انڈیا میں ہندو نظریاتی تنظیم راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) اور اس کی سیاسی اکائی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کا مغل حکمرانوں سے بیر کسی سے ڈھکا چھپا نہیں لیکن حیرت انگیز بات یہ ہے کہ دونوں جماعتیں آج کل مغل شہنشاہ اورنگزیب کے بڑے بھائی شہزادہ دارا شکوہ سے بے حد محبت و عقیدت کا اظہار کرتی نظر آ رہی ہیں اور انہیں فروغ دینے میں بڑی سرعت کے ساتھ مصروف عمل ہیں۔
اس مشن کے تحت بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر ہی سہی، کم از کم تین اداروں کو دارا شکوہ کی تصنیفات و نظریات کی ترویج اور ان پر تحقیق کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔
ان میں سے ایک علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ہے جہاں جنوری 2016 سے باضابطہ طور پر ’دارا شکوہ سینٹر‘ کام کر رہا ہے۔ دوسرا دہلی میں قائم ’سینٹر فار دارا شکوہ سٹڈیز‘ ہے جس کا کام کاج آر ایس ایس کے بعض سینیئر رہنما دیکھ رہے ہیں۔
تیسرا اسی شہر میں قائم نیشنل کونسل فار پروموشن آف اردو لینگویج نامی ایک بڑا سرکاری ادارہ ہے، جس کے ذمے دارا شکوہ کی تصنیفات کا اردو میں ترجمہ شائع کرانا ہے۔
امکانی طور پر عنقریب ہی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی طرز پر حیدرآباد دکن کی مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی میں بھی ایک دارا شکوہ سینٹر قائم کیا جائے گا۔ اس یونیورسٹی میں حالیہ برسوں میں ایک اہم سڑک اور لائبریری کا ایک حصہ دارا شکوہ کے نام سے منسوب کیا جا چکا ہے۔
نریندر مودی کی حکومت دارا شکوہ کے نام پر ہونے والی کانفرنسوں اور سمیناروں کو نہ صرف کھلے دل سے سپانسر کر رہی ہے بلکہ سکولوں میں پڑھائے جانے والے نصاب کی کتابوں سے مغل شہنشاہوں کے متعلق ابواب کو حذف کر کے دارا شکوہ کو شامل کرانے کے عمل میں بھی کوشاں نظر آ رہی ہے۔
اتنا ہی نہیں مودی کی حکومت نے دسمبر 2020 میں آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا کی ایک ٹیم کو دہلی میں دارا شکوہ کی قبر کا پتہ لگانے کی ذمہ داری سونپی۔ حالاں کہ مذکورہ ادارے نے اس حوالے سے اب تک اپنی حتمی رپورٹ جمع نہیں کی ہے تاہم کہا جاتا ہے کہ قوی امکان ہے کہ دارا شکوہ کو ہمایوں کے مقبرے میں دفنایا گیا تھا جس کی رپورٹ میں توثیق کی جائے گی۔
قبل ازیں فروری 2017 میں نیو دہلی میونسپل کونسل (این ڈی ایم سی) نے ہندوستان کے سابق گورنر جنرل لارڈ ڈلہوزی سے منسوب دہلی کی ایک سڑک کا نام تبدیل کر کے دارا شکوہ روڈ رکھا۔
دہلی میں قائم سینٹر فار دارا شکوہ سٹڈیز کے اہم رکن ڈاکٹر کرشنا گوپال، جو آر ایس ایس کے ایک سینینئر رہنما ہیں، کے مطابق دارا شکوہ نے ہندوستان میں کم از کم پانچ کتب خانے قائم کیے تھے، جن میں سے پرانی دہلی میں کشمیری گیٹ کے نزدیک واقع ایک لائبریری کو حالیہ برسوں میں پوری طرح سے بحال کیا گیا ہے۔
دارا شکوہ کا پروموشن کیوں؟
انڈپینڈنٹ اردو نے جب آر ایس ایس کے سینیئر رہنما اندریش کمار سے دارا شکوہ کو پروموٹ کرنے کی وجہ کے بارے میں پوچھا تو ان کا جواب تھا: ’دارا کے اندر مذہبی کٹرتا نہیں تھی بلکہ وہ امن کے حقیقی مبلغ اور داعی تھے۔
