دوحہ معاہدے کے معمار زلمے خلیل زاد کی واپسی کیا ممکن ہے؟

زلمے خلیل زاد کے اثرورسوخ کو دیکھتے ہوئے ان کی ٹرمپ ٹیم میں واپسی کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔

سینیئر امریکی سفارت کار اور افغان طالبان کے ساتھ دوحہ معاہدے کے معمار زلمے خلیل زاد ویسے تو سوشل میڈیا پر متحرک رہتے ہیں لیکن گذشتہ دنوں انہیں اچانک کابل میں دیکھا گیا، جس کے بعد ان کی ٹرمپ ٹیم میں واپسی کے امکانات پر گفتگو شروع ہوگئی ہے۔

تاہم پاکستان کے بارے میں ان کی لب کشائی کیا انہیں افغانستان پر امریکہ کے خصوصی ایلچی کا عہدہ دوبارہ دلوانے میں رکاوٹ بن سکتی ہے؟

گذشتہ دنوں افغان نژاد امریکی سفارت کار زلمے خلیل زاد کو اچانک کابل میں طالبان کی حراست سے رہائی پانے والے ایک امریکی قیدی کے ساتھ دیکھا گیا۔

وہ اٹلانٹا سے تعلق رکھنے والے ایک ایئر لائن مکینک جارج گلیزمین کے ساتھ نظر آئے تھے، جنہیں طالبان نے دسمبر 2022 میں افغانستان کے ’سیاحتی‘ دورے کے دوران گرفتار کیا تھا۔ ان کی رہائی بھی قطر کی ثالثی کے نتیجے میں ممکن ہوئی۔ زلمے خلیل زاد نے واپسی پر اسے ایک اچھا دن قرار دیا۔

بغیر کسی سرکاری عہدے کے، ان کے کابل پہنچنے کے بعد سے ان کی ٹرمپ ٹیم میں واپسی کا موضوع زیر بحث ہے۔ اگرچہ ان کا یہ سفر ایک سفارت کار سے زیادہ ایک مترجم کے طور پر دیکھا جا رہا ہے لیکن ان کے بعض قریبی حلقے بتاتے ہیں کہ وہ خود بھی واپسی میں دلچسپی رکھتے ہیں۔

انہیں ماضی میں بھی افغانستان کے لیے خصوصی امریکی ایلچی کا عہدہ ستمبر 2018 میں ٹرمپ نے دیا تھا۔ تو کیا وہ انہیں دوبارہ یہ اہم ذمہ داری سونپ سکتے ہیں؟

73 سالہ زلمے خلیل زاد بےشک ایک سینیئر سفارت کار ہیں اور اپنے آبائی ملک افغانستان کے بارے میں کافی معلومات، طالبان سے اچھے تعلقات اور تجربہ رکھتے ہیں۔ وہ چار دہائیوں سے زائد عرصے تک افغانستان کے حکمرانوں کے ساتھ مذاکرات کار کے طور پر خدمات سرانجام دینے کے علاوہ امریکی وزارت خارجہ میں بھی رہ چکے ہیں۔

اگرچہ انہیں مخالف گروپوں کو ایک میز پر لانے کی صلاحیت رکھنے والے شخص کے طور پر دیکھا جاتا ہے، لیکن 2021 میں کابل پر دوبارہ قبضے کے وقت زلمے خلیل زاد نے اپنی ٹویٹ میں طالبان سے درخواست کی تھی کہ وہ کابل کو گھیرے میں لینے والے اپنے جنگجوؤں کو واپس بلا لیں، لیکن ان کی کسی نے نہ سنی۔

ان کے خطے میں افغانستان کے ہمسایہ ممالک کے ساتھ بھی اچھی جان پہچان ہے، لیکن پاکستان میں ان کی اسٹیبلشمنٹ مخالف سوشل میڈیا پوسٹس نے یقیناً انہیں کوئی زیادہ پسندیدہ شخصیت نہیں بنایا۔

پانچ دن قبل بھی انہوں نے ایکس پر ایک ایسی ہی پوسٹ میں نیو یارک ٹائمز کے ایک مضمون پر منفی تبصرہ کیا۔ پھر وہ پاکستان کو خبردار کر چکے ہیں کہ اگر پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے خلاف کارروائی کی گئی تو پاکستان مشکل میں پڑ سکتا ہے۔

انہوں نے متعدد ٹویٹس میں عمران خان کی رہائی اور پاکستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں روکنے کے مطالبات بھی کیے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کی اس قسم کی پاکستان مخالف پوسٹس انہیں متنازع بناتی ہیں۔ امریکہ کو آئیڈلی ایسا شخص چاہیے جو پاکستان اور افغانستان کے درمیان پُل کا کام کرسکے۔

انگریزی کے علاوہ پشتو اور دری زبانوں پر عبور رکھنے والے زلمے  کے اس رویے کے پیچھے امریکی انتظامیہ کی آشیرباد شامل ہے یا نہیں، اب تک یہ واضح نہیں لیکن ٹرمپ حکومت سے کچھ بھی بعید نہیں۔ زلمے کو مستقبل میں کسی اہم کردار ملنے کا انحصار امریکہ کی اس خطے میں دلچسپی پر ہوگا۔

کابل میں امریکی سفارت خانے کے کھلنے کا فی الحال کوئی امکان نہیں کہ وہ سفیر کی حیثیت سے لوٹ آئیں۔

ٹرمپ اپنی پہلی صدارت میں بھی جنگیں ختم کرنے کے ایجنڈے کے ساتھ آئے تھے اور انہوں نے زلمے کو افغانستان میں یہی ٹاسک دیا تھا۔ اب وہاں جنگ تو نہیں لیکن حقوق انسانی کے صورت حال پر تشویش ضرور ہے۔

زلمے پر الزام ہے کہ انہوں نے افغان طالبان کے بارے میں یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ وہ بدل چکے ہیں لیکن بہت سے معاملات میں ایسا نہیں ہے۔ وہ امریکہ کے طالبان کے ساتھ معاہدے کا سبب تو بنے لیکن طالبان اور اشرف غنی میں کوئی معاہدہ نہیں کرواسکے تھے، یعنی ان کی طالبان بھی کسی حد تک سنتے ہیں۔

تاہم وہ افغانوں میں کوئی بہت زیادہ مقبول نہیں۔ انہیں باقاعدگی سے اپنی پوسٹس پر افغانوں کی جانب سے ناپسندیدہ تبصروں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ گذشتہ ہفتے انہوں نے افغانستان میں اقتدار کی طویل مدتی منتقلی کی وکالت کی تو ایک افغان نے غصے میں لکھا: ’آپ خاموش رہیں۔ آپ کے مشورے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔‘

زلمے خلیل زاد نے ابھی تک باضابطہ طور پر کسی بھی کردار میں افغانستان میں واپسی کے حوالے سے کوئی بیان نہیں دیا ہے، لیکن ان کے اثرورسوخ کو دیکھتے ہوئے اس واپسی کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جاسکتا۔ بعض افغان اسے ’ففٹی فٹی‘ امکان کے طور پر دیکھتے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر