’گیت کون لکھ رہا ہے؟‘ ساحر لدھیانوی نے یش چوپڑہ سے دریافت کیا تو انہوں نے بتایا کہ بجٹ ہی اتنا نہیں کہ کسی بڑے نغمہ نگار سے رابطہ کیا جائے۔ فی الحال تلاش جاری ہے۔‘
یش چوپڑہ کے اس جواب کے بعد ساحرلدھیانوی گہری سوچ میں ڈوب گئے۔
نغمہ نگار ساحر لدھیانوی اور یش چوپڑہ میں گہری دوستی تھی۔ ساحر صاحب 11 سال بڑے تھے لیکن اس کے باوجود دونوں میں خوب جمتی۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ یش چوپڑہ جب بڑے بھائی بی آر چوپڑہ کے پروڈکشن ہاؤس سے منسلک ہوئے تو انہیں انقلابی، جوشیلے اور شعلہ بیان ساحر لدھیانوی کا ساتھ ملا۔ اب یہ یش چوپڑہ کی خوش قسمتی ہی ہے کہ جب انہوں نے بی آر فلمز کے تحت پہلی فلم ’دھول کے پھول‘ 1959 میں تخلیق کی تو ساحر لدھیانوی نے ہی اس فلم کے گیت لکھے۔
ساحر صاحب کی سنگت میں یش چوپڑہ کو رومانی شاعری کی سمجھ بوجھ بھی آئی جو آگے چل کر ان کے بہت زیادہ کام آئی۔ یش چوپڑہ اور ساحر لدھیانوی کی اس جوڑی نے دھرم پترا، وقت اور آدمی اور انسان میں بھی بہترین صلاحیتوں کا اظہار کیا۔ ساحر لدھیانوی کا خیال تھا کہ یش چوپڑہ ایک بہترین ہدایت کار ہی نہیں بلکہ وہ ان کے گانوں کو عکس بندی کے نت نئے زاویے دے کر نئی شناخت دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دونوں میں غضب کی کیمسٹری تھی۔ ساحر لدھیانوی خوشی خوشی یش چوپڑہ کے ساتھ کام کرنے کے لیے تیار رہتے۔
بڑے بھائی کے ساتھ کام اور ان کے بینر کو استعمال کرتے کرتے1972 میں یش چوپڑہ نے یہ سوچا کہ انہیں اب اپنی الگ شناخت بنانی چاہیے، کب تک وہ بھائی کے سائے تلے چپکے رہیں گے۔ بی آر چوپڑہ کو کوئی اعتراض نہیں تھا۔
یش چوپڑہ نے والدہ کو بتایا تو انہوں نے بھی نیک خواہشات کا اظہار کیا۔ یش چوپڑہ نے برسوں پہلے برطانوی ناول نگار تھامس ہارڈی کے ناول ’دی میئرآف کاسٹربرج‘ کو پڑھا تھا اورخواہش تھی کہ اس پر فلم بنائی جائے۔ یش چوپڑہ نے باقاعدہ اس ناول پر گلشن نندا اور اخترالایمان سے سکرپٹ اور مکالمے لکھوانا شروع کر دیے تھے۔
ذرائع ابلاغ تک یہ خبر پہنچی کہ یش چوپڑہ اب اپنے بینر ’یش راج فلمز‘ کے تحت پہلی فلم بنانے والے ہیں تو ہر ایک کی دلچسپی بڑھ گئی۔ بڑے بھائی بی آر چوپڑہ نے سرمایہ لگانے کا ارادہ ظاہر کیا تو یش چوپڑہ نے معذرت کر لی۔ ادھر دوست گلشن رائے کو معلوم ہوا تو انہوں نے یش چوپڑہ سے کہہ دیا کہ کچھ بھی ہو جائے، سرمایہ تو انہی کا لگے لگا۔
یش چوپڑہ راضی نہ ہوئے لیکن بہت ضد ہوئی تو یش چوپڑہ نے یہ کہہ دیا کہ سرمایہ کم پڑے گا تو وہ ضرور زحمت دیں گے۔
