منشیات اور غلامی کا شکار پاکستان کے بےگھر بچے

پاکستان کے اندر مبینہ طور پر ڈیڑھ لاکھ بےگھر بچے (سٹریٹ چلڈرن) پائے جاتے ہیں اور یونیسیف کے مطابق وہ کئی طرح کے استحصال، تشدد اور سمگلنگ کا نشانہ بنتے ہیں۔

پانچ سالہ ثانیہ اپنے خاندان کی مدد کے لیے روزانہ سات گھنٹے کام کرتی ہیں (پیڈی ڈاؤلنگ)

دریائے راوی کے کنارے ایک عارضی پناہ گاہ میں رہنے والی 13 سالہ فاطمہ بتاتی ہیں، ’مجھے بہت فکر ہے کہ میرے چھوٹے بہن بھائیوں میں سے کوئی اغوا ہو جائے گا۔ بےگھر بچے بعض اوقات ریپ کا شکار بنتے ہیں، انہیں قتل کیا جاتا ہے اور ان کی لاشیں شہر میں کوڑے کے ڈھیروں پر پھینک دی جاتی ہیں۔‘

10 افراد پر مشتمل اپنے خاندان کی کفالت میں معاونت کے لیے فاطمہ کو محض سات سال کی عمر میں سڑکوں پر آنا پڑا۔ وہ اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہتی ہیں، ’میں شام چھ بجے سے سڑکوں پر پھول بیچنا شروع کرتی ہوں اور صبح تین بجے کے قریب یا جس وقت شدید سردی ہو جائے، گھر واپس آتی ہوں۔ کئی ایسے مواقع آئے جب مجھے اپنی زندگی خطرے میں محسوس ہوئی اور کئی مرتبہ مردوں نے مجھے زبردستی اپنے ساتھ لے جانے کی کوشش کی۔‘

ایسے بے گھر بچوں کی مدد کے لیے ریاست کی طرف سے ایک ادارہ چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر بیورو موجود ہے جس کا مرکزی دفتر لاہور میں ہے۔ بیورو کی چیئرپرسن سارہ احمد کہتی ہیں، ’ہمارا مشن بے سہارا، نظر انداز، بدسلوکی کا شکار اور بھاگے ہوئے بچوں کے لیے ایک محفوظ پناہ گاہ فراہم کرنا ہے تاکہ وہ معاشرے کے مفید اور کارآمد ارکان میں تبدیل ہو سکیں۔             

’کرونا کی وبائی کے دوران بہت سے خاندان اپنے ذرائع آمدن سے محروم ہو گئے اور ہم نے سڑکوں پر بھیک مانگنے پر مجبور بچوں کی تعداد میں اضافہ دیکھا۔ ہماری اگست 2021 میں شروع کی گئی انسداد گداگری مہم نے ایک ہی دن میں سینکڑوں بچوں کو محفوظ بنایا۔‘

لیکن فاطمہ کے والد احمد بتاتے ہیں کہ ’ہمارا سب سے بڑا خوف خود چائلڈ پروٹیکشن ویلفیئر بیورو ہے۔ وہ ہمارے بچوں کو سڑکوں سے لے جا رہے ہیں جو ایسے ہے جیسے وہ بطور خاندان ہم سے ہماری روزی روٹی چھین رہے ہوں۔ ہمارے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے کہ ہم اپنے بچوں کو سڑکوں پر بھیج کر اپنی گزر بسر کریں۔‘

نیک نیتی کے باوجود بےگھر بچوں کی پکڑ دھکڑ نے کئی دیگر مسائل کا باب کھول دیا ہے جس میں ایک یہ ہے کہ وہ والدین جن کے پاس کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی دستاویزات نہیں وہ اپنے بچوں کو دوبارہ حاصل کرنے کے لیے اپنی جگہ ایسے رشتہ داروں، دوستوں یا یہاں تک کہ اجنبیوں کو بھیجنے پر مجبور ہیں جن کے پاس یہ دستاویزات ہوں۔

آٹھ سالہ رحیمیہ اپنے دوستوں کے ساتھ ایک صاف ستھرے کلاس روم میں ہونٹوں پر مسکراہٹ سجائے بیٹھی انگریزی حروف تہجی کو اپنے استاد کے پیچھے دہرا رہی ہے۔ وہ بتاتی ہے، ’میری زندگی میں یہ پہلی بار ہے کہ میں کلاس روم میں ہوں۔ اس مرکز میں آنا میرے دن کی سب سے خاص بات ہے۔ اگر یہ مرکز یہاں نہ ہوتا تو میں سارا دن یا تو اپنے پانچ بھائیوں اور دو بہنوں کی دیکھ بھال میں گزارتی یا اپنے والدین کی مدد کے لیے سڑکوں پر بھیک مانگتی۔‘

