محلاتی سازشیں، عہدوں پر اقربا پروری کا غلبہ، خوشامدی درباری جو بات بے بات پر زمین و آسمان کے قلابے ملا دیتے۔ وہ درباری جو حق اور اصولی موقف پیش کرنے سے اس لیے کتراتے کہ کہیں بادشاہ سلامت خفا نہ ہو جائیں۔
عالم یہ کہ سرکاری خزانے کو مال مفت، دل بے رحم کی طرح لوٹا جارہا ہو۔ انصاف کی فراہمی میں پسند اور ناپسند کا عمل دخل حاوی ہو۔ اسی طرح غریب عوام کی مفلسی، پریشانی اور دشواریوں کی کسی کو کوئی فکر نہ ہو۔ بادشاہ سلامت کے قریب وہی ہوتا جو ان کو مالی فائدہ پہنچا رہا ہوتا اور جو تنقید نہیں تعریف کرتا ہو۔
بظاہر تو ایسا لگتا ہے کہ یہ دور حاضر کے کسی حکمران کا تذکرہ ہو رہا ہے لیکن یہ تلخ حقیقت دراصل کلاسک ڈراما سیریل ’باادب باملاحظہ ہوشیار‘ کی ہے۔
ایک ایسا ڈراما جس کے مکالمات اور ڈرامائی مناظر اتنا عرصہ گزرنے کے باوجود آج کے ماحول کی بھی بھرپور عکاسی کرتے ہیں۔
90 کی دہائی کا یہ وہ دور تھا جب پی ٹی وی تاریخی واقعات اور شخصیات پر ڈراما سیریلز بنانے میں شہرہ آفاق شہرت رکھتا تھا۔ ’آخری چٹان،‘ ’شاہین،‘ ’ٹیپو سلطان،‘ ’بابر‘ اور ’محمد بن قاسم‘ جیسے مشہور وہ تاریخی ڈرامے ہیں، جن کی ڈرامائی تشکیل ہی نہیں ان کی پروڈکشن پر بھی بھاری سرمایہ استعمال کیا گیا۔ اس نوعیت کے ڈراموں کے لیے وسیع و عریض محلاتی سیٹ تعمیر کیے جاتے۔ اسی اعتبار سے سب سے زیادہ توجہ فنکاروں کے ملبوسات پر دی جاتی۔ باقاعدہ تحقیق کے مرحلے سے گزرنے کے بعد ہی ان ڈراموں کو حقیقت کا روپ دیا جاتا اور ہر کردار کی مناسبت سے فنکار کا انتخاب ہوتا۔
پی ٹی وی سے اس وقت تک نشر ہونے والے یہ سبھی ڈرامے سنجیدہ موضوعات کے گرد گھومتے تھے۔ ان ڈراموں میں مسلم بادشاہوں اور شخصیات کی فتوحات اور کارناموں کو نمایاں کیا گیا تھا، لیکن ’ باادب با ملاحظہ ہوشیار‘ کی پہلی قسط نشر ہوئی تو ناظرین خوشگوار حیرت سے دوچار ہوئے۔
ڈرامے میں کیا تھا؟
اس ڈرامے کو اپنی مثال آپ تصور کروانے کا اعزاز اطہر شاہ خان عرف جیدی کے حصے میں آیا جنہوں اسے لکھا تھا۔ شاہکار ڈراما سیریل کے ہدایت کار حیدر امام رضوی تھے، جن کا اس ڈرامے کا پلاٹ اسلام آباد میں ہونے والی پی ٹی وی کی جی ایم کانفرنس میں پہلی ہی میٹنگ میں منظور ہو گیا تھا۔
روایتی سنجیدہ تاریخی ڈرامے کے برعکس حیدر امام رضوی نے ’باادب با ملاحظہ ہوشیار‘ میں بادشاہ سلامت کی کہانی کو پیش تو کیا لیکن بادشاہ جابرالدولہ کوئی نسل در نسل بادشاہ نہیں تھا بلکہ ایک ایسا شاطر وزیر ہوتا ہے جو چند لالچی اور مفاد پرست وزیروں کے ساتھ مل کر اقتدار پر قبضہ کر کے اصلی بادشاہ کو زندان میں قید کر لیتا ہے۔
جابر اپنے نام کی طرح انتہائی ظالم اور لالچی فطرت کا حامل ہوتا ہے، جس نے آس پاس کی ریاستوں پر قبضہ کرنے کے علاوہ اپنی مملکت میں قہر کا بازار گرم کر رکھا ہوتا ہے، جو تلوار کی نوک پر اپنی مرضی کی تاریخ بھی مورخ سے لکھوا رہا ہے۔ اس طرح اس ڈرامے میں محلوں میں پلنے والی سازشوں اور حالات و واقعات کو مزاحیہ انداز میں پیش کیا گیا۔ ڈراما سیریل کا ہر کردار چٹکلے چھوڑتا رہا اور یہ تمام تر کمال اطہر شاہ خان جیدی کا تھا، جنہوں نے اس ڈرامے میں اتالیق کا کرداربھی ادا کیا تھا۔
معین اختر بادشاہ بنتے بنتے رہ گئے
