ہو کہ پنجاب اسمبلی سے بھٹو حکومت کے خلاف پہلا استعفیٰ آج کے جیالے چوہدری اعتزاز احسن نے دیا تھا۔ اعتزاز احسن پیپلز پارٹی حکومت میں صوبائی وزیر قانون کی حیثیت سے کام کر رہے تھے وہ پیپلز پارٹی سے پہلے ریٹائرڈ ایئر مارشل اصغر خان کی تحریک استقلال میں شامل تھے۔ استعفے کا جواز انہوں نے یہ بنایا کہ نو اپریل کو لاہور میں مظاہرین پر جو فائرنگ کی گئی اس میں بیورو کریسی نے ان کے احکامات کو نظر انداز کیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اُسی روز پنجاب اسمبلی سے عبد الحفیظ کاردار اور قومی اسمبلی سے سردار احمد علی بھی مستعفی ہوئے۔ کشتی میں سوراخ کرنے کی دیر تھی ایک ایک کر کے ارکان اسمبلی کے استعفے آنے لگے گویا کمر باندھے ہوئے چلنے کو یاں سب یار بیٹھے تھے۔ اسی دوران بھٹو صاحب نے ڈسپلن کی خلاف ورزی پر سردار شوکت حیات کو بھی پارٹی سے نکال دیا۔ دوسری جانب سڑکوں پر تحریک بھی چلتی رہی۔
ذوالفقار علی بھٹو کو علم ہو گیا تھا کہ عالمی قوتیں اب انہیں اقتدار میں نہیں دیکھنا چاہتیں۔ اپنے دورِ اقتدار کے دوران انہوں نے عرب دنیا کو تیل کی دولت ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کا مشورہ دیا، عالم اسلام کے اتحاد کی کوششیں کیں اور پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے کے لیے جو عملی اقدامات کیے وہ امریکہ کو ایک آنکھ نہ بھائے تھے۔ 28 اپریل کو ذوالفقار علی بھٹو نے پارلیمنٹ کو بتایا کہ ’ہاتھی‘ مجھ سے ناراض ہو گیا ہے لیکن وہ نہیں جانتا کہ اس کا واسطہ بندۂ صحرا سے پڑ گیا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ سائرس وانس نے بھٹو صاحب کو خط لکھا کہ جو بھی شکایات ہیں ان پر امریکہ سے خاموشی کے ساتھ بات چیت کر لی جائے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے وہی خط مری روڈ راولپنڈی کے ایک چوراہے پر عوام کے سامنے لہرا دیا۔
مئی کے مہینے میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مذاکرات کی کوششیں تیز ہو گئیں۔ اسی دوران تحریک استقلال کے سربراہ اصغر خان نے جرنیلوں کے نام ایک خط تحریر کیا جس میں ان سے کہا گیا کہ وہ ملک کے وسیع تر مفاد میں اقتدار سنبھال لیں۔ فوج نے اس وقت بظاہر تو اس خط کو اہمیت نہ دی لیکن بعد ازاں ملک کے وسیع تر مفاد کو بھی نظر انداز نہ کیا گیا۔ جون میں مذاکرات کا عمل شروع ہوا۔ یہ مذاکرات پاکستان کے معاملات میں سعودی حکومت کی براہ راست مداخلت کے نتیجے میں شروع ہوئے تھے۔ پاکستان میں سعودی عرب کے سفیر ریاض الخطیب نے حکومت اور اپوزیشن رہنماؤں کو ایک میز پر بٹھایا۔ بھٹو صاحب کی مذاکراتی ٹیم میں کوثر نیازی اور حفیظ پیر زادہ شامل تھے اپوزیشن نے مذاکرات کی ذمہ داری مفتی محمود، نوابزادہ نصر اللہ اور پروفیسر غفور کو سونپی۔
