بھارت میں ان دنوں سخت گیر ہندو قوم پرست مغل دور میں تعمیر کی جانے والی مسجدوں اور شہرہ آفاق یادگاروں پر اپنا دعویٰ پیش کرنے میں مصروف عمل ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ مغل حکمرانوں بالخصوص چھٹے فرمانروا اورنگ زیب نے کئی مسجدیں مندر توڑ کر تعمیر کروائی تھیں۔
جن مسجدوں پر دعویٰ پیش کیا گیا ہے ان کی فہرست میں بنارس (موجودہ نام وارانسی) کی گیان واپی مسجد اور متھرا کی شاہی عیدگاہ مسجد سرفہرست ہیں۔
بھارت کی شمالی ریاست اتر پردیش کے دو بڑے شہروں میں واقع ان مسجدوں کے مقدمات عدالتوں میں زیر سماعت ہیں اور عدالتیں جس سرعت کا مظاہرہ کر رہی ہیں اس سے لگتا ہے کہ ان کی تقدیر کا فیصلہ مستقبل قریب میں ہی سنایا جا سکتا ہے۔
چھ دسمبر 1992 کو سخت گیر ہندو تنظیموں کے ہزاروں کارکنوں نے اسی ریاست کے شہر ایودھیا میں واقع بابری مسجد کو منہدم کر دیا تھا اور پھر 2019 میں بھارتی سپریم کورٹ کے ہندوؤں کے حق میں فیصلے کے بعد اب اس جگہ پر ایک بڑے رام مندر کی تعمیر کا کام جاری ہے۔
یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ ’دی پلیسز آف ورشپ ایکٹ 1991‘ کی موجودگی کے باوجود بھارت کی عدالتیں مساجد کو توڑنے کے لیے دائر کی جانے والی عرضیاں سماعت کے لیے قبول کر رہی ہیں۔
کانگریس حکومت کی جانب سے 1991 میں منظور کیے جانے والے اس خصوصی قانون کی رو سے بھارت میں 15 اگست 1947 کو عبادت گاہیں جس شکل میں تھیں ان کی وہ شکل و حیثیت برقرار رہے گی۔
تاہم ایودھیہ تنازعے کو اس قانون سے مستثنیٰ قرار دیا گیا تھا کیوں کہ یہ معاملہ تب عدالت میں زیر سماعت تھا۔
اورنگ زیب نے واقعی مندر تڑوائے مگر۔۔۔
جب انڈپینڈنٹ اردو نے یہ سوال مغلیہ سلطنت کی تاریخ کے ماہرین سے پوچھا تو ان کا جواب ’ہاں‘ میں تھا۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ تاریخ کے پروفیسر اور مغلوں کی تاریخ کے ماہر ڈاکٹر سید علی ندیم رضوی نے بتایا: ’اورنگ زیب نے بے شک مندر تڑوائے مگر ایسے علاقوں میں جہاں بغاوت زوروں پر تھی۔
’جب راٹھوروں نے بغاوت کی تو ان کے مندر تڑوائے۔ سسودیوں نے بغاوت کی تو ان کے ساتھ بھی ایسا ہی کیا۔ جب جاٹوں نے بغاوت کی تو متھرا اور بنارس میں چیزیں (مندر) توڑی گئیں۔ لیکن جن علاقوں میں کوئی بغاوت نہیں تھی اور سکون تھا ایسے علاقوں میں نہ صرف مندروں کو دی جانے والی گرانٹ برقرار رکھی بلکہ اس فہرست میں مزید مندر بھی شامل کروائے۔
’دلچسپ بات تو یہ ہے کہ مندروں کی جتنی بڑی تعداد کو اورنگ زیب کے دور میں گرانٹ دی جاتی تھی اتنی بڑی تعداد میں مندروں کو اکبر کے دور میں بھی گرانٹ نہیں دی گئی تھی۔‘
