’یااللہ میں اندھیروں میں چراغ جلانے نکلی ہوں۔ یہ چراغ بجھنے نہ دینا۔‘ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے اس خوبصورت مکالمے کی تفسیر کے لیے ڈراما لکھا گیا ہو۔
یہ تصور جتنی ہی حسین تصویر بناتا ہے اتنی ہی عمدہ کہانی ہے۔ پشتون تہذیب کی گرچہ یہ کوئی مکمل تصویر نہیں ہے مگر ایک چہرہ ایک عکس ضرور ہے۔
خاجستہ ہو یا شانزے دونوں بہت جان دار کردار ہیں۔ ایسی عورت اگر زندگی میں آ جائے تو مرد کردار جس ردعمل کا اظہار کر سکتے ہیں ڈرامے میں اسی کی عکاسی دکھائی دے رہی ہے۔
یہ پشتون عورت کا منفرد عکس، ایک مضبوط ارادوں والی ثابت قدم عورت خاجستہ اور اس کی محرومی سے بُنے عزم کی کہانی ہے۔
سوات کی ایک لڑکی جو ڈاکٹر بننا چاہتی ہے۔ گھرمیں کوئی اس کو علاقے کے کالج سے زیادہ پڑھنے کی اجازت نہیں دے رہا۔
ماں کو اس نے بچپن میں گردے کی بیماری سے مرتے دیکھا اور باپ کو دشمن نے گولی مار دی اور خون بہا کے طور پہ اس کے تایا زاد لالہ کو دشمن کے گھرانے کی اسی لڑکی سے شادی کرنا پڑی جو کبھی اس کی محبت تھی چونکہ اس محبت کے درمیان میں اب لالہ کے چچا کا خون آ گیا۔
لہٰذا ایک احساس جرم لالہ کے اندر ہے جو اسے اپنی ہی بیوی سے محبت نہیں کرنے دے رہا اور بیوی کو شک ہے شاید وہ اپنی چچا زاد خاجستہ میں دلچسپی لے رہا ہے حالانکہ ایسا نہیں۔
بے نیازی، صبر اور بے لوث وفا کسی بھی کردار کو سحر زدہ کر دیتے ہیں۔ شہر اور گاؤں میں جو جادو گری خاجستہ کی آزمائش بنی ہوئی ہے وہ یہی بےنیازی ہے۔
خاجستہ کو تو اس کی تائی ماں پال لیتی ہے اور اسی کے چھوٹے بیٹے درغ زئی کے ساتھ منگنی ہو جاتی ہے جس کو نہ پڑھائی میں لگاؤ ہے، نہ ہی کاروبار میں دلچسپی ہے لیکن وہ خاجستہ سے محبت بہت کرتا ہے۔
اس کی انا اس کے رسم رواج کے مطابق اظہار محبت کو بھی غیرت کا مسئلہ ہی سمجھتے رہتے ہیں لہٰذا وہ اس کو بس حق ملکیت جتانے تک رکھتا ہےحالانکہ جب خاجستہ کی چوڑیوں کے زخم سے اس کے ہاتھ سے خون نکلتا ہے تو وہ خون چاٹ لیتا ہے۔ یہ دیوانگی کی انتہا ہے۔
خاجستہ بھی اسے پیار تو کرتی ہے لیکن اس کے روئیے سے نالاں ہے۔ شہر میں ڈاکٹر ہادی اس سے محبت کا اظہار کرتا ہے تو وہ ہاتھ چھڑا کر آگے بڑھ جاتی ہے۔
لیکن اگلی ہی اقساط میں وہ لمحہ بھر کو اس ناممکن سے رشتے کے بارے میں لمحہ بھر کو ہی سوچتی ہے۔
یہ لمحے ہی شہر اور گاؤں کے مسائل کو وہیں کا وہیں رکھتے ہیں۔ ترقی کرنے والے اپنے پسماندہ علاقے کو چھوڑ کر آخر کار آگے بڑھ جاتےہیں لہٰذا بزرگوں کے خدشات وقت کا سچ ثابت ہوتے ہیں۔
ڈرامے میں دکھایا گیا ہے کہ گاؤں کے مرد اس خوف سے بھی عورت کو شہر نہیں پڑھنے دیتے کہ وہ واپس نہیں آئے گی۔ کہیں کہیں بات سچی ہے لیکن اگر گھر کے مرد اسے محبت اور اعتماد سے باندھ لیں تو عورت کے قدم کبھی نہیں ڈگمگاتے۔ وہ سات سمندر پار سے بھی اپنوں کے پاس واپس آ جاتی ہے، جیسا لالہ اور دا جی نے خاجستہ کو اعتماد، محبت اور عزت سے باندھ رکھا ہے۔
خاجستہ کے تایا زاد بھائی لالہ اس کا ساتھ دیتے ہیں وہ شہرپڑھنے تو چلی جاتی ہے۔
دوم لڑکیوں کی پڑھائی کی بنیاد پہ اس کے تایا نے الیکشن جیتا ہوتا ہے۔ اپنے علاقے میں کالج بنوایا ہوتا ہے لہٰذا اب اس کو یہ بھی خیال ہے کہ وہ اپنی ہی یتیم اور لاڈلی بھتجی کی خواہش پوری کیسے نہ کرے۔ کچھ حالات واقعات بھی خاجستہ کا ساتھ دے رہے ہوتے ہیں، وہ جو کہتے ہیں کہ نصیب اچھے ہوں تو گھن لگے دانوں سے بھی گندم نکل آتی ہے، بند راہیں بھی رستہ بنا دیتی ہیں۔
