شمالی سندھ کے ضلع قمبر شہدادکوٹ کی تحصیل نصیرآباد میں گذشتہ ہفتے مغل شہزادے دارا شکوہ کے بارے میں سندھی زبان میں پہلی مرتبہ ایک تھیٹر ڈرامہ پیش کیا گیا، جس میں نوجوانوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔
دارا شکوہ مغل بادشاہ اورنگزیب کے بڑے بھائی تھے، جنہیں دہلی میں حصول اقتدار کی جنگ میں شکست ہوئی تو وہ لاہور سے بذریعہ ملتان سندھ آئے مگر بالآخر گرفتار ہو ئے اور انہیں سزائے موت دے دی گئی۔
صدف تھلہو کی جانب سے پیش کیے گئے اس تھیٹر میں دکھایا گیا کہ مغل شہزادے داراشکوہ کو سزا کیسے ہوئی، عدالتی کارروائی کیا تھی جبکہ اورنگزیب عالمگیر سمیت دیگر اہم کرداروں کو بھی ڈرامائی شکل میں دکھایا گیا۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں اس تھیٹر کی ہدایت کار صدف تھلہو نے بتایا کہ داراشکوہ کے بارے میں یہ تھیٹر پیش کرنے کا اصل مقصد یہ تھا کہ نوجوانوں کو اپنی اصل تاریخ سے واقف کروایا جائے اور صلح جُو سوچ کو فروغ دیا جائے۔
انہوں نے بتایا کہ یہ چھ یا سات صدیوں پرانی کہانی ہے لیکن ہمارے معاشرے میں اب بھی وہی انتہاپسندی اور دہشت گردی موجود ہے۔ ’ہمارے پڑھے لکھے نوجوان انتہاپسندی کی زد میں آ جاتے ہیں، اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم نے یہ تھیٹر کیا ہے جس میں ہم نے یہ دکھایا ہے کہ سب کا راستہ ایک ہی ہوتا ہے، سب ایک ہی منزل کی طرف جاتے ہیں تو لڑنا کیسا؟ یہ نفرتیں، حسد، خود کو اونچا سمجھنا کیسا؟ ہم سب ایک ہیں اور انسانیت کی بات کرتے ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بقول صدف: ’جہاں تک تھیٹر کا تعلق ہے تو کہیں سے سیکھنے کی نوبت یا ایسا موقع ملنا میرے نصیب میں نہیں تھا لیکن کالج لائف میں شاہ کی سورمیوں پر میں تھیٹرز کرتی آئی ہوں جنہیں شاہ نے اپنے کلام میں گایا ہے، جیسے مومل رانو، سوہنی مہینوال، سسی پنہوں اور لیلیٰ چنیسر، ان تمام کرداروں پر میں نے تھیٹرز کیے ہیں، آرٹ سے ہی اپنی بات دوسروں کو اچھے طریقے سے آپ سمجھا سکتے ہیں اور اس آرٹ سے ہی آپ اپنے معاشرے میں مثبت تبدیلی لا سکتے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’داراشکوہ تھیٹر کرنے کا مقصد ہی یہی تھا کہ انتہاپسندی ہمیں صرف اور صرف تباہی اور دہشت گردی کی طرف لے جا رہی ہے۔ نوجوانوں کے ذہنوں تک وہ پیغام پہنچایا جائے جو داراشکوہ صدیوں پہلے دے گیا تھا۔‘
تھیٹر ناظرین میں موجود نوجوان وجاحت حسین نے بتایا کہ اس تھیٹر میں وہ تاریخ موجود ہے جو ہمیں نصاب نہیں پڑھاتا۔ ’اس تھیٹر سے کم از کم ہمارے خیالات تبدیل ہو رہے ہیں، اس تھیٹر نے خصوصی طور پر سمجھایا کہ حقیقی تاریخ کیا ہے اور ہمیں کیا پڑھایا جا رہا ہے۔‘