ٹیسلا کے مالک، کارکن اور سرمایہ کار اب تک اس صورت حال کے عادی ہو چکے ہیں۔ پھر بھی ہفتہ 29 مارچ 2025 (آج) ایک ایسا دن ہوگا جسے وہ بھول جانا چاہیں گے۔ یہ دن ٹیسلا کے خلاف عالمی یوم احتجاج کے لیے مخصوص کیا گیا ہے اور دنیا بھر میں 200 سے زائد شورومز کے سامنے مظاہروں کی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔
اسے اب تک کی سب سے بڑی احتجاجی تحریک قرار دیا جا رہا ہے، جو برقی گاڑیوں کے اس برانڈ اور خاص طور پر اس کے سی ای او ایلون مسک کے خلاف ہے۔
یہ مظاہرے اس وقت شروع ہوئے جب ڈونلڈ ٹرمپ نے صدارت سنبھالی اور ایلون مسک کو امریکی وفاقی حکومت کی نااہلی اور اضافی اخراجات کم کرنے کی ذمے داری دیے جانے کی تصدیق ہوئی۔
اس سے پہلے بھی بے چینی کے آثار ظاہر ہونے لگے تھے، کیوں کہ وہ لبرل اور ماحول دوست لوگ، جنہوں نے جوش میں آ کر ایلون مسک کی انقلابی گاڑی خریدی، انہوں نے اچانک خود کو ایک عجیب منظر کا سامنا کرتے ہوئے پایا جہاں وہ ٹرمپ اور دنیا کے امیر ترین شخص کے درمیان بڑھتی قربت دیکھ رہے تھے۔
انہوں نے کسی ایسے شخص کی پیروی کے لیے خود کو پیش نہیں کیا تھا جو قابل تجدید توانائی کا کھلا مخالف ہو، اور جو ان کے ہیرو، اور اس وقت ایلون مسک واقعی ان کے ہیرو ہی تھے، کو ’فرسٹ بڈی‘ کا لقب دے۔
مگر صورت حال یہ تھی کہ دائیں بازو کے صدر اور ان کے قابل اعتماد ساتھی ساتھ کھڑے تھے۔ وہ ایک ہی سٹیج پر نظر آتے، تصویریں بنواتے، اور لفظی طور پر ایک ساتھ صف اول کے سپاہی بنے دکھائی دیتے۔
یہ بات کہ مسک کی سیاست ان کی اپنی نہیں، اس کی مزید تصدیق اس وقت ہوئی جب ایلون مسک پر الزام لگا کہ انہوں نے دو مرتبہ نازی انداز میں سیلیوٹ کیا۔
تب سے لوگوں ایک عجیب و غریب مشترکہ پریس کانفرنس بھی برداشت کرنا پڑی ہے جو اوول آفس میں ہوئی، جس میں ایلون مسک کے بے شمار بچوں میں سے ایک خوشی خوشی ادھر ادھر گھوم رہا تھا۔
تب سے ہی انہوں نے ہزاروں سرکاری ملازمین کی بے رحمانہ برطرفیوں اور سرکاری محکموں کی بڑے پیمانے پر بندش اور انہیں غیر فعال کیے جانے کا منظر بھی دیکھا ہے۔ خاص طور پر اس محکمے کا، جو امریکہ کی دولت کو دنیا کے غریبوں تک پہنچانے میں اپنا کردار ادا کرتا ہے۔
انہیں اپنی گاڑیوں کی ری سیل ویلیو گرنے کا دھچکا بھی سہنا پڑا ہے۔ وہ خوبصورت ڈیزائن والی، جدید ترین ٹیکنالوجی سے لیس، اور ماحول دوست سیڈان گاڑیاں جنہیں انہوں نے فخر سے خریدا اور چلایا، اب ان کی قیمت اس رقم کا معمولی حصہ ہو چکی جو انہوں نے ادا کی۔
ادھر نئی فروخت تقریباً ختم ہو چکی ہے اور کمپنی کے شیئرز کی قیمت میں 35 فیصد کمی آ چکی ہے۔ سرمایہ کار شدید ناراض ہیں۔ خود مسک بھی محفوظ نہیں رہے، ان کی ذاتی دولت میں 25 فیصد کمی آ چکی ہے۔