نئی دہلی میں واقع معروف یونیورسٹی جامعہ ملیہ اسلامیہ کے شعبہ تاریخ کے پروفیسر رامیشور پرساد باہوگنا نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا: ’آج کل کہا جاتا ہے کہ اورنگ زیب نے مندر تڑوائے۔ مان لیا یہ سچ ہے لیکن اس کے بھی ٹھوس شواہد ملتے ہیں کہ انہوں نے کئی مندروں کو زمین فراہم کی۔ انہوں نے بنارس کے جنگم واڑی میں ایک مندر کو 178 ہیکٹر زمین عطیہ کی۔
’ایک مرتبہ اورنگ زیب فرمان جاری کرتے ہیں کہ نئے مندر بنائے گئے تو توڑے جائیں گے۔ متھرا کے مندر کو اسی فرمان کے تحت توڑا گیا تھا۔ لیکن اسی اورنگ زیب نے کئی مرتبہ ایسے بھی فرمان جاری کیے جو مندروں کی گرانٹ اور زمین کی فراہمی سے متعلق تھے۔‘
’عبادت گاہیں توڑنا ایک دستور تھا‘
ڈاکٹر سید علی ندیم رضوی کہتے ہیں کہ قرونِ وسطیٰ یا عہد وسطیٰ میں اور اس سے پہلے کے ادوار میں ایک دستور تھا کہ جب کوئی بادشاہ کسی دوسرے بادشاہ کی سلطنت پر قبضہ کرتا تھا یا جنگ میں اسے ہراتا تھا تو وہ اس (ہارنے والے بادشاہ) کی عبادت گاہیں تڑوا کر اپنی بنواتا تھا۔
’یہ دستور ہندوؤں میں بھی تھا اور مسلمانوں میں بھی۔ یہ ترکی، یورپ، ہندوستان اور دوسرے علاقوں میں بھی تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اورنگ زیب کے وقت کے ہندو تاریخ دانوں جیسے ایشورداس ناگر اور بھیم سین سکسینہ نے مندر توڑنے کی کارروائیوں کو زیادہ اہمیت دی نہ ہی اس پر واویلا کیا ہے۔
’رچرڈ ایم ایٹن نے بھی اپنی کتاب ’ٹیمپل ڈیسیکریشن اینڈ مسلم سٹیٹس ان میڈیول انڈیا‘ میں لکھا ہے کہ جو جہاں جیتتا تھا یا قابض ہوتا تھا وہ وہاں پر اپنی عبادت گاہیں بنواتا تھا۔‘
سینٹرل یونیورسٹی آف کرناٹک کے شعبہ تاریخ کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر عبدالمجید نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں دعویٰ کیا کہ اورنگ زیب نے بنارس اور متھرا میں مندر ہندو راجپوتوں کی سفارش پر تڑوائے تھے۔
’اس کی وجہ یہ ہے کہ بنارس اور متھرا کے راجپوت، جو چھتری ذات کے ہندو ہیں، انہیں برہمنوں سے بدلہ لینا تھا۔ ان مندروں کے توڑے جانے پر اس وقت کسی نے بھی واویلا نہیں کیا۔ ان کی فوج میں کافی تعداد میں ہندو تھے۔ وہ تو مخالفت بھی کر سکتے تھے؟ مگر نہیں کی۔
’اورنگ زیب کے علاوہ کسی دوسرے مغل شہنشاہ کے دور میں مندر توڑے جانے کے کوئی شواہد نہیں ہیں۔‘
’عبادت گاہیں ہر دور میں توڑی گئیں‘
ڈاکٹر عبدالمجید کہتے ہیں کہ عبادت گاہیں صرف مغلوں کے دور میں نہیں بلکہ ہر دور میں توڑی گئیں۔
’جنوبی ہندوستان میں بدھسٹوں اور جینوں کی عبادت گاہوں کی بھرمار تھی لیکن ان کو توڑا گیا یا ہندو مندروں میں تبدیل کیا گیا۔ اس کے بارے میں آج بدھسٹ بات کرتے ہیں نہ جین مت کے پیروکار۔‘
ڈاکٹر عبدالمجید کا کہنا ہے کہ عبادت گاہوں کو توڑنے اور جلانے کی حمایت میں بیانات ہندو شہنشاہوں کی کتابوں میں بھی ملتے ہیں۔