ڈراما نگار اطہر شاہ خان جیدی نے پورا ڈراما معین اختر کو ذہن میں رکھ کر تحریر کیا تھا۔ حیدر اما م رضوی کو کامیڈین نے گرین سگنل بھی دے دیا۔ اسی دوران معین اختر کو ملک سے باہر ایک شو میں شرکت کرنی پڑ گئی، اسی بنا پر انہوں نے آخری لمحات میں حیدر امام رضوی سے معذرت کر لی۔ اب ایسے میں سوال یہ تھا کہ کون جابر الدولہ کا کردار ادا کرے گا۔ حیدر امام رضوی نے قاسم جلالی سے رابطہ کیا۔
ہدایت کار قاسم جلالی جو خود تاریخی ڈرامے بنانے میں مشہور تھے۔ ان کے سامنے جب یہ پیش کش آئی تو انہوں نے ابتدا میں معذرت کی لیکن انہیں قائل کرنے کا سارا سہرا اطہر شاہ خان جیدی کے سر جاتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک ایسا کردار ہے جو معین اختر کے بعد اگر کوئی کر سکتا ہے تو وہ قاسم جلالی ہیں کیونکہ اس میں صرف مکالمات ہی نہیں بلکہ چہرے، ہاتھوں اور آنکھوں کے تاثرات کا استعمال کر کے اداکاری کرنی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اسی طرح تاریخی نوعیت کے ڈرامے بنانے کے ماہر قاسم جلالی کی موجودگی میں حیدر امام رضوی کو بھی اس بات کا موقع ملے گا کہ جو کمی رہ جائے، اس کو قاسم جلالی کے مشورے اور تجربے سے دور کیا جائے۔ قاسم جلالی تھوڑی جھجک کے بعد آخر کار اس کردار کے لیے رضامند ہو گئے اور جیسے اس کردار میں رچ بس گئے۔ جنہوں نے حیدرامام رضوی کو ہی نہیں اطہر شاہ خان جیدی کو بھی یہ باور کرا دیا کہ اگر انہوں نے ان پر اعتماد کیا تھا تو وہ غلط نہیں تھے۔ خاص کر ان کا ادا کیا ہوا مکالمہ ’انصاف ہو گا، ضرور ہو گا‘ تو آج تک ذہنوں میں ترو تازہ ہے۔
کہا تو یہ بھی جاتا ہے کہ اطہر شاہ خان جیدی جو اداکاری اور ڈراما نگاری کے علاوہ ہدایت کاری کا ہنر بھی بخوبی جانتے تھے، انہوں نے بھی کئی مرحلوں پر حیدر امام رضوی کی مدد کی اور کسی بھی منظر کو بہتر سے بہتر بنانے میں ان کے مشورے شامل رہے۔
مزاحیہ کہانی اور فنکاروں کی موجودگی
’باادب با ملاحظہ ہوشیار‘ کی پہلی قسط نشر ہوئی تو اس کے مزاحیہ کرداروں نے پہلی ہی قسط سے ہر ایک کو اپنا دیوانہ بنالیا۔ ڈرامے میں کامیڈینز کی ایک بڑی تعداد شامل تھی۔ ان میں شہزاد رضا، ملک انوکھا، آفتاب عالم، عرش منیراور خود اطہر شاہ خان نمایاں ہیں۔
اسی طرح بڑے دلچسپ پیرائے میں مختلف واقعات کو پیش کیا گیا۔ جیسے اگر کوئی غیر ملکی بادشاہ جب ریاست کا مہمان بنتا ہے تو کیسے اس سے زبردستی تحائف وصول کیے جاتے ہیں اور پھر ان کی بندر بانٹ ہوتی ہے۔ کیسے بادشاہ سلامت کے برادر نسبتی اپنے رشتے کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اسی طرح بادشاہ سلامت کا اپنی مفاد پرستی کے گرد گھومتا انصاف۔
درحقیقت ڈرامے کے ذریعے مسلم بادشاہوں کی سلطنتوں کے زوال پذیر ہونے کی نشاندہی کی گئی۔ وہیں یہ بھی دکھایا گیا کہ صدیاں بیت گئیں لیکن حکمرانوں کے حالات اور معاملات جوں کے توں ہیں۔
بیشتر فنکار جو اب حیات نہیں
ڈراما رائٹر اطہر شاہ خان ہی نہیں، ملک انوکھا، سبحانی بایونس، عرش منیر، قاضی واجد، محمود علی، انتظار حسین، عشرت ہاشمی، ابراہیم نفیس، ظہور احمد، ثاقب شیخ اور لطیف منا وہ فنکار ہیں، جنہوں نے اس ڈرامے میں اپنی برجستہ اور بے ساختہ اداکاری سے دلوں پر راج کیا لیکن پھر گزرتے برسوں میں یہ فنکار اس دنیا سے رخصت ہوتے چلے گئے۔
’باادب باملاحظہ ہوشیار‘ اپنی ڈائریکشن، کہانی، اداکاروں کی اداکاری کی بنا پر مقبولیت کی تمام تر سرحدیں پار کر گیا۔
یہ بھی بڑی عجیب بات ہے کہ لگ بھگ تین دہائیاں بیت چکی ہیں لیکن آج بھی اس ڈرامے کو دیکھیں تو مکالمات اور ڈرامائی موڑ میں کہیں نہ کہیں آپ کو آج کی جھلک محسوس ہو گی۔