بلوچستان کا بنیادی مسئلہ معاشی محرومی یا مسنگ پرسنز نہیں۔ یہ سب ثانوی چیزیں ہیں، معاشی یا انتظامی حقوق نہیں، بلوچسستان کو پاکستان پر حق ملکیت دینا ہو گا۔
اسے بتانا اور قائل کرنا ہو گا کہ بلوچستان اس فیڈریشن میں برائے وزن بیت نہیں، وہ بھی پاکستان کا مالک ہے اور اتنا ہی اہم اور فیصلہ ساز ہے جتنے دوسرے صوبے۔
اس وقت یہ صورت حال ہے ہم نے آبادی کی بنیاد پر قومی اسمبلی کی نشستیں تقسیم کی ہوئی ہیں۔ بلوچستان میں آبادی کم ہے اس لیے اس کے حصے میں 342 کی قومی اسمبلی میں صرف 17نشستیں ہیں۔
یاد رہے کہ بلوچستان کا رقبہ پاکستان کے کل رقبے کا 46 فی صد ہے، یعنی 54 فی صد رقبے والے پاکستان کے پاس قومی اسمبلی کی 325 نشستیں ہیں اور 46 فی صد رقبے کے پاس صرف 17 نشستیں ہیں۔
آبادی اور رقبے کا یہ فرق اگر معمولی ہوتا تو یہ کہہ کر نظر انداز کیا جا سکتا تھا کہ فیڈریشن میں بلوچستان کو اکاموڈیٹ کرنے کے لیے سینیٹ موجود ہے جہاں برابر کی نمائندگی ہے لیکن یہ فرق بہت زیادہ ہے۔
اس بندوبست سے بڑی خرابیاں پیدا ہوئیں۔ پورے بلوچستان کے پاس قومی اسمبلی کی جتنی نشستیں ہیں اس سے زیادہ نشستیں پنجاب کے دو اضلاع سے نکل آتی ہیں۔ قومی اسمبلی میں اگر بلوچستان کے اراکین نے کچھ کہا بھی تو اسے اتنی اہمیت نہیں دی گئی کیونکہ یہاں سارا کھیل ہی نمبر گیم کا ہوتا ہے۔
چنانچہ پہلی خرابی یہ ہوئی کہ بڑی سیاسی جماعتوں نے بلوچستان کو نظر انداز کر دیا۔ بلوچستان میں قومی اسمبلی کی نشستیں ہی کتنی ہیں کہ قومی سیاسی رہنما بلوچستان کے شہروں میں جا کر انتخابی مہم چلائیں۔ وہ اسے وقت ضائع کرنے کے مترادف سمجھنے لگے۔
نتیجہ یہ نکلا کہ بلوچستان دھیرے دھیرے اجنبی ہوتا چلا گیا۔ قومی زندگی میں اس کا کردار سکڑتا چلا گیا۔ قومی سیاست کا محور جی ٹی روڈ بن گیا یا پھر سندھ اور کے پی جو اسلام آباد کے بالکل ساتھ جڑا ہوا ہے۔ بلوچستان کے فاصلے بڑھنے لگے۔
جج بحال ہونے ہیں تو تحریک جی ٹی روڈ پر، حکومتوں کو ہٹانا ہے تو لانگ مارچ جی ٹی روڈ پر۔ قومی زنگی کے اجتماعی فیصلوں میں تربت، خضدار، لورا لائی، نوشکی، ژوب، خاران، لسبیلہ، پشین، آواران، کوہلو، چاغی جیسے شہروں کا کوئی کردار ہی نہ رہا۔
میرے جیسا آدمی بھی لکھنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ پاکستان کیا صرف جی ٹی روڈ کا نام ہے، تو بلوچستان کا نوجوان کیا یہ بات نہیں سوچتا ہو گا۔
اخبارات اور چینلز نے بھی سیاسی بیانیے میں بلوچستان کو نظر انداز کر دیا۔ بلوچستان کے سیاست دان ٹاک شوز میں صرف اس وقت مدعو کیے جانے لگے جب وہاں کوئی حادثہ ہو جاتا۔ وہاں کے شہروں کے نام شاید ہی کبھی مین سٹریم بیانیے میں زیر بحث آئے ہوں۔
حکومتوں نے وہاں کے عوام تک پہنچنے کی بجائے سرداروں اور نوابوں کے ذریعے معاملات کو سنبھالنا آسان سمجھا اور یوں وہاں کا سماج نظر انداز ہو گیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سوشل میڈیا کا انقلاب آیا تو سردار نواب وڈیرے دھیرے دھیرے غیر اہم ہونے لگے اور عام نوجوان اہمیت اختیار کرنے لگا۔
اب معاملہ یہ ہے کہ وفاق نے تو کبھی وہاں کے عام نوجوان کو مخاطب ہی نہیں بنایا۔ فاصلے ہی بہت زیادہ پیدا ہو گئے تھے۔ شاید ہی کبھی آصف زرداری، نواز شریف یا عمران خان نے بلوچستان کے شہروں میں جا کر کوئی جلسہ کرنا ضروری سمجھا۔
اب فرض کریں بلوچستان کی قومی اسمبلی میں نشستیں 17 کی بجائے 47 ہوتیں تو کیا قومی سیاسی قیادت بلوچستان کو اسی طرح نظر انداز کرتی جیسے اب کرتی ہے؟