’جنوبی ہندوستان میں ہندو چالوکیہ خاندان کے شہنشاہ سومیشورا سوم نے ’مناسلاسا‘ نامی ایک کتاب لکھی ہے۔ اس میں وہ لکھتے ہیں کہ کسی علاقے کو فتح کرنے والے بادشاہ کو اس علاقے (جس کو انہوں نے جیتا ہے) کے شہنشاہ سے منسلک عمارتوں جیسے محلوں اور عبادت گاہوں کو جلا دینا چاہیے۔‘
دہلی یونیورسٹی کے شعبہ سیاسیات کے سابق پروفیسر اور کئی کتابوں کے مصنف ڈاکٹر شمس الاسلام نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ تاریخ کی مستند کتابوں میں درج ہے کہ کس طرح بدھسٹوں اور جینوں کی عبادت گاہیں توڑی گئیں۔
’معروف ہندو راہب، دانشور اور مصنف سوامی وویکانند نے لکھا ہے کہ جگناتھ مندر ایک پرانا بدھ مندر تھا۔ ہم نے اسے اور اس جیسے دوسرے مندروں کو واپس ہندو مندر بنا دیا۔ ہمیں ابھی اس طرح کے بہت سے کام کرنے ہوں گے۔
’آریہ سماج کے بانی مہارشی دیانند سرسوتی نے شنکر آچاریہ کے گن گان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ دس سال تک انہوں (شنکر آچاریہ) نے پورے ملک کا دورہ کیا، جین مت کی تردید کی اور ویدک (ہندو) مذہب کی وکالت کی۔ وہ تمام ٹوٹی ہوئی تصویریں جو آج کل زمین کی کھدائی کے دوران مل رہی ہیں جینوں نے توڑے جانے کے خوف سے دفن کر دی تھیں۔
درحقیقت یہ جو بادشاہ ہوا کرتے تھے چاہے وہ چندر گپت موریہ ہوں یا مغلوں کے اکبر یا اورنگ زیب ان کے لیے نہ کوئی رشتہ دار ہوتا تھا نہ ان کا کوئی مذہب ہوتا تھا۔ اپنی سلطنت کی توسیع اور مضبوطی ان کا مقصد ہوتا تھا۔
’اسی طرح مستند ذرائع اور بدھ مت کی تاریخی کتابوں سے معلوم ہوتا ہے کہ 184 قبل مسیح میں موریہ سلطنت پر قابض ہو کر شنگا سلطنت نامی ہندو حکومت قائم کرنے والے پشیہ مترا شنگا نے بڑی تعداد میں بدھسٹوں کی عبادت گاہیں تڑوائیں اور راہبوں کو قتل کروایا۔‘
اورنگ زیب کے عہد میں ہندو
پروفیسر رامیشور پرساد باہوگنا کہتے ہیں کہ اورنگ زیب کے عہد میں جتنی بڑی تعداد میں ہندوؤں کو اعلیٰ منصبوں پر فائز کیا گیا تھا اس کی نظیر باقی مغل شہنشاہوں کے دور میں نہیں ملتی ہے۔
’انہی کے دور میں پورے دکن کے صوبیدار ایک ہندو راجپوت مرزا راجہ جے سنگھ تھے۔ یہ وہی شخص ہیں جنہوں نے 1665 میں شیواجی کو ہرایا۔‘
ڈاکٹر سید علی ندیم رضوی کہتے ہیں کہ اورنگ زیب کے عہد میں جو لوگ بڑے عہدوں پر فائز تھے وہ ہندو تھے یا راجپوت۔
’اورنگ زیب کے وزیر خزانہ ایک ہندو تھے جن کا نام راجا رگھوناتھ سنگھ تھا۔ گجرات اور دکن جیسے اہم صوبوں کا انتظام و انصرام بالترتیب جسونت سنگھ اور مرزا راجا جے سنگھ کے حوالے تھا۔
’درحقیقت یہ جو بادشاہ ہوا کرتے تھے چاہے وہ چندر گپت موریہ ہوں یا مغلوں کے اکبر یا اورنگ زیب ان کے لیے نہ کوئی رشتہ دار ہوتا تھا نہ ان کا کوئی مذہب ہوتا تھا۔ اپنی سلطنت کی توسیع اور مضبوطی ان کا مقصد ہوتا تھا۔
’جب اورنگ زیب نے بیجاپور اور گولکنڈہ کی شاہی سلطنوں کے خلاف جنگ کی تو شیعوں کے خلاف بیانات دیے وہ بھی باوجود اس کے کہ ان کی ماں (ممتاز محل) ایک شیعہ خاتون تھیں۔ جب ہندوؤں اور راجپوتوں کے خلاف جنگیں ہوئیں تو ان کے خلاف بیانات دیے۔‘