مذاکرات کے دوران بعض حلقوں کی جانب سے بھٹو صاحب کو آگاہ بھی کیا گیا کہ فوج ان کے اقتدار کا خاتمہ کر سکتی ہے لیکن بھٹو صاحب نے ان باتوں پر اس لیے کوئی توجہ نہ دی کہ وہ جنرل ضیاء الحق کو قابل اعتماد جرنیل سمجھتے تھے۔ انہوں نے بہت سے سینیئروں کو نظر انداز کر کے جونئیر موسٹ ضیاء الحق کو اس لیے فوج کا سربراہ بنایا کہ وہ خوشامدی تھے اور نواب صادق حسین قریشی کی رہائش گاہ وائٹ ہاؤس ملتان میں اچانک بھٹو صاحب کے سامنے آ جانے پر جلتا ہوا سگریٹ بھی اپنے کوٹ کی جیب میں ڈال لینے سے گریز نہیں کرتے تھے۔
ذوالفقار علی بھٹو بھلا کیسے گمان کرتے کہ یہی ضیاء الحق نہ صرف یہ کہ ان کا اقتدار ختم کریں گے بلکہ انہیں تختۂ دار تک بھی لے جائیں گے۔
جنرل ضیاء الحق کو 70 کی دہائی کے وسط میں شاہ حسین حکومت کی مدد کے لیے ایک دستے کی کمان دے کر اُردن بھیجا گیا تھا۔ اس دستے نے وہاں اُن فلسطینی مجاہدوں کے خلاف کامیاب آپریشن کیا جو اُردن حکومت کے لیے دردِ سر بنے ہوئے تھے۔ فلسطینیوں کے قتلِ عام کے صلہ میں جنرل ضیاء الحق کو اُردن حکومت کی جانب سے فوجی اعزاز سے نوازا گیا۔ جنرل ضیاء الحق اپنے کندھے پر جو ایک چوڑی سی بیلٹ پہنتے تھے اور جس کی وجہ سے ان کے مخالفین انہیں بینڈ ماسٹر کہتے تھے۔ وہ بیلٹ اُنہیں فلسطینیوں کے قتل عام کے صلے میں ہی ملی تھی۔ مبصرین کا خیال ہے کہ امریکہ کے ساتھ ضیاء الحق کے رابطوں کا آغاز اسی دور میں ہوا تھا۔
فوج کے سربراہ کی حیثیت سے جنرل ضیاء الحق حکومت اور اپوزیشن کے مذاکرات کو بہت قریب سے مانیٹر کر رہے تھے۔ وہ مذاکرات کے دوران وزیر اعظم ہاؤس کی غلام گردشوں میں موجود رہتے۔ ایک آدھ بار اُنہوں نے مذاکرات میں مبصر کے طور پر بیٹھنے کی کوشش بھی کی مگر نوابزادہ نصراللہ خان اور مفتی محمود کے احتجاج پر انہیں کمرے سے نکال دیا۔ مذاکرات میں جہاں کہیں سلجھاؤ کی صورت پیدا ہوتی یا بحران ختم ہوتا دکھائی دیتا تو جنرل ضیا مذاکرات سے باہر بیٹھے قومی اتحاد کے رہنماؤں کے ذریعے مزید اُلجھاؤ پیدا کر دیتے۔ اصغر خان اُن کے ساتھ مسلسل رابطے میں تھے۔ مفتی محمود، پروفیسر غفور اور نوابزادہ نصراللہ جب معاملات طے کرنے کے بعد حتمی منظوری کے لیے اپوزیشن رہنماؤں کے پاس جاتے تو اصغر خان کھیل خراب کرنے کے لیے پہلے سے تیار ہوتے تھے۔
ایک مہینہ اسی کیفیت میں گزر گیا۔ جولائی کا مہینہ شروع ہوا تو حکومت اور اپوزیشن کے مذاکرات رات رات بھر جاری رہے۔ سازش کی بو اب بھٹو صاحب کو بھی آ رہی تھی۔ چار جولائی کو رات گئے ذوالفقار علی بھٹو نے ایک ہنگامی پریس کانفرنس میں اعلان کیا کہ اپوزیشن کے ساتھ معاملات طے ہو گئے ہیں، اور معاہدے پر صبح دستخط ہو جائیں گے۔
معاہدے پر صبح دستخط کیسے ہوتے؟ جنرل ضیاء الحق نے صبح ہی نہ ہونے دی اور ملک پر مارشل لا کی طویل رات طاری کر دی جو 11 برس جاری رہی۔
ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اب مارشل لا کا راستہ ہمیشہ کے لیے روکا جا چکا ہے۔ پرویز مشرف اقتدار پر قبضے کے باوجود مارشل لا نافذ کرنے کی جرات نہیں کر سکے تھے۔ بظاہر ہم جمہوری دور میں زندہ ہیں۔ منتخب ادارے کام کرتے دکھائی بھی دے رہے ہیں۔
نوٹ: یہ تحریر مصنف کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