قائداعظم جب اپنی علالت کے دن کوئٹہ میں گزار رہے تھے تو یکم ستمبر 1948 کو انہیں برین ہیمبرج ہوا۔ ان کے ڈاکٹر الہٰی بخش نے محترمہ فاطمہ جناح کو کہا کہ انہیں جلد کراچی لے جانا چاہیے کوئٹہ جیسے شہر کی بلندی ان کے لیے موزوں نہیں ہے۔
ان کے خون میں انفیکشن بھی ظاہر ہوا تھا اور انہیں سانس لینے میں دشواری ہو رہی تھی۔ ڈاکٹرز نے بتایا کہ اب امید کی کوئی کرن باقی نہیں ہے اور کوئی معجزہ ہی انہیں بچا سکتا ہے۔
جب ڈاکٹرز نے انہیں کراچی لے جانے کے لیے اجازت مانگی تو انہو ں نے کہا کہ ’ہاں مجھے کراچی لے چلو میں وہیں پیدا ہوا تھا اور وہیں دفن ہونا چاہتا ہوں۔‘
اس کے ساتھ ہی ان کی آنکھیں بند ہو گئیں۔ محترمہ فاطمہ جناح اپنی کتاب ’میرا بھائی‘ میں لکھتی ہیں کہ میں ساتھ کھڑی ہو گئی، نیم بے ہوشی میں ان کے ٹوٹتے الفاظ سن سکتی تھی۔ ’کشمیر۔ ۔ ۔ انہیں۔ ۔ ۔ فیصلہ کرنے کا۔ ۔ ۔ حق دو۔ ۔ ۔ آئین۔ ۔ ۔ میں اسے۔ ۔ جلد ہی۔ ۔ مکمل کروں گا۔ ۔ مہاجرین۔ ۔ ۔ ان کی۔ ۔ ہر ممکن۔ ۔ ۔ امداد۔ ۔ دیجیے۔ ۔ ۔ پاکستان۔ ۔ ۔ ۔ ۔‘
یہ قائد کا آخری پیغام تھا، اس کے بعد کراچی کے ہسپتال میں 11 ستمبر کو ان کی زبان سے کلمہ طیبہ نکلا اور ان کا سر ایک جانب ڈھلک گیا۔
ہسپتال پہنچنے سے پہلے جب ان کی ایمبولینس راستے میں کھڑی ہو گئی تو فاطمہ جناح لکھتی ہیں کہ دوسری ایمبولینس آنے میں سڑک پر ایک گھنٹہ انتظار کرنا پڑا انہوں نے میری طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا تو میں نے کہا کہ ’ایمبولینس خراب ہو گئی ہے۔‘
ایمبولینس کیوں خراب ہوئی؟ قائداعظم کے علاج معالجے میں کیا کیا غلطیاں ہوئیں؟ انہیں بیرون ملک کیوں نہیں لے جایا گیا؟ لیاقت علی خان سے ملاقات کے بعد وہ اتنے مایوس کیوں ہو گئے تھے کہ انہوں نے اپنی بہن سے یہ کیوں کہا تھا کہ اب وہ مزید زندہ نہیں رہنا چاہتے؟ اس موضوع پر گذشتہ سالوں میں بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔
قائداعظم اگر بانیِ پاکستان نہ ہوتے تو بھی مالی لحاظ سے وہ اتنے مستحکم تھے کہ اپنا علاج دنیا میں کہیں بھی کرا سکتے تھے۔ ان کے اثاثوں کی مالیت کا جائزہ اگر آج کے دور سے کیا جائے تو ان کی حیثیت دو ارب ڈالر سے زائد ہو سکتی ہے جو روپوں میں ساڑھے تین کھرب بنتی۔
معروف محقق اور نامور بیوروکریٹ ڈاکٹر سعد خان نے 2020 میں چھپنے والی اپنی کتاب ’محمد علی جناح، دولت، جائیداد، وصیت‘ میں قائداعظم کے اثاثوں کے متعلق بہت تفصیل سے لکھا ہے۔
وہ لکھتے ہیں کہ قائد اعظم نے اپنی وصیت 30 مئی 1939 کو لکھی تھی جو اسماعیلی مروجہ قانون کے تحت تھی۔ یہ قانون انہیں اپنی مرضی سے حصے متعین کرنے کی اجازت دیتا تھا۔
وصیت کے دو حصے تھے پہلا حصہ خاندان کے افراد سے متعلق ہے جبکہ دوسرا پاکستان اور بھارت کے کئی اداروں کے نام اپنی وراثت چھوڑتا ہے۔ اس کے بعد قائداعظم نو سال تک زندہ رہے۔ پاکستان بھی بن گیا مگر انہوں نے اپنے رشتہ داروں اور تعلیمی اداروں کے حصوں میں کوئی کمی بیشی نہیں کی۔
ان میں اسلامیہ کالج پشاور، سندھ مدرستہ الا سلام، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، انجمن ِاسلام سکول بمبئی، عریک کالج نئی دہلی اور یونیورسٹی آف بمبئی شامل تھے۔
