جب کوثر کی شادی کی بات پکی ہوئی تو وہ کوہاٹ کے ایک سرکاری ہسپتال میں بطور نرس کام کرتی تھیں لیکن انہیں ’کوئی شک نہیں تھا‘ کہ اب انہیں ’ملازمت ترک کرنی پڑے گی‘۔
کوثر کا کہنا تھا کہ ’شادی کے بعد ملازمت ترک کرنی ہے۔ مجھے اس بارے میں کوئی شک نہیں تھا۔ گھر سے نکلنا، کمانا اور گھر کی دیکھ بھال کرنا مرد کا کام ہوتا ہے۔ میں نرس کے طور پر ملازمت اپنے والدین کو سہارا دینے کے لیے کر رہی تھی۔ انہیں اب بھی سہارے کی ضرورت ہے لیکن میں ان کی مدد نہیں کر سکتی۔‘
37 سالہ اور چار بچوں کی ماں کوثر کو انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرنے کے لیے اپنے شوہر سے اجازت لینی پڑی۔ وہ شارجہ میں بطور مال بردار مزدور کام کرتے ہیں۔
’شادی کے بعد میں راولپنڈی آ گئی اور اپنے خاوند اور ان کے دو بھائیوں کے ساتھ رہنے لگی،‘ انہوں نے ملاقات میں بتایا جس کا انتظام ان کے بھتیجے نے کیا تھا۔ ان کے بھتیجے نے درخواست کی کہ ان کی چچی کا پورا نام نہ لکھا جائے۔
سماجی رسم و رواج کوثر کے لیے شادی کے بعد ملازمت ترک کرنے کی وجہ بنے۔ یہ ایک ایسی صورت حال ہے جو پاکستان کے دیہی علاقوں میں بسنے والے خاندانوں کے لیے نئی نہیں۔ لیکن اکثر اوقات شہری علاقوں میں بھی ایک خاتون کو اپنی ملازمت اور خاندان میں سے ایک کا انتخاب کرنا پڑتا ہے یا معاشرتی رویوں کی وجہ سے ملازمت ترک کرنی پڑتی ہے۔
اس کی ایک مثال شکریہ خانم ہیں جنہیں انڈپینڈنٹ اردو کی ایک رپورٹ کے مطابق پہلی خاتون پائلٹ ہونے کے باوجود جہاز اڑانے کی اجازت نہیں تھی۔
دفاتر میں جنسی ہراسانی، ایک ہی کام کے لیے مردوں کے مقابلے میں کم تنخواہ اور تعلیم و ہنر کی کمی بھی پاکستان میں ملازمت پیشہ خواتین کی تعداد میں کمی کی وجہ بن رہی ہیں۔ اس کے علاوہ انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرنے والی خواتین نے محفوظ اور سستی ٹرانسپورٹ کی عدم دستیابی کو بھی ایک وجہ گردانا ہے۔
ناکافی تنخواہ
انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرنے والی ایک خاتون غزالہ اقبال راولپنڈی کے ایک پوش سکول میں ٹیچر تھیں۔ پانچ سال پہلے 24 سال کی عمر میں ان کی شادی ہوئی۔
غزالہ نے بتایا کہ ’جب میں اپنے پہلے بچے کے ساتھ پیٹ سے تھی تو ہم نے بات کی،‘ انہوں نے اپنے شوہر کی جانب اشارہ کیا جو ایک الیکٹریکل انجینیئر ہیں۔
’ہم نے حساب لگایا کہ اگلے دو سال میں میری تنخواہ کتنی ہو گی جو کہ ناکافی تھی۔‘
انہوں نے ہچکچائے بغیر کہا کہ ’ہم اپنے خاندان سے الگ رہتے ہیں تو اس لیے بچے کی دیکھ بھال کرنے کے لیے مجھے گھر پر رکنا پڑا۔‘
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرنے والی ماریا نے خود کو صرف اسی نام سے شناخت کرنے کی درخواست کی۔ وہ اسلام آباد کے صنعتی سیکٹر آئی نائن میں ایک پیکجنگ انڈسٹری میں کاریگر کے طور پر ملازمت کر رہی ہیں اور ماہانہ 29 ہزار روپے کماتی ہیں۔