بظاہر وہ اب بھی بے خوف نظر آتے ہیں۔ مہم چلانے والے کہتے ہیں کہ وہ رک جائیں گے تو ہم بھی رک جائیں گے۔
ٹیسلا کے خلاف تحریک کا وعدہ ہے کہ ’جب تک ایلون مسک سرکاری اداروں کو تباہ کرتے رہیں گے، ہم ٹیسلا کے خلاف احتجاج کرتے رہیں گے۔‘
روائتی ایندھن پسند کرنے والے ان کے دوست ان کی مدد کو آ گئے ہیں۔ ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس کے ڈرائیو وے پر ٹیسلا گاڑیاں دکھائیں اور خود سٹیئرنگ پر بیٹھ کر تصویریں بھی بنوائیں، یہ کہتے ہوئے کہ ’واہ، سب کچھ کمپیوٹر ہے۔‘ اور یہ وعدہ بھی کیا کہ وہ ایک ٹیسلا خریدیں گے۔
صدر نے ٹیسلا مخالف مظاہروں کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا ہے کہ اگر کسی نے ڈیلرشپس پر حملہ کیا تو اسے داخلی دہشت گردی قرار دیا جائے گا۔
مسک کے مخالفین بھی اتنے ہی ثابت قدم ہیں جتنے وہ اس بات پر ڈٹے ہوئے ہیں کہ وہ حکومت کے فضول اخراجات کے نظام کو ختم کریں گے۔ ٹیسلا شورومز کے خلاف پرتشدد کارروائیاں ختم نہیں ہوئیں، بلکہ اس میں مزید شدت آ گئی ہے۔ پٹرول بم پھینکے جا رہے ہیں، گولیاں چلائی جا رہی ہیں، اور دیواروں پر نعرے لکھے جا رہے ہیں۔
ایف بی آئی کو ان ’داخلی دہشت گردوں‘ کا پیچھا کرنے کے لیے ایک خصوصی ٹاسک فورس بنانی پڑی اور اب تک ایک گرفتاری عمل میں آ چکی ہے۔
ٹیسلا کے خلاف تحریک کا کہنا ہے کہ ان حملوں کی ذمے داری اس پر نہیں آتی۔ ’ہم ایک غیر متشدد عوامی احتجاجی تحریک ہیں۔ ہم تشدد اور املاک کی تباہی کے خلاف ہیں۔ عوامی جگہوں پر پرامن احتجاج داخلی دہشت گردی نہیں ہوتی۔‘
اس تحریک کے نتیجے میں کاروں کے بمپر پر ایسے سٹکر لگائے جا رہے ہیں جن پر لکھا ہے: ’میں نے یہ گاڑی اس سے پہلے خریدی جب ایلون پاگل نہیں ہوئے تھے۔‘
سوشل میڈیا پر بھی یہ تحریک چھا چکی ہے، جس میں سے کچھ پلیٹ فارمز تو خود مسک کی ملکیت ہیں، اور ان کے بارے میں ایسی میمز اور پوسٹوں کی بھرمار ہے جن میں ایلون مسک کا مذاق اڑا جا رہا ہے اور ان کی مذمت کی جا رہی ہے۔
اب آ گیا عالمی یوم احتجاج۔ جو لوگ شورومز کا رخ کریں گے، یا وہ ممکنہ خریدار جنہیں اب بھی دلچسپی ہو، ان کا سامنا ایسے کتبوں سے ہوگا جن پر لکھا ہوگا کہ ’بے رحم امیر طبقہ سب کو دھوکہ دے رہا ہے۔‘
یہ نعرہ لگا کر مسک کے ادارے ’ڈیپارٹمنٹ آف گورنمنٹ ایفیشنسی‘ پر اور ٹیسلا کو’نو سواستیکرز‘ کہہ طنز کیا گیا ہے۔
دونوں جانب سے آگے بڑھا جا رہا ہے اور دونوں اپنے اپنے مؤقف پر ایسے جمے ہوئے ہیں جیسے کوئی لچک باقی نہ ہو۔ اس ٹکراؤ میں کوئی ایک ضرور ہارے گا اور یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ وہ شاید ایلون مسک ہی ہوں گے۔