ڈاکٹر عبدالمجید کا دعویٰ ہے کہ اورنگ زیب کی حکومت میں ہندو منصب داروں یا عہدیداروں کا تناسب 33 فیصد سے زیادہ تھا۔ تاہم ان کا ساتھ ہی کہنا تھا کہ ماضی کے حکمراں یا شہنشاہ بھی صلاحیت کی بنیاد پر ہی ملازمت دیتے تھے۔
’وہ اس معاملے میں مذہبی تعلق نہیں دیکھتے تھے۔ راجہ مان سنگھ کے پاس صلاحیت تھی تو اکبر نے انہیں اپنے دربار میں ملازمت پر رکھا۔‘
پروفیسر رامیشور نے ایک واقعے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اورنگ زیب کی فوج نے مراٹھا سلطنت کے بانی چھترپتی شیواجی کے بیٹے سمبھاجی کو قتل کرنے کے بعد ان کے کمسن لڑکے ساہوجی کو مغل دربار میں لا کر انہیں ایک ہندو راج کمار کی طرح پالا پوسا۔
’شہنشاہ اورنگ زیب نے فرمان جاری کیا اس بچے کی ایسے ہی پرورش کی جائے جیسے ایک ہندو راج کمار کی کی جاتی ہے۔ اس فرمان کے عین مطابق ساہوجی کو مغل دربار میں ایک ہندو راج کمار کی طرح تعلیم دی گئی اور ہر ایک سہولت فراہم کی گئی۔ بعد میں یہی ساہوجی اپنے باپ دادا کی مراٹھا سلطنت کا شہنشاہ بنا۔‘
پروفیسر رامیشور کہتے ہیں کہ اورنگ زیب کے عہد میں جب اقتدار کی بقا کا مسئلہ پیدا ہوتا تھا تو انہیں اس وقت جو اچھا لگتا تھا وہ وہی کرتے تھے۔
’اورنگ زیب نے جہاں ایک طرف گرو تیغ بہادر یا گرو گوبند سنگھ کے بیٹوں کے ساتھ غلط برتاؤ کیا تو دوسری طرف یہ بات بھی توجہ طلب ہے کہ انہوں نے اپنے بھائیوں اور بیجاپور و گولکنڈہ کے حکمرانوں کے ساتھ کیا سلوک کیا۔ سکھوں کے ایک رہنما رام رائے تھے۔ ان کو تو اورنگ زیب نے دہرادون میں جاگیر دی۔‘
’تاریخ کے اوراق اس بات کے گواہ ہیں کہ دہلی سلطنت سے لے کر مغل حکمرانوں تک میں اورنگ زیب واحد بادشاہ تھے جن کی سرحد برما سے لے کر بدخشاں تک اور کشمیر سے لے کر دکن کی آخری سرحد تک قائم تھی اور ایک مرکز کے تحت قائم تھی۔ اگر وہ سخت گیر بادشاہ ہوتے تو اتنی بڑی سلطنت قائم ہوتی؟‘
پرویز اشرفی اپنی کتاب ’اورنگ زیب عالمگیر‘ میں لکھتے ہیں: ’اورنگ زیب کا دور اقتدار تقریباً 50 سال رہا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مذہبی نقطہ نظر سے وہ پکے مسلمان تھے، لیکن اس کے ساتھ وہ ایک حکمراں بھی تھے۔
’اورنگ زیب ایک دوراندیش بادشاہ تھے۔ وہ اچھی طرح سمجھتے تھے کہ ملک کا اکثریتی طبقہ اپنے مذہب کا سختی سے عامل ہے۔ تلوار کے زور سے ان کو اسلام کا پیروکار نہیں بنایا جا سکتا۔ اگر وہ اکثریتی طبقہ کو نقصان پہنچاتے تو ایک وسیع سلطنت کے مالک نہ بنتے۔
’تاریخ کے اوراق اس بات کے گواہ ہیں کہ دہلی سلطنت سے لے کر مغل حکمرانوں تک میں اورنگ زیب واحد بادشاہ تھے جن کی سرحد برما سے لے کر بدخشاں تک اور کشمیر سے لے کر دکن کی آخری سرحد تک قائم تھی اور ایک مرکز کے تحت قائم تھی۔ اگر وہ سخت گیر بادشاہ ہوتے تو اتنی بڑی سلطنت قائم ہوتی؟‘
