ہمارا ہمسایہ ملک چین پچھلے آٹھ سال سے دنیا کی سب سے بڑی آن لائن ریٹیل مارکیٹ ہے۔ چین میں آن لائن خرید و فروخت کرنا انتہائی آسان ہے۔ وہاں لوگ سوئی سے لے کر گھر تک آن لائن ہی خریدتے اور بیچتے ہیں۔
میں بھی وہاں رہتے ہوئے اپنی ضرورت کی ہر چیز آن لائن ہی منگواتی تھی۔
چین میں بازار سے جا کر چیزیں خریدنا مہنگا پڑتا ہے۔ جو چیز بازار میں پانچ سو یوآن کی ہو، آن لائن ڈیڑھ سو یوآن میں مل جاتی ہے۔
شروع میں مجھے دھوکے کا ڈر رہتا تھا۔ آہستہ آہستہ وہ ڈر دور ہو گیا۔ نہ کبھی پیسے ادھر ادھر ہوئے۔ نہ کبھی چیز خراب آئی۔ نہ کبھی دکاندار نے دھوکہ دیا۔ پھر میں نے آن لائن ہی خریداری شروع کر دی۔
پاکستان آ کر بھی وہی عادت برقرار ہے لیکن یہاں ای کامرس کا برا حال ہے۔ کچھ سال پہلے تک مجھے اپنے بنک فون کر کے آن لائن رقم کی ادائیگی کے لیے سیشن آن کروانا پڑتا تھا۔ اس کی علیحدہ فیس ہوتی تھی۔
میرا بنک مجھ سے پوچھتا تھا کہ میں کب اور کتنے پیسے خرچنا چاہتی ہوں۔ وہ اسی وقت کے لیے اتنے ہی پیسوں کا سیشن آن کرتے تھے۔ میں نہ اس سے زیادہ پیسے خرچ کر سکتی تھی اور نہ اس وقت سے پہلے یا بعد میں پیسے خرچ کر سکتی تھی۔
اب یہ سلسلہ ختم ہو چکا ہے۔ اب مجھے ادائیگی کرتے ہوئے اپنے فون یا ای میل پر موصول ہونے والا کوڈ لکھنا پڑتا ہے۔ پھر ادائیگی ہو جاتی ہے۔
کبھی کبھار اس میں بھی مسئلہ آ جاتا ہے۔ اس صورت میں مجھے مجبوراً کیش آن ڈیلیوری کی آپشن پر کلک کرنا پڑتا ہے جو پاکستان میں آن لائن خریداری کے لیے سب سے زیادہ استعمال ہونے والا آپشن ہے۔
رقم کی ادائیگی کے بعد بھی ذہن پر ٹینشن سوار رہتی ہے۔ کہیں آرڈر کینسل نہ ہو جائے یا آرڈر کی گئی چیز خراب نہ نکل آئے۔
کچھ ہفتے قبل کافی تحقیق کے بعد ایک نامور برانڈ کے آن لائن سٹور سے ان کا سب سے مہنگا بلینڈر خریدا۔ امید تھی کہ اچھا ہو گا۔ دو دن بعد بلینڈر آ گیا۔ ڈبے سے نکال کر رکھ دیا۔ اگلے روز چلانے کی کوشش کی تو وہ نہیں چلا۔
کمپنی کے کسٹمر سروس سینٹر فون کر کے معاملہ بتایا۔ انہوں نے کہا آپ اسے ہمارے قریبی سروس سینٹر لے جائیں۔
میں نے کہا، ’لے تو جاؤں گی لیکن مجھے آپ کے اپنے سٹور سے آن لائن خریداری کرنے کا کیا فائدہ ہوا؟‘
پاکستان میں آن لائن سٹورز کے مقابلے میں بازار سے اشیا بہتر اور سستی ملتی ہیں۔ اگرچہ پاکستان میں ای کامرس کی صنعت تیزی کے ساتھ ترقی کر رہی ہے لیکن اس سے جڑے بہت سے مسائل ابھی بھی حل ہونا باقی ہیں۔
خاص طور پر ایسے مسائل جو ایک عام انسان کو آن لائن خرید و فروخت کے دوران پیش آتے ہیں۔
ان میں سب سے بڑا مسئلہ لوگوں کا ای کامرس پلیٹ فارمز پر بھروسے کا نہ ہونا ہے۔ بہت سے لوگ تھوڑے سے پیسے زیادہ خرچ کر کے بازار سے چیز خریدنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ انہیں یقین ہے کہ آن لائن خریدی جانے والی چیز خراب ہی نکلے گی۔ بازار سے جا کر خریدنے کی صورت میں دکاندار اس کی ذمہ داری لے گا۔ آن لائن خریداری کی صورت میں وہ چیز گاہک ہی کے گلے پڑے گی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
چین میں آن لائن خریداری کے دوران صارفین کے ذہنوں میں ایسی سوچ بھی نہیں آتی۔ میں نے چین میں اپنے قیام کے دوران آن لائن سونے کے زیورات بھی خریدے تھے۔ یہاں میں ایسا کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتی۔
ایک بار میں نے ایک سٹور سے سوٹ کیس منگوایا تھا۔ وہ ڈیلیوری کے دوران ایک طرف سے پچک گیا تھا۔ مجھے ڈیلیوری والے نے اس کی حالت دکھائی اور اسے قبول نہ کرنے کا مشورہ دیا۔
میں نے پوچھا، ’کیا دکاندار اس کی ذمہ داری لے گا؟‘
اس نے کہا، ’بالکل لے گا۔ اسے یہ سوٹ کیس صحیح حالت میں یہاں پہنچانا چاہیے۔‘
آپ اسے قبول کرنے سےانکار کر دیں۔ یہ واپس جائے گا۔ پھر آپ چاہیں تو اپنی ادا کی ہوئی رقم واپس لے لیں یا نیا سوٹ کیس آرڈر کر دیں۔
میں نے نیا سوٹ کیس آرڈر کر دیا۔ وہ کچھ ہی دن میں صحیح سلامت ڈیلیور ہو گیا۔
یہاں دکان سے خریدی ہوئی چیز دکان سے باہر نکلتے ہی خراب ہو جائے تو دکاندار اس کی بھی گارنٹی نہیں لیتے۔
چین میں رقم کی ادائیگی بھی بے حد آسان ہے۔ چین میں لوگ موبائل فون سے رقم کی ادائیگی کرتے ہیں۔
لوگ اپنا بنک اکاؤنٹ وی چیٹ پے یا علی پے کے ساتھ منسلک کر لیتے ہیں۔اس کے بعد رقم کی ادائیگی موبائل فون کی سکرین پر ایک ٹیپ برابر رہ جاتی ہے۔
پاکستان کو ای کامرس میں مزید آگے بڑھنے کے لیے چین کی طرح اقدامات کرنے ہوں گے۔ لوگوں کو رقم کی ادائیگی کا آسان ترین آپشن مہیا کرنا پڑے گا۔ ان کا ای کامرس پلیٹ فارمز پر بھروسہ قائم کرنا پڑے گا۔ ساتھ ہی ساتھ انہیں آن لائن خرید و فروخت پر رعایت دینی ہو گی۔
اس کے علاوہ ملک کے ہر حصے میں تیز رفتار انٹرنیٹ کی فراہمی بھی یقینی بنانی ہو گی تاکہ لوگ آسانی سے آن لائن خرید و فروخت کر سکیں۔
یہ ایک لمبا سفر ہے۔ شروع ہو گا تو طے بھی ہو ہی جائے گا۔