’اگر دنیا کو جنگوں، تشدد اور آلودگی سے آزادی چاہیے تو اس بات کی ضرورت ہے کہ سب اپنے اپنے دھرم (مذہب) کی تعلیمات پر چلیں، دوسروں کے مذہب کی مخالفت نہیں بلکہ ان کا احترام کریں۔ دارا شکوہ کا یہی نظریہ تھا یہی سوچ تھی۔
’دارا شکوہ ایک ایسے مہا پرش تھے جنہوں نے مختلف مذاہب کی کتابوں کا مطالعہ کر کے ان میں پائی جانے والی ایسی مشترکہ تعلیمات کو کھوجا، جن سے عالمی سطح پر امن اور بھائی چارے کا قیام ممکن تھا۔
’لیکن انہیں اس نیک کوشش کی سزا بھگتنی پڑی اور کسی اور نے نہیں بلکہ ان کے اپنے چھوٹے بھائی اورنگزیب نے ان کا سر قلم کر وایا۔ اسی طرح اورنگزیب نے سکھوں کے نویں گرو تیغ بہادر کا بھی سر سرِعام قلم کروایا۔ یہ عدم برداشت ہے جو مذہب، انسانیت اور سماج میں سے کسی کے لیے ٹھیک نہیں ہے۔
’میرا تو ماننا ہے کہ اگر اورنگزیب کی جگہ دارا شکوہ حکومت کرتے تو مندر نہیں توڑے جاتے۔ زبردستی تبدیلی مذہب نہیں ہوتی اور تشدد بھی نہیں ہوتا۔ ان کا نام آج تک دنیا پر حکومت کرنے والے سینکڑوں مثالی بادشاہوں میں ہوتا۔‘
اندریش کمار آر ایس ایس کی مسلم شاخ مسلم راشٹریہ منچ (ایم آر ایم) کے سرپرست بھی ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ دارا شکوہ کا ہندوستان کے اس گیان وگیان (علم) میں ایک بڑا کنٹریبیوشن ہے جس کی خوشبو پوری دنیا میں پھیل رہی ہے اور جس کی پیش گوئی پیغمبر اسلام حضرت محمد نے کی تھی۔
’جب پیغمبر اسلام حضرت محمد مکہ شریف سے واپس مدینہ شریف آئے تو انہوں نے کہا کہ میرے ماننے والوں کو پہلی نصیحت یہ ہے کہ جنگ اور تشدد مسئلوں کا حل نہیں بلکہ حل مکالمے اور صلح میں ہے۔
’انہوں نے ایک بار یہ بھی کہا کہ جب میں تنہائی میں ہوتا ہوں تو مجھے سکون اور ٹھنڈی ہوائیں مشرق میں ہند نامی سر زمین سے آتی ہیں۔ رسول تو اپنی زندگی میں کبھی ہندوستان آئے نہیں۔ یہ ان کی ہندوستان سے متعلق ایک روحانی پیشن گوئی تھی۔ دارا شکوہ کا ہندوستان کو گیان وگیان اور انسانیت کا مرکز بنانے میں ایک غیر معمولی کنٹریبیوشن ہے جس کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔‘
فارسی زبان کی نامور سکالر ڈاکٹر آزرمی دخت صفوی نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ موجودہ دور میں دارا شکوہ کے خیالات و نظریات کو پروموٹ کرنے کی اس لیے زیادہ ضرورت ہے کیوں کہ پوری دنیا امن و سکون کی متلاشی ہے۔
’ان کی جو اتحاد کی فلاسفی تھی، انسانیت اور صوفیانہ نقطۂ نظر تھا اسے پروموٹ کرنا انتہائی ضروری ہے۔ اگر ہم دارا شکوہ کو اتحاد کی علامت مان لیں تو یقیناً میرے خیال میں آج ان کی ضرورت ہے۔ لیکن ہمیں ہر طرح کے تنازعوں سے بچنا چاہیے۔
’جو چیز سوچ کر دارا شکوہ کو سامنے لایا جا رہا ہے یا اس پر کام کیا جا رہا ہے وہ محض اتحاد کا فلسفہ ہے۔ میرے خیال میں ہندوستان کو متحد کرنے کی غرض سے ہی اس کے فکر و نظریات پر کام یا پروموٹ کیا جا رہا ہے۔‘
باقی مغلوں کو نظر انداز کرنا ’جہالت‘ ہے