لیکن اب اس کی زندگی دو تہذیبوں کے درمیان سانس لے رہی ہے۔ اس کے پیش نظر ہر طور اس کا مقصد ہے ڈاکٹر بن کر واپس آنا اور اپنے لوگوں کے لیے کام کرنا ان کے لیے مثال بننا۔
شہر یا شہر زادے اس کی سوچ سے بھی کوسوں دور تھے مگراب ڈاکٹری کی ڈگری کے ساتھ ذہن کی ڈگری بھی ہلکی سی بدلی ہے۔ چونکہ منفرد ہے، ذہین ہے، میڈیکل کالج میں سب کی نظروں میں ہی آ ہی نہیں جاتی کچھ کو اس سے حسد بھی ہونے لگتا ہے، لیکن اس کے قدم ذرا برابر بھی نہیں ڈگمگائے۔
ساتھ ساتھ ایک کہانی شہر میں چل رہی ہے، ڈاکٹر ہادی اور اس کا خاندان جو شہر میں نہ صرف اپنا ایک مقام رکھتے ہیں بلکہ اس پہ انہیں مان بھی بہت ہے۔
ظاہر ہے بنیادی طور پہ پہاڑ ہونے اور ایک مصنوعی پہاڑ بنانے میں بہت فرق ہے، ایسا ہی فرق یہاں ہمیں دکھائی دیتا ہے۔
جب ہادی کا چھوٹا بھائی والدین سے اس لیے متنفر ہے کہ وہ اس چھوٹے سے بچے حسن کو نانی کے پاس چھوڑ کر اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے امریکہ چلے گئے تھے، یوں نہ صرف وہ نظر انداز ہوا، بلکہ اس کے بھائی سے اس کا تقابل اس میں جذبہ حسد پیدا کر دیتا ہے اور یہ وہ آگ ہے جو پہلے اپنے آپ کو لگتی ہے، اس کے بعد پھیل جاتی ہے۔
یہی ہوتا ہے جب آئمہ اورحسن کا جذبہ حسد گھر میں ہی نہیں خاجستہ کے گاؤں اور میڈیکل کالج تک پھیل جاتا ہے۔ اس آگ کا راکھ ہو جانے تک کوئی انجام نہیں جو ہمیں دکھائی دے رہا ہے۔
ڈاکڑ ہادی نے اپنی پھوپھی زاد آئمہ سے شادی کرنے سے انکار تو کر دیا ہے مگر انتقام کی آگ آئمہ کو کسی مزید نامناسب رستے کی طرف لے کر جانے والی ہے۔
کہانی تکونی محبت کی صورت کسی کیمسٹری کی طرح تینوں فریقین میں فطرت کے قانون کے مطابق پھیل گئی ہے کیونکہ محبت خوشبو ہوتی ہے، چھپائے نہیں چھپ سکتی ہے، یہ انسان کو اپنا غلام بنا لیتی ہے۔
شانزے کی محبت بھی حسد کی آگ میں کود پڑی ہے لیکن چونکہ اس کی زندگی لالہ کی صورت ایک دریا سے جڑی ہو ئی ہے جو اسے بچا لے گا۔
شانزے کا کردار ایک مضبوط ترین پختون عورت کا کردار ہے جو پختون عورتوں کے بارے میں رائے بدلنے کو مجبور کرتا ہے جب وہ گھر کے مردان خانہ یا مہمان خانہ میں اولاد نہ ہونے کا سبب بتانے کو اپنے شوہر سے کہتی ہے۔
وہ خود تو کب سے اس آگ میں جل رہی تھی، یہی وجہ اس کے چڑچڑے پن اور تلخ کلامی کا سبب بھی بن رہی تھی۔ یہاں تک کہ دا جی نے لالہ سے ایک بار پوچھا بھی کہ کیا وہ اپنی بیوی کے سب حق ادا کر رہا ہے؟
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اتنی گہری باتیں اتنی نفاست سے ادا کی گئی ہیں کہ لکھنے والے اور پیش کرنے والے کے اعلیٰ ظرف کی خود عکاس بن جاتی ہیں۔ اگرچہ یہاں طب کا مسلہ لاحق نہیں نفسیات کی گرہیں لگی ہوئی ہیں۔
مصباح علی سید نے ڈراما لکھا ہے اور ڈائریکٹر علی فیضان ہیں۔
ہم نشین میرے ہم نشین، چھو لے میرے دل کی زمیں
اس دل مغرور کا اب ہمسفر کوئی نہیں
یہ اس گیت کے بول ہیں جو ڈرامے کا تھیم سانگ کہلاتا ہے، اور جب دل تکون میں پھنس جائے تو کوئی ایک حصہ طاق رہ ہی جاتا ہے۔
ڈراما اپنے عروج پہ ہے، کہانی نے اب فیصلہ کن موڑ لینا ہے۔
دیکھتے ہیں پشتون روایات والی بات درست ثابت ہوتی ہے یا مادیت کا سیلاب محبت کے نام پہ اپنے رستے کی تمام دیواریں گرا دینے میں کامیاب ہوتا ہے۔
شانزے اپنے شوہر کے لیے اپنے خاندان کے سامنے محبت کی سیسا پلائی دیوار بن گئی ہے۔
خاجستہ نے درغ زئی اور ڈاکٹر ہادی کی تکون کو توڑ کرجفت میں بدلنا ہے، یا تکون کے تینوں سرے یکتا کر کے کوئی نئی راہ ہموار کرنی ہے۔
ہماری خواہش بھی یہی ہے کہ شعور کے چراغ کبھی نہ بجھیں اور اندھیروں میں چراغ جلانے والوں کی راہیں روشن رہیں۔