سی ایس ایس نتائج میں تاخیر: امیدواروں کو وقت، وسائل ضائع ہونے کی شکایت

طلبہ کو شکایت ہے کہ پچھلے امتحان کے نتائج جاری کیے بغیر نئے امتحان منعقد کروانا ان کے حقوق کی خلاف ورزی ہے۔

لاہور میں نو فروری 2025 کو سی ایس ایس کے نتائج میں تاخیر کے خلاف احتجاج (سی ایس ایس ایسپائرنٹ فیس بک پیج)

بیرون ملک مقیم 29 سالہ عمارہ خان نے گذشتہ سال پاکستان کا سب سے بڑا مقابلے کا امتحان (سی ایس ایس) دیا تھا۔ تاہم پوزیشن بہتر بنانے کی غرض سے وہ اس سال دوبارہ قسمت آزمانا چاہتی تھیں۔ 

اسی غرض سے وہ کچھ عرصہ قبل وطن لوٹیں، جہاں انہیں خبر ملی کہ ابھی 2024 کے امتحان کا نتیجہ نہیں آیا لیکن اس کے بغیر ہی 2025 کے امتحانات ہونے جا رہے ہیں۔

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں عمارہ کا کہنا تھا کہ ’جو امتحان میں دے چکی ہوں ان کے نتائج دیکھے بغیر میں کیسے 2025 کے امتحانات میں بیٹھ سکتی ہوں؟‘

انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ معلوم ہوئے بغیر کہ گذشتہ امتحانات میں میں نے کون سا مضمون پاس یا فیل کیا یا کس میں کتنے نمبر ہیں میں کیسے پوزیشن بہتر بنانے کے لیے نئے امتحانات میں بیٹھ سکتی ہوں؟‘

عمارہ خان ہزاروں پاکستانی نوجوانوں میں سے ایک ہیں، جنہوں نے 2024 میں سی ایس ایس کے امتحانات دیے تھے اور سال رواں کے دوران دوبارہ ایسا کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

فیڈرل پبلک سروس کمیشن آف پاکستان (ایف پی ایس سی) ہر سال سی ایس ایس کے امتحانات کا اہتمام کرتی ہے، جس میں ہزاروں لڑکے اور لڑکیاں شرکت کرتے ہیں۔ 

تاہم اس مرتبہ کمیشن نے ایک انوکھا کام کیا اور فروری 2024 میں ہونے والے سی ایس ایس امتحانات کے نتائج کے اعلان کو مؤخر کر دیا، جب کہ سال رواں (2025) کے امتحانات چند روز قبل شروع ہو چکے ہیں۔ 

اس صورت حال میں 2024 میں مقابلے کے امتحان میں بیٹھنے والے نوجوانوں کو کچھ اہم فیصلے کرنے میں مسائل کا سامنا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اکثر نوجوان سی ایس ایس کے تحریری امتحانات میں ناکامی کی صورت میں اگلی مرتبہ گذشتہ نتائج کی روشنی میں پھر سے تیاری کرتے ہیں۔ 

اسلام آباد کے رہائشی اعتزاز حسین نے، جو اس سال سی ایس ایس کے تحریری امتحانات میں بیٹھ رہے ہیں، انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’جب طلبہ ایک سال امتحان دینے کے بعد کسی بھی وجہ سے پاس نہیں کر پاتے تو وہ بعد ازاں ان مضامین میں محنت کرتے ہیں جن میں وہ کم نمبر حاصل کرتے ہیں تاکہ اگلی مرتبہ بہتر نمبر لے سکیں۔ لیکن اس سال کے امتحانوں میں ایسا نہیں ہو پایا۔‘ 

عمارہ خان کے مطابق سی ایس ایس امتحانات کے نتائج میں تاخیر سے ان سمیت سینکڑوں طلبہ کو 2025 میں اختیاری مضامین کے انتخاب میں مسائل کا سامنا رہا۔ 

سی ایس ایس میں چھ لازمی مضامین کے علاوہ چھ اختیاری مضامین کے امتحانات ہوتے ہیں جنہیں طلبہ ٹرینڈ، گذشتہ امتحانات میں سکورنگ ٹرینڈ یا اپنی پسندیدگی کے حساب سے چنتے ہیں۔

سی ایس ایس امتحان کے لیے اہل ہونے کے لیے قواعد و ضوابط کے مطابق کم از کم گریجویشن لیول کی تعلیم اور 21 سے 30 سال تک کی عمر ہونا ضروری ہے، جبکہ ہر امیدوار تین مرتبہ یہ امتحان دے سکتا ہے۔

