خواہشیں وبال کیسے بن جاتی ہیں اپنے لیے بھی اور دوسروں کے لیے بھی۔ ’وبال‘ انہی ان گنت جائز اور ناجائز خواہشات کے وبال بننے تک کی داستان ہے۔
چاہے وہ خواہشیں انعم کی ہوں، اس کی تائی امی کی یا اس کی سہیلی امبر کی ہوں جس نے والدین کی مرضی کے خلاف کورٹ میرج کر لی لیکن پولیس انعم کو پکڑ کر لے گئی کیونکہ انعم اور امبر کی دوستی محض ایک دوسرے کی خواہشات کا ساتھ دینا تھا۔
مڈل کلاس میں دولت کی چاہت میں کیسے انسان خواہشات کی تکمیل کے لیے اپنی ذات کا غلام بنتا چلا جاتا ہے۔
اس ڈرامے میں ہمیں ایسے کئی کردار دکھائی دیتے ہیں لیکن ایک دادی کا کردار اس پورے مشکل منظر نامے کو فوری امید میں بدل دینے والا، خیر کا سایہ دینے والا کردار نہ صرف ڈرامے کے لیے ہے بلکہ اس کو دیکھنے والوں کے لیے بھی ہے۔
ابلیس کا آدم سے اختلاف، شر کا خیر سے ڈر، فرعون کا موسیٰ سے خوف، موت کی زندگی پہ فتح، یہ سب وہ روایتیں ہیں جس سے کہانیاں روح پاتی ہیں۔
’وبال‘ بھی روح سے بھرا ڈراما ہے جس میں زندگی تہہ در تہہ موجود ہوتے ہوئے بڑے تناظر کا منظر نامہ خاموشی سے پیش کر رہی ہے۔
حلال اور حرام کی جنگ پیش آنی والی دشواریاں ایک ہی والدین کی دو اولادوں کے گھر میں دکھائی دے رہی ہیں۔
ایک گھر میں حلال سے زندگی کی بنیادی ضروریات بمشکل پوری ہو رہی ہیں، دوسری طرف انعم کی تائی امی مجبور لوگوں کے ساتھ سود کا کاروبار کر کے غبن کے انبار لگا تو لیتی ہے مگر اس کو نہ صرف جسمانی بیماریوں نے گھیر رکھا ہے بلکہ نفسیاتی طور پہ بھی اس کا احساس جرم خوف بن کر راتوں کو اسے ڈراتا ہے اور وہ چیختی ہوئی اٹھ جاتی ہے۔ اس کو سکون اور چین کی دولت نصیب نہیں ہے۔
اس کے نکمے بیٹے کو اپنی ماں کی ان عادات کی بھی عادت ہو گئی ہے لیکن وہ پریشان نہیں ہوتا کیونکہ پریشان نہ ہونے کا بیج تو اس کی ماں نے خود اپنے لیے بویا ہے جو کسی کی مجبوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کبھی پریشان نہیں ہوتی۔ بےحس بن جاتی ہے۔
بندہ جتنا نکما ہوتا ہے اتنی اسے شادی کی جلدی اور ضرورت ہوتی ہے۔ نوید بھی ماں سے یہی التجا کر رہا ہے کہ اس کے بچپن کی چچا زاد منگیتر انعم سے اس کی شادی جلد ہو جائے تو اچھا ہے۔
ایسے لڑکوں کی ماؤں کا خیال بھی یہی ہوتا ہے بیٹا شادی کے بعد ٹھیک ہو جائے گا۔ بہرحال، انعم ایک متوازن ہیروئن کا کردار ہے، یونہی ہیرو فراز کا کردار بھی بہت متوازن ہے۔ جوانیاں ایسی ہی ہوتی ہیں۔
خوش آئند بات یہ ہے کہ مڈل کلاس کا اصلی ہیرو بہت عرصہ بعد دکھائی دیا ہے۔ فراز مکمل ہیرو ہمارے معاشرے کا ہیرو ہے۔ جوانی کی امنگوں سے بھرا شرارتی سا لڑکا، جو بدتمیز نہیں ہے لیکن اگر اسے کوئی چھیڑ دے تو چھڑ جانے والی دھن ہے، سچا ہے، سلیقہ مند ہے۔ لڑکوں کے ایسے متناسب کردار اب بہت کم لکھے جاتے ہیں۔