تاہم دہلی یونیورسٹی کے شعبہ تاریخ کے پروفیسر اور ’سٹیٹ اینڈ لوکیلٹی ان مغل انڈیا‘ نامی کتاب کے مصنف ڈاکٹر فرحت حسن نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات چیت میں کہا کہ دارا شکوہ کا کام واقعی میں غیر معمولی ہے لیکن باقی مغلوں کو نظر انداز کر کے صرف ایک مغل شہزادے کو پروموٹ کرنا جہالت اور بیوقوفی ہے۔
’بے شک دوسرے مغلوں کے مقابلے میں دارا شکوہ کی پڑھنے لکھنے اور مطالعے میں زیادہ دلچسپی تھی۔ انہوں نے کئی غیر معمولی تصانیف تحریر کیں جو مذہبی ہم آہنگی کو فروغ دیتی ہیں۔ لیکن دارا کو بھی سمجھنے کے لیے اکبر کو سمجھنا، ان کی پالیسیوں اور صلح کُل کو سمجھنا ضروری ہے۔
’چوں کہ دارا شکوہ سنسکرت بھی جانتے تھے اور ان کی ویدانتوں پر اچھی پکڑ تھی، اس وجہ سے آر ایس ایس اور بی جے پی میں یہ سوچ آئی ہے کہ صرف دارا شکوہ کی بات کی جائے۔ لیکن یہ لوگ بھول جاتے ہیں کہ سبھی مغل حکمرانوں کی، خاص طور پر اکبر سے لے کر اورنگزیب تک، ہندو سنتوں اور یوگیوں سے تعمیری مشغولیت رہی ہے۔
’اکبر سے لے کر اورنگزیب کے زمانے تک مغلیہ سلطنت مسلسل متھرا اور برنداون کے مندروں کو گرانٹ اور معاوضہ دیتی رہی۔ اورنگزیب، جن کے بارے میں یہ لوگ بہت برا بھلا کہتے ہیں، نے متھرا اور برنداون کے مندروں کو مسلسل زمین گرانٹ اور معاوضہ دیا۔ اس سب کو نظر انداز کر کے صرف دارا شکوہ پر فوکس کرنا ایک چھوٹی سوچ کی علامت ہے۔
’یہ سمجھ سے پرے ہے کہ آپ باقی مغلوں کو نظر انداز کریں، نصاب کی کتابوں ان سے متعلق ابواب حذف کریں اور اعلاناً کہہ دیں کہ اگر نصاب کی کتابوں میں کسی کو پڑھانا ہے تو وہ مغل شہزادہ دارا شکوہ ہے۔ کسی بھی حکمران کو سمجھنے کے لیے اُس دور کی سیاست کو بھی سمجھنا ضروری ہے۔‘
شروعات تو اکبر نے کی تھی
مغلوں کی تاریخ کے ماہر اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ تاریخ کے پروفیسر ڈاکٹر سید علی ندیم رضوی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ہندوؤں اور مسلمانوں کو ساتھ لے کر چلنے کی شروعات شہنشاہ اکبر نے کی تھی لیکن بڑا عجیب ہے کہ وہ آر ایس ایس اور بی جے پی کے لیے بہت برے ہیں اور ان کی ہی پالیسیاں اپنانے والے دارا شکوہ اچھے۔
’دارا شکوہ ایک ذہین سکالر تھے جن کا کام مطالعہ تھا۔ ہم ان کا اورنگزیب سے موازنہ نہیں کر سکتے۔ یہ نیوٹن کے ہاتھ میں قلم کی جگہ تلوار تھمانے جیسا ہے۔ ان کے بھائی اورنگ زیب وہی تھے جو آج مودی ہیں۔ دونوں میں کوئی خاص فرق نہیں ہے سوائے یہ کہ مودی ہندو مذہب کو فالو کرتے ہیں اور اورنگزیب مسلمان تھے۔
’مغلوں میں سے ایک مخصوص شہزادے کو پروموٹ کرنا آر ایس ایس اور بی جے پی کا پورے ہندوستان کے عوام کو بانٹنے اور خلفشار پیدا کرنے کا ایجنڈا ہے۔ بی جے پی تو نوآبادیاتی دور سے لے کر آج تک یہی کام کرتی آئی ہے۔ بھلے ہی اُس وقت اس جماعت کا نام بی جے پی نہیں تھا بلکہ کسی اور نام سے سرگرم تھی۔
’اب اس جماعت کی حکومت نے قرونِ وسطیٰ کی تاریخ کو سکولوں میں پڑھائے جانے والے نصاب سے ہٹا دیا ہے۔ نئے نصاب میں اکبر، جہانگیر، شاہجہاں کا ذکر نہیں ملتا ہے لیکن اورنگزیب کو شامل کیا گیا ہے جنہیں یہ سب سے زیادہ گالیاں دیتے ہیں۔