تیاری کے علاوہ عمارہ خان نے عمر کے ممکنہ مسئلے کی نشاندہی کی، جو کئی ایک امیدواروں کو درپیش ہو سکتا ہے۔

عمارہ خان نے سوال اٹھایا کہ ایسے امیدوار کیا کریں گے جن کی اکتوبر کے بعد عمر 30 سال ہو چکی ہو گی؟ کیونکہ ایف پی ایس سی نے تحریری امتحانات کے لیے زیادہ سے زیادہ عمر کی حد 30 سال مقرر کر رکھی ہے۔ 

عمارہ کے مطابق امتحانات منعقد ہونے سے متعلق مختلف تاریخوں سے خبروں کے دوران آخری مرتبہ سی ایس ایس کا امتحان دینے والے کئی طلبہ صحیح طریقہ سے تیاری بھی نہیں کر پائے۔ 

’ان میں ایسے طلبہ بھی ہیں جو کہیں نوکری نہیں کر رہے ہوتے۔ ان کے لیے یہ نقصان دہ بات ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ 14 فروری تک کئی طلبہ ایف پی ایس سی کے اس اقدام کی خلاف احتجاج کر رہے تھے تو اگلے ہی روز وہ کیسے ذہنی سکون کے ساتھ امتحان دے سکتے تھے؟ 

ان کا کہنا تھا کہ ’اس امتحان کے لیے کئی طلبہ نے اپنے کیریئر کو تعطل پر رکھا ہوتا ہے اور ان کی نوکریاں اس سے اثر انداز ہوتی ہیں۔ 

’ایسے میں جب امتحان سے متعلق حتمی تاریخ کا اعلان تین چار روز قبل ہو تو کئی طلبہ پاکستان کے دیگر علاقوں سے اور دیگر ممالک میں قائم سینٹرز تک کیسے پہنچ سکتے ہیں؟‘

سارہ خان پیشے کے اعتبار سے ایک سول سرونٹ ہیں اور طلبہ کو سی ایس ایس کے تحریری امتحانات کی تیاری بھی کرواتی ہیں۔  

ان کے خیال میں نتائج کی تاخیر سے ان طلبہ کے ساتھ ناانصافی ہوئی ہے جن کی آخری کوشش باقی تھی۔ ’ان کی عمر 30 سال تھی یا جو گذشتہ امتحان میں فیل ہو چکے ہیں۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ عمومی طور پر سی ایس ایس کے امتحان کا نتیجہ ہر سال ستمبر تک آ جاتا ہے۔ امتحان کی تیاری کروانے والے اداروں نے بھی یہی بتایا ہوا تھا کہ تب تک نتیجہ آ جائے گا، اور ہوتا بھی ایسا ہے کہ پچھلے امتحان کے نتیجہ کو دیکھ کر اگلے امتحان کی تیاری کی جاتی ہے تاکہ وہی غلطیاں دوبارہ نہ ہوں یا مضمون تبدیل کر لیں۔ 

’اس طرح طلبہ کے پاس ایک سے دو مضمامین تبدیل کرنے کا وقت ہوتا ہے۔‘

سارہ کے مطابق اس مرتبہ ایسا نہ ہونے سے طلبہ کی تیاری ضائع ہونے کا خطرہ ہے کیونکہ انہیں یہ معلوم نہیں ہو گا کہ کون سے مضمون کو انہیں رکھنا چاہیے تھا یا کس مضمون کا سکورنگ ٹرینڈ ہے۔ 

’ایک سال یا موقع ضائع ہونے کے علاوہ یہ اقدام ان طلبہ کے لیے بہت زیادہ پریشانی کا باعث ہو گا جن کی یہ آخری کوشش ہونا تھی۔‘

پاکستان کا سب سے مشکل امتحان؟

سی ایس ایس پاکستان میں سب سے زیادہ پروقار امتحان تصور کیا جاتا ہے اور ہر سال ہزاروں نوجوان بیوروکریسی کا حصہ بننے کے لیے اس میں سخت تیاری کے بعد حصہ لیتے ہیں اور بعد میں ملک کے اعلیٰ ترین سرکاری عہدوں پر فائز ہو جاتے ہیں۔

اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 2023 میں 15245 طلبہ نے سی ایس ایس کا امتحان دیا تھا جن میں سے 519 کامیاب ہوئے۔ ان کی کامیابی کا تناسب صرف 3.4 فیصد رہا۔ 