32 سالہ ماریا نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’میرے ساتھ یہی کام کرنے والے مرد حضرات جو بعض اوقات مجھ سے کم ہنرمند ہوتے ہیں لیکن ان کی تنخواہ مجھ سے چند ہزار روپے زیادہ ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’مجھے اپنے خاندان کو سہارا دینے کے لیے اس ملازمت کی ضرورت ہے ورنہ تنخواہ میں فرق سے مجھے اپنا آپ غیر اہم لگتا ہے۔‘
غیر محفوظ اور مہنگی ٹرانسپورٹ
سحرش مان اسلام آباد میں ایک نجی ٹی وی چینل کی کرنٹ افیئرز پروڈیوسر ہیں۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’جب سفر کرنے کی بات آئے تو آپ پبلک ٹرانسپورٹ پر بھروسہ نہیں کر سکتے کیونکہ وہ صرف چند علاقوں کا ہی احاطہ کرتی ہے۔‘
سحرش نے بتایا کہ ’پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کرتے ہوئے آپ خود کو محفوظ نہیں سمجھتے۔ اگر آپ کو محفوظ سفر کرنا ہے تو آن لائن یا عام ٹیکسی کروانی پڑے گی جس کے اخراجات موجودہ حالات میں قابل برداشت نہیں۔‘
دفاتر میں جنسی ہراسانی
وفاقی محتسب برائے انسداد جنسی استحصال و ہراسانی بنیادی وفاقی ادارہ ہے جو دفاتر میں جنسی ہراسانی کے خلاف نبرد آزما ہے۔
یہ ایک آزاد اور نیم عدالتی ادارہ ہے جسے ہراسانی سے متعلق شکایات سننے اور سزا تجویز کرنے کے خصوصی اختیارات دیے گئے ہیں۔
اس ادارے کے اعداد و شمار کے مطابق 2011 سے 2020 تک خواتین نے دفاتر میں جنسی ہراسانی کی 1344 شکایات درج کی ہیں۔
ادارے کی ویب سائٹ پر موجود معلومات کے مطابق درج شدہ شکایات کی نوعیتوں میں جسمانی ہراسانی، اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے جنسی تعلقات کا مطالبہ، زبانی ہراسانی اور خاتون ہونے پر نامناسب رویہ یا جائز حق سے محروم رکھنا شامل ہیں۔
ادارے کی موجودہ خاتون محتسب کشمالہ طارق متعدد رابطوں کے باجود بات کرنے کے لیے دستیاب نہ ہوئیں لیکن انہوں نے اپنے انٹرویوز میں ہمیشہ یہ بات کہی ہے کہ درج شدہ شکایات وقوع پذیر ہونے والے ہراسانی کے واقعات کی درست نمائندگی نہیں کرتے۔ دوسرے الفاظ میں ملازمت پیشہ خواتین کے ساتھ جنسی ہراسانی کے واقعات کی تعداد ان مقدمات سے کہیں زیادہ ہے۔
اس سے شک کی گنجائش کم ہی رہ جاتی ہے کہ دفاتر میں خواتین کے ساتھ نامناسب رویہ اور ہراسانی ان کے ملازمت ترک کرنے کی ایک بڑی وجہ ہے۔
رخسانہ شمع ایک سماجی کارکن ہیں جو ایک غیر سرکاری تنظیم ٹرسٹ فور ڈیموکریٹک ایجوکیشن اینڈ اکاؤنٹیبلیٹی (ٹی ڈی ای اے) میں جینڈر انکلوزن اینڈ رائٹس یونٹ کی ڈپٹی ٹیم لیڈ ہیں۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کا بتایا کہ ’انسداد جنسی ہراسانی کے لیے وفاقی سطح پرقائم کیے جانے والے ادارے میں محتسب کا کردار بہت محدود رکھا گیا ہے۔ وہ جرم ثابت ہونے پر پاکستان پینل کوڈ میں تجویز کردہ سزائیں نہیں دی سکتے۔‘
ملازمت پیشہ خواتین کے حوالے سے پاکستان کہاں کھڑا ہے؟
ورلڈ اکنامک فورم اور ورلڈ بینک کی رپورٹس کے مطابق پاکستان میں ہر 79 مردوں کے مقابلے میں صرف 21 خواتین ملازمت پیشہ ہیں۔