محمد علی جناح سے قائد اعظم بننے کا سفر تو تاریخ میں بہت تفصیل سے بیان ہوا ہے مگر ایک عام انسان سے کھرب پتی بننے کی داستان سے کوئی واقف نہیں ہے۔
ڈاکٹر سعد خان اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ 1900 میں بطور پریزیڈنسی مجسٹریٹ ان کی تنخواہ 1500 روپے ماہانہ تھی مگر انہوں نے چھ ماہ کے اندر یہ کہہ کر استعفیٰ دے دیا تھا کہ اتنے پیسے وہ روزانہ کما لیا کریں گے۔
پھر وہ دن آ ہی گیا جب ان کا شمار ہندوستان کے مہنگے ترین وکلا میں کیا جاتا تھا۔ انہوں نے وکالت سے جو پیسے کمائے ان سے سرمایہ کاری کی۔ 1926 میں بمبئی ڈائنگ، ٹاٹا سٹیل اور ٹرام وے کمپنی میں ان کے حصص کی مالیت 14 لاکھ روپے تھی جو آج کی کرنسی کے حساب سے 68 کروڑ روپے بنتی ہے۔
اس عرصے میں قائد اعظم کا شمار ہندوستان کے چوٹی کے 10 سرمایہ کاروں میں ہونے لگا تھا۔ اسی سال جب وہ اپنی بیگم رتی جناح کے ساتھ چھٹیاں منانے سری نگر کی ڈل جھیل گئے تو وہاں بیگم جناح نے ایک ہفتہ گزارنے کے لیے تیرتی کشتی کی تزئین و آرائش پر 50 ہزار روپے خرچ کر دیے۔ اس زمانے میں اس رقم سے کراچی یا لاہور کے پوش ایریا میں چار کنال کا بنگلہ مل جاتا تھا۔
قائداعظم اس زمانے میں کراچی، بمبئی، دہلی اور لاہور میں پرائم لوکیشنز پر انتہائی قیمتی جائیدادوں کے مالک بھی تھے۔ انہوں نے سب سے پہلے جو جائیداد خریدی وہ بمبئی میں لٹل گبز روڈ پر واقع ایک بنگلہ تھا اس کے ساتھ چار منزلہ عمارت مے فیئر فلیٹ نامی تھی جس میں آٹھ فلیٹس تھے۔
یہ عمارت انہوں نے منو چہر رستم جی سے 33 لاکھ آٹھ ہزار میں خرید کر کرائے پر چڑھا دی جسے انہوں نے 1943 میں 10 لاکھ میں فروخت کر کے کراچی اور لاہور میں جائیدادیں خریدیں۔
بمبئی میں ساحل سمندر پر 15 ہزار 476 مربع گز پر ایک شاندار بنگلہ جو ساؤتھ کورٹ کہلاتا تھا انہوں نے 1916 میں سر آدم جی سے سوا لاکھ روپے میں خریدا تھا۔ جسے انہوں نے 1918 میں اپنی شادی کے موقع پر اپنی اہلیہ رتی جناح کو تحفہ میں دے دیا تھا۔
1936 میں انہوں نے پرانی عمارت کو گرا کر ایک اطالوی کمپنی کے ذریعے عالیشان بنگلہ بنوایا جس پر اس زمانے میں سوا دو لاکھ روپے لاگت آئی تھی اور یہ سوا تین سال میں مکمل ہوا تھا۔
اس مکان میں 22 ملازمین ان کی خدمات پر معمور تھے۔ مئی 1947 میں عراقی قونصل خانہ نے اسے 18 لاکھ میں خریدنے کی پیشکش کی تاہم قائداعظم اس کے 25 لاکھ مانگ رہے تھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یہ جائیداد جو جناح ہاؤس کہلاتی ہے اُس وقت سے مقفل ہے اور پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک سفارتی تنازعے کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ تین سال پہلے اس کی قیمت کا تخمینہ 40 کروڑ ڈالرز لگایا گیا تھا۔
جناح منزل دہلی قائداعظم نے 1938 میں ایک لاکھ میں خریدی تھی جہاں ان کے 19 ملازمین بھی رہا کرتے تھے اس زمانے میں اس گھر کا ماہانہ خرچہ 10 ہزار روپے تھا۔
1947 میں قائداعظم نے جناح ہاؤس بھارت کے چوٹی کے صنعتکار اور ٹائمز آف انڈیا کے مالک کرشنا ڈالمیا کو تین لاکھ میں فروخت کر دیا تھا۔ اب یہ مکان ہالینڈ کے سفیر کی رہائش گاہ ہے جس کی موجودہ مالیت 12 کروڑ ڈالر ہے۔