پرویز اشرفی نے لکھا ہے کہ ہندی زبان سیکھنے اور سکھانے میں اورنگ زیب کو اتنی دلچسپی تھی کہ انہوں نے ایک ڈکشنری تیار کروائی تھی جس کے ذریعے فارسی جاننے والا آسانی سے ہندی سیکھ سکتا تھا۔
’ہندی نظموں و غزلوں کے متعلق قواعد و اصولوں کو رائج کرنے کے لیے اس نے ایک خاص کتاب ترتیب دی جس کے مخطوطے خدا بخش لائبریری پٹنہ میں موجود ہیں۔‘
پھر تو انگریزوں سے بھی بدلہ لینا بنتا ہے
پروفیسر رامیشور پرساد باہوگنا کا کہنا ہے کہ عہد وسطیٰ کا موجودہ دور سے تقابل نہیں کیا جا سکتا ہے کیوں کہ تب کے مسئلے اور ان کو حل کرنے کا طریقہ کار آج سے بالکل مختلف تھا۔
’تب کی سوچ الگ تھی اور آج کی الگ ہے۔ آج ہم ایک جمہوری نظام میں رہتے ہیں۔ یہ لوگ کیوں نہیں کہتے کہ انگریزوں نے ہمیں دو سو سال تک غلام بنایا لہٰذا ہم بھی انہیں دو سال تک غلام بنائیں گے۔
’یہ ضروری ہے کہ ہم تاریخ کو پڑھیں اور سمجھیں لیکن یہ کوشش نہ کریں کہ ہمیں ماضی میں جو کچھ ہوا ہے اس کا بدلہ لینا شروع کریں۔ پھر بدھسٹ بھی سامنے آ کر کہیں گے کہ ہندوؤں نے ہماری عبادت گاہیں کیوں توڑیں؟
’کل دراوڑی قوم کہہ سکتی ہے کہ پورا ہندوستان تو ہمارا تھا باقی لوگ سب باہر سے آئے ہیں۔ دلت بھی کہہ سکتے ہیں کہ آپ نے صدیوں تک ہمارے ساتھ چھوا چھوت کا کھیل کھیلا لہٰذا اب ہماری باری ہے۔‘
ڈاکٹر رضوی کہتے ہیں کہ جب سلطانوں اور مغلوں کی بات ہوتی ہے تو ان کے ادوار ایسے تھے کہ جب کوئی جمہوریت تھی نہ قوم کا کوئی تصور۔
’شروع میں تو اشوک نے بھی بدھسٹوں کو مارا تھا۔ گپتا دور آتے آتے ہندوستان میں بے چارے بدھسٹوں کا نام و نشان ہی مٹ گیا۔ وہ وسطی ایشیا میں پھیل گئے لیکن ہندوستان سے غائب ہو گئے۔ اگر آج ہندو کسی جگہ پر اپنا دعویٰ پیش کرتے ہیں تو کل بدھسٹ آ کر نصف ہندوستان پر اپنا دعویٰ پیش کر سکتے ہیں۔‘
ڈاکٹر شمس الاسلام کہتے ہیں کہ اگر حکومت کی حمایت یافتہ تنظیموں اور ان سے جڑے لوگوں کو ماضی میں ہی جانا ہے تو صرف مغلوں کے نہیں بلکہ دیگر حکمرانوں کے ادوار پر بھی بات ہو۔
’یہ سوال بھی پوچھا جا سکتا ہے کہ اگر مغلوں کا دور اسلامی راج تھا تو آج اس ملک میں ہندوؤں کی آبادی 80 فیصد کیسے ہے؟ مگر یہ سوالات کوئی نہیں اٹھایا۔ دہلی میں لال قلعے کے سامنے ہی سینکڑوں سال قدیم جین مندر اور گوری شنکر مندر واقع ہیں۔ ان کو کیوں نہیں توڑا گیا؟‘
کیا مغل متعصب تھے؟
پروفیسر رامیشور پرساد کہتے ہیں کہ وہ اس بات کو بالکل نہیں مانتے کہ مغل حکمراں ہندوؤں اور دیگر مذاہب کے پیروکاروں کے بارے میں متعصب تھے۔
’شہنشاہوں اور سلطانوں کی پالیسیاں بہت پیچیدہ ہوتی تھیں۔ اس پیچیدگی کے سبب کبھی لگتا تھا کہ وہ ٹالرنٹ (برداشت کرنے والے) ہیں تو کبھی لگتا تھا کہ وہ ان ٹالرنٹ ہیں۔ ان کے لیے سب سے بڑی ترجیح اقتدار کی بقا تھی۔