لاہور کی کچی آبادی میں واقع یہ مرکز ایک برطانوی این جی او اور ان کے مقامی معاونین کے باہمی اشتراک سے چل رہی ہے۔

یہ سہولت لاہور کے غریب ترین علاقوں میں سب سے پسماندہ بچوں کو غیر رسمی تعلیم کے ایک تیز رفتار پروگرام کے ساتھ ساتھ انہیں حکومت کے ساتھ باضابطہ طور پر رجسٹر کروانے میں مدد فراہم کرتی ہے جس سے وہ بچے مستقبل میں مرکزی دھارے کی رسمی تعلیم میں شامل ہو سکیں گے۔

یہ این جی او شاہدرہ اور دریائے راوی کے علاقوں میں واقع دو سکولوں کو فنڈ فراہم کرتی ہے۔ اس مرکز کے پروجیکٹ آفیسر بتاتے ہیں کہ ’اگر کوئی بچہ محض ایک دن بھی سکول سے غیر حاضر ہو تو ہماری آؤٹ ریچ ٹیم اس بات کو یقینی بنانے کے لیے گھر کا دورہ کرے گی کہ بچے کو خطرہ تو نہیں یا اسے غائب تو نہیں کر دیا گیا۔‘

مقامی شراکت دار بتاتے ہیں کہ ’بے گھر بچوں کی زندگیوں کو بہتر بنانے کے لیے ہمیں وہ سب کچھ کرنا ہو گا جس کی ہم میں استطاعت ہے۔‘ برطانوی خیراتی ادارے اور اس کے شراکت داروں نے اپنا نام خفیہ رکھنے کی درخواست کی ہے تاکہ ان کا کام متاثر نہ ہو۔

’اشتراک باہمی سے چلنے والا یہ ادارہ انتہائی پسماندہ زندگی گزارنے والے خاندانوں کی مجبوریاں سمجھتا ہے اور یہ اس حد تک شدید ہیں کہ کچھ خاندانوں کے پاس اس کے سوا کوئی راستہ نہیں ہوتا کہ اپنے بچوں کو چائلڈ لیبر بننے پر مجبور کریں۔ لہٰذا ہم ایسے بچوں کے والدین اور انہیں ملازمت پر رکھنے والوں کے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں تاکہ وہ انہیں کلاس میں جانے کی اجازت دیں۔‘

 11 سالہ عبدل ایک میٹل شاپ میں محض 300 روپے کے عوض بطور اپرنٹس ویلڈر ہفتے میں چھ دن کام کرتا ہے۔ اس ادارے نے اس کے صاحب سے رابطہ کیا اور غیر رسمی تعلیم کے لیے دن میں دو گھنٹے کی چھٹی کی بات کی۔

جنوب مشرقی ایشیا میں چائلڈ لیبر کا مسئلہ صرف پاکستان تک محدود نہیں جہاں تقریباً 34 لاکھ بچے (پانچ سے 17 سال کی عمر کے) مزدوری کرتے ہیں۔ مبینہ طور پر انڈیا میں ایسے بچوں کی تعداد 58 لاکھ اور بنگلہ دیش میں 50 لاکھ ہے۔

 مشترکہ تعاون سے چلنے والا یہ ادارہ اس کے علاوہ نوجوانوں کے لیے پیشہ ورانہ تربیت، نفسیاتی معاونت، طبی دیکھ بھال اور انہیں سکولوں میں بھیجنے کے منصوبوں کے لیے مالی امداد فراہم کرتا ہے۔

اس میں منشیات کے غلط استعمال کی نشاندہی کرنا بھی شامل ہے۔ چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر بیورو کے میڈیکل آفیسر ڈاکٹر احمد ندیم بتاتے ہیں کہ ’بلاشبہ ہم معمولی سے لے کر شدید منشیات کے استعمال سے گزر کر آنے والے بےگھر بچوں کی تعداد میں خطرناک حد تک اضافہ دیکھ رہے ہیں۔ دس سال کی عمر کے بچوں کا ہیروئن کا ٹیکہ لگانا اب کوئی غیر معمولی بات نہیں رہی۔‘

