اپریل 2018 کی بات ہے بھارت کے چیف جسٹس آف سپریم کورٹ جسٹس دیپک مشرا کے خلاف پارلیمنٹ میں مواخذے کی تحریک پیش کی گئی۔ یہ ہندوستانی عدلیہ کی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا تھا کہ چیف جسٹس کے خلاف مواخذے کی تحریک پیش کی گئی۔
انہی دنوں سابق وزیراعظم پاکستان میاں نواز شریف احتساب عدالت میں ایون فلیڈ ریفرنس میں روزانہ کی بنیادوں پر پیش ہوتے تھے۔ میاں نواز شریف مقررہ وقت سے 30 منٹ قبل کمرہ عدالت میں پہنچ جایا کرتے اور رپورٹروں سے گفت و شنید کرتے، جسٹس (ر) ثاقب نثار اس وقت اعلیٰ عدلیہ کے قاضی القضاء تھے وہ جہاں بھی جاتے خبروں کی زنیت بنتے، کبھی نفسیاتی ہسپتال لاہور اور کبھی پشاور کے ہسپتالوں کا رُخ کرتے جہاں ہر روز نئی داستانیں رقم ہوتی تھیں۔
میاں نواز شریف کمرہ عدالت میں خوشگوار موڈ میں اپنی نشست پر براجمان تھے کہ ایک صحافی نے ان سے سوال پوچھا کہ ہندوستان کی پارلیمنٹ میں چیف جسٹس کے خلاف مواخذے کی تحریک پیش ہوئی ہے کیا کہیں گے؟ میاں صاحب گویا ہوئے کہ ہماری پارلیمنٹ میں اتنا دم خم نہیں کہ وہ اس طرح کے کوئی اقدامات کرے، میری صحافتی رگ پھڑکی میں نے میاں نواز شریف سے سوال کیا کہ بحیثیت طالب علم میں جان سکتا ہوں کہ آپ نے بطور وزیراعظم چار سال پارلیمنٹ کو کتنا وقت دیا؟ کتنی بار آپ نے وہاں کا رخ کیا؟ انھوں نے میری طرف ’سرتاپا‘ غور سے دیکھا اور فرمایا ’میں جاتا رہا ہوں۔ اب میں مشکل میں ہوں تو آپ اس طرح کے سوال کر رہے ہیں۔‘
یہ باتیں مجھے اس لیے یاد آئی کہ بھارت میں ہونے والے انتخابات میں مودی کی جماعت بے جی پی نے ملک گیر لینڈ سلائڈ کامیابی حاصل کی ہے۔ جیسے ہی انتخابات کے نتائج کا حتمی اعلان ہوا کانگریس کے رہنما نے ایک لمعہ کی تاخیر کیے بغیر اپنی شکست تسلیم کی اور کہا کہ مالک نے حکم جاری کیا اور ہم مالک کا فیصلہ مانتے ہیں (مالک سے مراد عوام ہے کچھ اور نہیں) کسی جگہ دھاندلی کا الزام نہیں لگا آخر ایسا کیوں؟
اس لیے کہ بھارتی ادارے مضبوط ہیں، آسمان کیوں نہ ٹوٹ پڑے اداروں کا فیصلہ حتمی ہوتا ہے، بھارت کا الیکشن کمیشن اتنا مضبوط ادارہ ہے کہ وہاں ووٹ گنتی کی شفافیت پر سوال نہیں اُٹھایا جاتا جبکہ ہمارے ہاں انتخابی نتائج کا نظام مبینہ طور پر بیٹھ جاتا ہے یا بٹھا دیا جاتا ہے۔ بھارت میں مسلسل جمہوریت کے رہنے والے عمل نے اداروں کو مضبوط سے مضبوط تر بنا دیا ہے۔ مسائل وہاں بھی بہت ہیں تاہم جمہوریت کے تسلسل میں خلل کا نہیں۔
بھارتی سیاست دان اس بات پر متفق ہیں کہ کتنی بڑی افتاد کیوں نہ ٹوٹ پڑے کبھی غیر جمہوری اور غیر دستوری قوتوں کو اپنے سیاسی تنازعات میں الجھنے کی اجازت نہیں دینی۔ یہی وجہ ہے ہندوستان میں آج تک کسی طابع آزماء نے آئین شکنی نہیں کی۔ جب کہ ہمارے ہاں معاملہ بالکل اُلٹ ہے تاریخ اُٹھا کر دیکھ لیں ہر پارٹی اور ہر سیاستدان نے ہر موقع پر فوج کو مداخلت کی دعوت دی۔
بھارتی سیاست دان عام انتخابات کے موقع پر اپنی عوام کو بے وقوف نہیں بناتے۔ وہ کبھی ایسے دعوے اور وعدے نہیں کرتے جو پورے نہ ہوں۔ انھیں معلوم ہے کہ اگر یہ پورے نہ ہوئے تو سیاست میں بےچینی اور بداعتمادی پیدا ہوگی۔ بھارت میں بھوک شاید ہم سے زیادہ ہو، ممبئی، دہلی اور کولکتہ کے فٹ پاتھ بےگھر لوگوں کے ڈھیرے بنے ہوئے ہیں۔ اس سب کے باوجود وہاں کا سیاست دان دودھ کی نہریں بہانے اور شہد کے چشمے جاری کرنے کے نام پر عوام سے ووٹ نہیں مانگتا۔ جو مسائل حل طلب ہوتے ہیں اُن پر بات ہوتی ہے۔ انھیں حل کرنے پر زور دیا جاتا ہے۔
جب کہ ہمارے ہاں انتخابات سے قبل پچاس لاکھ مکان بنانے ایک کروڑ نوکریاں دینے اور ملک میں ڈالر کی ریل پیل کے دعوے کیے گئے جو اب تک پورے نہیں ہوئے ہیں۔ جو وعدے اور دعوے کیے جاتے رہے ہر سیاستدان اپنے اپنے دور حکومت میں عوامی مسائل حل کرتا چلا جاتا تو شاید آج مسائل کا اس قدر ڈھیر نہ ہوتا جو نہ حکومت سے اٹھ رہا ہے اور نہ عوام کے کندھوں میں اسے اٹھانے کی سکت باقی ہے۔
ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں کو دیر سے ہی اس بات کا ادراک ہو گیا ہے کہ جمہوریت ہی مسائل کا حل ہے ضروری ہے۔ جمہوریت اور سویلین سپرمیسی ہوگی تو مسائل حل ہوں گے۔
.............................
نوٹ: مندرجہ بالا تحریر منصف کی ذاتی آرا پر مبنی ہے اور ادارے کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