ابھی تک 2024 کے اعداد و شمار سامنے نہیں آئے۔

طلبہ، ان کے رشتے داروں اور سوشل میڈیا پر دستیاب بیانات سے معلوم ہوتا ہے کہ سی ایس ایس امتحان کے نتائج میں تاخیر کے نتیجے میں مندرجہ ذیل سنگین نتائج سامنے آ سکتے ہیں:

1. امیدواروں کے حقوق کی خلاف ورزی: امیدواروں کا یہ حق ہوتا ہے کہ وہ اپنے پچھلے امتحان کے نتائج کی بنیاد پر نئے امتحان کے لیے نئے سرے سے مضامین کا انتخاب کریں۔ اگر نتائج بروقت جاری نہیں ہوتے تو یہ ان کے حقوق کی خلاف ورزی ہے۔

2. ذہنی دباؤ: نتائج کی تاخیر سے امیدواروں میں ذہنی دباؤ بڑھ سکتا ہے، کیونکہ وہ اپنی کارکردگی کے بارے میں غیر یقینی صورت حال کا شکار ہوتے ہیں۔ یہ صورت حال ان کی تیاری اور اعتماد کو متاثر کر سکتی ہے۔

3. مستقبل کے مواقع: نئے امتحانات کا انعقاد بغیر پچھلے نتائج کے ممکنہ طور پر امیدواروں کے مستقبل کے مواقع کو متاثر کر سکتا ہے۔ اگر کوئی امیدوار پچھلے امتحان میں کامیاب ہوتا تو وہ نئے امتحانات میں بہتر تیاری کر سکتا تھا۔

4. نظام کی ناکامی: عدالت نے اس بات پر تشویش ظاہر کی کہ اگر نتائج جاری نہیں کیے جاتے تو یہ نظام کی ناکامی کو ظاہر کرتا ہے۔ اس سے عوامی اعتماد میں کمی آ سکتی ہے۔

5. تعلیمی منصوبہ بندی میں مشکلات: امیدواروں کو اپنی تعلیم اور پیشہ ورانہ منصوبہ بندی میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، کیونکہ وہ اپنے مستقبل کے بارے میں غیر یقینی صورتحال میں رہتے ہیں۔

معاملہ عدالت میں

ایف پی ایس سی کی جانب سے 2024 میں ہونے والے سی ایس ایس کے تحریری امتحانات کے نتائج مؤخر کرنے کے فیصلے کے خلاف کئی امیدواروں نے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے۔

چیئرمین ایف پی ایس سی چیئرمین لیفٹننٹ جنرل (ر) اختر نواز ستی نے لاہور ہائی کورٹ کے سامنے مؤقف اختیار کیا کہ امتحانات میں تاخیر کی وجہ ادارے پر کام کا دباؤ کے علاوہ گذشتہ برس سی ایس ایس کے سپیشل امتحانات کا انعقاد اور اس کے نتائج کی تیاری ہے۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے چیئرمین ایف پی ایس سی سے استفسار کیا کہ کیا نئے امتحانی سائیکل کے نتائج میں تاخیر کی کوئی مثال ہے؟ جس پر چئیرمین نے بتایا کہ ’ایسی صورت حال پہلے کبھی پیش نہیں آئی۔ تاہم یہ فیصلہ وقت پر امتحانات کے انعقاد کے وسیع تر مفاد میں کیا گیا ہے۔‘

چیئرمین نے کہا کہ شیڈولنگ کی وجہ سے امیدوار اپنے مواقع سے محروم نہیں ہوں گے جبکہ لاجسٹک انتظامات بھی ہو چکے ہیں، جن میں ملک بھر میں 88 امتحانی ہالز کی بکنگ ہونا بھی شامل ہے۔ 

چئیرمین ایف پی ایس سی نے کہا کہ اپریل کے آخری ہفتے میں سی ایس ایس 2024 کے تحریری امتحان کے نتائج کا اعلان کر دیا جائے گا۔ 

سماعت کے دوران ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال نے عدالت کو بتایا کہ قانون کے مطابق ایف پی ایس سی گذشتہ برس کے امتحان کے نتیجے کا اعلان کیے بغیر آئندہ برس کا امتحان منعقد کر سکتا ہے۔

بعد ازاں اسلام آباد ہائی کورٹ نے سی ایس ایس 2025 کے امتحانات ملتوی کرنے کی درخواست مسترد کر دی۔

امتحانات کا آغاز ہونے سے ٹھیک ایک روز قبل لاہور ہائی کورٹ میں سی ایس ایس 2024 کے نتائج جاری کیے بغیر 2025 کےامتحان کا شیڈول جاری کرنے کے خلاف درخواست دائر کی گئی جسے عدالت نے مسترد کر دیا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نئی نسل