ایلن کیمل جانسن ہندوستان کے آخری وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے پریس اتاشی تھے۔انہوں نے ہندوستان کی تقسیم کے آخری ایام کے بارے میں اپنی یاداشتیں ایک روزنامچے کی صورت میں ’مشن وِد ماؤنٹ بیٹن‘ کے نام سے ترتیب دی تھیں۔
ان یاداشتوں میں ایک صفحہ کراچی میں 13 اگست کی رات کا بھی ہے جب گورنمنٹ ہاؤس کراچی میں قائد اعظم کی جانب سے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے اعزاز میں ایک استقبالیہ دیا گیا جس میں مشروبات کے علاوہ ہلکی ہلکی موسیقی کا بھی اہتمام کیا گیا تھا۔
ایلن کیمل جانسن لکھتے ہیں کہ ’سارے مہمان خوب محظوظ ہوئے لیکن میں نے جناح کو الگ تھلگ پایا، جس کی وجہ سے اس تاریخی لمحے میں اداسی پھیل گئی۔
وہ اچکن اور پاجامے میں ملبوس تھے اور ان کے چاندی جیسے بال چمک رہے تھے۔ انہوں نے چند ہی مہمانوں کو اپنے تکلف سے نوازا۔
اتنی بڑی کامیابی پر بھی وہ شخص تنہا نظر آ رہا تھا۔ میں انہیں مبارک باد دینا چاہتا تھا لیکن انہیں عجیب خیالات میں غلطاں دیکھ کر میرے الفاظ میرے منہ میں ہی رہ گئے۔‘
ایلن کیمل جانسن کے ان خیالات سے یہ تاثر ملتا ہے کہ جس رات انہیں زندگی کی سب سے بڑی کامیابی ملنے والی تھی وہ اس تاریخی لمحے اداس تھے۔
اس اداسی کا سبب کیا تھا؟ یہ سوال بہت عرصے میرے ذہن میں بھی کھٹکتا رہا تاہم اس سوال کا جواب مجھے ڈاکٹر سعد خان کی کتاب ’رتی جناح‘ میں ملا، جس میں لکھا ہے کہ موسیقی کی وہ دھنیں جنہوں نے اس تاریخی شام کو مسحور کن بنا رکھا تھا، وہ مشہور انگریز کلوکار کن میک بجا رہے تھے جنہیں قائداعظم کی ذاتی خواہش پر ٹاٹا ایئرلائن کے خصوصی طیارے میں بمبئی سے کراچی لایا گیا تھا۔
وہ کئی عشروں تک بمبئی کی اشرافیہ کے کلبوں میں فن کا مظاہرہ کرتے رہے تھے۔ بیگم قائداعظم اکثر اسی گلوکار کی دھنیں سنتی تھیں اور جب انہوں نے اپنی سالگرہ پر قائداعظم کے ساتھ اپنی شادی کا اعلان کیا تھا تو بھی یہی دھنیں بج رہی تھیں۔
اس لیے قائداعظم اس تاریخی لمحے کو اپنی مرحومہ بیگم کے نام کرنا چاہتے تھے اور اگر اس شام وہ اداس تھے تو صرف اس وجہ سے تھے کہ ان تاریخی لمحات میں ان کی بیگم ان کے ساتھ نہیں تھیں۔
رتی سے پہلی ملاقات کب اور کہاں ہوئی؟
قائد اعظم کی اپنی شریک حیات رتی سے پہلی ملاقات کب ہوئی تھی؟ غالباً یہ ملاقات بمبئی کے اورینٹ کلب میں ہوئی ہو گی۔ قائداعظم 1897 میں بمبئی میں وکالت شروع کر چکے تھے اور ان کی اکثر شامیں اسی کلب میں گزرتی تھیں جہاں قائداعظم کے کلائنٹ ایک متمول پارسی تاجر سر ڈینشا پٹیٹ بھی آتے جاتے تھے، جو رتی کے والد تھے۔ بعد میں دونوں کی دوستی ہوگئی اور یوں قائداعظم ان کے گھر بھی آنے جانے لگے۔