کیا زرداری، نواز اور عمران تب بھی بلوچستان کو اسی طرح نظر انداز کرتے، اختر مینگل اگر دس پندرہ اراکین کے ساتھ قومی اسمبلی سے مستعفی ہوتے تو کیا حکومتیں اسی طرح بے نیاز رہتیں جیسے اکیلے اختر مینگل کے استعفے سے بے نیاز رہیں؟
اب آئیے اصل تجویز کی طرف۔ ہمیں کچھ آؤٹ آف دی باکس سوچنے کی ضرورت ہے۔ بلوچستان کی قومی اسمبلی کی نشستوں میں اضافہ کرنا چاہیے۔
انتخابی عمل کی شفافیت کے معاملات وقت کے ساتھ حل ہوتے رہیں گے لیکن بلوچستان کی نشستیں بڑھانی چاہییں تا کہ اس صوبے کو شراکت اقتدار کا احساس تو ہو کہ پاکستان کے معاملات میں اس کی ہاں اور اس کی نہ کی ایک اہمیت ہے۔
اس مطالبے کے جواب میں ایک لگا بندھا اعتراض کر دیا جاتا ہے کہ ایسا ممکن نہیں کیونکہ قومی اسمبلی کی نشست آبادی کی بنیاد پر متعین ہوتی ہے۔
سوال یہ ہے کہ اگر ایسا ہی ہے تو جو بغیر کسی حلقے کے اور بغیر کوئی ووٹ لیے مخصوص نشستوں پر خواتین کو قومی اسمبلی میں لا بٹھایا گیا ہے وہ کیسے ممکن ہو گیا؟
پورے بلوچستان کے پاس قومی اسمبلی کی 17 نشستیں ہوں اور اس میں چھ، سات گنا زیادہ ایم این ایز آپ نے بغیر ووٹ کے اور بغیر کسی حلقہ انتخاب کے بٹھا لیے ہوں تو یہ کیسی جمہوریت ہے؟
ضرورت کے تحت خواتین کے لیے راستہ نکالا جا سکتا ہے تو ضرورت کے تحت بلوچستان کے لیے کیوں نہیں نکالا جا سکتا؟
یہاں اہم ترین نکتہ یہ ہے کہ بلوچستان کی نشستیں بڑھانے کا یہ مطالبہ بالکل قائد اعظم کی سیاسی فکر کے عین مطابق ہے۔ یاد رہے کہ قائد اعظم نے متحدہ ہندوستان میں رہنے کے لیے تین مطالبات کیے تھے۔
پہلا مطالبہ یہ تھا کہ مسلمانوں کی نشستیں ان کی آبادی کے متناسب نہیں ہوں گی بلکہ زیادہ ہوں گی۔ (یعنی کسی فیڈریٹنگ یونٹ کی آبادی ہی واحد پیمانہ نہیں ہے جس پر اس کی نمائندگی کا تعین ہو)۔
دوسرا مطالبہ تھا کہ مرکزی مجلس قانون ساز میں مسلمانوں کی نمائندگی ایک تہائی سے کم نہ ہو۔ (یہ بھی آبادی کی بنیاد پر نمائندگی کے مروجہ اصول سے ہٹ کر تھا)۔
تیسرا مطالبہ یہ تھا کہ مسلمانوں کو ملازمتوں میں ان کی آبادی کے تناسب سے زیادہ کوٹا دیا جائے۔
ہمیں سمجھنا ہو گا کہ ایک فیڈریشن کے اندر اقلیت چاہے مذہبی ہو، علاقائی ہو یا لسانی ہو، اس کے اپنے تحفظات ہوتے ہیں اور انہیں دور کرنا ضروری ہوتا ہے تاکہ انہیں بامعنی شراکت اقتدار کا احساس دلایا جا سکے۔
بلوچستان کو شراکت اقتدار یعنی پاکستان کی اونرشپ کا احساس دلائے بغیر وہاں جتنے مرضی ترقیاتی کام کر لیے جائیں بات نہیں بنے گی، حتیٰ کہ وہاں کی ایک ایک اینٹ بھی سونے کی بنا دی جائے تب بھی مسئلہ موجود رہے گا۔ فالٹ لائن نہیں بھرے گی۔
پاکستان مخالف قوتوں کی جانب سے وہاں کا بیانیہ یہ بنا یا جا رہا ہے کہ ہم فیصلہ ساز نہیں، محکوم ہیں۔
اس بیانیے کی نفی ترقیاتی کاموں سے نہیں ہو گی، بلکہ انہیں یہ احساس دلانے سے ہو گی کہ آپ ہی فیصلہ ساز ہیں اور آپ ہی پاکستان ہیں۔ جوں جوں یہ احساس پیدا ہوتا جائے گا پاکستان مخالف قوتوں کی لائف لائن سکڑتی چلی جائے گی۔
بلوچستان کو جناح فارمولے کی ضرورت ہے، اس پر بات ہونی چاہیے۔ شاید ہی کسی فیڈریشن میں ایسا معاملہ ہو کہ اس کا ایک یونٹ رقبے کے لحاظ سے آدھی فیڈریشن ہو لیکن اس کی آبادی انتہائی کم ہو۔ یہ استثنائی صورت حال ہے۔ اس کا حل بھی معمول سے ہٹ کر تلاش کرنا ہو گا۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