ورلڈ اکنامک فورم کی جینڈر گیپ رپورٹ 2022 میں پاکستان 0.564 کے سکور کے ساتھ 146 ممالک میں سے 145 ویں نمبر پر ہے۔
یہ وہی سکور ہے جو پاکستان کو 2020 میں ملا تھا اور اس وقت عالمی درجہ بندی میں اس کا نمبر 153 ممالک میں سے 151 تھا۔
یہ اعداد و شمار اشارہ کرتے ہیں کہ خواتین کے لیے ترقی کی رفتار سست روی کا شکار رہی ہے۔
خواتین کو مردوں کے مقابلے میں اسی کام کی تنخواہ کے حوالے سے ورلڈ اکنامک فورم کی رپورٹ 2022 کے مطابق پاکستان 146 ممالک میں سے 86ویں نمبر پر ہے۔
یہی نہیں اس رپورٹ کی رو سے جنوبی ایشائی ممالک میں پاکستان خراب کارکردگی کے حساب سے دوسرا ملک ہے۔
پاکستان میں کتنی خواتین بے روزگار ہیں؟
آئینِ پاکستان کے آرٹیکل 11 کے مطابق 14 سال سے کم عمر کسی شخص کو فیکٹری، کان یا کسی مہلک پیشے کے لیے ملازمت پر نہیں رکھا جا سکتا۔
انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن (آئی ایل او) آئینِ پاکستان کی اس شق کو پاکستان میں ملازمت کرنے کی کم سے کم عمر سے تعبیر کرتا ہے۔
پاکستان میں ادارہ شماریات کے پاس ملک میں ملازمت کی اہل عمر کو پہنچ چکی خواتین کی تازہ ترین تعداد موجود نہیں ہے۔ لیکن نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف پاپولیشن سٹیڈیز (این آئی پی ایس) کے 2020 کے تخمینے کے مطابق پاکستان میں ملازمت کی عمر کو پہنچ چکی خواتین کی تعداد چھ کروڑ 23 لاکھ ہے۔ این آئی پی ایس کی فیلو رابعہ ظفر نے انڈپینڈنٹ اردو کو اس کی تصدیق کی ہے۔
ادارہ شماریات کی جانب سے کیے جانے والے لیبر فورس سروے برائے سال 21-2020 کے مطابق پاکستان میں ملازمت پیشہ افراد میں خواتین کا تناسب 21.4 فیصد ہے جو تقریباً چھ کروڈ 64 لاکھ بنتا ہے۔ ادارہ شماریات کے مطابق 19-2018 میں یہ تناسب 21.5 فیصد تھا۔
ہیومن ریسورس (ایچ آر) مینیجرز کا نظریہ
ملازمت پیشہ خواتین کو درپیش مسائل کے حوالے سے آگہی لینے کے لیے انڈپینڈنٹ اردو نے پاکستان میں کارپوریٹ سیکٹر کے افراد سے بات کی۔
اسلام آباد کے ایک مشہور نجی ہسپتال کی ہیومن ریسورس (ایچ آر) سربراہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’کوئی تحریر شدہ پالیسی تو نہیں لیکن عام طرز عمل اور ادارے کی روایت ہے کہ خواتین کی تنخواہ وہی کام کرنے والے مردوں سے کم ہوتی ہے۔‘
ان کے ہسپتال میں 1500 کے قریب ملازمین ہیں جن میں سے تقریباً نصف خواتین ہیں۔ انہوں نے اپنا نام خفیہ رکھنے کی درخواست اس لیے کی کیونکہ وہ ادارے کے ساتھ اپنی ملازمت کے معاہدے کی رو سے یہ معلومات دینے کی پابند نہیں ہیں۔
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ’میرے ادارے میں خواتین کے ملازمت چھوڑنے کی سب سے بڑی وجہ شادی اور اس کے بعد جنسی ہراسانی ہے۔‘
پاکستان کے سرکاری اداروں میں بھی خواتین کی شمولیت کے حوالے سے کارکردگی کوئی تسلی بخش نہیں۔ اگر ملک کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ ہی کی بات کی جائے تو 75 سال میں پہلی مرتبہ 2022 میں ایک خاتون جج جسٹس عائشہ کو فاضل عدالت میں جج تعینات کیا گیا ہے۔