یش چوپڑہ کے انتہائی قریبی دوست ساحر لدھیانوی کو علم ہوا کہ یش راج فلم بنا رہے ہیں تو وہ اس دفتر میں پہنچے جو یش چوپڑہ کو گلشن رائے نے پروڈکشن ہاؤس کے معاملات سنبھالنے کے لیے دیا تھا۔ ادھر ادھر کی باتوں کے بعد ساحر لدھیانوی نے پوچھا تھا کہ گیت کون لکھ رہا ہے۔
یش چوپڑہ کو یہ فکر ستارہی تھی کہ بھائی کے بینر تلے تو ساحرلدھیانوی جیسے نغمہ نگار کو بھاری معاوضہ ملتا رہا ہے لیکن ان کا نوزائیدہ پروڈکشن ہاؤس اس بڑے عظیم شاعر کی خدمات ان کی پسند کے معاوضے کے مطابق حاصل کر بھی پائے گا کہ نہیں اور غالباً اس کا احساس بنا کہے ساحر لدھیانوی کو بھی ہو گیا۔
یش چوپڑہ نے دبے دبے لہجے میں یہی اشارہ دیا کہ ساحر لدھیانوی تو نہیں بلکہ بجٹ کے اعتبار سے نغمہ نگار کا انتخاب ہو گا۔
یش چوپڑہ نے بتایا کہ وہ ’داغ‘ کی کاسٹنگ میں مصروف ہیں، راجیش کھنہ کو بطور ہیرو پیش کرنے کا ارادہ کیا ہے جبکہ ہیروئنز کے لیے بنگال کی ہی بڑی اداکارائیں شرمیلا ٹیگور اور راکھی کو منتخب کیا گیا۔
فلم کی کہانی ایک شادی شدہ شوہر کی تھی۔ جو کلائمکس میں دو ہی ہیروئنوں کے ساتھ زندگی گزارنے پر رضا مندی دکھاتا ہے۔ یہ خاصا بولڈ موضوع تھا۔ بالخصوص 70کی دہائی میں اس طرح کے موضوع کو اتنی آسانی کے ساتھ ہضم نہیں کیا جا سکتا تھا کیونکہ بیشتر فلموں کے کلائمکس میں یا دو ہیروئنوں یا ہیروز میں سے کسی ایک کا باب بند کیا جاتا لیکن یش چوپڑہ نے جدت پیش کرنے کا ارادہ کیا تھا۔
یش چوپڑہ نے ساحرلدھیانوی کو بتایا کہ موسیقار لکشمی کانت پیارے لال فائنل ہوگئے ہیں۔ ساحرلدھیانوی نے مسکراتے ہوئے کہا، ’نغمے تو میں ہی لکھوں گا۔ اگر آپ میرے معاوضے کی وجہ سے پریشان ہیں تو میری ایک شرط ہے۔ اگر فلم ہٹ ہوگئی۔ بزنس اچھا کرلیا تو معاوضہ لوں گا، اگر ایسا نہ ہوا تو بھول جاؤ گا کہ کسی فلم کے لیے نغمے لکھے ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یش چوپڑہ کی آنکھیں نم ہو گئیں۔ وہ فرط جذبات سے سرشار تھے۔ انہیں احساس ہو رہا تھا کہ وہ واقعی کتنے اچھے اور مخلص دوست رکھتے ہیں۔ ایک طرف گلشن رائے تھے، جنہوں نے ’داغ‘ کے لیے جب سرمایہ کم پڑنے پراپنی خدمات پیش کرنے کا وعدہ لیا تھا اور ایک جانب ساحرلدھیانوی تھے، جنہوں نے یش چوپڑہ کو اپنی خدمات بلامعاوضہ طور پر پیش کی تھیں۔
یش چوپڑہ کو جیسے ایک نئی توانائی مل گئی۔ انہوں نے دن و رات ایک کر دیے۔ ساحر لدھیانوی نے بھی نغمہ نگاری میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ لکشمی کانت پیارے لال کی سنگت میں جب ’داغ‘ کے گیت تیار ہوئے، تو انہوں نے کامیابی کی نئی سرحدوں کو پار کیا۔ خاص کر میرے دل میں آج کیا ہے، اب چاہے ماں روٹھے یا بابا اور جب بھی جی چاہے تو ہر ایک کے لبوں پر تھے۔ مقبولیت او ر شہرت کا اندازہ یوں لگائیں کہ ’داغ‘ کے بیشتر گیت اس وقت نشر ہونے والے ریڈیو کے درجہ بندی کے پروگرام میں ٹاپ پر رہتے۔