’ان کی سوچ ہے کہ اورنگزیب اور شیواجی کو پڑھایا جائے تاکہ جو ہندو مسلم خلفشار ہے اسے بچوں کے ذہن میں اچھی سے اتارا جا سکے۔ اگر اکبر کو پڑھاتے تو انہیں بتانا پڑتا کہ یہ سارے مذاہب کو ساتھ لے کر چلتے تھے لیکن انہیں نصاب سے حذف کیا گیا۔‘
تاہم اندریش کمار کی مانیں تو سبھی مغل ودیسی تھے اور ان کا کردار اچھا تھا یا برا یہ انڈیا کی تاریخ کا حصہ نہیں ہو سکتا۔
’مغل بادشاہوں نے یہاں ایک بھی یونیورسٹی قائم نہیں کی۔ کوئی بڑا ہسپتال اور کارخانہ قائم نہیں کیا۔ کوئی ایسی عدالت قائم نہیں کی جہاں عوام کو مفت اور فوری انصاف مل پاتا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ لوگ نہیں چاہتے تھے کہ یہاں کے لوگ بااختیار ہوں۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ہندوستان کو اپنا ملک نہیں مانتے تھے۔
’ان حکمرانوں نے، دارا شکوہ کے برعکس، مختلف مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان اتحاد و اتفاق پیدا کرنے کی بجائے سماج میں بگاڑ پیدا کرنے کی کوششیں کیں۔ جیسے شہنشاہ اکبر تو خود پیغمبر بننے کی طرف چل پڑے تھے۔
’اکبر نے اسلام سے بغاوت کر کے دین الٰہی کے نام سے ایک الگ مذہب شروع کیا تھا۔ قرآن میں لکھا ہے کہ حضرت محمد آخری نبی ہیں لیکن اکبر نے تو خود کو پیغمبر بنانے کی حماقت کی تھی۔ اگر اکبر مزید عمر پاتا تو شاید یہاں آج دین الٰہی کے نام سے ایک اور مذہب ہوتا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کیا دارا واقعی دوسرے مغلوں سے مختلف تھے؟
ڈاکٹر سید علی ندیم رضوی کا خیال ہے کہ شہزادہ دارا شکوہ دوسرے مغلوں سے کسی بھی لحاظ سے مختلف نہیں تھے۔
’ان کے آبا و اجداد کا جو انداز، طور طریقہ، فلسفہ اور طرز حکمت تھا وہی ان کا بھی تھا۔ اکبر کا جو نظریہ تھا وہی دارا شکوہ کا بھی تھا۔ اکبر نے اپنے دور میں دوسرے مذاہب پر کافی تحقیق کروائی تھی اور اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ صلح کُل ہونا چاہیے۔ علاوہ ازیں انہوں نے پایا کہ حق اور سچ کی تعلیم ہر مذہب دیتا ہے۔
’اس لیے اکبر نے یہ کوشش کی تھی کہ جتنے بھی لٹریچر ہیں، چاہے ان کا تعلق مذہب سے ہو یا سائنٹیفک ہو یا کلچرل ہو اس کا سنسکرت سے فارسی میں ترجمہ کرایا جائے تاکہ لوگ ایک دوسرے کو سمجھیں۔
’مثلاً اکبر نے ملا عبدالقادر بدایونی جو کافی کٹر تھے اور جنہوں نے اکبر کے خلاف لکھا بھی تھا، کو رامائن کا فارسی میں ترجمہ کرنے کا کام دیا۔ یہی وہ پالیسی تھی جس کو دارا شکوہ نے اپنے دور میں پوری طرح اپنایا تھا۔
’ایسا بھی نہیں ہے کہ اکبر کے بعد دارا شکوہ نے ہی اس پالیسی کو اپنایا بلکہ جہانگیر نے بھی کیا جس کا خلاصہ انہوں نے اپنی کتاب تزک جہانگیری میں کیا ہے کہ جو میرے والد نے کیا میں بھی وہی کر رہا ہوں۔
’اگر صوفی سنتوں سے اکبر ملنے جاتے تھے تو جہانگیر بھی گئے۔ شاہجہاں بھی ان سب سے زیادہ مختلف کام نہیں کیا لیکن چوں کہ ان کی نظر بلخ و بدخشاں کی جانب تھی تو ان کے دور میں تورانی تہذیب و تمدن کی جھلکیاں دکھائی دیتی ہیں۔
