پاکستان کی مذہبی شناخت پر اصرار کرنے والے طبقے کے نزدیک پاکستان کی بنیاد کلمۂ طیبہ پر رکھی گئی تھی اور خود بانیان پاکستان کی طرف سے اسے اسلام کے سنہرے اصولوں پر چلائے جانے کا وعدہ کیا گیا تھا، لہٰذا اسلامی تعلیمات کی بجائے مغربی انتخابی جمہوریت کے زیراثر کثرت رائے کی بنیاد پر قانون سازی کرتی ریاست وہ پاکستان نہیں ہو گا جس کا خواب قائداعظم نے دیکھا تھا۔
اس کے برعکس ترقی پسند اور ریاست کو سیکیولر دیکھنے کی خواہش مند طبقے کے نزدیک جناح اپنی ذاتی زندگی میں مکمل طور پر ایک غیر مذہبی شخص تھے اور یہ کہ انہوں اس بارے میں کبھی منافقت سے کام نہیں لیا۔ پاکستان کی دستور ساز اسمبلی کے پہلے ہی اجلاس میں قائداعظم نے مذہبی شناخت کو ریاست کے امور سے بے دخل کر دینے کا اعلان کر دیا تھا۔ لہٰذا پاکستان کی آئینی ساخت میں مذہب کی پیوند کاری کر کے جو پاکستان وجود میں لایا گیا ہے، ان کے نزدیک یہ جناح کا پاکستان نہیں ہے۔
اگرچہ زندہ معاشروں میں ماضی محض ایک حوالے کے طور پر موجود رہتا ہے اور وہ اپنے روزمرہ کا ڈھانچہ اپنے حال کے معروض پر تشکیل دیتے ہیں، لیکن ہم ٹھہرے ماضی کے مسافر جو آج بھی سقوط ڈھاکہ کی کہانی سے زیادہ سقوط غرناطہ اور سقوط بغداد کی تاریخ میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔ چنانچہ لبرلز ہوں، سیکیولر ہوں، یا پھر مذہبی طبقات، ہمارے ليے آج بھی اپنی قومی ترجیحات کے تعین کے لیے یہ جاننا اہم ہے کہ 75 برس قبل قائد اعظم کس قسم کا پاکستان چاہتے تھے۔ چنانچہ ہماری سیاسی شناخت کی ساری بحث بانی پاکستان کی جس ایک تقریر کی تفسیر پر موقوف ہے اسے 11 اگست 1947 کی تقریر کہا جاتا ہے۔
پاکستان بننے سے چار دن پہلے، 11 اگست 1947 کو پاکستان کی قانون ساز اسمبلی کا افتتاحی اجلاس قائد اعظم محمد علی جناح کی صدارت میں منعقد ہوا۔ اس اجلاس میں بانی پاکستان نے اپنی صدارتی تقریر میں نئی مملکت کو درپیش مسائل کے حوالے سے گفتگو کی اور بہت سے دیگر امور پر گفتگو کرنے کے علاوہ کہا، ’آپ آزاد ہیں۔ آپ آزاد ہیں اپنے مندروں میں جانے کے لیے۔ آپ آزاد ہیں اپنی مسجدوں میں جانے کے لیے اور ریاست پاکستان میں اپنی کسی بھی عبادت گاہ میں جانے کے لیے۔ آپ کا تعلق کسی بھی مذہب ذات یا نسل سے ہو۔ ریاست کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں۔
’آپ دیکھیں گے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہندو ہندو نہیں رہیں گے، اور مسلمان مسلمان نہیں رہیں گے، مذہبی معنوں میں نہیں، کیونکہ یہ ہر فرد کا ذاتی عقیدہ ہے، بلکہ سیاسی معنوں میں، کیونکہ وہ ایک ہی ریاست کے برابر کے شہری ہوں گے۔‘
سرحد کے دونوں اطراف سے تعلق رکھنے والے کچھ تاریخ نگاروں اور تجزیہ کاروں، جن میں ڈاکٹر عائشہ جلال، قیوم نظامی، ڈاکٹر مبارک، خوشونت سنگھ اور ایل کے ایڈوانی جیسے لوگوں کے نام آتے ہیں، کے مطابق جناح کی یہ تقریر ایک سیکیولر اور قومی ریاست کے قیام کا اعلامیہ تھی۔