رتی کی پیدائش 1900 کی ہے۔ جب رتی نے ہوش سنبھالا تو وہ اسی کلب میں گھڑ سواری کرنے آتی تھیں، اس لیے قیاس ہے کہ دونوں کی ملاقاتیں اسی کلب میں ہوئی ہوں گی۔
قائداعظم اور رتی نے 1913 میں ایک ہی بحری جہاز میں یورپ کا سفر کیا تھا۔ رتی اپنے والدین کے ہمراہ اپنے گرمائی محل فرنچ رویریا میں جا رہی تھیں جبکہ قائداعظم اور موتی لال نہرو اسی جہاز میں برطانیہ جا رہے تھے۔
چونکہ رتی سیاسی طور پر متحرک تھیں اس لیے وہ قائداعظم کی سیاسی بصیرت سے متاثر ہونے لگیں۔ قائداعظم اپنے دوست جمشید ٹاٹا سے ملنے پیرس گئے تو جمشید ٹاٹا نے ان کی ملاقات اپنی منگیتر سے کروائی جو کہ رتی کی پھوپھو تھیں۔ اس ملاقات میں رتی بھی موجود تھیں۔
اس زمانے میں پارسی لڑکیوں کی شادی 13، 14 سال کی عمر میں ہو جایا کرتی تھی۔ جب رتی صاحبہ قائداعظم کی محبت میں مبتلا ہوئیں تو اس وقت ان کی اکثر ہم جماعت لڑکیوں کی شادی ہو چکی تھی۔
رتی کے والد اپنے بچوں کو چھٹیوں میں فرانس بھیج دیا کرتے تھے مگر دوسری جنگ عظیم کی وجہ سے پٹیٹ خاندان فرانس نہ جا سکا تو وہ اپنے گرمائی گھر دارجیلنگ چلے گئے جہاں سے ماؤنٹ ایورسٹ کا نظارہ ملتا تھا۔ ڈینشیا پٹیٹ نے اس بار قائداعظم کو بھی اپنے ساتھ چھٹیاں گزارنے کی دعوت دے دی۔
قائداعظم اور رتی کی محبت یہیں پروان چڑھی اور یہیں رتی نے قائداعظم کو شادی کی پیشکش کی۔ ایک روز دارجیلنگ کے محل میں بیٹھے بیٹھے قائداعظم نے سر ڈنشیا پٹیٹ سے رتی کا رشتہ مانگ لیا۔ جناح کا رشتہ مانگنے کا انداز بھی بڑا منطقی تھا۔ انہوں نے سر ڈنشیا پٹیٹ سے کچھ یوں بات کی۔
قائداعظم :آپ کا بین المذاہب شادیوں کے بارے میں کیا خیال ہے؟
سر ڈنشیا پٹیٹ: ایسی شادیاں اقوام کے درمیان ہم آہنگی کا باعث بنتی ہیں اور ممکن ہے کہ ان سے مذاہب کے درمیان مخاصمت کے خاتمے میں بھی مدد ملتی ہو۔
قائداعظم: پھر اگر میں آپ سے آپ کی بیٹی رتی کا رشتہ مانگوں تو کیا خیال ہے؟
قائداعظم کا یہ سوال سر ڈنشا پٹیٹ کے لیے غیر متوقع تھا، اس لیے اس ملاقات کے بعد سر ڈنشا اور قائداعظم کے تعلقات ختم ہو گئے، تاہم رتی اور جناح کے درمیان ملاقاتیں جاری رہیں۔
دونوں کے گھروں کے درمیان ایک میل سے بھی کم فاصلہ تھا اور پھر اورینٹ کلب میں بھی ملاقاتیں ہو جایا کرتی تھیں، حتیٰ کہ جب قائداعظم مسلم لیگ کے صدر دفتر لکھنؤ گئے تو رتی بھی پیچھے پیچھے پہنچ گئیں۔
دونوں کی ملاقاتیں دیکھ کر سروجنی نائیڈو کو کہنا پڑا کہ ’جناح جیسا شخص جو اپنے کام سے کام رکھتا ہے، اس کی رتی سے محبت سچے جذبات کی وارفتگی لیے ہوئے ہے۔‘
جناح پر رتی کے اغوا کا الزام