ان کی غیر معمولی ذہانت پر کوئی شک نہیں۔ کچھ عرصہ پہلے تک تو وہ دنیا بھر سے اس وقت داد سمیٹ رہا تھے جب انہوں نے واپس آتے راکٹ کو ایسے کامیابی سے زمین پر اتارا جیسے کوئی گاڑی آرام سے پارکنگ میں کھڑی کی جاتی ہے۔ مگر اب ان کا مؤقف دن بہ دن کمزور ہوتا جا رہا ہے۔
ان کے پاس نکلنے کا کوئی آسان راستہ نہیں، سوائے اس کے کہ وہ ٹیسلا سے اپنا تعلق مکمل طور پر توڑ دیں (اور وہ نہ صرف بانی ہیں بلکہ سب سے زیادہ شیئرز کے مالک اور چیف ایگزیکٹیو بھی ہیں)، جو بظاہر ممکن نہیں لگتا۔ یا پھر وہ ٹرمپ کی حکومت اور ملنے والی ذمہ داری سے الگ ہو جائیں۔
ابھی تک وہ حقیقت سے نظریں چرا رہے ہیں۔ ان کا پیچھے ہٹنے کا کوئی ارادہ نہیں اور ساتھ ہی پریشان ٹیسلا ملازمین کو بغیر کسی ثبوت کے دلاسہ دے رہے کہ اچھے دن آنے والے ہیں۔
عام طور پر خریداروں کا بائیکاٹ کچھ وقت بعد اپنی شدت کھو بیٹھتا ہے اور ناکام ہو جاتا ہے۔ شاذ و نادر ہی کوئی تحریک آخر تک چلتی ہے۔ لیکن یہ مہم کامیابی کی تمام نشانیاں رکھتی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ایک واضح، پہچانا جانے والا اور مشہور انسانی ہدف موجود ہے۔
ٹیسلا کا نام اور اس کے شورومز ہر جگہ نظر آتے ہیں۔
گاڑی کے مالک شاید اس کی کارکردگی میں دلچسپی رکھتے ہوں لیکن وہ اس کے بنانے والے سے اس کے موجودہ رویے کی وجہ سے مسلسل دور ہو رہے ہیں۔ ایسا کوئی نیا گروپ موجود نہیں جو ان صارفین کی جگہ لے سکے۔ کیوں کہ ’میک امریکہ گریٹ اگین‘ کے حامی عام طور پر ’ماحول دوست‘ گاڑیوں کے خواہش مند نہیں۔
پھر وہ لوگ بھی ہیں جو ایلون مسک کو قابو میں لا سکتے ہیں، جن کی بات سننے پر وہ خود بھی مجبور ہوتے ہیں۔ مسک کے پاس اگرچہ سب سے زیادہ شیئر ہولڈرز ہیں مگر جب ان بڑے سرمایہ کاروں کے حصص کو اکٹھا کیا جائے تو ان کی آواز کہیں زیادہ وزن رکھتی ہے۔
کسی نہ کسی موقعے پر، اور ممکن ہے یہ ہفتے کے دن کے بعد کچھ اور قریب آ جائے، ان کی بے چینی غصے میں بدل جائے گی۔
فیصلہ کرنا پڑے گا۔ یا تو ٹیسلا اور اس کے ساتھ اس کی دولت کا بڑا حصہ، جو دراصل مسک کی طاقت کی بنیاد ہے یا پھر ٹرمپ۔ وہ دونوں کو ایک ساتھ نہیں رکھ سکتے۔ ان میں سے ایک کو ضرور چھوڑنا ہوگا۔
ممکن ہے جب ایلون مسک نے ٹرمپ کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا تو وہ جانتے ہوں کہ آگے کیا ہونے والا ہے۔ اگر ایسا ہے، تو پھر وہ کسی مالی طور پر نقصان پہنچانے والے مشن پر ہیں۔
اور اگر وہ یہ نہیں جانتے تھے، تو اس کا مطلب ہے کہ ان کی مشہور زمانہ ذہانت انہیں دھوکہ دے گئی۔
جدیدیت سے ان کی محبت کے باوجود ایک پرانی کہانی یاد آتی ہے، اور خلا کے سفر کا جو علم ان کے پاس ہے، اس کی روشنی میں انہیں یہ کہانی ضرور معلوم ہونی چاہیے۔ یہ (یونانی دیومالا میں مہم اور مغرور کردار) اِکرس کی کہانی ہے۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
© The Independent