’شہنشاہ اکبر اپنے عہد کے آغاز میں کافی ان ٹالرنٹ نظر آئے۔ جب اکبر نے چتوڑ کے قلعے کو فتح کیا تو فتح نامہ جاری کر کے کہا کہ یہ کفر پر اسلام کی فتح ہے۔ اس وقت اکبر کی عمر بمشکل 25 سال تھی۔ پھر اکبر ارتقا کے مختلف مراحل سے گزرے۔ ’عبادت خانہ‘ اور ’صلح کل‘ کی پالیسیاں آئیں۔ 1570 کے بعد کا اکبر انتہائی ٹالرنٹ نظر آتے ہیں۔ وہ ہر مذہب کی آرتھوڈوکسی پر سوال اٹھاتے ہیں۔
’یہی اکبر متھرا ورنداون کے علاقے میں کئی مندروں کو زمین فراہم کرتے ہیں۔ کئی مندر اپنے دست راست اور سپہ سالار راجہ مان سنگھ کی نگرانی میں تعمیر کرواتے ہیں۔‘
پروفیسر رامیشور کا ماننا ہے کہ مغلوں کی ہندوستان کو ’دارالاسلام‘ بنانے میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔
’ان کی اگر کسی چیز میں دلچسپی تھی تو وہ یہ تھی کہ ان کی سلطنت بنی رہے۔ اس کو بنائے رکھنے کے لیے وہ تمام مذاہب کے لوگوں سے تعاون چاہتے تھے۔ لیکن جب کسی نے بغاوت کی تو انہوں نے اسے بخشا نہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’مغلوں کے دور میں ہندوؤں سمیت سبھی مذاہب کے لوگوں کو ترقی کرنے کا موقع ملا۔ مغلوں کی ناک کے نیچے خطہ برج میں بھگتی پھیلی لیکن انہوں نے اسے روکا نہیں۔ لہٰذا آج جو بھی باتیں کی جاتی ہیں میں ان سے اتفاق نہیں کرتا ہوں۔‘
ڈاکٹر رضوی کے مطابق مغلیہ سلطنت کے قیام میں ہندوؤں کا ایک کلیدی کردار تھا اور مغل شہنشاہوں کو روزِ اول سے ہی اکثر ہندوؤں کا تعاون حاصل رہا۔
’مغلیہ سلطنت کے بانی ظہیر الدین محمد بابر دو لوگوں کی دعوت پر ہندوستان آئے تھے۔ ان میں سے ایک کا نام علاء الدین اور دوسرے کا نام رانا سنگرام سنگھ ہے۔
’مغلوں اور ہندوؤں کے درمیان قربت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب شیر شاہ سوری نے شہنشاہ ہمایوں کو ہرایا تو سندھ کے راجپوت گھرانے آخر الذکر کے ساتھ کھڑے تھے۔
’یہاں تک کہ جب ہمایوں ہندوستان چھوڑ کر بھاگ گئے تو انہوں نے اپنے نوزائیدہ بچے کو امر کوٹ کے راجہ کے حوالے کیا تھا۔ وہ اس بچے کی کئی ماہ تک پرورش کرتے ہیں۔‘
ڈاکٹر رضوی کہتے ہیں کہ آج کہا جاتا ہے کہ مغل باہر سے آئے تھے لیکن کوئی یہ نہیں سمجھتا کہ جس وقت انہوں نے یہاں حکومت چلائی تب ’فارن‘ یا ’پردیسی‘ کا تصور ہی نہیں تھا۔
’فارن کا تصور تب ہوتا ہے جب قوم کا تصور پہلے سے موجود ہو۔ لہٰذا نہ کوئی باہر کا تھا نہ کوئی اندر کا۔ اس لیے اگر رانا سنگرام سنگھ بابر کو ہندوستان کو فتح کرنے کے خط لکھ رہے تھے تو وہ کسی پردیسی کو نہیں بلکہ ایک طاقت کو بلا رہے تھے۔
’سنگرام سنگھ اور بابر کا مقابلہ کرنے والوں میں حسن خاں میواتی اور ابراہیم لودھی کے فرزند محمود لودھی شامل تھے۔ بابر نامہ میں دونوں کو کفار کہہ کر مخاطب کیا گیا ہے۔‘