آج سے 188 سال قبل جب برطانوی پارلیمان نے برطانیہ کے زیرتسلط علاقوں میں غلامی کے خاتمے کا اعلان کیا تو ان لاکھوں افراد میں خوشی کی لہر دوڑ گئی جنہیں دنیا بھر کے مختلف علاقوں میں غلاموں کے طور پر خریدا اور بیچا جا چکا تھا۔
یکم اگست، 1834 کو برطانوی پارلیمان نے برطانوی نوآبادیوں میں غلامی کو باضابطہ طور پر ختم کرنے کا اعلان کیا جس کے بعد جزائر غرب الہند، جنوبی افریقہ سمیت کینیڈا میں برطانیہ کے زیرانتظام علاقوں میں غلامی کا خاتمہ کر دیا گیا۔
انسائیکلو پیڈیا برٹینیکا کے مطابق برطانوی پارلیمان نے یہ فیصلہ 28 اگست، 1833 کو ملنے والے ایک شاہی فرمان کے تقریباً ایک سال بعد کیا تھا۔
اس اعلان کے ساتھ ہی تقریباً آٹھ لاکھ غلاموں کو آزادی کا پروانہ مل گیا لیکن چند علاقوں میں اسے مختلف شکلوں میں قائم رکھا گیا۔
مثال کے طور پر اس برطانوی قانون کا اطلاق صرف ان علاقوں میں ہوتا تھا جو براہ راست سلطنت برطانیہ کی عملداری میں آتے تھے۔
برصغیر چونکہ اس وقت تاج برطانیہ کے بجائے ایسٹ انڈیا کمپنی کے زیرانتظام تھا اس لیے یہاں اس قانون کا اطلاق نہیں ہو سکا۔
برطانوی پارلیمان میں غلامی کے خاتمے کے قانون کی منظوری کے دس سال بعد دی انڈین سلیوری ایکٹ آف 1943 پاس کیا گیا جس نے ایسٹ انڈیا کمپنی کو غلام رکھنے اور ان کی خرید و فروخت سے روک دیا۔
مصنف ایم مہاراجن کی کتاب ’مہاتما گاندھی اینڈ دی نیو میلینئم‘ کے مطابق اس قانون کے تحت غلامی کی ضوابط میں نرمی لاتے ہوئے پہلے سے موجود غلاموں کو کچھ حقوق بھی دیے گئے تھے۔
لیکن 1861 میں انڈین پینل کوڈ کے اطلاق کے بعد برٹش انڈیا میں غلام رکھنے کو تعزیرات ہند کے تحت جرم قرار دے دیا گیا۔
یہ فیصلہ ایک ایسے وقت میں کیا گیا تھا جب دنیا کی کسی دوسری سلطنت نے اس حوالے سے ایسا فیصلہ نہیں کیا تھا، گویا برطانیہ وہ پہلی سلطنت تھی جس نے غلامی ختم کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
اس فیصلے کی بنیاد کئی معاشی وجوہات تھیں جن میں اہم وجہ برازیل اور کیوبا کی منڈیوں میں بڑھتا ہوا مسابقتی رجحان تھا۔
تاجر برطانوی کالونیز میں آزادانہ تجارت کا مطالبہ کر رہے تھے اور ان علاقوں میں تجارت پر برطانوی غلبے کا خاتمہ چاہتے تھے۔
افریقی غلاموں میں بغاوت کا بڑھتا رجحان بھی ایک وجہ تھا جبکہ شمالی امریکہ کے علاقوں میں اس حوالے سے کچھ قانونی پیچیدگیاں بھی درپیش تھیں۔
برطانیہ میں غلامی کے خاتمے کی مہم:
برطانیہ میں غلامی کے خاتمے کا مطالبہ کرنے والے 1770 کی دہائی سے اس حوالے سے ایک مہم چلا رہے تھے لیکن ماضی میں اس حوالے سے کی جانے والی کوششیں بارآور ثابت نہ ہو سکیں تھیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
برطانوی حکومت نے غلامی کے خاتمے سے متاثر ہونے والے مالکوں کے لیے بطور زرتلافی دو کروڑ پاؤنڈز کی رقم مختص کی تھی لیکن ان لوگوں کے لیے کوئی زر تلافی مختص نہ کیا گیا جنہیں غلاموں کے طور پر بیچا جا چکا تھا۔
دو کروڑ پاؤنڈز جو اب 16 ارب پاؤنڈز سے زائد ہیں:
برطانوی اخبار دی گارڈین میں اس موضوع پر لکھنے والے محقق اور صحافی کینان ملک لکھتے ہیں کہ 1833 میں برطانوی حکومت نے دو کروڑ پاؤنڈز کی جو رقم غلامی کے خاتمے کے لیے مختص کی تھی وہ اس وقت اس کے قومی بجٹ کا 40 فیصد تھا۔
یہ رقم پاؤنڈ کی موجودہ کرنسی کے مطابق 16 ارب پاؤنڈز سے زیادہ بنتی ہے۔
اس وقت یہ رقم ان 46 ہزار مالکوں کو دی گئی تھی جو غلامی ختم ہونے پر اپنی ’جائیداد‘ سے محروم ہو گئے تھے۔
برٹش لائبریری آرکائیوز کے مطابق 18ویں صدی عیسوی میں غلامی کی تجارت اور پھر غلامی کے خلاف شروع ہونے والی مہم نے بھی اس سلسلے میں ایک اہم کردار ادا کیا تھا۔
سلطنت برطانیہ نے غلاموں کی تجارت شاہی فرمان کے تحت منظوری ملنے کے بعد سال 1663 میں شروع کی تھی جس کے بعد افریقہ کی برطانوی نوآبادیوں سے لاکھوں افراد کو شمالی امریکہ لے جا کر فروخت کیا گیا اور انہیں ایک ایسے ماحول میں کام کرنے پر مجبور کیا گیا جہاں انہیں بنیادی حقوق بھی حاصل نہیں تھے۔
رائل میوزیم گرین وچ کے مطابق 1662 سے 1807 کے درمیان برطانوی سلطنت کے زیر انتظام تقریباً 34 لاکھ 15 ہزار سے زائد افریقی باشندوں کا غلام کے طور پر خریدا گیا جن میں 29 لاکھ سے زائد کو امریکی علاقوں میں فروخت کیا گیا۔
میوزیم ریکارڈز کے مطابق 1699 سے 1807 کے درمیان برطانوی جہاز 10 ہزار 103 ایسی مہمات پر روانہ ہوئے جن کا مقصد نوآبادیاتی علاقوں کے باشندوں کو غلام بنا کر ان کی خرید و فروخت کرنا تھا۔ ان میں سے 3351 مہمات لندن سے روانہ کی گئیں تھیں۔
برطانیہ میں غلاموں کی تجارت کو سال 1807 میں ختم کیا گیا تھا لیکن غلامی کے خاتمے کے لیے سلطنت برطانیہ کے بیچے گئے غلاموں کو 1834 تک انتظار کرنا پڑا۔
جس کے بعد نظام سلطنت چلانے کے لیے برطانوی راج کو ’معاہدوں پر مبنی نوکری‘ کی جانب رخ کرنا پڑا۔