رتی جب 17 سال کی ہوئیں تو ان کی سالگرہ بڑے دھوم دھام سے تاج محل ہوٹل میں منائی گئی۔ رتی نے خفیہ طریقے سے قائداعظم کو بلا لیا اور نہ صرف ہوٹل پہنچنے پر خود استقبال کیا بلکہ انہیں اپنی والدہ اور والد کے ساتھ سٹیج پر بھی بٹھا دیا۔
اس دوران انگریز گلوکار کن میک کا آکسٹرا دھنیں بجا رہا تھا اور گانا تھا ’سو ڈیپ از دی نائٹ۔‘ اسی دوران رتی نے جناح کا ہاتھ پکڑا اور انہیں سٹیج پر لے آئیں اور بہت بے تکلفی سے اعلان کیا: ’جے اور میں شادی کرنے جا رہے ہیں۔‘
سر ڈنیشا پٹیٹ بہت غصے میں آگئے۔ اگلے دن وہ عدالت پہنچ گئے کہ جناح کو میری بیٹی سے شادی کرنے سے روکا جائے۔
اس زمانے میں شادی کی قانونی عمر 18 سال تھی۔ جب رتی کی عمر پوری ہوئی تو رتی اور جناح نے 19 اپریل، 1918 کوشادی کرلی۔ سر ڈنشیا پٹیٹ کو یہ خبر اخباروں سے پتہ چلی، جس پر انہوں نے جناح پر بیٹی کے اغوا کا الزام لگا دیا۔
رتی کا قبول اسلام کے بعد نام مریم رکھا گیا تھا۔ شادی کے وقت رتی کی عمر 18 اور قائداعظم کی 41 سال تھی۔
یہ شادی اس زمانے میں میڈیا میں سب سے زیادہ چونکا دینے والی خبر بن گئی، جس کی وجہ سے نوبیاہتا جوڑے نے ایک ماہ کسی خفیہ پہاڑی مقام پر گزارنے کا فیصلہ کر لیا۔
راجہ صاحب آف محمود آباد نے اپنے محل نینی تال میں نوبیاہتا جوڑے کی میزبانی کی۔ یہاں رتی نے جناح سے اپنی محبت کی یادگار کے طور پر مارٹل کا پودا لگوایا جو کہ سدا بہار اور خوشبو دار ہوتا ہے اور یہ محبت کی دیوی زہرہ سے منسوب ہے۔
قائداعظم نے اپنا تین ایکڑ پر محیط گھر ساؤتھ کورٹ اپنی نئی دلہن کے نام کر دیا۔ بعد میں یہ جناح ہاؤس کہلایا اور یہاں بیگم جناح نے بہت تقریبات منعقد کیں۔
شادی کے شروع کا دور بڑا رومانوی تھا۔ دونوں نے ہندوستان، یورپ اور امریکہ کے اکٹھے سفر کیے۔ رتی، جناح کے لیے بہت خوش بخت ثابت ہوئیں اور 1926 میں قائداعظم کا شمار جنوبی ایشیا کے دس امیر ترین افراد میں کیا جانے لگا۔
جناح کے گھر کو رتی نے کچھ اس طرح سجایا کہ وہ بمبئی کے گورنر ہاؤس کے مقابلے کا گھر بن گیا۔ بیگم جناح ہر شام ڈرائیور کو لے کر جناح کے چیمبر جاتیں جہاں سے وہ اکھٹے گھر واپس آتے۔ کار کی چھت اتار لی جاتی۔
بیگم صاحبہ اور قائداعظم گاڑی کی پچھلی سیٹ پر بیٹھ کر تازہ ہوا کا لطف لیتے۔ یہ مسلم کمیونٹی کا پہلا قابل رشک جوڑا تھا جو کھل کر ایک دوسرے سے محبت کاا ظہار کرتا۔
رتی جناح تحریک آزادی کی سرگرم کارکن تھیں اور یہ بھی قائداعظم سے شادی کی ایک بڑی وجہ تھی۔
بیگم جناح کی رومانوی طبیعت
رتی جناح کو کشمیر دیکھنے کا بہت شوق تھا۔ شادی کے ابتدائی سالوں میں تو قائداعظم ان کی یہ خواہش پوری نہ کرسکے، تاہم 1926 کے موسم گرما میں وہ اپنی بیگم کو لے کر کشمیر گئے۔