شفق وقار ’کریم‘ میں پیپل انگیجمنٹ کے محکمے کی سربراہ ہیں۔ کریم پاکستان میں آن لائن ٹیکسی کی خدمات دینے والی سب سے بڑی کمپنی ہے۔ شفق گذشتہ دس سال سے ایچ آر کے شعبے سے وابستہ ہیں۔
شفق نے تعصب اور رواج کی طرف اشارہ کیا جو مل کر پاکستان میں خواتین کی ملازمتوں میں شمولیت کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ’اس کا آغاز ملازمت کے مواقعوں تک رسائی سے ہوتا ہے۔ جب بھی ملازمت کو کوئی موقع میسر آتا ہے تو اس کے لیے درخواست دینے والوں میں خواتین کی تعداد مردوں کی نسبت کم ہوتی ہے۔‘
’درخواست گزاروں میں سے (انٹرویو کے لیے) منتخب ہونے والے امیدواروں میں خواتین کی تعداد تو مزید کم ہو جاتی ہے۔ اگر کوئی خاتون حتمی مراحل تک پہنچ جائیں تو ان کا وقت، دستیابی اور خاندانی تناظر کو بھی زیر غور لایا جاتا ہے۔‘
شفق کا ماننا ہے کہ ’متعلقہ محکموں کے انتظامی سربراہوں کی جانب سے خواتین ملازمین کے بارے میں کچھ بنیادی مفروضے جیسے کہ شادی کا بعد ملازمت جاری نہ رکھ پانا، زچگی کی چھٹیاں وغیرہ ایک خاتون کو ملازمت نہ مل سکنے میں کردار ادا کرتے ہیں۔‘
ابو بکر صدیق علوی پیپسی پاکستان، ٹیٹرا پاکستان اور انٹیکس میں گذشتہ 17 سال سے ایچ آر سربراہ رہے ہیں۔
علوی کو یقین ہے کہ ’پاکستان میں تنخواہوں کی مد میں عدم مساوات موجود ہے۔ لیکن غیر ملکی کمپنیاں ایسے معاملات کا خاص خیال رکھتی ہیں۔
علوی اپنے تجربے سے بتایا کہ ’شادی ہو جانا کسی بھی خاتون کے ملازمت چھوڑنے کی سب سے بڑی وجہ ہوتی ہے۔ لیکن ایک کیریئر وومن (ملازمت کو فوقیت دینے والی خاتون) کے لیے ملازمت چھوڑنے کی وجہ ورک لائف بیلنس اور آمدنی ہوتی ہے۔‘
اشعر رضی صدیقی گذشتہ 20 سال سے پیزا ہٹ پاکستان، کوکا کولا پاکستان اور آئی بیکس جیسی کمپنیوں میں ایچ آر سربراہ رہے ہیں۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’میں نے دیکھا ہے کہ شادی ہو جانا خواتین کے لیے ملازمت چھوڑنے کی سب سے عام وجہ ہے۔ اس کے بعد زچگی، کسی دوسرے ملک چلے جانا یا پھر کسی بہتر ملازمت کا موقع مل جانے کا نمبر آتا ہے۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’جب میں نے ملازمت کا بہتر موقع مل جانے کے آپشن کو کھوجا تو پتہ چلا کہ خواتین ایسے اداروں میں کام کرنا پسند کرتی ہیں جہاں اوقات کار نرم ہوں، گھر سے کام کرنے کی سہولت موجود ہے یا دفتر میں بچوں کی نگہداشت کا مرکز ہو۔‘
اب تک حکومت نے کیا کِیا ہے؟
ساجد حسین طوری، وفاقی وزیر برائے سمندر پار پاکستانی اور افرادی قوت، نے ملازمت پیشہ خواتین کے حوالے سے موجودہ صورت حال کو ’تشویش ناک‘ قرار دیا ہے۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتا کہ رواں سال اپریل میں وزارت کا چارج سنبھالنے کے بعد ’میں نے صورت حال کا نوٹس لیا ہے‘۔