’دارا شکوہ نے بھی وہی کیا جو ان کے آبا و اجداد نے کیا۔ انہوں نے بھی مذہبی کتب کا سنسکرت سے فارسی میں ترجمہ کیا۔ مثلاً اپنیشد کا ترجمہ فارسی میں شائع کیا۔ دارا شکوہ اپنے آبا و اجداد سے بالکل مختلف نہیں تھے۔ مسئلہ اکبر، جہانگیر، شاہجہاں یا دارا شکوہ میں نہیں ہے بلکہ آج کے سسٹم میں ہے۔‘
تاہم ڈاکٹر آزرمی دخت صفوی کے مطابق کئی چیزیں ہیں جو دارا شکوہ کو دوسرے مغلوں سے خاص اور مختلف بناتی ہیں۔
جنگجو نہیں، عالم
’حالاں کہ باقی مغل شہزادوں کی طرح ہی ان کی بھی پرورش ہوئی اور اس زمانے میں جس طرح کی تعلیم کا رواج تھا وہی تعلیم انہوں نے بھی حاصل کی۔ لیکن خود ان کے اپنے دماغ میں جو سوچ و فکر اور تلاش و جستجو کا جذبہ تھا وہ تصوف اور عرفان کی طرف زیادہ تھا۔
’ایک محل میں پرورش پانے کے باوجود ان کا کائنات کی سچائی کو جاننے کی کوشش کرنا بھی انہیں ممتاز بناتا ہے۔ باقی مغل شہزادے، جن میں سے کچھ نے سلطنت بھی سنبھالی، میں زیادہ پڑھنے لکھنے یا کتب بینی کا شوق نہیں تھا۔
’اگرچہ دوسرے مغلوں نے بھی کتابیں لکھیں اور شاعری بھی کی لیکن دارا شکوہ ایک ایسے سکالر تھے جنہیں نئی نئی چیزوں کو جاننے کی تلاش و جستجو رہتی تھی۔ مطالعے کے شوق کے ساتھ ساتھ ان میں تخلیقی صلاحیتیں بھی تھیں۔
’دارا نے کئی کتابیں لکھیں اور ترجمہ بھی کیں۔ تصوف اور ہندو مذہب کے علاوہ دوسرے مذاہب کے بارے میں بھی پڑھا۔ ان میں اور اسلام میں جو باتیں مشترک تھیں اس کی طرف نہ صرف توجہ کی بلکہ عوام کے سامنے بھی لائیں۔ جب کہ دوسرے شہزادوں نے ایسا کام نہیں کیا۔‘
ڈاکٹر آزرمی دخت صفوی کہتی ہیں کہ دارا شکوہ میں جنگی صلاحیتیں نہیں تھیں جس کی وجہ سے آگے چل کر انہیں نقصان اٹھانا پڑا۔
’بحیثیت سکالر دارا شکوہ کا کنٹریبیوشن غیر معمولی ہے۔ انہوں نے اپنی تصنیفات میں اتحاد پر زور دیا، حق اور سچائی کو بڑھاوا دیا لیکن ان میں جنگی صلاحیتیں نہیں تھیں۔ کیوں کہ وہ زیادہ وقت تک اپنے والد کے ساتھ ہی رہے۔ اگر جنگی صلاحیتیں و تجربہ ہوتا تو شاید ان کے کام آ جاتا۔ یہی وجہ ہے اورنگزیب ان پر بھاری پڑ گئے۔‘
دارا شکوہ کا بڑا کارنامہ
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں قائم دارا شکوہ سینٹر کے ڈائریکٹر پروفیسر علی محمد نقوی کہتے ہیں کہ مختلف مذاہب کی کتابوں میں پائے جانے والے مشترکات کو کھوجنا اور بین مذاہب مکالمے کے لیے علمی تحریک شروع کرنا دارا شکوہ کا بہت بڑا کارنامہ تھا۔
’وہ پہلے مسلمان مفکر نہیں تھے جنہوں نے ہندوازم کا مطالعہ کیا۔ یہ کام ایک ہزار سال پہلے المامون کے زمانے میں شروع ہوا تھا۔
’وہ پہلے مسلمان بھی نہیں تھے جنہوں نے بین مذاہب مکالمہ شروع کیا یا اس کے لیے جدوجہد کی۔ اس حوالے سے ان سے پہلے عرفا اور بادشاہوں نے کوششیں شروع کی تھیں۔ بادشاہوں میں سے اکبر کا نام قابل ذکر ہے جبکہ عرفا میں سے امیر خسرو سے لے کر خواجہ معین الدین چشتی تک ایک لمبی فہرست ملتی ہے جنہوں نے ہندوؤں اور مسلمانوں کو ملانے کی کوششیں کیں۔
’تو پھر دارا شکوہ کا کارنامہ کیا ہے؟ ایک بڑا کارنامہ مختلف مذاہب کی کتابوں میں مشترکات ڈھونڈنا اور دوسرا بڑا کارنامہ بین مذاہب مکالمے کے لیے علمی تحریک شروع کرنا تھا۔ وہ امن اور ہم آہنگی اور قومی یکجہتی کے داعی تھے۔‘