جوڑا بمبئی سے دہلی اور پھر لاہور سے ہوتا ہوا راولپنڈی فلیش مینز ہوٹل پہنچا، جہاں سے بذریعہ کار یہ جوڑا سری نگر کے لیے روانہ ہوا اور مری کے ہمالین ہوٹل میں دن کا کھانا کھا کر بارا مولہ پہنچا۔
رات وہیں قیام کے بعد اگلی صبح یہ جوڑا سری نگر کے لیے روانہ ہوا تو بیگم صاحبہ نے کہا کہ آج چودہویں کی رات ہے، اس لیے رات کا سفر کریں گے۔ چونکہ بیگم صاحبہ نے رومانوی طبیعت پائی تھی، اس لیے قائداعظم ان کے آگے بے بس ہوجاتے۔
جب یہ جوڑا سری نگر پہنچا تو ڈل جھیل میں تیرتی ہوئی مکان نما کشتیاں دیکھ کر بیگم صاحبہ مبہوت ہوگئیں لیکن بیگم صاحبہ نے جو کشتی پسند فرمائی اس میں چند دن کے قیام کے لیے اس کی تزئین و آرائش کے لیے 50 ہزار خرچ کروا دیے جو کہ اس زمانے میں اتنی خطیر رقم تھی کہ اس سے کراچی یا لاہور کے پوش علاقے میں چار کنال کا بنگلہ خریدا جا سکتا تھا۔
بیگم صاحبہ کو سری نگر اتنا پسند آیا کہ قائداعظم انہیں بمشکل ہی اگلی بار پھر آنے کا وعدہ کرکے واپس لائے۔ قائداعظم جب پارلیمانی اجلاسوں میں شرکت کے لیے بمبئی سے دہلی آتے تو بیگم صاحبہ بھی ان کے ہمراہ ہوتیں۔
رات کے کھانوں پر ان کی سیاست دانوں سے ملاقاتیں ہوتیں بلکہ قائداعظم اکثر موتی لال نہرو کی بیٹیوں کو کہا کرتے کہ ’تمہارے والد بہت کنجوس ہیں۔ کھانے کا آرڈر دے دیتے ہیں اور بل میری بیگم کو ادا کرنا پڑتا ہے۔‘
بیگم جناح اپنے دور کی انتہائی پر کشش خاتون تھیں۔ سروجنی نائیڈو لکھتی ہیں کہ ’لندن میں پیکا ڈلی اور بانڈ سٹریٹ میں بیگم جناح کے ساتھ چلنا بہت بھلا لگتا ہے۔
نوجوان نوبزادے اور شہزادیاں مڑ مڑ کر دیکھتی ہیں کہ یہ دلکش شخصیت کون ہے۔‘ جبکہ وائسرائے لارڈ ریڈنگ کی اہلیہ نے اپنی سہیلی کو خط لکھا کہ ’محمد علی جناح ظہرانے پر وائسرائے ہاؤس تشریف لائے۔
ان کی آمد کی خاص بات ان کے ہمراہ ان کی انتہائی دلکش بیگم صاحبہ تھیں۔‘ ہندوستان کی اشرافیہ انہیں رشک بھری نظروں سے دیکھتی اور رانیاں مہارانیاں پوشاک کے معاملے پر ان سے مشورے لیتیں۔
جناح اور رتی میں ناچاقی کی وجہ ایک بلی
یہ بات حیرت انگیز ہے کہ قائد اور بیگم جناح میں ناچاقی کی ابتدا ایک بلی کے گم ہونے سے ہوئی۔ ڈاکٹر سعد خان لکھتے ہیں کہ ’ستمبر 1927 میں قائداعظم دہلی میں ہونے والی ہندو مسلم کانفرنس کے چیئرمین منتخب ہوئے تھے۔
وہ اپنی اہلیہ کے ہمراہ دہلی گئے تو ہمیشہ کی طرح ان کی اہلیہ کے ہمراہ ان کے کتے اور بلیاں بھی گئے۔ کانفرنس ناکام ہو گئی تو قائد اعظم بہت پریشان ہوئے۔
وہ جلد بمبئی واپس جانا چاہتے تھے لیکن اس دوران بیگم صاحبہ کی بلی گم ہو گئی اور بیگم صاحبہ کسی طور بلی کے چھوڑ کر جانا نہیں چاہتی تھیں۔‘
’جب قائد اعظم انہیں قائل کرنے میں ناکام ہو گئے تو انہیں اپنی ساتھی وکیل اور اپنی بہترین دوست سروجنی نائیڈو کو ان کے پاس چھوڑ کر اکیلے بمبئی جانا پڑا۔