ایل کے ایڈوانی نے تو 2005 میں اپنے دورہ پاکستان کے دوران قائداعظم کی 11 اگست کی تقریر کے حوالے سے جناح کو پاکستان میں سیکیولر ریاست کی بنیاد رکھنے پر تحریری خراج تحسین پیش کیا تھا جس پر انہیں اپنی ہی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی طرف سے انتقامی کارروائی کا نشانہ بھی بننا پڑا۔
اسی طرح ڈاکٹر عائشہ جلال کے مطابق جناح ایک آزاد اور خودمختار پاکستان کے مطالبے کو محض ترپ کے پتے کے طور پر استعمال کر رہے تھے، اور جناح کو تقسیم ہندوستان کی طرف دھکیلا گیا تھا۔
ان تمام مورخین کے مطابق تقسیم ہندوستان کی ذمہ داری قائداعظم سے زیادہ ذمہ نہرو، گاندھی اور پٹیل پر عائد ہوتی بے جن کی بے بصیرتی یا ضد کے نتیجے میں پاکستان وجود میں آیا۔
ان میں سے اکثر مورخین یا تجزیہ کاروں کے دلائل کا لب لباب یہ ہے کہ مذہبی شناخت کی بنیاد پر ریاست کا حصول اور مذہبی شناخت کی بنیاد پر ریاست کے آئینی خدوخال کا تعین کرنا دو مختلف باتیں ہیں۔ قائداعظم اگر اوّل الذکر فعل کے مرتکب ہوئے بھی تھے تب بھی وہ موخر الذکر نظریے کے معتقد ہرگز نہ تھے۔ یعنی ان کے مطابق قائداعظم کے نزدیک اب چونکہ ملک وجود میں آ چکا تھا لہٰذا دو قومی نظریے کو اپنائے رکھنے کا جواز ختم ہو چکا تھا اور 11 اگست کی تقریر ملک کے بانی کی طرف سے قانون ساز ادارے کو فراہم کردہ ایک ایسی پالیسی سٹیٹمنٹ تھی، جن رہنما اصولوں پر ملک کا آئندہ دستور بننا تھا۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا محض ایک تقریر کی بنیاد پر یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ قائد اعظم اس دو قومی نظریے سے دستبردار ہوگئے تھے جس کی بنیاد پر انگریزوں کی طرف سے ہندوستان کو تقسیم کرنے کا اعلان کیا جا چکا تھا اور جو اس وقت تک نہ صرف یہ کہ لاکھوں انسانوں کی جان لے چکا تھا بلکہ کروڑوں انسان مذہبی شناخت کی بنیاد پر ہونے والی تقسیم کے نتیجے میں جبری نقل مکانی پر مجبور ہو گئے اور ابھی مزید کروڑوں انسانوں کے سروں پر یہ خطرہ منڈلا رہا تھا؟
اس کے علاوہ جناح کی اس تقریر کے بعد بھی جناح نے جب بھی کہیں نوزائدہ ریاست کے آئینی ڈھانچے کے خدوخال بیان کیے تو انہوں نے بلا تامل ہر جگہ اسلامی شناخت کو پاکستان کے قیام کی بنیاد قرار دیا اور وہ جابجا مذہبی نظریات کی بنیاد پر ملک کے دستوری ڈھانچہ کو استوار کرنے کے خواہش مند نظر آئے۔
اس کے علاوہ جناح اس تقریر کے بعد تقریباً 14 ماہ تک زندہ رہے۔ اس سارے عرصے میں ان کی طرف سے ملک کی سیکیولر قومی شناخت کی بنا رکھنے کے لیے کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا گیا۔ بلکہ قانون سازی کے بارے میں بات کرتے ہوئے ہر موقعے پر ہمیں وہی جناح نظر آتے ہیں جو 1934 سے مسلمانوں کی جداگانہ قومی شناخت اور بعد میں اسی بنیاد پر تقسیم ہندوستان کے مدعی تھے۔
مثلاً فروری 1948 میں امریکی عوام کے نام جاری کردہ ایک ریڈیو پیغام میں قائد اعظم نے کہا:
’پاکستان کی دستور ساز اسمبلی نے ابھی دستور بنانا ہے۔ مجھے علم نہیں کہ اس کی حتمی شکل وصورت کیا ہو گی۔ لیکن مجھے یقین ہے کہ پاکستان کا آئین جمہوری قسم کا ہو گا جسے اسلام کے بنیادی اصولوں کے مطابق تشکیل دیا جائے گا۔ اسلام کے اصول آج بھی عملی زندگی پر اسی طرح لاگو ہوتے ہیں جس طرح 13 سو سال قبل ہوتے تھے۔ اسلام نے ہمیں جمہوریت سکھائی ہے اور مساوات اور انصاف کا سبق دیا ہے۔ ہم ان شاندار روایات کے امین اور وارث ہیں اور دستور سازی میں انھی سے راہنمائی حاصل کی جائے گی۔ بہرحال پاکستان ایک تھیو کریٹک (مذہبی) ریاست نہیں ہو گی اور یہاں تمام اقلیتوں، ہندوؤں، عیسائیوں، پارسیوں کو بحیثیت شہری وہی حقوق حاصل ہوں گے جو دوسرے شہریوں کو حاصل ہوں گے۔‘
اگر غور کریں تو جناح کو لفظوں کے درست اور بر محل چناؤ پر جو قدرت حاصل تھی وہ اوپر ذکر کردہ بیان میں جھلکتی ہے۔ جناح نے اسلامی جمہوریت اور اسلامی مساوات کے تصورات کے ساتھ ہی اقلیت اور اکثریت کی اصطلاحات استعمال کرتے ہوئے غیر مسلموں کو برابر کے حقوق کی جو یقین دہانی کروائی ہے وہ ہر طرح سے ان کے ذہن میں موجود اسلامی ریاست کے تصور کی عکاس تھی۔
اسی طرح 25 جنوری 1948 کو کراچی بار ایسوسی ایشن سے خطاب کرتے ہوئے قائد اعظم نے فرمایا: ’یہ اسلام ہی ہے جس نے ہمیں ہر ایک کے ساتھ مساوات، انصاف اور غیرجانبداری کا برتاﺅ کرنے کا سبق دیا ہے۔ جمہوریت، مساوات، آزادی اور غیرجانبداری کی بنیاد پر سب کے ساتھ غیرجانبدارانہ اور قطعی ایماندارانہ سلوک سے خوف کھانے کا آخر کیا سبب ہوسکتا ہے؟ آئیے اس (پاکستان کے آئین) کی تشکیل کیجیے اور اسے دنیا کو دکھا دیجیے۔‘
قائداعظم نے 13 جنوری 1948 کواسلامیہ کالج پشاور کے جلسہ میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
’ہم نے پاکستان کا مطالبہ ایک زمین کا ٹکڑا حاصل کرنے کے لیے نہیں کیا تھا بلکہ ہم ایک ایسی تجربہ گاہ حاصل کرنا چاہتے تھے جہاں ہم اسلام کے اصولوں کو آزما سکیں۔‘
ان اقتباسات سے یہ بات واضح ہے کہ 11 اگست کی تقریر کے بعد بھی جناح جابجا ریاست کے نظام کو مذہب تابع رکھنے کے خواہش مند نظر آتے ہیں۔
اسلام پسند حلقوں کا یہ کہنا کہ 11 اگست 1947 کی تقریر مجموعی طور پر جناح کے نظریے سے ہم آہنگ تھی، یہ بات بھی قرین قیاس معلوم نہیں ہوتی کیونکہ مطالبہ پاکستان پیش کرنے سے جناح کی وفات تک ان کی یہ واحد تقریر ہے جس میں نظام مملکت پر بات کرتے ہوئے ان کی طرف سے ایک بار بھی قرآن و حدیث، اسلام یا ریاست مدینہ جیسے مذہبی حوالوں کا استعمال نہیں کیا گیا، اس لیے جناح کی یہ تقریر ایک سوچی سمجھی پالیسی سٹیٹمنٹ ہی نظر آتی ہے۔
پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر جناح کی 11 اگست کی تقریر کا کوئی خاص سیاق و سباق تھا؟