انعم اپنے حال میں مگن، دنیا کی خوبصورتیوں کو انجوائے کرنے والی، خواب دیکھنے والی لڑکی ہے۔ ابھی زندگی کی کڑوی گولیوں سے آشنا ہونے جا رہی ہے۔
یونیورسٹی میں اس کی سب سلہیلیاں اپر کلاس سے ہیں لہٰذا اس نے بھی خود کو اسی کلاس کا ظاہر کر رکھا ہے۔ اس کی بہن اسے لاکھ سمجھاتی رہتی ہیں جب تک اسے حقیقت کی چوٹ نہیں لگتی وہ کبھی سمجھ نہ پاتی کہ وہ غلط رستے پہ چل نکلی ہے اور اس اندھیرے میں سب کو گرنا پڑ سکتا ہے۔
البتہ انعم نے ایک کلاسیک دور کا سادہ سٹائل تازہ کیا ہے جو اچھا بھی لگ رہا ہے اور فیشن زدہ ماحول میں تازہ ہوا کا جھونکا ہے۔ جلد انعم کا ہیئر سٹائل اور لباس فیشن زدوں کو متاثر کرے گا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
باقی سماجیات میں رشتے داریوں کی ٹوٹ پھوٹ ہے اور اس کے اسباب ہیں جس کی جنگ گناہ و ثواب کی کسوٹی پہ کسی گئی ہے۔
اگر اس کسوٹی پہ زندگی نہ بھی پرکھی جائے تو مکافات کا دور شروع ہوتے ہی دنیا خود تولنے لگتی ہے۔
قیصرہ حیات نے ڈراما لکھا ہے اور امین اقبال نےاس کو ڈائریکٹ کیا ہے۔ انعم اور فراز نے اس کو اپنے نٹ کھٹ پن سے سجایا ہوا ہے۔ اس انداز کو مکمل ڈراما کہنا جچتا ہے۔
زندگی میں دکھ مشکلات تکالیف ہوتی ہیں مگر مٹھاس بھی ہوتی ہے۔ جو مصنف ڈرامے کی زندگی سے مٹھاس نکال دیتے ہیں وہ بھی کو ئی حلال کام نہیں کرتے کیونکہ ڈراما کوئی بھی بظاہر مفت دیکھ رہا ہوتا ہے، لیکن جو ٹی وی نہیں دیکھتے وہ سب بھی بجلی کے بل میں ٹیکس ادا کر رہے ہوتے ہیں۔
لہذا ٹیکس دے کر ٹینشن خریدنا کافی نامناسب سی بات لگتی ہے۔
ابھی تو ڈراما شروع ہوا ہے۔ انعم اور اس کی بہن کی پڑھائی انعم کی خواہشات کی بھیںٹ چڑھ گئی ہے۔
انعم کے ابا نے بڑی بھابھی سے تاحیات لا تعلقی کا اعلان کر دیا ہے۔ اس پر کوئی قتل کا الزام بھی ہے جو اگلی اقساط میں علم ہو گا کہ اس نے یہ قتل کیسے کیا؟ کیوں کیا ہو گا وہ تو اس کے لالچ سے سمجھ آ رہا ہے۔ لالچی، ہوس پرست انسان اپنے مفاد کے لیے کوئی بھی حرکت کر سکتا ہے۔
ایک بات تو حق ہے تمام برائیاں آپس میں رشتے دار ہوتی ہیں اسی طرح تمام اچھائیوں کی بھی ایک ہی جڑ نکلتی ہے۔
ڈراما اس سب کی تفسیر بنے گا۔ تفسیر وبال بھی بن جاتی ہے۔ چاہے اچھائی کی ہو یا برائی کی۔ ایسا ہی ہم اس ڈرامے میں دیکھنے جا رہے ہیں جس کے چھوٹے چھوٹے کلپ وائرل ہو رہے ہیں۔
ڈرامے کا حسن یہ بھی ہے کہ اس میں مصنوعی پن نہ کہانی میں ہے، نہ روانی میں، نہ لباس میں، نہ انداز میں، اور جیسے دیسی خوراک کا اپنا ہی مزا ہے، یونہی دیسی سادہ زندگی کا بھی اپنا لطف ہے۔
دیسی سے ہیرو ہیروئین، دیسی سی محبت، دیسی سی ننھی منی خواہشات اور خوشیاں جی لینا بھی تو زندگی ہے۔ جسے زندگی وبال ہونے سے بچ جاتی ہے۔
موسیقی، شاعری، بیک گراؤنڈ میوزک بہت اچھے ہیں اور کہانی میں روح کا کام کر رہے ہیں:
کسی نے کب کہیں جینے کا اختیار دیا
تجھے اجل نے مجھے زندگی نے مار دیا