’سروجنی نائیڈو کو مسز جناح کو قائل کرنے میں مزید تین روز لگ گئے کہ وہ بلی کی تلاش پولیس کمشنر کو سونپ کر واپس چلی جائیں۔‘
’بعد ازاں مسز جناح کو یہ شکوہ رہنے لگا کہ وہ ان سے زیادہ اپنے کام پر توجہ دیتے ہیں۔اس دوران بیگم صاحبہ ناراض ہو کر تاج محل ہوٹل کے سوٹ میں منتقل ہوگئیں جہاں وہ 88 روز تک مقیم رہیں، لیکن جب بیگم صاحبہ اگلے سال شدید علیل ہو گئیں تو قائد اعظم اپنے کام اور سیاست کو نظر انداز کرکے پیرس میں شب و روز ان کی تیمار داری میں بسر کرنے لگے۔‘
’ستمبر 1928 میں ان کی طبیعت سنبھلی تو وہ اپنی والدہ کے ہمراہ بمبئی چلی گئیں۔جہاز میں انہوں نے اپنے شوہر کے نام ایک جذباتی خط لکھا: ’اگر میں آپ سے قدرے کم محبت کرتی ہوتی تو آپ کے ساتھ رہتی۔
’میں نے آپ کو اسی طرح ٹوٹ کے چاہا جیسے شاید ہی کوئی کسی کو چاہتا ہو ،آپ سے صرف اتنی درخواست ہے کہ ہمارے جس تعلق کا آغاز محبت پر ہوا اس کا اختتام بھی محبت پر ہونا چاہیے۔‘
اپنی زندگی کے آخری چار ماہ وہ اپنے بھائی کے پاس مقیم رہیں۔ قائداعظم ہر شام ان کی تیمار داری کرنے آتے تھے۔
قائد اعظم کی 52 ویں سالگرہ پر 25 دسمبر، 1928کو بیگم صاحبہ نے تاج محل ہوٹل میں ظہرانہ دیا، جس کے بعد قائد اعظم مسلم لیگ کے بیسویں سالانہ اجلاس میں شرکت کے لیے کلکتہ روانہ ہوگئے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
قائداعظم کی آخری ملاقات 27 جنوری کو ہوئی جب وہ دہلی روانہ ہو رہے تھے۔ بیگم صاحبہ نے کہا کہ میری طرف سے خواجہ نظام الدین اولیا کے دربار پر پھول چڑھانا نہ بھولیے گا۔
طویل بیماری کے سبب صرف 29 سال کی عمر میں بیگم جناح 20 فروری کو ہسپتال میں انتقال کرگئیں۔قائداعظم فوری طور پر واپس پہنچے اور بیگم کی آخری رسومات ادا کیں۔
ان کے سفر آخرت میں اتنے لوگ تھے کہ مختصر فاصلہ بھی پانچ گھنٹے میں طے ہوا۔ قائداعظم جب ان کی قبر پر مٹی ڈال رہے تھے تو پھوٹ پھوٹ کر رو رہے تھے۔
بیگم صاحبہ کی وفات پر انہوں نے ہندوستان کو چھوڑ کر برطانیہ میں سکونت اختیار کرلی تھی، جہاں وہ 1934 تک مقیم رہے۔
جب پاکستان بننے سے پہلے سات اگست کو انہیں خصوصی طیارے کے ذریعے بمبئی سے کراچی لایا جا رہا تھا تو واپسی پر وہ قبرستان بیگم صاحبہ کی قبر پر چلے گئے اور قبر کے سرہانے پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے۔
ڈرائیور نے انہیں سنبھالا دے کر اٹھایا۔ جناح کے قبرستان جانے کی وجہ سے پرواز آدھا گھنٹہ لیٹ ہوگئی۔ سات دن بعد جب پاکستان بن رہا تھا اور ہر طرف شادمانیاں تھیں تو ایسے میں قائداعظم کا دل اپنی مرحومہ بیوی کو یاد کرتے ہوئے بہت اداس تھا۔