اڑھائی ایکڑ پر محیط جناح منزل کراچی انہوں نے 1943 میں ایک لاکھ 80 ہزار روپے میں خریدی تھی۔ جو اب عجائب گھر میں تبدیل ہو چکی ہے جہاں قائد اعظم کے ذاتی استعمال کی اشیا رکھی ہوئی ہیں۔
جب قائداعظم نے کراچی کا جناح ہاؤس خریدا اسی دوران انہوں نے جناح ہاؤس لاہور بھی خریدا۔ مال روڈ پر پونے پانچ ایکڑ پر محیط 53 نمبر بنگلہ ایک لاکھ 62 ہزار 500 روپے میں خریدا اور یہ سودا قائداعظم کی جانب سے جسٹس فائز عیسی کے والد قاضی محمد عیسی نے کیا تھا۔
اب یہ کور کمانڈر ہاؤس ہے۔
لاہور میں ہی قائداعظم نے 1945 میں نواب افتخار ممدوٹ سے اچھرہ میں 324 کنال اراضی خریدی تھی۔ اس راضی پر آج کل گلبرگ ٹو اور تھری ہے۔
اس کے علاوہ ان کے پاس لبرٹی مارکیٹ میں ڈیڑھ کنال کا کمرشل پلاٹ، انڈسٹریل ایریا میں 10 کنال کا پلاٹ تھا۔ کراچی میں بھی قائداعظم نے ملیر میں 12 ایکٹر کا باغ نواب آف بہاولپور سے خریدا تھا۔
قائداعظم نے کیماڑی میں ساحل سمندر پر 20 ایکڑ خرید کر اس میں ہٹ بنوایا۔ یہ جگہ محترمہ فاطمہ جناح کی وفات کے بعد ایک کروڑ 11 لاکھ میں فروخت کر کے رقم قائداعظم ٹرسٹ میں جمع کرا دی گئی۔
آئی آئی چندریگر روڈ پر تقریباً چار کنال پر ایک کمرشل پلازہ بھی انہوں نے خریدا تھا جسے بعد میں محترمہ فاطمہ جناح نے دادا بھائی کو فروخت کر دیا تھا۔
اپنی وفات سے 15 دن پہلے بھی انہوں نے میکلوڈ روڈ موجودہ آئی آئی چندریگر روڈ پر ایک کمرشل بلڈنگ 10 لاکھ روپے میں خریدی تھی۔ یہ بلڈنگ ایک سال بعد محترمہ فاطمہ جناح نے ایک بینک کو 16 لاکھ روپے میں فروخت کر دی جس میں آج سٹینڈرڈ چارٹرڈ بنک قائم ہے۔
فریئر ٹاؤن کراچی میں 10 کنال کا ایک بنگلہ بھی قائد کی ممکنہ جائیدادوں میں سے ہے جہاں آج کل پارک ٹاور نامی پلازہ ہے۔ اسی فہرست میں سول لائن نمبر ایک میں نو کنال کا بنگلہ بھی آتا ہے۔
قائداعظم نے 36 برس کی عمر میں ہی مختلف کمپنیز کے حصص خریدنے شروع کر دیے تھے۔ انہوں نے سمپلیکس مل میں ایک لاکھ 25 ہزار کی سرمایہ کاری کی۔ آپ ا س مل کے تیسرے بڑے شیئر ہولڈر تھے۔
1927 تک آپ 11 بڑی کمپنیز کے حصص کے مالک بن چکے تھے۔ جہاں سے آپ کو سالانہ اچھ خاصی رقم بطور منافع مل رہی تھی۔ 1943 سے 1945 کے درمیان آپ نے مختلف صنعتوں میں 8 لاکھ سے زائد کی سرمایہ کاری کی۔
بمبئی میں واقع قائداعظم کے عظیم الشان بنگلہ ساؤتھ کورٹ کو جب بھارتی حکومت پاکستان کے حوالے کرنے پر تیار نہ ہوئی تو حکومت نے محترمہ فاطمہ جناح کو اس کے بدلے میں متروکہ جائیداد مہٹہ پیلس الاٹ کر دیا۔ 1999 سے اسے عجائب گھر میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔
قائداعظم کے 12 بینک اکاؤنٹ بھی تھے جن میں چار برطانیہ میں تھے۔ تقسیم کے بعد انہوں نے اپنے تمام کھاتے حبیب بینک کراچی میں منتقل کردیے جن کی مالیت اس وقت 62 لاکھ تھی۔
2 فروری 1948 کو آپ نے بینک سے 61 لاکھ قرضہ حاصل کیا جس میں سے 35 لاکھ 35 ہزار مسلم لیگ کے حوالے کر دیے۔
4 اگست کو انہوں نے خرابی صحت کی بنا پر بینک سے قرضے کی منسوخی استدعا کی اور نہ صرف پورے 61 لاکھ واپس کر دیے بلکہ بینک نے ایک لاکھ سات ہزار 658 روپے 12 آنے کا سود بھی وصول کیا۔
قائداعظم کی بطور گورنر جنرل ماہانہ تنخواہ 10 ہزار 476 روپے 10 آنہ مقرر ہوئی تھی جس میں سے چھ ہزار 112 روپے ٹیکس کٹوتی کے بعد آپ کو 4304 روپے 10 آنہ ملتے تھے۔