ساجد حسین طوری کی وزارت ملک کی قابل ملازمت افرادی قوت کو ترقی دینے کے لیے ذمہ دار ہے اور مقصد کے لیے مختلف پروگرام ترتیب دیتی رہتی ہے۔
ان کی وزارت غیر ملکی حکومتوں اور ایجنسیوں کے اشتراک سے خواتین کی صلاحیتوں میں اضافے کے لیے مختلف ہنر سکھانے کے پروگرامات بھی ترتیب دیتی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اب بھی ایک ایسا پروگرام جرمنی کی حکومت کے تعاون سے جاری ہے۔
مہناز اکبر عزیز قومی اسمبلی میں حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ ن کی رکن ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’ملازمت پیشہ خواتین کے حوالے سے خراب کارکردگی کی وجہ پالیسی سازی کی سطح پر مسائل ہیں‘۔
ان کے خیال میں ملازمت پیشہ خواتین کی تعداد میں حالیہ گراوٹ گذشتہ حکومت کے چند فیصلوں سے آیا ہے ’جن میں بنیادی پالیسی سازی کی کمی تھی‘۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ملازمت پیشہ خواتین کی تعداد میں کمی ملازمت کے باقاعدہ مواقعوں میں کمی کی وجہ سے سامنے آئی ہے جس کے لیے گذشتہ حکومت نے کچھ زیادہ کام نہیں کیا۔
سابق حکومتی جماعت پاکستان تحریک انصاف کی رکن قومی اسمبلی ملیکہ بخاری کے مطابق ’ہماری وفاقی حکومت نے خواتین کی شمولیت کے حوالے سے تمام اہداف حاصل کر لیے تھے اور ان مشکلات سے نمٹنے کے لیے متعدد پروگرامات کا آغاز بھی کیا تھا۔‘
بخاری نے بتایا کہ ’دو ارب 16 کروڑ روپے کے تعلیمی وظائف میں سے 50 فیصد حصہ لڑکیوں اور خواتین کی تعلیم کے لیے مختص کیا گیا تھا جو ملازمت کے حصول کا پہلا اور بنیادی جرو ہوتا ہے۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’پنجاب اور خیبر پختونخوا کی حکومتیں ان لڑکیوں کو سب سے زیادہ وظیفہ دے رہی تھیں جو سکول جاتی تھیں۔ یہ وظیفہ 4500 روپے تھا اور لڑکوں کے لیے اس کی مد تین ہزار روپے تھی۔‘
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ’دیہی علاقوں کی خواتین کے لیے بلا سود قرضوں کی سکیم احساس پروگرام کے تحت چلائی گئی تھی۔ خواتین کو مالی امداد کے ذریعے چھوٹے اور گھر کی بنیاد پر کریانہ سٹور اور مویشیوں کی خرید و فروخت کے کاروبار کرنے میں معاونت دی گئی۔‘
ملیکہ بخاری نے کہا کہ ’بچوں کی نگہداشت کے مناسب مراکز کی غیر موجودگی، ٹرانسپورٹ کی عدم دستیابی، دفاتر میں ہراسگی اور مردوں کے مقابلے میں اسی کام کی کم تنخواہ ملازمت پیشہ خواتین کے بنیادی مسائل ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’بچوں کی نگہداشت کے مراکز اور ٹرانسپورٹ کے لیے تو گذشتہ کسی بھی حکومت نے کچھ نہیں کیا۔‘
’اگر مجھے بھی اپنے دفتر جانا ہو تو میں پبلک ٹرانسپورٹ پر انحصار نہیں کر سکتی بلکہ میں زیادہ پیسے دے کر آن لائن ٹیکسی منگوا لوں گی۔‘
ممہناز اکبر عزیز کا ماننا ہے کہ ’خواتین کے لیے اپنا ماحول اور رواج تبدیل کرنے میں کئی سال کا عرصہ درکار ہے۔‘