اپنا نام پوشیدہ رکھنے کا خواہشمند ایک 14 سالہ نشے کا عادی لڑکا شہر کے وسط میں ایک خشک نہر کے اندر ہیروئن نوشی میں مشغول ہے۔ وہ کہتا ہے ’میں نے سکول چھوڑ دیا ہے اور میرے پاس کرنے کو کچھ نہیں۔ اپنے ساتھیوں کے دباؤ پر میں نے نو سال کی عمر میں منشیات کا استعمال شروع کر دیا۔ مجھے منشیات ترک کرنا اچھا لگے گا لیکن اس سلسلے میں ہماری مدد کا کوئی بندوبست نہیں۔‘

لاہور میں سماجی امور کی وزارت کے ایک نمائندہ بتاتے ہیں کہ ’ہاں آپ کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان میں افیون وبا کی طرح پھیلی ہوئی ہے۔ اس میں بہت سے لوگ نیٹ ورک کی صورت میں ملوث ہیں اور ہماری مرکزی حکومت انسداد منشیات کے محکمے کے ساتھ مل کر اس کی فراہمی روکنے کے لیے پرعزم ہے۔‘

ایک نجی بحالی کلینک کے ہیڈ فزیشن ڈاکٹر نور زمان رفیق کہتے ہیں کہ ’پاکستان میں منشیات کی لت کا مسئلہ بہت حقیقی ہے۔ ہمارے یہاں پنجاب میں پورے کے پورے خاندان ہیروئن کا ٹیکہ لگا رہے ہیں۔ لاہور میں ایک اندازے کے مطابق 80 ہزار ایسے افراد موجود ہیں جو نشہ آور اشیا استعمال کرتے ہیں اور ابھی تک ریاست کی جانب سے فراہم کیا جانے والا تعاون انتہائی ناکافی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

 میں مستقبل کے لیے پرامید ہوں۔ تاہم جب تک یہ مدد دستیاب نہیں ہوتی بہت کم خاندان چھ ماہ کی بحالی کے متحمل ہو سکتے ہیں جس کی لاگت پونے چار لاکھ روپے ہے۔‘

پانچ سال سے کم عمر کے صرف 34 فیصد بچے ایسے ہیں جن کا نام پیدائش کے وقت قومی اندراج میں رجسٹرڈ کروایا گیا اور اس وجہ سے وہ اپنے عمومی حقوق سے محروم ہیں۔ انہیں جن معاشی مشکلات کا سامنا ہے ان کی موجودگی میں وہ معاشرے کے دام میں پھنستے رہیں گے، ہر طرح کے ممکنہ استحصال کے سامنے بے بس جس کا تصور کیا جا سکتا ہے۔

 ایک زیادہ جامع تعلیمی نظام بنانے کی حکومتی کوششوں کے باوجود ایک اندازے کے مطابق آج بھی پاکستان میں دو کروڑ 28 لاکھ بچے بچے سکولوں سے باہر ہیں جو کہ دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے۔ کلاس روم میں پہنچنے والا بچہ محروم رہ جانے والے بچے کی نسبت کم نشانہ بنتا ہے۔

13 سالہ علینہ بتاتی ہے کہ ’میرا خواب پڑھنا ہے، بس اس کے سوا کچھ نہیں۔ میری والدہ کے انتقال کے بعد مجھے کل وقتی سکول کی تعلیم چھوڑنے پر مجبور کیا گیا اور جب میرے والد کام پر ہوتے تو میں پیچھے گھر کی ذمہ داریاں سنبھالتی۔ اگر یہ اسکول یہاں نہ ہوتا تو میرے پاس نہ تعلیم ہوتی اور نہ کوئی خواب۔‘

اس وقت متحرک معاون ایجنسیاں اور غیر سرکاری تنظیمیں پسماندہ افراد کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے پاکستانی حکام کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لیے پرعزم ہیں، تاہم پاکستان میں خیراتی ادارے کے طور پر کام کرنا بہت آسان نہیں۔

2018 میں حکومت نے 18 بین الاقوامی معاون گروہوں کو ملک سے نکال دیا تھا۔ امدادی کارکنوں کے مطابق یہ اخراج اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ انسانی حقوق پر مبنی تنظیموں کے لیے مشکلات ہیں، جو صحت کی دیکھ بھال، تعلیم اور خوراک کی امداد فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ خواتین کے حقوق اور آزادی اظہار کے مسائل پر کام کرتی ہیں۔

* جن افراد کا اوپر ذکر کیا گیا ان کے تحفظ کے پیش نظر سب کے نام اور عمریں تبدیل کر دی گئی ہیں۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نئی نسل