’ڈرام‘ جو کہ الکوحل کی مقدار ناپنے کا پیمانہ ہے، ’ترم‘ جو ایک گھڑسوار دستے کو ظاہر کرتا ہے، اور ’ٹاؤپی‘ جس کا مطلب ناسمجھ نوجوان ہے— یہ الفاظ کسی عام نو عمر لڑکے کے ذخیرہ الفاظ کا حصہ نہیں ہوتے، مگر پاکستان کے 13 سالہ کھلاڑی بلال اشعر کے لیے یہ محض معمولی الفاظ ہیں۔ وہ دنیا کے انڈر-14 سکریبل چیمپئن ہیں۔
یہ الفاظوں کی جوڑ توڑ کا کھیل اگرچہ عام طور پر ایک پرانی طرز کا تصور کیا جاتا ہے، مگر پاکستان میں نوجوانوں میں یہ بے حد مقبول ہے۔
بین الاقوامی سکریبل مقابلوں میں پاکستان کے نوجوانوں کا سکہ چلتا ہے۔
پاکستان کے پاس نہ صرف اس وقت کا عالمی یوتھ چیمپئن ہے بلکہ 2006 میں اس ٹورنامنٹ کے آغاز سے لے کر اب تک سب سے زیادہ سابقہ فاتحین بھی پاکستان سے ہی تعلق رکھتے ہیں۔
پاکستانی نوجوان اب تک پانچ بار ان مقابلوں میں فتح یاب ہو چکے ہیں جو کہ کسی بھی ملک سے زیادہ ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یہاں کھلاڑی بے ترتیب حروف کی ٹائلز کے ذریعے الفاظ بناتے ہیں جو کراس ورڈ (پہیلی) کی طرح آپس میں جُڑے ہوتے ہیں۔
اس ساحلی شہر کے سکولوں میں پیشہ ور سکریبل کوچز کے ساتھ سیشن منعقد کیے جاتے ہیں اور بہترین کھلاڑیوں کو وظائف دیے جاتے ہیں۔ والدین بھی اپنے بچوں کو اس کھیل میں مہارت حاصل کرنے کے لیے ترغیب دیتے ہیں۔
16 سالہ عفان سلمان، جو گذشتہ سال سری لنکا میں عالمی یوتھ سکریبل چیمپئن بنے، نے کہا: ’یہ سب والدین کی دلچسپی کی بدولت ہے۔ والدین چاہتے ہیں کہ ان کے بچے تعمیری سرگرمیوں میں حصہ لیں، اور سکریبل ایک نہایت تعمیری کھیل ہے۔‘
کراچی کے ایک ہوٹل میں سکریبل—جو 1930 کی دہائی میں امریکہ کی عظیم کساد بازاری کے دوران ایک بے روزگار معمار نے ایجاد کی تھی —نوجوانوں کے لیے غیر رسمی طور پر مستقبل میں کامیابی کی تربیت کا ایک ذریعہ بن چکا ہے۔
پاکستان سکریبل ایسوسی ایشن کے یوتھ پروگرام کے ڈائریکٹر طارق پرویز نے کہا: ’سیکھنے کی بنیادی زبان انگریزی ہے، اس کھیل میں زبردست کشش ہے۔ طلب اتنی زیادہ ہے کہ ہمارے پاس اتنے وسائل نہیں کہ تمام بچوں کو موقع فراہم کر سکیں۔‘
کم عمر کھلاڑیوں کے لیے الفاظ کا ذخیرہ زیادہ آسان ہوتا ہے، جیسے ’کھلونا، شیر، جار، اوئنک۔‘
مگر پیشہ ور سکریبل کوچ وسیم کھتری 250,000 روپے ($880) ماہانہ کماتے ہیں—جو کم از کم تنخواہ سے تقریباً سات گنا زیادہ ہے—کیونکہ وہ کراچی کے تعلیمی نظام میں 6,000 کے قریب طلبہ کو سکریبل میں مہارت حاصل کرنے کی تربیت دیتے ہیں۔
36 سالہ کھتری نے کہا: ’پاکستانی انگریزی میں لوگ چیزوں کو زیادہ خوبصورت انداز میں، لمبے جملوں کے ذریعے اپنے جذبات کا اظہار کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔‘
انہوں نے کہا: ’ہم ان الفاظ کو سکریبل میں بھی استعمال کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مگر جب اشعر جیتے تو خوشی کے جذبات حاوی ہو گئے، اور وہ طویل الفاظ بھی یاد نہیں رہتے۔ میں اس خوشی کو بیان نہیں کر سکتا۔‘