عمومی طور پر قبائلی ماحول میں خواتین کا سماجی کردار بھی محدود ہو جاتا ہے لیکن اگر سندھ کی بات کی جائے تو انڈپینڈنٹ اردو کی ایک رپورٹ کے مطابق وہاں 2022 میں سوہو قبیلے نے پہلی مرتبہ ایک خاتون کو سربراہ مقرر کیا تھا۔
مہناز نے مزید بتایا کہ ’قومی اسمبلی میں ایک قانون پیش کر چکی ہوں جو گھریلو ملازمین کے حقوق سے متعلق ہے۔ یہ ایک ایسا شعبہ ہے جس میں خواتین کی تعداد زیادہ ہے۔‘
ملیکہ بخاری نے بھی ‘لیبر فورس ورکرز رائٹس‘ کے عنوان سے ایک قانون کا حوالہ دیا جو اگر منظور ہو گیا تو قومی سطح پر ’خواتین کی شمولیت کی یقین دہانی کروائے گا‘۔
ایک سماجی کارکن کی رائے
رخسانہ شمع ایک سماجی کارکن ہیں جو ایک غیر سرکاری تنظیم ٹرسٹ فور ڈیموکریٹک ایجوکیشن اینڈ اکاؤنٹیبلیٹی (ٹی ڈی ای اے) میں جینڈر انکلوزن اینڈ رائٹس یونٹ کی ڈپٹی ٹیم لیڈ ہیں۔ انہوں نے ایک تفصیلی سروے کر رکھا ہے جس میں یہ جاننے کی کوشش کی گئی ہے کہ ملازمت پیشہ افراد، خاص کر خواتین، نوکری کیوں چھوڑ دیتے ہیں۔
رخسانہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’2020 کا سروے میں پاکستان بھر سے 14 اضلاع میں کیا گیا۔ اس میں انکشاف ہوا کہ بہت سے نجی لیکن حکومت سے رجسٹر ادارے ملازمین کو ایمپلائمنٹ کانٹریکٹس (ملازمت کے معاہدات) ہی نہیں دے رہے۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’چونکہ ملازمت کے معاہدات نہیں ہیں اس لیے انہیں کم سے کم تنخواہ، صحت کی انشورنس، چھٹیوں اور دیگر کئی فوائد سے بھی محروم رکھا جاتا ہے۔‘
رخسانہ نے بتایا کہ ’بہت سی کمپنیاں، فیکٹریاں اور ادارے میٹرنٹی لیوز (زچگی کے دوران چھٹیاں) کے نظریے سے ہی انجان ہیں۔ اگر کچھ ادارے یہ چھٹیاں دیتے بھی ہیں تو بغیر تنخواہ کے۔ بیشتر دفاتر میں چھوٹے بچوں کی نگہداشت کے سینٹرز، شیر خوار بچوں کو دودھ پلانے کے لیے مختص جگہیں اور خواتین کے لیے علیحدہ بیت الخلا موجود نہیں ہیں۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’بعض مواقعوں پر موجودہ قوانین پر بھی عملدرآمد نہیں ہو رہا ورنہ ملازمت پیشہ خواتین کو تھوڑی سہولت تو مل ہی جائے۔‘
انہوں نے اشارہ سندھ اور خیبر پختونخوا میں خواتین فیکٹری ورکررز کے لیے موجود قواتین کی طرف کیا جس کے مطابق کسی بھی خاتون ملازم کو شام سات بجے کے بعد کام کرنے پر مجبور نہیں کیا جائے گا۔ اگر وہ اپنی مرضی سے کام کے لیے راضی ہوں تب بھی فیکٹری پر لازم ہے کہ ان کے لیے گھر کے دروازے یا قریب ترین سٹیشن تک پک اینڈ ڈراپ کا بندوبست کرے۔
رخسانہ نے کہا کہ ’اس قانون کی صریح خلاف ورزی کی جاتی ہے۔‘
یہ قوانین خیبر پختونخوا فیکٹریز ایکٹ 2013 اور دا سندھ فیکٹریز ایکٹ 2021 میں موجود ہیں۔
رخسانہ شمع نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’اہم ترین بات یہ ہے کہ ریاست کی نیت مزید خواتین کو ملازمت کے مواقع فراہم کرنے کے حوالے سے کیا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’نیت کا دارومدار کاغذوں پر قوانین منظور کروانے سے بڑھ کر ہے۔ اس کا تعلق عملدرآمد سے ہے۔‘