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس بات کا جواب ہمیں پاکستانی نژاد سویڈش شہری اور تاریخ دان اشتیاق احمد کی کتاب ’جناح، کامیابیاں ناکامیاں اور ان کا تاریخ میں کردار‘ اور ان کے مختلف مواقع پر دیے گئے انٹرویوز میں ملتا ہے جن میں وہ جہاں اس تاثر کی نفی کرتے ہیں کہ جناح مذہب کی بنیاد پر تقسیم کے خواہاں نہیں تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ 11 اگست 1947 کی تقریر کے بارے میں بھی کہتے ہیں کہ اس وقت کے مخصوص حالات میں اس طرح کی تقریر ضروری تھی۔
اشتیاق کے مطابق جناح اپنی تمام تر خواہش کے باوجود بنگال اور پنجاب کی تقسیم نہیں روک پائے تھے اور انہیں ان کے اپنے الفاظ میں کٹا پھٹا پاکستان قبول کرنا پڑا۔ اس تقسیم کے نتیجے میں پنجاب، یوپی، اور بنگال میں فرقہ وارانہ فسادات پھوٹ پڑے۔ موجود پاکستان میں بالخصوص پنجاب اور سندھ سے بڑے پیمانے پر ہندوؤں اور سکھوں کی جبری نقل مکانی کے بعد یہ امکان پیدا ہو چلا تھا کہ اس کے ردعمل میں بھارتی پنجاب کے علاوہ بقیہ ہندوستان سے بھی مسلمانوں کو جبری ہجرت پر مجبور کر دیا جائے گا۔ اگر ایسا ہو جاتا تو یہ نئی مملکت کے لیے ایک بہت بڑا بحران ہوتا۔ اگر نئی مملکت سے تمام غیر مسلموں کو مکمل طور پر بے دخل کر دیا جاتا تب بھی ساڑھے تین کروڑ آبادی والے مغربی پاکستان کو بھارت کی سرزمین سے تقریباً ڈھائی سے تین کروڑ مسلمان مہاجرین کی نقل مکانی کا بوجھ یک لخت اٹھانا پڑ سکتا تھا جس سے نمٹنے کے لیے پاکستان کے وسائل اور حکومتی مشینری ناکافی تھی۔ ایسی صورت حال میں حکمت عملی کے تحت بھارتی حکومت کو یہ پیغام دیا گیا تھا کہ وہ شہریت کی بنیاد پر بھارت میں بسنے والے مسلمانوں کے حقوق کا تحفظ کریں اور پاکستان بھی اپنے تمام شہریوں کو بلا تمیز مذہب تحفظ دینے کے لیے تیار ہے۔ وہ اس ضمن میں مسلمانوں کے ایک وفد کی دہلی میں گاندھی سے ملاقات کا حوالہ بھی دیتے ہیں جس میں پاکستان کی دستور ساز اسمبلی کے مسلم لیگی رکن بھی شامل تھے جنہوں نے مسلمانوں کی جبری نقل مکانی اور تشدد کو روکنے کے لیے گاندھی سے مدد کی درخواست کی تھی۔
اشتیاق احمد کی اس بات کو اس تقریر کے ڈیڑھ برس کے اندر پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی کے تمام مسلمان اراکین کی طرف سے قرارداد مقاصد کو متفقہ طور پر آئین کے پیش منظر کے طور پر قبول کر لینے کے اقدام سے بھی تقویت ملتی ہے۔ اگر جناح کی 11 اگست کی تقریر آئندہ پاکستان کو ایک سیکیولر ملک دیکھنے کی خواہش کا اظہار ہوتی تو کم ازکم مسلم لیگ کی پارلیمانی پارٹی میں کوئی ایک آواز تو جناح کے اس مفروضہ ویژن کی حامی بھی ہوتی۔
بہرحال یہ بحث کہ پاکستان کے دستوری ڈھانچے میں مذہب کا کس حد تک عمل دخل ہونا چاہیے اس بارے میں پاکستان کے ترقی پسند اور سیکیولر حلقوں کو جناح کی 11 اگست کی تقریر کی آڑ لینے کی بجائے اپنے لیے ایک خودمختار اور زمینی حقائق سے ہم آہنگ بیانئے پر انحصار کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
ورنہ محض ایک تقریر کی بنیاد جناح کو سیکیولر ثابت کرنا اور پھر سیکیولر جناح کی شناخت کے حوالے ایک سیکیولر، غیر مذہبی اور قومی ریاست قائم کرنے پر اصرارکرنا بہت کمزور بنیادوں پر کھڑا ہے۔