یش چوپڑہ کی فلم ’داغ‘ جب بن کر تیار ہوئی تو تقسیم کاروں کو یہ دکھائی گئی۔ جن کے تاثرات متاثر کن نہیں تھےبلکہ کئی کا کہنا تھا کہ فلم کا کلائمکس تبدیل کیا جائے لیکن یش چوپڑہ ڈٹے رہے۔
عالم یہ تھا کہ بمبئی میں 27 نومبر 1973 کو جب ’داغ‘ کی نمائش ہوئی تو صرف نو سینیما گھروں میں، جو راجیش کھنہ، شرمیلا ٹیگور او ر راکھی گل زار جیسی کاسٹ والی فلم کے شایان شان نہیں تھا۔
ابتدائی ایک ہفتے میں فلم نے اوسط درجے کا کاروبار کیا لیکن پھر اگلا ہفتہ ’داغ‘ کے دامن سے ناکامیوں کے تمام تر داغ مٹا گیا۔ مووی اچانک ہی ہٹ ہو گئی اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے سپر ہٹ۔ یش چوپڑہ نے اپنے طور پر پتہ کرایا توان کے علم میں آیا کہ فلم بین گانوں پر رقص کرتے ہیں اور پھر جب کلائمکس ہوتا ہے تو ہال تالیوں سے گونج اٹھتا ہے۔
یش چوپڑہ جن کو لگ رہا تھا کہ ان کے کیرئیر کا سورج بھائی کے بغیر ڈوب رہا ہے، وہ ایک دم ابھرنے لگا۔ یش چوپڑہ کی ’داغ‘ نے فلم فیئر ایوارڈز میں چھ نامزدگیاں حاصل کیں۔ ان میں سے دو بہترین ہدایت کار کا یش چوپڑہ اور معاون اداکارہ کا ایوارڈ راکھی گلزار کو ملا۔
’داغ‘ کی زبردست کامیابی کے بعد یش چوپڑہ نے ساحرلدھیانوی کا معاوضہ ادا کیا۔ بلکہ وہ برملا کہتے کہ ان کا احسان واقعی ناقابل فراموش ہے اور یہاں سے یش چوپڑہ کی نہ صرف ساحرلدھیانوی سے بلکہ گلشن رائے سے بھی اور گہری دوستی ہو گئی اور جب تک ساحر صاحب حیات رہے انہوں نے ہنسی خوشی یش چوپڑہ کے لیے اپنی خدمات پیش کیں۔ البتہ اب انہیں معاوضے کے لیے کوئی شرط نہیں لگانی پڑتی تھی۔
یہی وجہ ہے کہ آنے والے دنوں میں ساحر لدھیانوی نے یش چوپڑہ کی دیوار، کبھی کبھی اور ترشول میں بھی گیت لکھے۔ بالخصوص ’کبھی کبھی‘ کے گانوں نے فلم کی کامیابی میں اہم کردار ادا کیا۔ ان فلموں نے یش چوپڑہ کے بالی وڈ میں قدم اور مضبوطی سے جما دیے اور انہوں نے پھر ایک کے بعد ایک ہٹ فلمیں پرستاروں کو دیں۔
یش چوپڑہ کا کہنا تھا کہ ان کے کیرئیر میں دو شخصیات ایسی ہیں کہ اگر وہ نہ ہوتیں تو ممکن ہے کہ اس قدر پذیرائی بھی نہ ملتی اور یہ شخصیات گلشن رائے اور ساحر لدھیانوی تھیں۔ ایک نے مالی پیش کش کر کے تو دوسرے نے اخلاقی مدد اور تعاون کرکے یش چوپڑہ کے لیے آسانیاں پیدا کیں۔